امریکی ہتھکنڈوں کے شکارممالک… دوسرا حصہ

روس کی سرحدوں سے تمام یورپی ممالک جڑے ہوئے تھے یا قریب تھے

k_goraya@yahoo.com

روس کی سرحدوں سے تمام یورپی ممالک جڑے ہوئے تھے یا قریب تھے۔ ویزا سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے لینن ان ملکوں میں جاتا رہا اور یورپی ملکوں کے مزدوروں سے مسلسل ملتا رہا، جس کی وجہ سے تمام یورپی ملکوں میں مزدوروں کی بیداری پھیل گئی۔


جس طرح تین شہنشاہوں نے 1872ء میں ''مقدس اتحاد'' بناکر مزدور انقلاب کو روکنے کے لیے اتحاد بنایا تھا، اسی طرح جب پورے یورپ میں صنعتی کلچر جوں جوں پھیل رہا تھا توں توں مزدوروں میں غربت بڑھتی جانے پر مارکس کی تھیوری سرپلس سرمایہ کی افادیت پھیلتی اور بڑھتی گئی۔ مزدور انقلاب کو روکنے یا ''انگیج'' کرنے کے لیے تمام یورپی حکمرانوں نے پہلی عالمی جنگ کی ''شطرنجی بساط'' تیارکرلی۔

ایک طرف اپنے اپنے صنعتی کلچرکے فروغ کے لیے خام مال سے بھرپور غلام علاقوں کو حاصل کرنا تھا۔ دوسری طرف مارکسی، لیننی (پرولتاری) مزدور انقلاب یا سوشلزم کی مزدوروں کو جنگ میں انگیج کرکے ان کی بیخ کنی کرنی تھی۔ لینن نے پہلی عالمی جنگ کی شدید مخالفت کی تھی کہ جنگ عوام اورمزدوروں کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ پہلی عالمی جنگ 28 جولائی 1914ء کو شروع ہوئی اور 11 نومبر 1918ء کو جرمنی کے ہتھیار ڈالنے پر بند ہوگئی۔

روس میں شدت جنگ کی وجہ سے لوگ بھوکے مرنے لگے۔ آخر کار 25 اکتوبر 1971ء کو مزدوروں، سپاہیوں، زار مخالف فوجی دستوں نے مل کر مسلح بغات کرکے زارکے ''سرما محل'' پر قبضہ کرلیا۔ تمام ملکی اداروں کا انتظام سنبھال لیا۔ انقلابیوں نے تمام جاگیریں چھین کرکسانوں میں مفت تقسیم کردیں۔ کارخانوں پر مزدوروں نے قبضہ کرلیا۔ کارخانوں میں کام کے اوقات کار 8 گھنٹے مقررکردیے گئے۔ علاج کی سہولتیں تمام شہریوں کو مفت اور تعلیم مفت کردی گئی۔ تمام شہریوں کے معاشی تحفظ کی ذمے داری حکومت نے اٹھالی۔

جنگ اور انقلاب کے دوران لینن نے سامراجیوں سے اپیل کی کہ وہ جرمنی سے صلح کرلیں۔ اتحادی نہیں مانے۔ 3 مارچ 1918ء کو روس نے جرمنی سے معاہدہ ''برسٹویٹوسک'' کرکے کافی علاقے جرمنی کو دے کر جنگ سے مکمل علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ 1918ء میں امریکا، برطانیہ، فرانس اور جاپان روس پر فوجیں لے کر چڑھ دوڑے تاکہ سوشلسٹ انقلاب کو آگے بڑھنے سے روکا جائے۔ اس کا جواز یہ بتایا گیا کہ زار نے جو قرضے لیے تھے ان کی واپسی کے لیے حملہ آور ہوئے ہیں لیکن لینن اور اسٹالن کی قیادت میں مزدوروں اور فوجیوں نے مل کر اس بڑے حملے کو ناکام کردیا۔

دوسرے یورپی ملکوں کے مزدور بھی جدوجہد میں مصروف تھے۔ ہنگری میں 21 مارچ 1919ء سے یکم اگست 1919ء تک کارخانوں، ٹرانسپورٹ، بینکوں کو مزدوروں نے تحویل میں لے لیا تھا۔ زمینیں ضبط کرکے کسانوں میں بانٹ دی گئی تھیں۔ ہنگری کی اشرافیہ نے سامراجیوں سے مدد مانگی سامراجی اتحادی ملکوں کی فوجوں نے ہنگری کی ناکہ بندی کرکے حملے کرکے انقلابیوں کو ہلاک اور ہزاروں کوگرفتارکرلیا۔ فن لینڈ میں 27 جنوری 1918ء کو مزدوروں نے انقلاب برپا کرکے بے زمین کسانوں میں زمینیں تقسیم کردیں۔

سامراجی فوجوں نے مداخلت کرکے مئی 1918ء کو کئی ہزار انقلابیوں کو قتل اور ہزاروں کو قیدی بنالیا۔ روس میں کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں تیزی سے ترقی ہوتی گئی۔ چونکہ روس میں حکومت میں کردار مزدوروں اور دانشوروں کا زیادہ تھا، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ کلچر کا خاتمہ کردیا گیا تھا۔ امریکا پہلی عالمی جنگ کے دوران تیزی سے تمام یورپی ملکوں کی معیشت اور مالیاتی سسٹم کو کاغذی ڈالر کا قیدی بناچکا تھا اور جوں جوں ملکوں میں صنعتی کلچر پھیلتا گیا توں توں ان ملکوں میں اداروں پر سرمائے کی جکڑ پھیلتی گئی۔

برطانوی، فرانسیسی، جرمنی، جاپانی، اٹلی اپنا سابقہ عالمی مقام کھو بیٹھے۔ ان تمام کی جگہ امریکی عالمی سامراج پہلی عالمی جنگ سے آج تک پھیلتا گیا ہے۔ سوشلزم کیوں ناکام ہوا؟ یا اسے ناکام کیونکر کردیا گیا؟ کارل مارکس کا نظریہ ''پرولتاری ڈکٹیٹر شپ'' میں قائم ہونے والی حکومت میں سرمایہ داروں جاگیرداروں کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اس لیے یورپی وامریکی سرمایہ کاروں کے لیے ''سرپلس سرمایہ'' کی تھیوری موت تھی۔ اس لیے روس اور یورپی ملکوں میں مزدوروں کے انقلاب کو روکنے کے لیے عالمی سامراجیوں نے اپنے اپنے ملکوں کے مزدوروں، عواوم کو انگیج کرنے کے لیے پہلی عالمی جنگ کا میدان سجایا تھا۔ ان کے ذہنوں پر پرولتاری انقلاب کا خوف اتنا زیادہ تھا کہ جنگ کے لیے معاشی منصوبہ بندی تک نہیں کی گئی۔

اس جنگ کا تمام تر مالیاتی و معاشی فائدہ امریکا نے اٹھایا۔ دوران جنگ امریکا نے یورپی ملکوں کے کرنسی ایکسچینج بحران کا فائدہ اٹھاکر ان ملکوں کی معیشت اور مالیاتی سسٹم میں کاغذی ڈالر داخل کردیے تھے۔ تباہ حال یورپ کو امریکا اژدھے یا Dragon کی طرح نگلتا گیا۔


کتاب International Currency Experience by League of Nations Reprinted by United Nations 1944 کے صفحے 235 کے مطابق 1924ء میں 24 ملکوں کے پاس ڈالر بطور فارن ایکسچینج ریزرو کے 845.0 ملین ڈالر تھا۔ گولڈ ریزرو 2281.0 ملین ڈالر تھا۔ 1928ء تک ان ملکوں کے پاس کاغذی ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو 2520.0 ملین ڈالر ہوگیا تھا اور گولڈ ریزرو 3490.0 ملین ڈالر ہوگیا تھا۔ امریکا نے پہلی عالمی جنگ کے دوران یورپی ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتیں ڈالر کے مقابلے میں سونا لے کر اور امریکی کاغذی ڈالر کے قرضے دے کر مقرر کرنا شروع کردی تھیں۔ کتاب یورپین کرنسی اینڈ فنانس ''حصہ دوم'' کے صفحہ 92 پر لکھا ہے:

"The allied countries protected the exchange in the United States, before the United States enterred the war, they sent gold to New York, and obtained dollar loan through American Banking houses."

