طالبان کے حملے کے بعد صوابی کا کمیونٹی سینٹر بدستور بند

ہمارے بچوں کے مستقبل کا کیا بنے گا ، کون انہیں پڑھانے آئیگا، والدین کی بی بی سی سے گفتگو.

ہمارے بچوں کے مستقبل کا کیا بنے گا ، کون انہیں پڑھانے آئیگا، والدین کی بی بی سی سے گفتگو. فوٹو: اے ایف پی/ فائل

خیبرپختونخوا میں فلاحی کام کرنے والی تنظیم کے صوابی میں قائم اجالا کمیونٹی سینٹر میں زیرتعلیم بچوں کے والدین نے بی بی سی سے بات چیت میں طالبان کے حملوں کے حوالے سے کہا ہے کہ ہمارے بچوں کے مستقبل کا اب کیا بنے گا۔

کون انہیں پڑھانے آئے گا، ان کے دو ماہ بعد سالانہ امتحانات ہونے تھے اگر انھوں نے امتحان نہیں دیا تو ان کا ایک سال بلاوجہ ضائع ہوجائیگا۔ منگل کو اس غیر سرکاری تنظیم کے تحت چلنے والے اس کمیونٹی سینٹر کی6خواتین سمیت7اہلکاروں کو مسلح افراد نے فائرنگ کر کے قتل کردیا تھا۔

اجالا کمیونٹی سینٹر صوابی شہر سے کوئی10کلومیٹر دور ایک مضافاتی گاؤں شیرافضل بانڈہ میں واقع ہے۔ اس واقعے کے بعد اب بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ یہ سینٹر جلد کھلنے والا نہیں کیونکہ گاؤں میں بدستور ایک خوف کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ بی بی سی نے کہا ہے کہ 'این جی او' کا لفظ پاکستان کے شدت پسند حلقوں میں ویسے ہی متنازع سمجھا جاتا ہے اور پھر ایک ایسے سینٹر جس کے اہلکار دہشت گردی کے واقعہ میں ہلاک کئے جاچکے ہوں وہاں جلد سرگرمیاں بحال کرنا آسان کام نہیں ہوتا۔




اس واقعے میں غیر سرکاری تنظیم کو تین طرح سے نقصان اٹھانا پڑا، ایک تو اس کے کارکن مارے گئے اور دوسرا ان کو مرکز بھی بند کرنا پڑا۔ اب ان کو نئے کارکنوں کی تلاش میں بھی مشکلات کا سامنا ہوگا کیونکہ ایسی صورتحال میں وہاں فوری طور پر کوئی ملازمت کیلیے تیار نہیں ہوگا۔ مرنے والوں اہلکاروں میں شیر افضل بانڈہ سے کوئی نہیں تھا بلکہ تمام کا تعلق دور دراز کے علاقوں سے تھا۔

ان میں اکثریت کا تعلق غریب اور متوسط طبقے سے تھا تاہم دوسری طرف صوابی پولیس کے سربراہ عبد الرشید خان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ مرکز کی دوبارہ بحالی کیلیے پولیس ہر قسم کی سکیورٹی فراہم کرنے پر تیار ہے۔ واقعے میں ملوث افراد کی شناخت کرلی گئی ہے اور کچھ گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں۔
Load Next Story