حکمرانوں کو قومی زبان کے فروغ میں کوئی دلچسپی نہیں ڈاکٹر اسد اریب

بچوں کے ادب کو جو اہمیت دی جانی چاہیے تھی وہ نہیں دی گئی، معروف ادیب

معروف ادیب‘ نقاد اوراستاد ڈاکٹر اسد اریب سے مکالمہ۔ فوٹو: فائل

بدایوں کے مردم خیز خطے سے تعلق' خاندان میں کئی نسلوں سے علم و ادب کی روایت، مورث اعلیٰ قاضی صدر الدین صدر سبزوار سے وارد ہند ہوئے، بلبن بادشاہ نے دیوان انشاء کا منصب عطا کیا، بربنائے علم عہد برطانیہ تک یہ عہدہ اسی خاندان کے پاس رہا۔ خاندان کے بزرگوں کا تذکرہ قدرت اللہ قاسم کی مجالس الاسرار سے لے کر تاریخ فرشتہ تک میں موجود۔ کہتے ہیں عہد سلاطین میں دیوان انشاء ادبیات کی امارت کا نام تھا جو عدلیہ کے فیصلوں، خُطب سلطانی، شاہی حکم ناموں، مراسلات و مکتوبات کا ایک دفتر خاص کہلاتا، جو عالم دیوان انشاء مقرر کیا جاتا' بولنے اور لکھنے کے سرکاری معاملات کی ترجمانی بھی کرتا۔

وہ ملتان میں یوپی کی تہذیب کے نمائندے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی نشست و برخاست' چلنا' پھرنا' لباس اور گفتگو ایک خاص تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے۔ بدایوں سے اٹھے تو لاہور کو اپنا مسکن بنایا، 60ء کی دہائی میں ایم اے اردو کرنے سے پہلے ہی تصنیف و تالیف کی طرف آچکے تھے، پی ایچ ڈی کے لیے ''اردو میں بچوں کا ادب'' کے موضوع پراہم نوعیت کا کام کیا' رثائی ادب پر گراں قدر کام کے ساتھ ساتھ مذہبی موضوعات پر بھی پانچ کتابیں تصنیف کیں۔

مختلف ملکوں کے سیاحتی تجربات کو بھی تحریر کی صورت میں سامنے لائے۔ یہ تذکرہ ہے برصغیر میں پہلی مرتبہ بچوں کے ادب پر سنجیدہ نوعیت کا تنقیدی و تحقیقی کام کرنے والے ادیب' نقاد اور استاد ڈاکٹر اسد اریب کا، آئیے ان کے احوال زیست کی طرف بڑھتے ہیں:

ڈاکٹر اسد اریب 1939ء میں بدایوں کے تاریخی محلہ قاضی ٹولہ میں پیدا ہوئے' خاندان سبزوار کی نسبت سے سبزواری کہلاتا۔ والد حضرت احسن بدایونی، عبدالرحمن راسخ دہلوی کے شاگرد جو شاعر و ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی دانشوربھی تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر منشی علی محمد سے حاصل کی' کچھ عرصہ ملا عین اللہ شاہ کے مدرسہ میں رہے، بعد ازاں ایک اور مشہور دینی مدرسہ ''شمس العلوم گھنٹہ گھر'' میں داخلہ لیا جہاں غلام رسول نتھن صاحب سے عربی صرف ونحو کی تعلیم حاصل کی، پھر اسلامیہ ہائی سکول میں 1950ء تک زیرتعلیم رہے۔ 1950ء میں بدایوں سے ہجرت کے وقت آٹھویں درجے میں پڑھتے تھے، ہجرت کے بعد ان کا خاندان لاہور میں آباد ہوا تو تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔

ایمپریس روڈ کے مسلم لیگ ہائی سکول سے میٹرک کیا، کچھ عرصہ دیال سنگھ کالج میں پڑھتے رہے' باقی تعلیم پرائیویٹ حاصل کی۔ 1959ء میں پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا جہاں سے 1961ء میں ایم اے اردو کیا، کہنے لگے '' وہ زمانہ بڑا اچھا تھا ہمیں پڑھانے والے اساتذہ وہ تھے جو پڑھ کر پڑھانے آتے تھے' جان قربان ان اساتذہ پر' میرے اساتذہ میں سید وقار عظیم، ڈاکٹر عبادت بریلوی، غلام حسین ذوالفقار ،ڈاکٹر وحید قریشی ،ڈاکٹر افتخار صدیقی اور ڈاکٹر محی الدین شامل تھے، ڈاکٹر صادق ہمارے انگریزی کے استاد تھے یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ہمیں علم دیا۔ ان دنوں یونیورسٹی کا ماحول بہت اچھا تھا' لڑکے لڑکیاں ساتھ پڑھتے تھے' اتنا ضرور تھا کہ ڈاکٹر سید عبداللہ نے ایک ''دیوار حرم'' قائم کر دی تھی اور اس دیوار کے پیچھے ہماری ہم نشیں لڑکیاں ہوتی تھیں ۔''

ڈاکٹر اسد اریب جن کا تعلق بدایوں کے ایک زمیندار گھرانے سے تھا جب پاکستان آئے تو حالات کی سختی ان کی منتظر تھی کہنے لگے ''ہم پیٹ بھر کر کھانا کھانے والے اور پورے کپڑے پہننے والے لوگ تھے' جب یہاں آئے تو اجڑ گئے آہستہ آہستہ ہم اپنے پیروںپرکھڑے ہوئے۔''

ڈاکٹر اسد اریب نے اپنی زندگی میں ادب کی مختلف جہتوں میں کام کیا' ان کے تنقیدی و تحقیقی کام کا آغاز میر انیس پر ان کی کتاب ''نقد انیس'' سے ہوا' یہ کام انہوں نے 1954ء میں اپنے طالب علمی کے زمانے میں شروع کیا' یہ کتاب 1981ء میں لاہور سے شائع ہوئی' بعدازاں یہ کتاب دلی میں بھی شائع ہوئی۔ رثائی ادب پر ان کا ایک اور گراں قدر کام ''اردو مرثیے کی سرگزشت'' ہے ۔ڈاکٹر اسد اریب کے دو سفر نامے ''دنیا سفر میں ہے''اور ''خنجراب سے دیوار چین تک'' بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا ایک مجموعہ ''کانٹوں پر زبان'' کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

ڈاکٹر اسد اریب نے اردو رسم الخط' تلفظ اور خوش خطی کے فن کارانہ ضابطوں پر بھی مضامین لکھے ۔ ڈاکٹر اسد اریب نے جو پاکستان میں بچوں کے ادب کے حوالہ سے اتھارٹی ہیں' بچوں کے ادب پر اپنے تحقیقی کام کو الگ الگ موضوعات کے حوالے سے بھی مرتب کیا' اس سلسلہ میں ان سے ایک اہم کام انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ دعوۃ نے کرایا جہاں بہت سے سیمینارز میں انہوں نے لیکچر دیئے اور نئے لکھنے والوں کی رہنمائی کیلئے ''بچوں کے ادب میں نئے رحجانات'' کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی۔



2013ء میں ڈاکٹر اسد اریب کی مرتب کردہ اردو لغت ''ارشاد الاریب'' کے نام سے شائع ہوئی۔

ڈاکٹر اسد اریب نے مذہبی ادبیات کی مختلف جہتوں میں بھی کام کیا' مذہبی موضوعات پر شائع ہونے والی اپنی کتابوں کے بارے میں بتایا '' مذہب سے مجھے اس لیے بھی قربت ہے کہ میری عربی اور فارسی کی تعلیم مشترک ہے میں نے عربی، فارسی اور اردو کے اشتراک سے مذہب کو بھی قریب سے دیکھنا شروع کیا'' اس سلسلے کی میری پہلی کتاب ''حرف دعا'' ہے جو دعا کی تاثیر اور گرمی وزن پر ہے۔ اس کے بعد میری ایک کتاب ہے ''الفرق الشیعہ'' اس کتاب کا موضوع یہ ہے کہ فرقے کس طرح عقائد کی بنیاد پر تقسیم ہوتے ہیں اور ان کے درمیان کیا کیا غلط فہمیاں ہوتی ہیں۔

میری ایک اور کتاب '' مسئلہ تقلید'' کے عنوان سے ہے، اس میں' میں نے یہ نقطہ نظر پیش کیا ہے کہ علم الاطلاع اور آگہی کی بنیاد پر آپ تقلید کے بجائے اپنے ذاتی فیصلوں پر کہاں کہاں عمل کر سکتے ہیں ۔ برصغیر میں عزا داری میںجو لفظیات استعمال ہوتی ہیں وہ بڑی ناپید ہیں اور عام لوگوں کے علم اور اطلاع سے باہر ہیں، اہل علم جاننا چاہتے ہیں کہ ان اسماء کی توجیہہ کیا ہے اس موضوع پر میں نے جو کام کیا اس کا نام ''لغات العزا'' رکھا ۔ ''تہذیب غم'' کے نام سے جو میری کتاب ہے اس کا موضوع بھی وہ افکار ہیں کہ جس میں انسان کی جبلت مذہب سے متاثر ہو رہی ہے یا جو جبلتیں مذہبی خیالات سے پیدا ہوتی ہیں، ان میں تخلیق ادب سے کہاں کہاں وسعت پیدا ہوتی ہے چنانچہ ''تہذیب غم '' میں' میں نے کئی حوالے دیئے ہیں' اردو کے قدیم اشعار' افسانے' نظم' حکایتوں اور ڈراموں سے بہت کچھ اخذ کیا ہے' ان شاعروں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے مذہبی موضوعات پر نظمیں لکھیں۔

رثائی ادب لکھا' خاص طور پر نثری ادب لکھا۔ ''معراج العاشقین'' کا ادب بھی تہذیب غم کی طرف جاتا ہے، فضلی کی ''دَہ مجلس'' بھی۔ پھر جدید دور کے لکھنے والے شاعروں' ادیبوں تک کے مذہبی تفکر کا جائزہ لیا ہے جنہوں نے اپنی تحریروں میں مذہبی احساسات کو سمویا۔ ''ثانی زہرا'' میں' میں نے ایک شخصیت کو انفرادیت کے ساتھ اجاگر کیا ہے اور ان سے منسوب بہت سی چیزوں کو سامنے رکھا ہے ۔''

ہم نے پوچھا کہ آپ کے نزدیک اردو میں بچوں کے ادب کے حوالہ سے اہم کام کرنیوالے کون کون سے لوگ ہیں تو کہنے لگے: ''یہ تو تسلیم شدہ ہے کہ پہلے بچوں کا ادب بے ترتیب تھا اب بالترتیب ہے' ظاہر ہے کہ ہمیں فورٹ ولیم کالج نے ادب کی ترتیب کی راہیں دکھا دی تھیں' 19 ویں صدی کے آغاز میں میرے نزدیک سب سے اہم کام ڈپٹی نذیر احمد کا ہے پھر ان سے متاثر ہو کر حالی نے بہت اہم کام کیا۔ ڈپٹی نذیر احمد کی تحریروں میں سے بہت سی چیزیں بچوں کیلئے نکل آئیں' تھیں وہ بڑوں کے لئے جیسے ان کے ناول ''ابن الوقت'' میں سے کچھ باب نکل آئے بچوں کیلئے جو آج بھی نصاب کا حصہ ہیں جن میں بچوں کیلئے اخلاقیات بھی ہے' مزاح بھی پیکر تراشی بھی ہے اور شخصیت نویسی بھی' اسی طرح حامد اللہ افسر میرٹھی نے نظم میں بچوں کیلئے کام کیا ہے۔

اسماعیل میرٹھی نے حمد کے نثری مضامین کو اخلاقیات کی طرف منتقل کر دیا اور آج بھی باوجود اس کے کہ بچوں کا ادب بہت ترقی کر چکا ہے لیکن شاعری میں کوئی بھی اسماعیل میرٹھی سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ اسماعیل میرٹھی بچوں کے ادب میں آج بھی بہت آگے ہیں۔ صوفی تبسم نے بڑا کام کیا' حامد اللہ افسر میرٹھی کا بھی میں نے نام لیا' ڈپٹی نذیر احمد اور حالی نے بھی کام کیا' میں تو کچھ اجزاء اکبر الہ آبادی کے بھی بچوں کے ادب کی طرف لے جاتا ہوں' اقبال نے بھی بچوں کیلئے کام کیا ہے لیکن اسماعیل میرٹھی کے سامنے یہ سب چھوٹی لو کے چراغ ہیں' اسماعیل میرٹھی نے کیسے کیسے مضامین اور باتیں دی ہیں اردو شاعری کو:

آب رواں کے اندر مچھلی بنائی اُس نے
مچھلی کے تیرنے کو آب رواں بنایا


پتہ ہی نہیں چل رہا کہ کون سی شے پہلے بنائی گئی ہے:

جو ہچکچا کے رہ گیا وہ رہ گیا ادھر
جس نے لگائی ایڑ وہ خندق کے پار تھا

دیکھیں خندق کے اوپر جمپ کرنے کا منظر دکھا دیا ہے پورا' یہ کیسے خوبصورت اشعار ہیں، دل چاہتا ہے پاکستان کے اعلیٰ ترین خطاط ان اشعار کو دیواروں پر لکھ دیں۔ راجہ مہدی علی خان کی کتاب ''انداز بیاں اور'' میں ان کی کئی نظمیں بچوں کے ادب کا معیار قائم کرتی ہیں ۔ مرزا ادیب اور حامد علی خان نے بھی خاصا کام کیا ہے' عظیم قریشی نے بھی بچوں کے نئے ادب کے لئے کام کیا ہے ''اور بچے گاتے رہے'' ان کی معروف کتاب ہے۔

''بانسری'' کے نام سے عظمت اللہ خان کا بھی بڑا اچھا کام ہے' ہندوستان میں ڈاکٹر ذاکر حسین' غلام ربانی تاباں' محمد شفیع اور عبدالحئی کا بھی بچوں کے ادب پر کام ہے۔ ہمارے ہاں بچوں کے ادب کو جو اہمیت دی جانی چاہیے تھی وہ نہیں دی گئی' بچوں کے ادب کے رسائل بھی نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں صرف ''نونہال'' ہے جو بچوں کے ادب کے لئے مستقل مزاجی سے کام کر رہا ہے۔ یہ کام اصل میں ریاستوں کا ہوتا ہے' ہمارے ہاں بچوں کے ادب کا کوئی ادارہ بھی مضبوط نہیں ہے۔ آپ کو نقاد تو بہت ملیں گے لیکن بچوں کے ادب کا کوئی نقاد بھی نہیں ملے گا۔ ''

ان کا کہنا ہے'' جس ملک کے نشریاتی اداروں سے لوگ کبھی زبان سیکھتے تھے اور خبریں پڑھنے والوں سے زبان کی صحت کا معیار قرار دے کر اصلاح لیتے تھے' آج وہ نشریاتی ادارے غلط زبان بول رہے ہیں۔ آج ملک کو بنے 70سال ہو رہے ہیں لیکن کوئی حکمران زبان کے قومیانے کی طرف متوجہ نہیں جب ریاستیں اور حکمران غافل ہو جاتے ہیں تو کوئی بھی تہذیب زندہ نہیں بچ سکتی' کوئی قومی وقار باقی نہیں رہ سکتا۔''

مولانا صلاح الدین احمد کی اردو زبان سے محبت کے متعلق یہ واقعہ ہمارے گوش گزار کیا۔ ''صدر ایوب خان نے اپنے دور صدارت میں لاہور کے موچی دروازہ میں ایک سیاسی جلسہ سے پنجابی میں خطاب کیا' ان کا پنجابی میں تقریر کرنے کا مقصد لوگوں کو اپنے قریب لانا تھا' اگلے روز ادبی دنیا کے ایڈیٹر مولانا صلاح الدین احمد جو خالص پنجابی تھے' شیروانی پہنے مال روڈ کے ایک ہوٹل میں بیٹھے انتہائی غیظ و غضب کا شکار تھے' ان کے منہ سے شعلے نکل رہے تھے کہ ''صدر مملکت نے کیا سمجھا ہے ہم اردو نہیں سمجھتے' اردو پنجاب کی زبان ہے۔

اردو ہماری زبان ہے' لاہور کی زبان ہے' اردو کا سب سے بڑا ادبی پرچہ ادبی دنیا لاہور سے نکلتا رہا' زمیندار لاہور سے نکلتا رہا اردو کی اہم ترین کتابیں لاہور میںچھپتی ہیں۔ ''عمدۃ البیان'' یہاں سے چھپی اردو کا سارا ادب یہاں سے جنم لیتا ہے اور وہ ہمیں احساس دلا کر جا رہے ہیں کہ ہم اردو نہیں جانتے۔''

ڈاکٹر اسد اریب 1961ء میں ایس ای کالج بہاولپور میں اردو کے لیکچرار تعینات ہوئے' بعدازاں گورنمنٹ کالج حیدرآباد' گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھایا۔ 1970ء میں ایمرسن کالج ملتان آئے جہاں سے 2000ء میں صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ پہلی شادی 1963ء میں ہوئی جس سے 3 بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے' پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی 2000ء میں اردو نظم کی معروف شاعرہ ماہ طلعت زاہدی سے کی۔