کے صفحے 287 پر لکھا ہے

"The Swiess Government in August, 1923 placed a loan in New York for 20.0 million dollar in an effort to support the Swiss France."

متحارب ملکوں کی کرنسیاں فارن ایکسچینج ریزرو کے طور پر رکھی جاتی تھیں اور برطانوی پونڈ کو عالمی کرنسی کا درجہ حاصل تھا۔ جنگ کے دوران اور بعد میں امریکا عالمی مالیاتی سامراج بنتا گیا۔ متذکرہ کتاب کے صفحے 95 پر لکھا ہے کہ امریکا نے 15 دسمبر 1923 کو باقاعدہ یورپی ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں کو کاغذی ڈالر کے مقابلے میں مقرر کرنے کے لیے Exchange Equalization Fund کا ادارہ قائم کرلیا تھا اور دسمبر 1945ء کو پوری دنیا کے مالیاتی سسٹم یا کرنسیوں کو امریکی کاغذی ڈالر کا قیدی بنانے کے لیے International Monetary Fund قائم کرلیا تھا۔

امریکا نے پہلے یورپی ملکوں کی معیشت کو ہڑپ کیا۔ جس کے نتیجے میں یورپی ملکوں میں عالمی معاشی بحران 1930ء کو پیدا ہوا۔ کرنسیوں کی قیمتوں میں ڈالر کے مقابلے میں کمی کے نتائج امریکا کے حق میں فائدہ اور دوسرے ملکوں کی معیشتوں کی مسلسل نفی کی شکل میں سامنے آتا گیا۔ یہاں پر ثبوت کے طور پر پاکستان کی معیشت پر ڈالر کی گرفت کے نقصانات دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاکستان 14 اگست 1947ء کو وجود میں آیا۔ پاکستانی کرنسی 3.308 روپے کا ایک کاغذی ڈالر تھا۔

پاکستان کی حکومت نے IMF کے حکم پر جولائی 1955ء کو 4.762 روپے کا ایک کاغذی ڈالر کر دیا تھا۔ روپے کی قیمت میں کمی 44 فیصد کردی گئی۔ عوام کو بتایا گیا تجارت بڑھانے کے لیے روپے کی قیمت میں کمی کرنا ضروری تھا۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ حکومت نے عوام سے جھوٹ بولا تھا۔ یہ Currency Devaluation Minus Economic Development کا فارمولا تھا۔

حکومتی پیش کیے گئے بجٹوں کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال اپریل 1955ء سے مارچ 1956ء کے مطابق ایکسپورٹرز نے غیر ملکی منڈی کے مقابلے میں کم سے کم ڈالر ریٹ پر پاکستانی اشیا فروخت کرکے 45 کروڑ 86 لاکھ روپے یا 13 کروڑ 86 لاکھ 33 ہزار 6 سو 15 ڈالر حاصل کیے تھے۔ ان ڈالروں پر پاکستان میں ڈالر ٹریڈنگ کرکے فی ڈالر 1.454 روپے کا نفع 20 کروڑ 16 لاکھ روپے میں حاصل کرلیا تھا۔ اس طرح سڈمڈ کے فارمولے کا فائدہ عوام کو نہیں ملا۔

پاکستانی روپے کی قیمت میں کمی 44 فیصد کی نسبت سے مالی سال 1956-57ء کو باہر سے پٹرولیم مصنوعات (کتاب IFS 1979کے صفحہ 76-77 کے مطابق) 1956ء میں ایک بیرل پٹرول اوسطاً 1.63 ڈالر تھا۔ روپے کی قیمت میں کمی سے قبل پاکستان 3.308 روپے فی ڈالر کے حساب 5.39 روپے کا پٹرول فی بیرل لے رہا تھا۔
Load Next Story