یہ صحافی نہیں مجاہد ہیں
فیلڈ میں کام کرنے والے صحافی جانتے ہیں کہ کچھ پتا نہیں کب ’’ٹھاہ‘‘ کی آواز آئے اور اُن کی سانسوں کی ڈور ٹوٹ جائے۔
ماں اب تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بہت جلد ہماری پریشانیاں دور ہوجائیں گی اور ماں میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ بہت جلد ہم اِس کرائے کے مکان سے بھی جان چُھڑا لیں گے، اور ماں ہم کرائے میں جتنے پیسے ادا کرتے ہیں وہی پیسے تمہارے کام آجائیں گے، بہن کے لئے کچھ لے لینا۔ تمہاری دواؤں کا خرچ بھی نکل آئے گا۔ بس اب سب بہتر ہوجائے گا ماں، چہرے پر مسکان وعدوں سے بھی بڑھ کر خوبصورت تھی۔ میرے لال بس تو خوش رہا کر، یہ پریشانیاں تو عارضی ہیں۔ میری دواؤں کی فکر نہ کر، دیکھ میں تو بھلی چنگی ہوں، اور تیری پگلی بہن سے جب بھی کچھ کہو بس تیری خوشی ہی مانگتی ہے۔ بس میرے لال تو اپنا خیال رکھا کر، اور سُن ذرا گھر جلدی واپس آجایا کر۔ تھوڑی سی دیر ہوجاتی ہے تو مجھے ہول اٹھتے ہیں۔ دیکھ بیٹا حالات کا تو تجھے پتا ہے نہ اور ماؤں کے دل بہت نازک ہوتے ہیں۔ چند لمحے کی دیر بھی انہیں دہلا دیتی ہے۔ ہزاروں وسوسے دل میں گھر کرلیتے ہیں۔ بلائیں لیتی ماں کی آنکھوں میں نمی سی آگئی۔
اسی طرح کا مکالمے ہر مزدور صحافی کے گھر میں ہوتے ہوں گے۔ مزدور صحافی کی تعریف بیان کرنا تو ممکن نہیں مگر شاید ہر وہ صحافی مزدور کہلائے گا جو اپنے اخبارات، اپنے چینلز، اپنی ایجنسیوں کے لئے خبروں کے حصول کے لئے میدانِ عمل میں جاتے ہیں اور موسمی شدت، حالات کی نزاکت اور گمنام گولیوں کا سامنے کرتے ہیں، جیسا سامنا پچھلے دنوں نوجوان تیمور نے کیا۔
بڑے سے بڑے ادارے سے منسلک صحافی بلا تفریق خبروں کے حصول کے لئے ایک جیسے حالات کا سامنا کرتے ہیں اور تمام بڑے چینلز اور اخبارات بھی اِس حقیقت سے کبھی نظر نہیں چُراتے کہ فیلڈ میں کام کرنے والے صحافی نہ ہوں تو اُن کے ادارے بند ہوجائیں۔ فیلڈ میں کام کرنے والا ہر صحافی بہتر مستقبل کے سپنے سجائے کیمرہ اور مائیک لئے میدان میں کود جاتا ہے، اُسے یہ امید ہوتی ہے کہ وہ جلد ترقی کی منازل طے کرے گا۔ خوابوں میں وہ اپنے ذاتی گھر کی راہداریاں تک دیکھنا شروع کردیتا ہے اور کرائے سے چھٹکارے کی خوشیاں منانا شروع کردیتا ہے۔ کیمرے کے بٹن پریس کرتے ہوئے اور کاغذ پر رپورٹ لکھتے ہوئے اُس کا دل بھی نہ جانے کتنے ہی خوشگوار لمحات دیکھنا شروع کردیتا ہے۔ وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے کتنے ہی سپنے بُن لیتا ہے، ماضی کی کتنی ہی یادوں کو سینے سے لگائے جب ایک فیلڈ کا صحافی کسی اچھے ادارے سے منسلک ہوجاتا ہے تو کیسے سُکھ کا سانس بھی لیتا ہوگا۔
لیکن کسی اَن دیکھی گولی سے، کسی خودکش بمبار سے، کسی لاٹھی، کسی ان دیکھے بھالے سے فیلڈ میں مشقت کا شکار صحافی کی پریشانیوں کا حل نکل آتا ہے۔ اُس کی سانس کا بار ہی اُٹھ گیا، وہ زندگی کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہی شاید تھک چکا ہوتا ہے کہ دھاڑیں مارتی ماں، بلکتی بہن کو چھوڑ کر ابدی آرام گاہ میں جابسا۔ بعض اوقات اُس کا کیرئیر ابھی شروع بھی نہیں ہوا ہوتا کہ ختم ہوجاتا ہے۔ وقت گزرے گا، زمانہ غضب کی چال چلے گا۔ دوست احباب جانے والے صحافی کی یاد میں آنسو بھی بہائیں گے، مگر کسی بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے صحافی کی ماں تو ہر لمحہ اُس کے پاس جانے کی دعائیں ہی مانگتی ہوگی جیسے اب تیمور کی ماں بھی یہی دعا مانگ رہی ہوگی۔
