صدر وزیراعظم اور وزراء کے اقدامات کو آئینی تحفظ حاصل ہے وزیر قانون

عدلیہ یہ تاثر زائل کرے کہ وہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف ہے، فاروق ایچ نائیک


APP/staff Reporter July 29, 2012
توہین عدالت کے ترمیمی بل میں کہیں یہ بات نہیں لکھی کہ صدر،وزیراعظم پرعدالتی فیصلوں کا اطلاق نہیں ہوتا. فاروق ایچ نائیک۔ فوٹو ایکسپریس

KARACHI: وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے کہا ہے کہ حکومت عدلیہ کو کمزور نہیں کرنا چاہتی،آرٹیکل 242 کے تحت صدر مملکت، وزیر اعظم اور وزراء کے اقدامات کو آئینی تحفظ حاصل ہے جسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا،آزاد عدلیہ کے ساتھ آزاد عدالتی نظام بھی ضروری ہے، عدلیہ راضی ہو تو ملک بھر میں شام کی عدالتیں بھی شروع کی جاسکتی ہیں، ججوں کی تقرری کے عمل میں وزارت قانون اور بارکونسلوں کا بھی کردار ہونا چاہیے لیکن اس کے لیے قانون میں ترمیم کرنا ہوگی۔

ان خیالات کا اظہارانھوں نے سندھ ہائیکورٹ میں ڈپٹی اٹارنی جنرل عاشق رضا کے دفتر میں وفاقی حکومت کے لاء افسران سے ملاقات کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، انھوں نے کہا کہ توہین عدالت کے ترمیمی بل میں کہیں یہ بات نہیں لکھی کہ صدر اور وزیراعظم پرعدالتی فیصلوں کا اطلاق نہیں ہوتا تاہم آرٹیکل 242 کے تحت صدر ، وزیر اعظم اور وزراء کے سرکاری اقدامات کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت عدلیہ کا احترام کرتی ہے اور اس کے اختیارات میں کسی قسم کی کمی نہیں کرنا چاہتی، صدر سمیت پاکستان پیپلزپارٹی مفاہمت کی پالیسی پر گامزن ہے اورکسی سے تصادم نہیں چاہتے،آزاد عدلیہ کے ساتھ ساتھ آزاد عدالتی نظام بھی ضروری ہے،جس میں غیرجانبداراورایماندارججز اور اہل لاء افسران ہوں۔فاروق ایچ نائک نے کہا کہ اس تاثر کو ختم ہونا چاہیے کہ عدلیہ پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف ہے۔

حکومت کسی صورت عدلیہ سے محاذ آرائی نہیں چاہتی ہے ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں تاکہ تصادم سے بچا جاسکے۔ اے پی پی کے مطابق وفاقی وزیر قانون نے مزید کہا کہ عدلیہ میں ججز کی کمی کا جوڈیشل کمیشن نوٹس لے اور چیف جسٹس سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ ججز کی خالی نشستوں کو پر کریں تاکہ سالوں سے قید قیدیوں کو ان کے مقدمات کا جلد فیصلہ ہوسکے۔

انھوں نے کہا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے خواتین ججز کی تعداد میں اضافے کی بات کی ہے جس کی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی حمایت کی ہے جو خوش آئند بات ہے۔ وزیر قانون نے کہا کہ ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں بھی ترمیم ہونی چاہیے اور ججوں کی خالی نشستوںکو بھی جلد از جلد مکمل کرنا چاہیے اس وقت چاروں صوبوں میں عدلیہ کا کام بہت سست طریقے سے ہو رہا ہے، سول مقدمات اور جیلوں میں قیدیوں کے مقدمات سالہا سال سے چل رہے ہیں ان کا کوئی فیصلہ نہیں آتا جس سے قیدیوں کی عمر کے قیمتی سال ضائع ہو جاتے ہیں۔

وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے دس سال جیل میں گزارے ہیں لیکن ان پر کوئی ایک کیس بھی صحیح ثابت نہیں ہوا،ان کی زندگی کے قیمتی سال اپنے بچوں سے الگ رہ کر گزرے ہیں کون ان کی زندگی کے وہ قیمتی سال واپس کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ جیلوں میں قید قیدیوں کو بھی جلد از جلد انصاف ملنا چاہیے اگر وہ مجرم ہیں تو سزا ملے اگر بے گناہ ہیں تو رہائی ملے۔ انھوں نے کہا کہ عدلیہ اور حکومت میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے جو بھی اقدامات کرنا پڑے وہ کریں گے، حکومت کا کام عوام کو ریلیف اور جلد انصاف فراہم کروانا ہے جس کے لیے تمام تر کوششیں جاری رکھیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں