اطلاعات تک رسائی احسن پیش رفت
اطلاعات تک رسائی کا قانون اورجمہوریت ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں
KHARKIV:
جمہوریت، جمہورکے لیے ہوتی ہے اور اس کا حسن یہ ہے کہ مسائل گفتگو و شنید کے ذریعے بدرجہ احسن حل کرلیے جاتے ہیں۔ایک خوش آیند خبر جس کا طویل عرصے سے انتظارتھا، اخبارات کی زینت بنی ہے کہ ایوان بالاکی سلیکٹ کمیٹی نے اطلاعات تک رسائی کے بل کومتفقہ طور پرمنظورکرلیا ہے، بل کو سینیٹ کے آیندہ سیشن میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
بل کے جو مندرجات سامنے آئے ہیں وہ کچھ یوں ہے کہ 20 سال پرانا ریکارڈ ہرصورت منظرعام پرآئے گا اورکسی بھی لاپتہ شخص کی معلومات متعلقہ ادارہ 3دن میں تحریری طورپرجواب دینے کا پابند ہوگا، کسی بھی ادارے میںبدعنوانی اورقواعدکی خلاف ورزی پر اس ادارے سے وابستہ کوئی بھی شخص اس کی نشاندہی کرسکے گا۔
سرکاری اختیارات کا ماورائے آئین استعمال ایک ایسا منفی عمل ہے جس کے باعث ہمارے ملک میں مسنگ پرسنزکا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ریاست اوراس کے اداروں کے خلاف منفی تاثرابھرتا ہے ان قوموں اورگروہوں میں جو اس سے متاثرہوتے ہیں۔ ایسا سرکاری ریکارڈ جس کا تعلق مفاد عامہ سے ہو اس تک رسائی دینے سے بنیادی انسانی حقوق کی بحالی اور تعمیر میں مدد ملے گی۔
دراصل اطلاعات تک رسائی کا قانون اورجمہوریت ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں البتہ بل میں موجود ایک شق کے تحت قومی سلامتی ،نیشنل انٹرسٹ اورفارن ریلیشن سے متعلق قومی مفاد سے متعلق حساس معلومات کوعام نہ کیا جاسکے گا، اگرافواج پاکستان نے کسی معلومات کوقومی مفادمیںمخفی رکھا ہے تو اس تحفظ کی شق کو برقرار رکھا گیا۔
یہ امر بھی خوش آیند ہے کہ مسودے کے تحت تین رکنی خود مختارانفارمیشن کمیشن بنے گا اور تمام ادارے کمیشن کو ہر وہ معلومات فراہم کرنے کے پابند ہوںگے جوکمیشن کودرکارہوں گی۔کمیشن ارکان کی تقرری وزیراعظم کریں گے، کمیشن کا ایک رکن عدلیہ، ایک بیوروکریسی اورایک سول سوسائٹی سے لیا جائے گا۔
سینیٹ میں آیندہ دنوں میں پیش کیا جانے والا بل اس لیے بھی بہترین قرار دیا جاسکتا ہے کہ بل سے عام آدمی کومعلومات تک زیادہ سے زیادہ رسائی حاصل ہوگی، انسانی حقوق سے متعلق شکایت میں نمایاں کمی ہوگی اورعوام کو انصاف کے حصول میں آسانی ہوگی ۔ بل کی ایک شق کے تحت کسی بھی سانحے یا واقعے میں متاثرہ شخص سی سی ٹی وی فوٹیج کے حصول کی درخواست کرسکتا ہے۔ حکومت اس بل کو پیش کرنے پر مبارکباد کی مستحق ہے ۔
جمہوریت، جمہورکے لیے ہوتی ہے اور اس کا حسن یہ ہے کہ مسائل گفتگو و شنید کے ذریعے بدرجہ احسن حل کرلیے جاتے ہیں۔ایک خوش آیند خبر جس کا طویل عرصے سے انتظارتھا، اخبارات کی زینت بنی ہے کہ ایوان بالاکی سلیکٹ کمیٹی نے اطلاعات تک رسائی کے بل کومتفقہ طور پرمنظورکرلیا ہے، بل کو سینیٹ کے آیندہ سیشن میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
بل کے جو مندرجات سامنے آئے ہیں وہ کچھ یوں ہے کہ 20 سال پرانا ریکارڈ ہرصورت منظرعام پرآئے گا اورکسی بھی لاپتہ شخص کی معلومات متعلقہ ادارہ 3دن میں تحریری طورپرجواب دینے کا پابند ہوگا، کسی بھی ادارے میںبدعنوانی اورقواعدکی خلاف ورزی پر اس ادارے سے وابستہ کوئی بھی شخص اس کی نشاندہی کرسکے گا۔
سرکاری اختیارات کا ماورائے آئین استعمال ایک ایسا منفی عمل ہے جس کے باعث ہمارے ملک میں مسنگ پرسنزکا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ریاست اوراس کے اداروں کے خلاف منفی تاثرابھرتا ہے ان قوموں اورگروہوں میں جو اس سے متاثرہوتے ہیں۔ ایسا سرکاری ریکارڈ جس کا تعلق مفاد عامہ سے ہو اس تک رسائی دینے سے بنیادی انسانی حقوق کی بحالی اور تعمیر میں مدد ملے گی۔
دراصل اطلاعات تک رسائی کا قانون اورجمہوریت ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں البتہ بل میں موجود ایک شق کے تحت قومی سلامتی ،نیشنل انٹرسٹ اورفارن ریلیشن سے متعلق قومی مفاد سے متعلق حساس معلومات کوعام نہ کیا جاسکے گا، اگرافواج پاکستان نے کسی معلومات کوقومی مفادمیںمخفی رکھا ہے تو اس تحفظ کی شق کو برقرار رکھا گیا۔
یہ امر بھی خوش آیند ہے کہ مسودے کے تحت تین رکنی خود مختارانفارمیشن کمیشن بنے گا اور تمام ادارے کمیشن کو ہر وہ معلومات فراہم کرنے کے پابند ہوںگے جوکمیشن کودرکارہوں گی۔کمیشن ارکان کی تقرری وزیراعظم کریں گے، کمیشن کا ایک رکن عدلیہ، ایک بیوروکریسی اورایک سول سوسائٹی سے لیا جائے گا۔
سینیٹ میں آیندہ دنوں میں پیش کیا جانے والا بل اس لیے بھی بہترین قرار دیا جاسکتا ہے کہ بل سے عام آدمی کومعلومات تک زیادہ سے زیادہ رسائی حاصل ہوگی، انسانی حقوق سے متعلق شکایت میں نمایاں کمی ہوگی اورعوام کو انصاف کے حصول میں آسانی ہوگی ۔ بل کی ایک شق کے تحت کسی بھی سانحے یا واقعے میں متاثرہ شخص سی سی ٹی وی فوٹیج کے حصول کی درخواست کرسکتا ہے۔ حکومت اس بل کو پیش کرنے پر مبارکباد کی مستحق ہے ۔