اردو میں بچوں کے ادب کے بار ے میں بات چیت

ڈاکٹر اسد اریب کے تحقیقی و تنقیدی کاموں میں جس کام کو بہت زیادہ شہرت حاصل ہوئی' وہ ان کا ''اردو میں بچوں کا ادب'' کے موضوع پر لکھا جانے والا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے' اس مقالہ میں ڈاکٹر اسد اریب نے برصغیر میں بچوں کے ادب کا ابتدائی زمانہ سے نہ صرف احاطہ کیا ہے بلکہ بچوں کے ادب کے اہم ترین لکھاریوں' ان کے موضوعات اور انداز و اسلوب پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے' ہم نے ان سے پوچھا کہ بچوں کے ادب ایسے سنجیدہ موضوع پر انہیں تحقیق و تنقید کا خیال کیسے آیا اور آپ نے کس عہد سے بچوں کے ادب کا احاطہ کیا تو کہنے لگے:

غالباً اس موضوع پر میرا کوئی مضمون شائع ہوا تھا جسے دیکھ کر ڈاکٹر سید عبداللہ نے مجھے ٹیلی گرام بھیج کر بلایا' میں ان دنوں صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں لیکچرار تھا' میں ان سے ملا تو انہوں نے مجھے پی ایچ ڈی کے تھیسز کی پیشکش کر دی اور کہا آج تک برصغیر میں بچوں کے ادب پر کام نہیں ہوا یہ کام تم کرو گے' سو میں نے یہ کام شروع کر دیا جو 1967ء میں مکمل ہوا۔ میں جب بچوں کے ادب پر بات کا آغاز کرتا ہوں تو وہ برصغیر سے شروع ہوتی ہے اور برصغیر میں میری تحقیق یہ ہے کہ اردو کا پہلا مصدر جو ہے وہ پنجاب ہے۔

برصغیر میں اردو میں بچوں کا ادب جو میں نے تلاش یا دریافت کیا ہے وہ امیر خسرو کی خالق باری سے بھی پہلے میں نے ''ام الصبیان'' کا ذکر کیا ہے' ان کتابوں کا جو نصاب سے متعلق ہیں' ان میں ایک نصاب ملا لاہوری کا جو تین زبانوں کا ہے' ہندی' دیسی یعنی پنجابی اور اردو' یہ بات ہے' قطب شاہی عہد کے قریب قریب کی' جب چھوٹے چھوٹے مدرسے آغاز کر رہے تھے۔ پھر پنجاب میں صوفیاء موجود تھے' ان میں ایک شخص ملا لاہوری بھی ہے غالباً وہ آٹھویں یا نویں صدی ہجری کا آدمی ہے' اس تعلیم میں اردو تو نہیں لیکن اردو کی طرف سفر ہے' ہندوستان بھی اس میں آتا' امیر خسرو بھی آتے ہیں' دکن کا علاقہ بھی آتا ہے جسے شمالی ہند کہتے ہیں' وہاں سے جہاں سے اردو کا آغاز ہوتا ہے۔

معراج العاشقین جہاں سے شروع ہوتی ہے دہ مجلس جہاں سے شروع ہوتی ہے' یہ وہ ابتدائی ادب ہے جس میں کہانیاں بھی ہیں' قصے بھی ہیں اور بچوں کیلئے اخلاقیات بھی ہیں' پھر تھوڑا سا ریفارمرڈ ادب تھوڑا سا تربیت یافتہ ادب' وہ ظاہر ہے کہ فورٹ ولیم کالج سے شروع ہوتا ہے۔ وہاں ایک شخص بلوم ہارٹ جو بہت بڑا ادیب ہے' اس نے انگریزوں کی اردو تعلیم کیلئے کتابیں مرتب کیں پھر جعفر حسین کی کتابیں ہیں جو اردو اور انگریزی کے مابین ابتدائی تعلیم کی کتابیں ہیں' کچھ جو اصل میں ابتدائی تعلیم کی کتابیں ہیں بچوں کی طرف منتقل ہو گئیں کیونکہ انگریزوں کی جو ابتدائی تعلیم تھی وہ ورنیکلولر طور پر سامنے آئی' وہ بھی بچوں کے ادب میں شمار ہونے لگیں۔

