انتخابی اصلاحات چند تجاویز
چند روزقبل پارلیمان کی کمیٹی نے انتخابی اصلاحات کا ابتدائی مسودہ عوامی آرا کے لیے مشتہرکیا ہے
چند روزقبل پارلیمان کی کمیٹی نے انتخابی اصلاحات کا ابتدائی مسودہ عوامی آرا کے لیے مشتہرکیا ہے۔کابینہ میں بھی اس کے مندرجات پرگفتگو ہوئی۔یہ مسودہ آیندہ چند روز میں منظوری کے لیے پارلیمان میں پیش کردیا جائے گا۔ اس مسودے میںچندانتخابی اصلاحات شامل کی گئی ہیں۔ سابقہ انتخابی قوانین کویکجا کرنے کے سوا کوئی بڑی تبدیلی سامنے نہیں آئی ہے۔
اس وقت متوشش شہریوں کے ذہن میںیہ سوال کلبلا رہا ہے کہ آیا انتظامی نوعیت کی چند اصلاحات سے انتخابی عمل میں بہتری ممکن ہے یا ساختی(Structural)نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟اس لیے یہ ضروری ہے کہ سول سوسائٹی کے تمام شراکت داراس مسودے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں اور اپنی تجاویزپارلیمانی کمیٹی کو بھجوائیں، تاکہ آزاد، غیر جانبدار، شفاف اور تمام طبقات کے لیے قابل قبول انتخابی نظام آنے والی چند دہائیوں کے لیے پائیدار بنیادوں پر متعارف ہوسکے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے پڑوسی ملک بھارت کے انتخابی نظام کا جائزہ لیاجانا ضروری ہے۔وہاں 1950ء میںانتخابی قوانین اور اصول وضوابط متعارف کرائے گئے اور الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا ۔ابتدا میں الیکشن کمیشن ایک رکنی ہواکرتا تھا۔1982میں آئینی ترمیم کے ذریعے دو مزید اراکین کا اضافہ کردیا گیا۔ یوں الیکشن کمیشن تین رکنی ہوگیا،جو آج تک ہے۔مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت کا الیکشن کمیشن روز اول ہی سے غیر جانبدار اورآزاد چلا آرہا ہے۔ جس کی وجہ سے 1951 سے 2014 تک کل16عام انتخابات ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی الیکشن ایسا نہیں، جو دھاندلیوں کے الزامات کے باعث متنازع ہوا ہو۔
انفرادی حلقوں کی سطح پر دھاندلیوں کی چھوٹی موٹی شکایات ضرورسامنے آتی رہی ہیں، مگر پورے انتخابی عمل کوانجینئرڈ کیے جانے یا الیکشن کمیشن کی جانبداری کی کوئی شکایت کسی بھی جماعت کی جانب سے آج تک نہیں آئی ہے۔
نیپال جنوبی ایشیا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے، جو ہمالیہ کے دامن میں واقع ہے۔اس ملک کی کل آبادی 2کروڑ 70لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ یہاں چند برس قبل تک بادشاہت کا خاتمہ ہوا ہے۔اس کے بعد سیاسی افراتفری میں چند برس گذرگئے۔اب وہاں کی سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی عزم کو بروئے کار لاتے ہوئے نیا آئین تشکیل دیا ہے۔اس آئین کی رو سے دستور ساز اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد601کردی گئی۔ان میں سے 240 نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوتے ہیں۔
335 نشستوں پر پارٹی لسٹ کی بنیاد پر متناسب نمایندگی کے تحت انتخاب ہوتا ہے، جب کہ 26نشستوں پر کابینہ نامزدگیاں کرتی ہے۔ خواتین کے لیے 33 فیصد نشستیں لازمی قرار دی گئی ہیں۔سیاسی جماعتوں کو پابندکیا گیا ہے کہ وہ براہ راست انتخابات میں بھی ایک تہائی امیدوار خواتین کو نامزد کریں۔ اسی طرح متناسب نمایندگی کے لیے جمع کردہ فہرست میں بھی ایک تہائی خواتین کی شمولیت کولازمی قراردیاگیاہے۔اس کے علاوہ مزدوروں/ کسانوں، پروفیشنلز اور تاجروں کے لیے نشستیں مخصوص ہیں، جو متناسب نمایندگی کے ذریعے ایوان کی رکنیت حاصل کرتے ہیں۔
اس تناظر میں وطن عزیز میں انتخابی عمل کا جائزہ لیں، تو بہت سے تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میں 1970میں انتخابی قوانین کی تشکیل کے ساتھ نیا الیکشن کمیشن قائم کیا گیا۔ہمارے یہاں 1970سے اب تک کل 10عام انتخابات ہوئے ہیں۔ پہلے عام انتخابات کو چھوڑکرکوئی بھی الیکشن ایسا نہیں جو بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات کے باعث متنازع نہ ہو۔
1977 کے عام انتخابات کے بارے میں قومی اتحاد میں شامل جماعتوں نے بدترین دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور پیپلز پارٹی کی اولین حکومت کے خلاف تحریک چلائی، جو جنرل ضیا کی آمریت پر منتج ہوئی۔ 1990 اور 1997کے انتخابات پر پیپلز پارٹی نے انجینئرڈہونے کا الزام عائد کیا۔ 1993 کے الیکشن پر مسلم لیگ (ن) کو تحفظات تھے۔2013کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے ساتھ تحریک انصاف میدان میں اتری۔ اس طرح10میں سے 9انتخابات بڑے پیمانے پرمتنازع قرار پائے۔اس کا سبب کمزورانتخابی قوانین اور بے دست وپا الیکشن کمیشن ہے۔
اب دوسری طرف آیے برطانوی طرزکے پارلیمانی نظام کوچلانے کے لیے جاگیردارانہ کلچرکا خاتمہ ضروری ہے۔ بھارت نے آزادی کے فوراً بعد ریاستیں، راج واڑے اور جاگیرداری کو ختم کردیا۔ اس لیے وہاں پارلیمانی جمہوری نظام کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ ہمارا معاشرتی ڈھانچہ پہلے ہی قبائلی، فیوڈل اور برادری کلچر کی زنجیروں میں بری طرح جکڑا ہوا تھا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد سیاست پر فیوڈل اثرات مزید گہرے ہو گئے۔جس کے نتیجے میں ایک مقتدرسیاسی اشرافیہ وجود میں آگئی، جومنتخب اورغیر منتخب دونوں طرح کی حکمرانی میں اقتدارکے مزے لوٹتی ہے۔طاقتور فیوڈلز Electablesکی شکل میںنہ صرف سیاسی جماعتوں کے لیے ناگزیر ہوچکے ہیں،بلکہ سیاسی اور انتظامی اصلاحات کی راہ میںبھی سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
جہاں تک انتخابی نظام کا تعلق ہے، تو اس میں بھی بے انتہا اسقام پائے جاتے ہیں۔ اول، ہمارا الیکشن کمیشن بھارتی الیکشن کمیشن کی طرح مکمل آزاد نہیں ہے۔جس کی وجہ سے وہ فوری طور پر انتظامی فیصلے کرنے کااختیار نہیں رکھتا۔ دوئم، بھارت میں اچھی شہرت کے حامل بیوروکریٹ کو الیکشن کمشنر لگایا جاتا ہے، کیونکہ الیکشن مکمل طور پرایک انتظامی معاملہ ہے۔
ہمارے یہاں الیکشن کمیشن کے اراکین کو عدلیہ سے لیا جاتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور چاروں اراکین ریٹائرڈ جج ہوتے ہیں۔ ہر ضلع کا ریٹرننگ افسر حاضر سروس سیشن جج کو مقرر کیا جاتا ہے، جب کہ پولنگ کا عملہ اسکولوں اور کالجوں سے لیا جاتا ہے۔ جو جلدعلاقے کی بااثر شخصیت کے دباؤ میں آجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے پولنگ کے دن بھی دھاندلی کا راستہ کھل جاتا ہے۔
جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے کہ ہماری سیاست اور نظام حکمرانی پر فیوڈل سیاستدان حاوی ہیں۔ان کی موجودگی میں نہ تو زرعی اصلاحات(Land reforms)ممکن ہیں اور نہ ہی سیاست میںاشرافیائی کلچرکاخاتمہ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا براہ راست انتخابات کی بنیاد پر پارلیمانی نظام کے ذریعے تبدیلی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔لہٰذا عام آدمی کے اسمبلیوں تک پہنچنے اور معاشرے کے مختلف طبقات کی نمایندگی کویقینی بنانے کے لیے نیپال کی طرز پر انتخابی نظام متعارف کرانا ناگزیر ہوگیا ہے۔اس سلسلے میں جب اراکین پارلیمان اور متوشش شہریوںسے گفتگو کی گئی تومختلف نقطہ ہائے نظرسامنے آئے۔
سینیٹر نسرین جلیل کا موقف ہے کہ متناسب نمایندگی کے ذریعے دائیں بازو کے مذہبی انتہاپسند عناصرکواسمبلیوں میں پہنچنے کا موقع مل جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اکثریت بھی حاصل کرلیں۔ اس لیے موجودہ نظام کی فعالیت بڑھاکراسے جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ پائلر کے ڈائریکٹر کرامت علی اس نقطہ نظر سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر اسمبلیوں میںمعاشرے کے مختلف شراکت داروں کے لیے نشستیں مخصوص کردی جائیں،توعام آدمی کا اسمبلیوں میں پہنچناممکن ہوسکتا ہے۔
اس سلسلے میں آرٹس کونسل کراچی میں متوشش شہریوں اورسول سوسائٹی کے نمایندوںنے کئی اجلاس کیے اور درج ذیل تجاویز مرتب کی ہیں۔اول، قومی اسمبلی کی کل نشستیں500کی جائیں۔ اسی تناسب سے صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں بھی اضافہ کیا جائے۔دوئم، نصف نشستوں(250)پر مروجہ طریقے سے براہ راست الیکشن کرایا جائے، جب کہ بقیہ 50فیصد نشستوں پرپارٹی لسٹ کے تحت متناسب نمایندگی کے اصول پر انتخابات کرائے جائیں۔
سوئم، خواتین اور محنت کشوں کے لیے 33 فیصد نشستیں مخصوص کی جائیں۔ چہارم، ہر جماعت کو پابند کیا جائے کہ وہ براہ راست انتخابات والی نشستوں پر ایک تہائی ٹکٹ خواتین کو دے گی۔ پنجم، 1955میں جب ون یونٹ قائم کیا گیا تھا تو مغربی پاکستان میںپنجاب کی آبادی56فیصد ہونے کے باوجود اس کے لیے 45فیصد نشستیں مخصوص کی گئی تھیں۔ بقیہ نشستیں تینوں چھوٹے صوبوں میں آبادی کے لحاظ سے تقسیم کی گئی تھیں۔
اب بھی اسی فارمولے پر عمل کیا جائے اور پنجاب کی قومی اسمبلی میں بالادستی کو ختم کیا جائے۔ششم، غیرمسلموں کے لیے نشستوں میں مردم شماری کے بعد ان کی آبادی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے۔ ہفتم، جس حلقے میں خواتین کے ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد10فیصد سے کم ہو،اس حلقے کا الیکشن کالعدم قراردے کروہاں دوبارہ الیکشن کرایا جائے۔
اس وقت متوشش شہریوں کے ذہن میںیہ سوال کلبلا رہا ہے کہ آیا انتظامی نوعیت کی چند اصلاحات سے انتخابی عمل میں بہتری ممکن ہے یا ساختی(Structural)نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟اس لیے یہ ضروری ہے کہ سول سوسائٹی کے تمام شراکت داراس مسودے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں اور اپنی تجاویزپارلیمانی کمیٹی کو بھجوائیں، تاکہ آزاد، غیر جانبدار، شفاف اور تمام طبقات کے لیے قابل قبول انتخابی نظام آنے والی چند دہائیوں کے لیے پائیدار بنیادوں پر متعارف ہوسکے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے پڑوسی ملک بھارت کے انتخابی نظام کا جائزہ لیاجانا ضروری ہے۔وہاں 1950ء میںانتخابی قوانین اور اصول وضوابط متعارف کرائے گئے اور الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا ۔ابتدا میں الیکشن کمیشن ایک رکنی ہواکرتا تھا۔1982میں آئینی ترمیم کے ذریعے دو مزید اراکین کا اضافہ کردیا گیا۔ یوں الیکشن کمیشن تین رکنی ہوگیا،جو آج تک ہے۔مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت کا الیکشن کمیشن روز اول ہی سے غیر جانبدار اورآزاد چلا آرہا ہے۔ جس کی وجہ سے 1951 سے 2014 تک کل16عام انتخابات ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی الیکشن ایسا نہیں، جو دھاندلیوں کے الزامات کے باعث متنازع ہوا ہو۔
انفرادی حلقوں کی سطح پر دھاندلیوں کی چھوٹی موٹی شکایات ضرورسامنے آتی رہی ہیں، مگر پورے انتخابی عمل کوانجینئرڈ کیے جانے یا الیکشن کمیشن کی جانبداری کی کوئی شکایت کسی بھی جماعت کی جانب سے آج تک نہیں آئی ہے۔
نیپال جنوبی ایشیا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے، جو ہمالیہ کے دامن میں واقع ہے۔اس ملک کی کل آبادی 2کروڑ 70لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ یہاں چند برس قبل تک بادشاہت کا خاتمہ ہوا ہے۔اس کے بعد سیاسی افراتفری میں چند برس گذرگئے۔اب وہاں کی سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی عزم کو بروئے کار لاتے ہوئے نیا آئین تشکیل دیا ہے۔اس آئین کی رو سے دستور ساز اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد601کردی گئی۔ان میں سے 240 نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوتے ہیں۔
335 نشستوں پر پارٹی لسٹ کی بنیاد پر متناسب نمایندگی کے تحت انتخاب ہوتا ہے، جب کہ 26نشستوں پر کابینہ نامزدگیاں کرتی ہے۔ خواتین کے لیے 33 فیصد نشستیں لازمی قرار دی گئی ہیں۔سیاسی جماعتوں کو پابندکیا گیا ہے کہ وہ براہ راست انتخابات میں بھی ایک تہائی امیدوار خواتین کو نامزد کریں۔ اسی طرح متناسب نمایندگی کے لیے جمع کردہ فہرست میں بھی ایک تہائی خواتین کی شمولیت کولازمی قراردیاگیاہے۔اس کے علاوہ مزدوروں/ کسانوں، پروفیشنلز اور تاجروں کے لیے نشستیں مخصوص ہیں، جو متناسب نمایندگی کے ذریعے ایوان کی رکنیت حاصل کرتے ہیں۔
اس تناظر میں وطن عزیز میں انتخابی عمل کا جائزہ لیں، تو بہت سے تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میں 1970میں انتخابی قوانین کی تشکیل کے ساتھ نیا الیکشن کمیشن قائم کیا گیا۔ہمارے یہاں 1970سے اب تک کل 10عام انتخابات ہوئے ہیں۔ پہلے عام انتخابات کو چھوڑکرکوئی بھی الیکشن ایسا نہیں جو بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات کے باعث متنازع نہ ہو۔
1977 کے عام انتخابات کے بارے میں قومی اتحاد میں شامل جماعتوں نے بدترین دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور پیپلز پارٹی کی اولین حکومت کے خلاف تحریک چلائی، جو جنرل ضیا کی آمریت پر منتج ہوئی۔ 1990 اور 1997کے انتخابات پر پیپلز پارٹی نے انجینئرڈہونے کا الزام عائد کیا۔ 1993 کے الیکشن پر مسلم لیگ (ن) کو تحفظات تھے۔2013کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے ساتھ تحریک انصاف میدان میں اتری۔ اس طرح10میں سے 9انتخابات بڑے پیمانے پرمتنازع قرار پائے۔اس کا سبب کمزورانتخابی قوانین اور بے دست وپا الیکشن کمیشن ہے۔
اب دوسری طرف آیے برطانوی طرزکے پارلیمانی نظام کوچلانے کے لیے جاگیردارانہ کلچرکا خاتمہ ضروری ہے۔ بھارت نے آزادی کے فوراً بعد ریاستیں، راج واڑے اور جاگیرداری کو ختم کردیا۔ اس لیے وہاں پارلیمانی جمہوری نظام کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ ہمارا معاشرتی ڈھانچہ پہلے ہی قبائلی، فیوڈل اور برادری کلچر کی زنجیروں میں بری طرح جکڑا ہوا تھا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد سیاست پر فیوڈل اثرات مزید گہرے ہو گئے۔جس کے نتیجے میں ایک مقتدرسیاسی اشرافیہ وجود میں آگئی، جومنتخب اورغیر منتخب دونوں طرح کی حکمرانی میں اقتدارکے مزے لوٹتی ہے۔طاقتور فیوڈلز Electablesکی شکل میںنہ صرف سیاسی جماعتوں کے لیے ناگزیر ہوچکے ہیں،بلکہ سیاسی اور انتظامی اصلاحات کی راہ میںبھی سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
جہاں تک انتخابی نظام کا تعلق ہے، تو اس میں بھی بے انتہا اسقام پائے جاتے ہیں۔ اول، ہمارا الیکشن کمیشن بھارتی الیکشن کمیشن کی طرح مکمل آزاد نہیں ہے۔جس کی وجہ سے وہ فوری طور پر انتظامی فیصلے کرنے کااختیار نہیں رکھتا۔ دوئم، بھارت میں اچھی شہرت کے حامل بیوروکریٹ کو الیکشن کمشنر لگایا جاتا ہے، کیونکہ الیکشن مکمل طور پرایک انتظامی معاملہ ہے۔
ہمارے یہاں الیکشن کمیشن کے اراکین کو عدلیہ سے لیا جاتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور چاروں اراکین ریٹائرڈ جج ہوتے ہیں۔ ہر ضلع کا ریٹرننگ افسر حاضر سروس سیشن جج کو مقرر کیا جاتا ہے، جب کہ پولنگ کا عملہ اسکولوں اور کالجوں سے لیا جاتا ہے۔ جو جلدعلاقے کی بااثر شخصیت کے دباؤ میں آجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے پولنگ کے دن بھی دھاندلی کا راستہ کھل جاتا ہے۔
جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے کہ ہماری سیاست اور نظام حکمرانی پر فیوڈل سیاستدان حاوی ہیں۔ان کی موجودگی میں نہ تو زرعی اصلاحات(Land reforms)ممکن ہیں اور نہ ہی سیاست میںاشرافیائی کلچرکاخاتمہ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا براہ راست انتخابات کی بنیاد پر پارلیمانی نظام کے ذریعے تبدیلی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔لہٰذا عام آدمی کے اسمبلیوں تک پہنچنے اور معاشرے کے مختلف طبقات کی نمایندگی کویقینی بنانے کے لیے نیپال کی طرز پر انتخابی نظام متعارف کرانا ناگزیر ہوگیا ہے۔اس سلسلے میں جب اراکین پارلیمان اور متوشش شہریوںسے گفتگو کی گئی تومختلف نقطہ ہائے نظرسامنے آئے۔
سینیٹر نسرین جلیل کا موقف ہے کہ متناسب نمایندگی کے ذریعے دائیں بازو کے مذہبی انتہاپسند عناصرکواسمبلیوں میں پہنچنے کا موقع مل جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اکثریت بھی حاصل کرلیں۔ اس لیے موجودہ نظام کی فعالیت بڑھاکراسے جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ پائلر کے ڈائریکٹر کرامت علی اس نقطہ نظر سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر اسمبلیوں میںمعاشرے کے مختلف شراکت داروں کے لیے نشستیں مخصوص کردی جائیں،توعام آدمی کا اسمبلیوں میں پہنچناممکن ہوسکتا ہے۔
اس سلسلے میں آرٹس کونسل کراچی میں متوشش شہریوں اورسول سوسائٹی کے نمایندوںنے کئی اجلاس کیے اور درج ذیل تجاویز مرتب کی ہیں۔اول، قومی اسمبلی کی کل نشستیں500کی جائیں۔ اسی تناسب سے صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں بھی اضافہ کیا جائے۔دوئم، نصف نشستوں(250)پر مروجہ طریقے سے براہ راست الیکشن کرایا جائے، جب کہ بقیہ 50فیصد نشستوں پرپارٹی لسٹ کے تحت متناسب نمایندگی کے اصول پر انتخابات کرائے جائیں۔
سوئم، خواتین اور محنت کشوں کے لیے 33 فیصد نشستیں مخصوص کی جائیں۔ چہارم، ہر جماعت کو پابند کیا جائے کہ وہ براہ راست انتخابات والی نشستوں پر ایک تہائی ٹکٹ خواتین کو دے گی۔ پنجم، 1955میں جب ون یونٹ قائم کیا گیا تھا تو مغربی پاکستان میںپنجاب کی آبادی56فیصد ہونے کے باوجود اس کے لیے 45فیصد نشستیں مخصوص کی گئی تھیں۔ بقیہ نشستیں تینوں چھوٹے صوبوں میں آبادی کے لحاظ سے تقسیم کی گئی تھیں۔
اب بھی اسی فارمولے پر عمل کیا جائے اور پنجاب کی قومی اسمبلی میں بالادستی کو ختم کیا جائے۔ششم، غیرمسلموں کے لیے نشستوں میں مردم شماری کے بعد ان کی آبادی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے۔ ہفتم، جس حلقے میں خواتین کے ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد10فیصد سے کم ہو،اس حلقے کا الیکشن کالعدم قراردے کروہاں دوبارہ الیکشن کرایا جائے۔