بُک شیلف
ناول کا پلاٹ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کے اندیشے پر استوار کیا گیا ہے۔
'Love Returns in the Time of Nuclear Annihilation'
مصنف : ایم اختر
صفحات : 338
قیمت : ساڑھے سات سو
ناشر: مکتبہ دارالشعور ،مزنگ روڈ، لاہور،0333-4718480
ناول ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس میں آپ انتہائی نازک اور حساس موضوعات کو فکشن کے پیرائے میں فرضی کرداروں اور واقعات کے ساتھ خوبصورتی سے بیان کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں حال میں ہی منظر عام پر آنے والا زیرتبصرہ انگریزی ناول ایسے ہی نازک موضوع پر لکھا گیا ہے۔ ناول کا پلاٹ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کے اندیشے پر استوار کیا گیا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان مستقبل میںاس قسم کی کسی جنگ کا امکان یا خطرہ موجود ہے یا نہیں ، یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس کا تصور بہرحال موجود ہے اور اسی تصور کو بنیاد بناتے ہوئے ناول نگار نے اس پر قلم اٹھایا ہے۔ اس کے علاوہ اس خطے میں انتہا پسند طبقات، چاہے یہ ہندو ہوں یا مسلمان، ان کی مخصوص سوچ اور پاکستان میں سیاست اور جمہوریت کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے یہ ناول کسی حد تک relevent بھی دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ دونوں ملکوں میں دوستی کو فروغ دینے اور تعلقات کو نارمل کرنے کے لیے مختلف حلقوں کی جانب سے کوششیں جاری ہیں لیکن شاید یہ کوششیں ان حلقوںکو پسند نہ آئیں جو نفرت کی تجارت کرتے ہیں اور دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب آتا دیکھنا نہیں چاہتے۔ اس ناول میں بھی ایسے حلقوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کیسے ناکام ہوتی ہے؟ انقلابی فوجی حکومت کا قیام کیسے عمل میں آتا ہے؟ ایٹمی جنگ کیوں اور کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ ایسے سوال ہیں جن پر بحث کی جاسکتی ہے لیکن ناول کے طورپر انھیں پڑھنا دلچسپ دکھائی دیتا ہے۔
یہ ناول پاکستان کے ساتھ ساتھ اس پورے خطے کے بارے میں ہے جسے ہم برصغیر یا مزید وسیع معنوں میں جنوبی ایشیا کہتے ہیں۔ اس کی کہانی علاقائی بھی ہے اور بین الاقوامی بھی، کیونکہ اس کا موضوع عالمی سطح کا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار اسامہ کینیڈا میں رہائش پذیر ہے جبکہ کہانی پاکستان ، بھارت ، کینیڈا اور امریکہ میں بیک وقت چل رہی ہے۔ اس کی کہانی میں ناول کے عنوان کی طرح ہی کئی اہم چونکادینے والے واقعات موجود ہیں جن میں پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی اور ایک انقلابی فوجی حکومت کا قیام اور پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کے نتیجے میں خطے کی تباہی چند اہم ترین واقعات ہیں۔ پاک بھارت ایٹمی جنگ کو کسی ناول میں پہلی بار موضوع بنایا گیا ہے اور ناول نگار کی جانب سے بھی یہی دعویٰ کیا گیا ہے۔ ان واقعات کے علاوہ ناول میں فکر کو دعوت دینے والے مکالمات اور ایسے انوکھے نظریات بھی ہیں جو کم ازکم الفاظ میں غیرروایتی کہے جاسکتے ہیں۔