پھر سلسلہ اور بڑھا تو ہمارے ادب میں ایک بہت بڑا نام آیا ڈپٹی نذیر احمد کا انہوں نے نثر میں اور شاعروں میں اسماعیل میرٹھی کا نام آیا جو ڈپٹی نذیر احمد سے بعد کے زمانے کے ہیں اور اس سارے درمیانی عرصے میں ہمارا جو افسانوی ادب ہے وہ بھی مرتب ہوتا رہا وہ جو ماؤں نے بچوں کو گود میں لے کر انہیں سنایا۔ احمد سنی ایک بہت بڑا شاعر ہے اس نے لوریاں لکھی ہیں' اس طرح بہت سی لوریاں اور ''لولی نامے'' لکھے گئے یہ وہ زمانہ ہے جسے آپ اردو میں بچوں کے ادب کا ابتدائی زمانہ قرار دیں گے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ بچوں کا ادب اصل میں ماں کے گہوارے سے شروع ہوتا ہے' ماں بچے کو جھلا رہی ہے گہوارہ چلا رہی ہے اور ظاہر ہے کہ انسان نثر کی نسبت نغمے سے زیادہ متاثر ہوتا ہے' نظم زیادہ قریب آ کر بھنبھناتی ہے' کان کو زیادہ بھلی لگتی ہے اور دماغ کے اندر زیادہ لہریں لیتی ہے۔

بچوں کے ادب کا آغاز بھی انہی سے ہوا کہ ماؤں نے جو لوریاں سنائیں وہ منظوم تھیں چاہے وہ مذہبی ہوں' موسمی ہوں یا چاہے وہ امید اور خوشی کی تمناؤں کے اظہار کی منظوم کہانیاں ہوں' ہمارا جو ادب انگریز کے آنے کے بعد شائع ہوا ہے اس میں الف لیلوی کہانیوں کا عنصر زیادہ ہے' یہ الف لیلوی کہانیاں جو بچوں کے ادب کا حصہ بن گئیں آج بھی ہمارے کلچر کا حصہ ہیں' آج بھی جو کہانیاں گردش کر رہی ہیں یہ سب الف لیلوی کہانیاں ہیں۔ ہمارے ہاں یہ کہانیاں باہر کے ادب سے آئیں اور ظاہر ہے فورٹ ولیم کالج کے دور میں یہ ادب منتقل ہونا شروع ہوا' گوتم کی جاتک کہانیاں جن میں اس نے دنیا سے نسبت توڑکر اپنے اندر کی کائنات کو محسوس کرنے کا پیغام دیا' اسی طرح جنوں' بھوتوں اور ماورائے مخلوق کی کہانیاں ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ جنوں' بھوتوں اور ماورائی مخلوق کی کہانیاں نقصان دہ ہرگز نہیں ہیں جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں۔

فکر کی گہرائی یہ کہتی ہے کہ ان سب کہانیوں میں کوئی نہ کوئی پیغام موجود ہے' مثلاً اپنی طاقت سے زیادہ وزن اٹھانا یہ ان کہانیوں کا موضوع ہے چھوٹا سا آدمی پہاڑ اٹھا لیتا ہے گویا یہ پیغام ہے کہ اس بات کا امکان موجود ہے جنوں' بھوتوں اور ماورائے مخلوق کی کہانیاں بچوں کو یہ تعلیم دے رہی ہیں کہ وہ بڑے بڑے کام کر سکتے ہیں ۔سائنسی کہانیاں اپنی جگہ لیکن فلکی مجسّموں اور فلکی مخلوقات کی کہانیاں جو ایک گلائیڈر کی شکل میں نیچے آتے ہیں اور کوئی کام کرکے چلے جاتے ہیں۔

یہ بھی ماورائے مخلوق جنوں' بھوتوں کی کہانیاں ہیں جو بچوں کو ماورائیت سے آشنا کرتی ہیں' بچے ماورائے مخلوق کی کہانیوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ لوگ ایسی کہانیوں کی مخالفت کرتے ہیں لیکن ایسی کہانیاں بچوں کے ہاں قوت متخیّلہ بڑھاتی ہیں' بہت فائدہ دیتی ہیں باقی سائنٹیفک آرڈر یا ریاضی کے تناظر میں جو کہانیاں ہیں وہ بھی ختم نہیں کرنی چاہئیں۔
Load Next Story