قیامت صغریٰ

رینجرز اور فوج کو کراچی کی طرح لاہور یا کسی اور بڑے شہر میں مخصوص اختیارات دینے میں بلاشبہ کوئی حرج نہیں


Amjad Islam Amjad February 16, 2017
[email protected]

13 فروری کی شام لاہور کی سب سے اہم اور تاریخی سڑک پر اسمبلی ہال کے عین سامنے جو کچھ ہوا اسے اگر قیامت صغریٰ کا نام دیا جائے تو یہ کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔ ہائی کورٹ کی طرف سے مال روڈ پر جلسے جلوسوں پر پابندی کے باوجود اب بھی گورنر ہاؤس سے لے کر اسمبلی ہال تک کا علاقہ احتجاجی مظاہروں کے لیے پسندیدہ ترین علاقہ ہے کہ یہاں سے اخبارات' ٹی وی چینلز اور اہم سرکاری دفاترسب ہی قریب پڑتے ہیں، سو ہر دوسرے تیسرے دن یہ سڑک نہر کے پل سے لے کر پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس تک کئی کئی گھنٹے ٹریفک کے لیے بند رہتی ہے۔

سرکار کو اس کی اطلاع سب سے آخر میں ہوتی ہے چنانچہ اس کی طرف سے مذاکرات کا آغاز ہمیشہ تاخیر سے ہوتا ہے' یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے وہاں کے براہ راست متاثر ہونے والے تاجروں سمیت' مظاہرین' راہ گیر اور پولیس والے سب کے سب اپنے اپنے تحفظات کے باوجود عادی ہو چکے تھے چنانچہ کسی نے بھی ہائی کورٹ کے احکام پر عمل درآمد کرنے یا کرانے پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی اور یوں دہشت گردوں کو ایک انتہائی مذموم اور تباہ کن کارروائی کا موقع مل گیا۔

دوا ساز کمپنیوں کی لوٹ مار ہو یا دوا فروشوں کی ناجائز منافع خوری کہ جس کی آڑ میں جعلی اور مضر صحت دوائیاں بنانے والوں کے کاروبار چمکے' امر واقعہ یہی ہے کہ محکمہ صحت کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے چند کالی بھیڑوں نے اس پورے شعبے کا نام بدنام کر دیا ہے۔

براہ راست جڑی بوٹیوں اور قدرتی اجزا سے تیار کی جانے والی ادویہ کے معیار پر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے چند بڑے دوا ساز اداروں کو چھوڑ کر گلی محلوں میں ایسی فیکٹریاں لگ گئیں جہاں جاہل اور نا تجربہ کار لوگ ایسے خود ساختہ اور انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک فارمولوں پر مبنی دوائیاں ایسے اجزا سے تیار کرنے لگے جو علاج کے بجائے خود کئی پیچیدہ بیماریوں کے فروغ کا سبب بن گئے، اس کے ساتھ ساتھ مشہور برانڈز کی امپورٹڈ اور مقبول عام دوائیاں بھی جعلی طور پر بنانے اور انھیں اصل سے ملتی جلتی پیکنگ کے ساتھ میڈیکل اسٹورز پر سپلائی کرنے کا کاروبار بھی زور پکڑ گیا۔

بلاشبہ ایسے لوگوں پر مضبوط ہاتھ ڈالنا اور انھیں قانون کے مطابق سخت سزائیںدلوانامتعلقہ حکومتی اداروں کا فرض منصبی ہے مگر جس بھونڈے' احمقانہ اور مشکوک انداز میں ان کے خلاف حالیہ کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے' وہ اپنی جگہ پر ایک قابل غور اور تشویشناک بات ہے، جس طرح واپڈا والے چند فی صد بجلی چوروں کو پکڑنے کے بجائے ان کی چوری کی ہوئی بجلی کی قیمت ان لوگوں سے وصول کرتے ہیں جو سچے ایمان دار اور باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے لوگ ہیں۔

اسی طرح محکمہ صحت والوں نے بھی اصل مجرموں کو پکڑنے کے بجائے ایسے سخت اور بہت حد تک غیر منطقی اور ظالمانہ قوانین بنا دیے ہیں جن کا سارا منفی اثر اچھی اور ذمے دار دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ ساتھ ان بے شمار نیک نیتی سے کام کرنے والے دوا فروشوں پر بھی پڑے گا جو حق حلال کی محنت سے کمائی ہوئی روٹی کھاتے ہیں اور جو دانستہ طور پر جعلی ادویہ کی خریدوفروخت نہیں کرتے۔

اب ظاہر ہے اگر آپ جعلی دوائیاں بنانے والوں کو پکڑنے کے بجائے چھوٹے سرمائے سے کام کرنے والے کیمسٹوں پر ان کے کل کاروبار سے بڑے جرمانے عائد کرنا شروع کر دیں گے اور گدھے گھوڑے کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکیں گے تو شور تو مچے گا، مثال کے طور پر یہ قانون کہ اگر چیکنگ کے وقت کسی بھی وجہ سے مطلوبہ قابلیت کا حامل کیمسٹ کاونٹر پر موجود نہیں ہو گا تو دکاندار پر انتہائی بھاری جرمانہ عائد کر دیا جائے گا حالانکہ یہ جرمانہ صرف اس صورت میں لاگو ہونا چاہیے جب متعلقہ کیمسٹ وہاں یا تو رکھا ہی نہ گیا ہو یا مستقل طور پر غیر حاضر ہو۔

اسی طرح رجسٹرڈ دوا ساز کمپنیوں یا ہول سیل ادویات فروخت کرنے والوں سے خریداری کرنے والوں پر کسی دوائی کے نقلی یا غیر معیاری ہونے کی صورت میں جرمانہ عائد کرنا جائز نہیں ان کے بجائے ان جعلی ادویہ کو بنانے اور مارکیٹ کرنے والے بدمعاشوں کو پکڑنا چاہیے۔ یہی اصول ذرا سی تبدیلی کے ساتھ دیسی دوائیاں یا شربت وغیرہ بنانے والوں پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔

اب پتہ نہیں اس خبر میں کس حد تک صداقت ہے کہ حکومت کی ان تیزیوں اور کارروائیوں کے پیچھے ایک اہم سیاسی شخصیت کا بھی ہاتھ ہے کہ اس نے مبینہ طور پر اس صنعت سے متعلق ایک چلتا ہوا بڑا کاروبار خرید لیا ہے اور یہ سب کچھ اسی کو فروغ دینے کی ایک کڑی ہے، ممکن ہے یہ محض ایک افواہ ہو لیکن اگر ایسا نہیں تو دہشت گردی کے اس المناک واقعے کی تفتیش میں اس طرف بھی توجہ دی جانی چاہیے۔

یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ان لوگوں کو ایک طرح کی ملک گیر ہڑتال کر کے اس مظاہرے پر کیوں مجبور کیا گیا، اتنے دنوں سے یہ لوگ اپنے مطالبات اور تحفظات کا اظہار بہت کھل کر کر رہے تھے' ان کی بات پہلے کیوں سنی اور سمجھی نہیں گئی؟ آپ غلط کام کرنے والوں سے ایک فی صد بھی رعایت نہ کریں لیکن جو لوگ ان کی وجہ سے شک و شبے اور تعزیر کے دائرے میں آئے ہیں ان کی جائز بات اور توجیہات کو سننا حکومت کا فرض اور ان کا حق ہے۔

اب آخر میں اس جھگڑے سے پیدا شدہ صورت حال اور قیمتی جانوں کے نقصان سے منسلک دو اور باتوں کا ذکر بھی ضروری ہے۔ رینجرز اور فوج کو کراچی کی طرح لاہور یا کسی اور بڑے شہر میں مخصوص اختیارات دینے میں بلاشبہ کوئی حرج نہیں لیکن ہمیں اس ضمن میں پولیس کے اہم کردار اور اعلیٰ افسران سمیت تمام عملے کی جرات مندانہ شہادت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس محکمے میں اب بھی اچھے محنتی قابل' بہادر اور ذمے دار لوگوں کی کمی نہیں، اگر اس محکمے کے عمومی کلچر' تربیت اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کی سنجیدہ اور مخلصانہ کوشش کی جائے تو یہ اپنے طور پر بھی دہشت گردی کا رستہ روک سکتے ہیں۔

دوسری طرف یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ فیس بک اور سوشل میڈیا پراب دہشت گردوں نے اپنی مذموم کارروائیوں کی ذمے داری قبول کرنے کے ساتھ ساتھ ویڈیوز کی شکل میں اپنی ٹریننگ' نظریات اور اہداف کے علاوہ ویڈیو کی شکل میں اپنی میٹنگز بھی دکھانا شروع کر دی ہیں ،اگر یہ سارا مواد اصلی ہے تو آج کے اس جدید ترین ٹیکنالوجی کے دور میں ان کی نشاندہی اور روک تھام کیوں نہیں ہو سکتی کہ اب تو چند انچوں کی وسعت کے حامل اہداف بھی ٹیکنالوجی کی پہنچ سے باہر نہیں رہے' ان لوگوں کی اس دیدہ دلیری پر مذہبی جنونی یا مختلف وجوہ کی بنا پر فرسٹریٹڈ اور بے روز گارنوجوان نسل کی سوچ پر کس قدر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔

اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے یاد رکھنا چاہیے کہ زور و زر سے کچھ معترضین خریدے یا وقتی طور پر خاموش تو کرائے جا سکتے ہیں مگر وقت کا فیصلہ اور عوام کا راستہ دونوں ہی بدلے اور روکے نہیں جا سکتے اور یہ کہ ان زہر ہلاہل کو قند کہنے والی قوتوں کی آنکھیں بدلنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگتا اور آپ کو تو اس کا ذاتی سطح پر بھی تجربہ ہو چکا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