برطانیہ میں نسلی امتیاز کا مظاہرہ

جن کی برطانوی شہریت منسوخ کر دی گئی ہے دہری شہریت کے حامل 5 پاکستانی نژاد برطانوی تھے


کلدیپ نئیر February 17, 2017

یہ کھلا کھلا نسلی تعصب ہے۔ چارپاکستانی نژاد برطانوی شہری جن پر جنسی نوعیت کے جرم کا الزام تھا اور جنھیں قید کی سزا دی گئی تھی لیکن جج میک کلوزکی نے اپنے طور پر فیصلہ دیا کہ سزائے قید مکمل ہونے کے بعد انھیں ان کے پیدائش کے وطن بھیج دیا جائے گا۔ مجھے حیرت ہے کہ کیا سفید فام مجرموں سے بھی یہی سلوک کیا جا سکتا تھا، خاص طور پر اگر ان کا تعلق کسی یورپی ملک سے ہوتا۔

جج نے کسی تامل کے بغیر کہا کہ مجرموں سے برطانوی شہریت واپس لے لی جائے گی۔ اس سے قبل ایک امیگریشن ٹریبونل نے پاکستانیوں کو واپس بھجوانے کی راہ ہموار کر دی تھی۔ ان کو برطانیہ میں آنے کے بعد طے شدہ شرائط مکمل کرنے کے بعد برطانوی شہرت دی گئی تھی۔ کراچی کے ایک انگریزی اخبار کے مطابق ان پاکستانی اور افغان باشندوں پر ایک 13سالہ لڑکی کو ورغلانے اور اسے مہ نوشی اور منشیات کے استعمال پر راغب کرنے کا الزام تھا۔

ان کا قیام انگلینڈ کے شمالی شہر روشڈیل میں تھا' جن کی برطانوی شہریت منسوخ کر دی گئی ہے دہری شہریت کے حامل 5 پاکستانی نژاد برطانوی تھے جب کہ دو کے پاس دہری برطانوی اور سوڈانی شہریت تھی۔ 6 آسٹریلوی' عراقی' روسی' مصری اور لبنانی نژاد باشندے دہری شہریت کے حامل تھے۔ ان میں سے 10نے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی ہے۔ ان کا مقدمہ سننے والے جج نے ان کے جرائم کو بہت وحشیانہ اور انسانیت سوز قرار دیا ہے کہ جن کی تفصیل کو سن کر دل کو دھچکا لگتا ہے۔ جج نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا دعویٰ یکسر مسترد کر دیا۔

واضح رہے اس سے قبل وزیراعظم تھریسامے سیکریٹری داخلہ کی حیثیت سے ایک قانون پاس کر چکی ہیں کہ برطانوی عوام کے فائدے کی خاطر غیر ملکیوں کی شہریت منسوخ کی جا سکتی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ برطانیہ میں مخلوط حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد برطانوی شہریت کی تنسیخ کے مقدمات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شہریت منسوخ کرنے کا قانون جولائی 2005ء میں ہونیوالے بم دھماکوں کے تناظر میں 2006ء میں منظور کیا گیا۔

دھماکوں میں 52 افراد ہلاک اور 700سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اس سے قبل شہریت منسوخ کرنے کے 4 سال میں صرف 4 مرتبہ فیصلے ہوئے جب کہ گزشتہ سال کے عام انتخابات کے بعد اس قانون کا 9 مرتبہ استعمال کیا گیا ہے 2012ء میں قائم ہونیوالے مقدمہ کے دوران جن 5متاثرین نے ملزموں کے خلاف بیانات دیے وہ سارے سفید فام تھے اور جنہوں نے ملزموں پر جنسی حملہ کرنے کا الزام لگایا تھا۔ ان لوگوں میں 22 سال سے 59سال تک کی عمر کے لوگ شامل تھے تاہم ملزموں کی طرف سے جو صفائی کی کوشش کی گئی اس میں ان کا کہنا تھا کہ جن لڑکیوں نے ان پر الزام لگایا ہے وہ پیشہ ور طوائفیں ہیں۔