کراچی میں نوجوان صحافی کی فرض کی انجام دہی کے دوران شہادت ہونا اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ صحافت کے لئے خطرناک ملک ہونے کے باوجود پاکستان کے صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ مشکلات کا حساب کرنا ممکن نہیں رہا مگر اپنے کام سے مخلص لوگ بھی ہار ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ فیلڈ میں کام کرنے والے صحافی جانتے ہیں کہ وہ جس شعبے سے وابستہ ہیں کچھ پتا نہیں کب ''ٹھاہ'' کی آواز آئے اور اُن کی سانسوں کی ڈور ٹوٹ جائے، مگر اِس کے باوجود وہ اپنے بچوں سے شام واپس آنے کا وعدہ کرکے سچ کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ واپس انہیں بہرحال آنا پڑتا ہے چاہے جس حال میں آئیں۔
عملی صحافت اور خاص طور پر الیکڑانک میڈیا پر ذمہ داریاں نبھانا، اس پر بھی مزید فیلڈ میں ذمہ داریاں نبھانا پاکستان کے معروضی حالات میں مشکل ترین کام ہے، مگر سلام ہے پاکستان کے ان سپوتوں کو کہ وہ مائیک اور کیمرے لئے وہاں بھی پہنچ جاتے ہیں، جہاں پہلے سے شنید ہوتی ہے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کراچی میں نوجوان تیمور کی جان جانا، اور پنجاب اسمبلی کے سامنے آج ٹی وی کے عملے کا زخمی ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ وادیِ پُرخار ہے مگر فرض شاید مقدم ہے کہ ہر حال میں نبھانا لازم ہے۔ ہم جس میڈیا سے گِلہ کرتے ہیں صرف ایک لمحہ رک کر جائزہ لیں کہ وہ کتنے ہی تیمور جیسے نوجوان سچ کی تلاش میں قربان کرچکا ہے تو شاید ہمیں ان کی مشکلات کا بھی اندازہ ہو۔
''کلک'' اور ''ٹھاہ'' میں تیمور جیسے بہت سے صحافیوں کو فرق معلوم ہے۔ کلک انہیں کیرئیر کی بلندیوں پر لے جاتا ہے اور ٹھاہ اُن کو اُن کے اپنوں سے لمحوں میں جدا کردیتی ہے مگر وہ پھر بھی ٹھاہ کے خوف سے اپنا کام چھوڑنے پر تیار نہیں، اور اعزازت کی تقسیم میں یقینًا اب صحافیوں کے نام بھی جگمگانا شروع ہوجائیں گے جنہوں نے فرض کی ادائیگی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کردیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اسی طرح کا مکالمے ہر مزدور صحافی کے گھر میں ہوتے ہوں گے۔ مزدور صحافی کی تعریف بیان کرنا تو ممکن نہیں مگر شاید ہر وہ صحافی مزدور کہلائے گا جو اپنے اخبارات، اپنے چینلز، اپنی ایجنسیوں کے لئے خبروں کے حصول کے لئے میدانِ عمل میں جاتے ہیں اور موسمی شدت، حالات کی نزاکت اور گمنام گولیوں کا سامنے کرتے ہیں، جیسا سامنا پچھلے دنوں نوجوان تیمور نے کیا۔
بڑے سے بڑے ادارے سے منسلک صحافی بلا تفریق خبروں کے حصول کے لئے ایک جیسے حالات کا سامنا کرتے ہیں اور تمام بڑے چینلز اور اخبارات بھی اِس حقیقت سے کبھی نظر نہیں چُراتے کہ فیلڈ میں کام کرنے والے صحافی نہ ہوں تو اُن کے ادارے بند ہوجائیں۔ فیلڈ میں کام کرنے والا ہر صحافی بہتر مستقبل کے سپنے سجائے کیمرہ اور مائیک لئے میدان میں کود جاتا ہے، اُسے یہ امید ہوتی ہے کہ وہ جلد ترقی کی منازل طے کرے گا۔ خوابوں میں وہ اپنے ذاتی گھر کی راہداریاں تک دیکھنا شروع کردیتا ہے اور کرائے سے چھٹکارے کی خوشیاں منانا شروع کردیتا ہے۔ کیمرے کے بٹن پریس کرتے ہوئے اور کاغذ پر رپورٹ لکھتے ہوئے اُس کا دل بھی نہ جانے کتنے ہی خوشگوار لمحات دیکھنا شروع کردیتا ہے۔ وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے کتنے ہی سپنے بُن لیتا ہے، ماضی کی کتنی ہی یادوں کو سینے سے لگائے جب ایک فیلڈ کا صحافی کسی اچھے ادارے سے منسلک ہوجاتا ہے تو کیسے سُکھ کا سانس بھی لیتا ہوگا۔
لیکن کسی اَن دیکھی گولی سے، کسی خودکش بمبار سے، کسی لاٹھی، کسی ان دیکھے بھالے سے فیلڈ میں مشقت کا شکار صحافی کی پریشانیوں کا حل نکل آتا ہے۔ اُس کی سانس کا بار ہی اُٹھ گیا، وہ زندگی کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہی شاید تھک چکا ہوتا ہے کہ دھاڑیں مارتی ماں، بلکتی بہن کو چھوڑ کر ابدی آرام گاہ میں جابسا۔ بعض اوقات اُس کا کیرئیر ابھی شروع بھی نہیں ہوا ہوتا کہ ختم ہوجاتا ہے۔ وقت گزرے گا، زمانہ غضب کی چال چلے گا۔ دوست احباب جانے والے صحافی کی یاد میں آنسو بھی بہائیں گے، مگر کسی بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے صحافی کی ماں تو ہر لمحہ اُس کے پاس جانے کی دعائیں ہی مانگتی ہوگی جیسے اب تیمور کی ماں بھی یہی دعا مانگ رہی ہوگی۔
کراچی میں نوجوان صحافی کی فرض کی انجام دہی کے دوران شہادت ہونا اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ صحافت کے لئے خطرناک ملک ہونے کے باوجود پاکستان کے صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ مشکلات کا حساب کرنا ممکن نہیں رہا مگر اپنے کام سے مخلص لوگ بھی ہار ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ فیلڈ میں کام کرنے والے صحافی جانتے ہیں کہ وہ جس شعبے سے وابستہ ہیں کچھ پتا نہیں کب ''ٹھاہ'' کی آواز آئے اور اُن کی سانسوں کی ڈور ٹوٹ جائے، مگر اِس کے باوجود وہ اپنے بچوں سے شام واپس آنے کا وعدہ کرکے سچ کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ واپس انہیں بہرحال آنا پڑتا ہے چاہے جس حال میں آئیں۔
عملی صحافت اور خاص طور پر الیکڑانک میڈیا پر ذمہ داریاں نبھانا، اس پر بھی مزید فیلڈ میں ذمہ داریاں نبھانا پاکستان کے معروضی حالات میں مشکل ترین کام ہے، مگر سلام ہے پاکستان کے ان سپوتوں کو کہ وہ مائیک اور کیمرے لئے وہاں بھی پہنچ جاتے ہیں، جہاں پہلے سے شنید ہوتی ہے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کراچی میں نوجوان تیمور کی جان جانا، اور پنجاب اسمبلی کے سامنے آج ٹی وی کے عملے کا زخمی ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ وادیِ پُرخار ہے مگر فرض شاید مقدم ہے کہ ہر حال میں نبھانا لازم ہے۔ ہم جس میڈیا سے گِلہ کرتے ہیں صرف ایک لمحہ رک کر جائزہ لیں کہ وہ کتنے ہی تیمور جیسے نوجوان سچ کی تلاش میں قربان کرچکا ہے تو شاید ہمیں ان کی مشکلات کا بھی اندازہ ہو۔
''کلک'' اور ''ٹھاہ'' میں تیمور جیسے بہت سے صحافیوں کو فرق معلوم ہے۔ کلک انہیں کیرئیر کی بلندیوں پر لے جاتا ہے اور ٹھاہ اُن کو اُن کے اپنوں سے لمحوں میں جدا کردیتی ہے مگر وہ پھر بھی ٹھاہ کے خوف سے اپنا کام چھوڑنے پر تیار نہیں، اور اعزازت کی تقسیم میں یقینًا اب صحافیوں کے نام بھی جگمگانا شروع ہوجائیں گے جنہوں نے فرض کی ادائیگی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کردیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