ایم اختر کا ناول صرف ایٹمی جنگ یا بھاری بھرکم مکالموں کا مجموعہ نہیں بلکہ اس میں وہ ایک لو سٹوری کو لے کر چل رہے ہیں جو کہ مرکزی کردار اسامہ اور ایک انگریزنژاد کینیڈین لڑکی نتاشا اینڈرسن پر مشتمل ہے جس میں کیدو کی طرح ایک رقیب آن ٹپکتا ہے جس کا نام ارنسٹ سانتیاگو ہے۔ سانتیاگو بذات خود ایک عجیب وغریب کردار ہے جو پڑھنے والے کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اورکردار ایک لاطینی لڑکی ڈونیا کا ہے اور یہ بھی دلچسپ ہے۔ ناول کی کہانی کے علاوہ اس کے مکالمے بھی ایسے ہیں جن سے یہ لگتا ہے کہ یہ ناول نہ صرف علاقائی بلکہ بین الاقوامی قارئین کو بھی متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاک بھارت ایٹمی جنگ کو ناول کا موضوع بنانا ایک اچھوتا آئیڈیا ہے اور اسی وجہ سے یہ ناول قارئین کو پسند آئے گا۔ ناول گار کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر فائل سیونگ کے دوران غلطی کے باعث ناول میں رہ جانے والی زبان کی غلطیوں کو Revised ایڈیشن میں درست کر لیا جائے گا۔ناول نمایاں بک سٹالز پردستیاب ہے۔
حیاتِ حضرت خضر ؑ
مصنف :ابو الفضل شہا ب الدین احمد بن حجر عسقلانیؒ
ترجمہ:ابو عبدالسلام محمد اکرم جمیل
ناشر: بک کارنر شو روم ، بک سٹریٹ جہلم
حضرت خضرؑ کی حضرت موسیٰؑ سے ملاقات کا ذکر قرآن مجید میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔اس ملاقات میں جو واقعات پیش آئے ہیں اس سے عام و خاص حضرت خضر ؑ کے بارے میں غوروفکر پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ حضرت خضرؑ نبی ہیں ، ولی ہیں یا پھر فرشتے۔ حضرت خضرؑ کے حوالے سے عربی زبان میں تو بہت کتابیں اور تحریریںملتی ہیں مگر اردو زبان میں کوئی کتاب نہ تھی، اس کا بار محترم مترجم نے اٹھایا اور یوں اردو پڑھنے والوں کو بھی حیات حضرت حضر ؑ پر کتاب میسر آئی۔ کتاب کے مصنف حضرت ابو الفضل شہاب الدین احمد بن حجر عسقلانی ؒ کسی تعارف کے محتاج نہیں ان کا شمار اپنے وقت کے آئمہ کرام میں ہوتا تھا ۔ امام صاحب کو تحقیق میں خصوصی ملکہ حاصل تھا ۔خود اندازہ لگائیں کہ جب ان کے قلم سے کوئی کتاب تخلیق ہوئی ہو گی تو اس کا معیار کیا ہو گا۔ مترجم نے بھی پورا حق ادا کیا ہے۔کتاب میں مقدمہء تحقیق صلاح الدین مقبول نے لکھا ہے۔اس طویل مقدمے میں انھوں نے تحقیق کے تمام مراحل کو بخوبی نبھایا ہے۔ یوں ایک کتاب کے اندر گویا دو کتابیں پڑھنے کو میسر ہیں ۔ کتا ب میں دلائل کی صحت کے اعتبار کے لئے حوالہ جات بالخصوص دئیے گئے ہیں ۔ مقدمہ تحقیق کے علاوہ آٹھ ابواب ہیں ۔ دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ مجلد کتاب کی قیمت 480روپے ہے۔
پانی کی کہانی
شاعر: امین خیال
ناشر: فروغ ادب اکادمی' 88-B' سیٹلائٹ ٹائون' گوجرانوالہ
قیمت: 300روپے، صفحات 326
امین خیال پنجابی اور اردو کے شاعر ہیں۔ ''پانی کی کہانی'' ان کے اردو ماہیوں کا دوسرا مجموعہ ہے۔ ماہیا بنیادی طور پر پنجابی شاعری کی صنف ہے۔ امین خیال کے ان ماہیوں میں بھی پنجابی لفظیات کثرت سے نظر آتی ہیں۔ حمد و نعت' مشہور شخصیات کے علاوہ مختلف مضامین اور موضوعات کو ماہیے میں بیان کیا گیا ہے۔ پنجاب شاعری کی ایک اور صنف ''بارہ ماسے'' کو بھی بکرمی' قمری اور عیسوی مہینوں کے حساب سے الگ الگ بیان کیا گیا ہے۔ مختلف موضوعات پر سادگی اور سلاست سے لکھے گئے یہ ماہیے خیال افروز بھی ہیں۔ مثلاً
اب محل نہ زر اچھا
چین سے رہنے کو
چھوٹا سا گھر اچھا
پنجابی لفظیات نے ان اردو ماہیوں کی برجستگی اور چاشنی کو بڑھا دیا ہے۔ کتاب کی اشاعت عمدہ ہے۔
کیسے کیسے چہرے
مصنف: کرامت علی بھٹی
پبلشر: ساون، 12-K، مین بلیووارڈ، گلبرگ 2، لاہور
قیمت: 695 روپے، صفحات: 348
کرامت علی بھٹی سینئر صحافی اور پنجابی زبان کے صاحب دیوان شاعر ہیں۔ ان کے شعری مجموعہ ''سولاں تے تریل'' کو 2000ء میں مسعور کھدر پوش ایوارڈ مل چکا ہے۔ وہ ریڈیو پاکستان پرحالات حاضرہ کے ایک پروگرام کے اینکر بھی ہیں۔
زیر نظر کتاب ''کیسے کیسے چہرے'' ان کے مختلف پروفائل انٹرویوز کا مجموعہ ہے۔ یہ انٹرویو روزنامہ ایکسپریس کے ہفتہ وار شخصیت (Personality) ایڈیشن میں شائع ہوچکے ہیں۔ اس کتاب میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے 65 افراد کے پروفائل انٹرویو شامل کیے گئے ہیں، جن کی مختلف عنوانات مثلاً علم و دانش، ادب، قانون، سماجی خدمت، تحقیق و تدریس، صحافت، مذہبی سیاست، فنون لطیفہ، باہمت لوگ، سپہ گری اور کھیل کے تحت درجہ بندی کی گئی ہے۔
اردو صحافت میں پروفائل انٹرویو کی صنف نسبتاً نئی ہے، کرامت علی بھٹی نے اس صنف میں اپنا منفرد اسلوب متعارف کرایا ہے۔ ان کے لکھے ہوئے پروفائلز پہلی سطر سے ہی قاری کی توجہ حاصل کرلیتے ہیں، اور اس کے بعد صاحب انٹرویو کی زندگی کی کہانی ایک روانی میں آگے بڑھتی جاتی ہے۔ موزوں الفاظ کے چنائو اور الفاظ کے دروبست میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔ ان کی تحریر تخلیقیت میں گندھی ہوتی ہے۔ کرامت علی بھٹی کا فن، خاص طور پر ان انٹرویوز میں نکھر کر سامنے آتا ہے، جن میں صاحب انٹرویو کوئی مشہور شخصیت نہیں، بلکہ عام آدمی ہے۔ اس موقع پر بابائے اردو مولوی عبدالحق کے شاہکار خاکے ''نام دیومالی'' کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک محنت کش ریاض احمد کے پروفائل کی آخری چند سطریں ملاحظہ کریں:
''...میری بیوی میری پھوپھی کی بیٹی ہے۔ وہ بہت نیک اور صابر خاتون ہے۔ پچھلے دنوں ہم میاں بیوی بازار سے گزر رہے تھے۔ میرا جی چاہا اس کے کھانے کے لیے سیب لے لوں، وہ اسے پسند بھی بہت ہیں۔ ریڑھی کی طرف بڑھا تو نیک بخت بولی، اعجاز کے ابا رہنے دو، ان پیسوں سے بیٹی کے لیے کوئی برتن ہی بنالیں گے۔ میں نے یہ سنا تو اپنے آنسو ضبط کرتا ہوا اس کے ہمراہ گھر کی جانب چلا آیا''
کتاب میں شامل پروفائل انٹرویوز کی مستقل اہمیت میں کوئی کلام نہیں ہے۔ معلومات کے علاوہ، ان انٹرویوز میں علم و دانش کے موتی، سبق آموز واقعات بھی ہیں۔ کچھ انٹرویوز کو Motivational کہانیاں بھی کہا جاسکتا ہے۔ ریڈنگز کے اشاعتی ادارے، ساون پبلشرز، نے اس کتاب کو پورے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ کتاب کی جلد بندی، صفحات اور طباعت بہت معیاری ہے۔