ایک برطانوی رکن اسمبلی نے مطالبہ کیا ہے کہ ٹریبونل کے روبرو پیش کیے جانے والے چاروں افراد کو جسقدر جلد ممکن ہو ڈی پورٹ کر دیا جائے نیز یہ کہ بیرون ملک پیدا ہونے والے مجرموں کو انسانی حقوق کے قوانین کی آڑ میں پناہ نہیں دی جا سکتی۔ یہ وہی بات ہے جس کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھاتے ہی ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے اعلان کیا تھا اور ابتدائی طور پر 7 اسلامی ممالک کے شہریوں پر امریکا میں آنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ انھوں نے بعض مسلمان ملکوں سے آنیوالے ان افراد کا داخلہ بھی بند کر دیا جن کے پاس باقاعدہ ویزا موجود تھا حتیٰ کہ گرین کارڈ رکھنے والوں کو بھی داخل ہونے سے روک دیا۔

جس طرح یو کے نے اعلان کیا ہے کہ ٹرمپ کے حکمنامے میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ اس نے امریکی عوام کو دہشت گردی اور مجرمانہ سرگرمیوں سے بچانے کے لیے یہ حکمنامہ جاری کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اپنی مخالفانہ مہم کا بنیادی نکتہ ''اسلاموفوبیا''کو قرار دیا جب کہ ٹرمپ کے مدمقابل صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والی ہلیری کلنٹن نے ٹرمپ کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ موصوف کو امریکی آئین کا مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ آئین میں باہر سے آنیوالے کسی پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی کیونکہ یہ ملک ہی باہر سے آنیوالوں کا ملک ہے۔

کسی ملک کی شہریت سے کسی کو محروم کردینا بہت افسوسناک بات ہے آپ کسی کو اپنے ملک کے خلاف قرار دے کر اسے اس کے اصل وطن بھیج سکتے ہو جہاں سے وہ آیا اور نہ جانے اپنے ملک میں وہ کن پریشانیوں کا شکار تھا یہ سزا صحافیوں اور ادیبوں کے لیے بطور خاص بے حد سخت ہے۔ یو کے میں آ کے وہ آزادی اظہار کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو کہ ان کے اپنے ملک میں میسر نہیں اور ان کے سیاستدان بھی اس کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ بھارت میں بھی ایسا ہی ہے مثال کے طور پر ایک آن لائن پبلیکیشن کا معاملہ دیکھیے جو الیکشن کمیشن کے غیظ و غضب کا شکار ہے کیونکہ اس کے اخبار میں یو پی کے انتخابات کے سروے کا نتیجہ شایع کر دیا گیا۔

اس کے اخبار کا مالک جو ایک ٹیلی وژن چینل بھی چلاتا ہے اس کو بھی جرم میں ملوث کر لیا گیا کیونکہ اس نے معافی مانگنے سے انکار کر دیا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے وزارت اطلاعات نے بھی سنسر شپ کی حمایت کی تھی۔ وزیر اطلاعات نے وضاحت کی کہ حکومت کے پاس صرف ایک چینل ہے جب کہ پرائیویٹ چینلز بے شمار ہیں۔ لہٰذا وزارت کو سرکاری چینل پر اپنے نکتہ نظر کی تشہیر کا مکمل حق حاصل ہے۔

کاش کہ بھارتی حکومت دلت اور اچھوتوں کے حقوق کے بارے میں بھی اس طرح کا طرز عمل اختیار کرے اور ان کے مصائب عوام تک پہنچ سکیں۔ جہاں تک بھارت کا سوال ہے تو دعویٰ نسل پرستی کے منافی کیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس اور ممبئی پر حملوں کے ملزموں کے خلاف مختلف عدالتوں میں مقدمہ چلا کر انھیں سزائیں دی گئیں جن پر الزام عاید کیا گیا وہ مسلمان تھے۔

دوسری طرف سعودی عرب جو کہ خود بھی مسلم ملک ہے وہ بھارتی مسلمانوں کو پاکستانی مسلمانوں پر ترجیح دیتا ہے حتیٰ کہ وہاں کے پولیس والے ٹریفک کی خلاف ورزی پر بھارتی مسلمان کو چھوڑ دیتے ہیں لیکن پاکستانی مسلمان کو نہیں چھوڑتے۔ اگر یو کے کے جج نے پاکستانی نژاد ملزموں کو ڈی پورٹ کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا تو یو کے پر بھی نسلی امتیاز کا الزام لگ جائے گا کیونکہ موجودہ وقت میں وہاں نسلی امتیاز کے واقعات بہت زیادہ نظر آ رہے ہیں۔

(ترجمہ:مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں