عالمی گاؤں اور بیگانگی آخری حصہ
جنگلی معاشروں یعنی جنگل کے قانون کے مطابق شیر کو جنگل کا بادشاہ مانا جاتا ہے
PESHAWAR:
عظمتیں اور خطرات: انسان واحد جاندار ہے کہ جس نے موجودات کرۂ ارض کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنانے کا ہنر حاصل کرلیا ہے۔ زمانہ قدیم میں اہرام مصر کی شاندار تعمیر اور موجودہ زمانے میں شیروں سے رقص کرانا اس کی چھوٹی سی مثالیں ہیں، جن کی روشنی میں تاریخ کا طالب علم یہ سمجھ سکتا ہے کہ انسان پہاڑوں سے زیادہ سخت جان اور شیروں سے بھی زیاہ وحشی ثابت ہوا ہے۔
جنگلی معاشروں یعنی جنگل کے قانون کے مطابق شیر کو جنگل کا بادشاہ مانا جاتا ہے اور آج یہی بادشاہ انسان کی عظمتوں کے آگے سربسجود ہے، جس کے ساتھ ساتھ خشک وتر اور بحر وبر پر موجود تمام جاندار بھی اپنے اپنے معاشروں میں انسان کی عظمتوں و رفعتوں کے گیت گاتے ہوئے اپنی آنے والی نسلوں کی بقا کی بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ انسان نے موجودہ عالمی گاؤں کے جدید معاشرے کی بنیاد ہی ان اجزائے ترکیبی و ضروریات زندگی پر رکھی ہوئی ہے کہ جس کے حتمی ولازمی نتائج میں جنگل، پہاڑ سمیت صحرا وسمندر میں پائی جانے والی حیات شدید و بھیانک خطرات سے دوچار ہوچکی ہے۔
حالانکہ انسان کے اس جدید معاشرے اور اس کے لوازمات نے اس کی اپنی نسل کو بھی ان بھیانک حالات میں گرفتار کردیا ہے اور حضر ت انسان اس کے برملا اظہار کو اجتماعی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کا نام دے چکا ہے۔ یہ ایک ایسا بھیانک مسئلہ ہے جو انسان کو تاریخ کے کسی بھی مرحلے پر اس طرح لاحق نہیں رہا کہ جس سے انسانی نسل ہی داؤ پر لگ چکی ہو۔
سدباب اور برگزیدگی: معروضی حالات کے پیش نظر عالمی مالیاتی اداروں کی توسط سے عالمی گاؤں کے مختلف حصوں میں اس بھیانک مسئلے پر ضابطہ لائے جانے کی عملی کوششیں اور فکری شعور بیدار کرنے کی ذمے داریاں ادا کی جانے لگی ہیں۔ یہ انسان کی اجتماعی فضیلت و برگزیدگی کی سب سے بہترین مثال بھی ہے تو دیگر جانداروں پر اس کی برتری وبزرگی کی علامت بھی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عملی منظرنامے میں تاریخ کا طالب علم یہ دیکھ سکتا ہے کہ اقوام عالم اس ضمن میں عالمی اداروں کی مرتب کردہ سفارشات اور پالیسیوں کے ساتھ ساتھ مالی امداد پر نہ صرف انحصار کرنے لگی ہیں بلکہ گوہر دانش رکھنے والے انسانوں کے متحرک کیے گئے ان اداروں کو اپنا محسن و مسیحا بھی ماننے لگی ہیں۔ فکری طور پر یہ انسان کی خود اپنی نسل کی تعظیم کرنے کا جدید اظہار بھی ہے۔
اقوام عالم کی جانب سے اس تعظیم وتکریم سمیت اطاعت و فرمانبرداری Jewish نامی تشخص رکھنے والے انسانی گروہ کے لیے مخصوص کی جاچکی ہے۔ تاریخ کا طالب علم شاید ہی انکار کرنے کی جرأت کرسکے کہ انسان کا یہی گروہ دیگر انسانوں سمیت موجودات کرۂ ارض کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنانے کے ''ہنر'' میں دیگر انسانی گروہوں سے زیادہ ماہر ہے، جس کے لازمی وحتمی نتائج کی صورت ان کو یہ حق حاصل ہوچکا ہے کہ وہ انسان سمیت کرۂ ارض کے تمام جانداروں کی طرز حیات کا تعین کرسکیں۔ چاہیں تو انھیں ''پالتو'' بنا لیں، چاہیں تو انھیں ان کے ''معاشروں'' میں واپس بھیج دیں۔
فکری طور معروضی حالات کے عملی اظہار میں مختلف گروہی (قومی) تشخص میں بٹا انسان آج اپنی اور دیگر جانداروں کی نسلی بقا کے لیے ان کے مرتب شدہ نظریہ حیات وتمدنی نظام پر عمل پیرا ہے۔ لیکن اس کھلی حقیقت کے باوجود عالم انسانیت اس انسانی گروہ کے ان اسلاف کی تحقیقات وتعلیمات سے بیگانگی اختیار کیے ہوئے ہے جنھوں نے عملی زندگی سے اپنے جد امجد جناب ابراہیمؑ کی تعلیمات وتحقیقات کو ثابت کیا تھا کہ انسان کے تمدنی معاشروں میں رائج انداز واطوار کے معمولات کائنات پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ان کے اسلاف کی تاریخ کا ہر ایک ارتقائی مرحلہ عالم انسانیت کے تمام ارتقائی مرحلوں پر انؑ کی برگزیدگی کا بیان ہے۔ جوکہ تاریخ کے طالب علم کی دلچسپی کے تمام تر سامان اپنے اندر سمائے ہوئے ہے۔ جس کی روشنی میں وہ واضح طور پر یہ دیکھ سکتے ہیں کہ عالم انسانیت سے متعلق گروہوں کے کثیر تعداد میں افراد (یہودی، عیسائی، مسلم) اس بات کے اقراری ہیں کہ تمدنی معاشروں سمیت خشک وتر، بحروبر میں پائے جانے والے معاشروں اور وہاں بسنے والی حیات کے تحفظ کی خاطر جناب ابراہیم نبیؑ کی جانب سے انسان پر جو ذمے داریاں عائد کی گئی ہیں، ان کی ادائیگی کے باضابطہ اقراری حلف لینے کو یہ سنت ابراہیمؑ کی رسم سے ادا بھی کرتے ہیں، یعنی جناب ابراہیمؑ عالم انسانیت کی وہ واحد مقدس ومتبرک ہستی ہیں کہ کرۂ ارض پر انؑ کے آئین سے وابستہ انسان اتنی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔
تاریخ کا دلچسپ پہلو تو ملاحظہ فرمائیں کہ چار ہزار سال قبل ابراہیم نبیؑ کی جانب سے ترتیب دیے گئے نظریات اور ان کے جانشینوں (علیہ والسلام) کی عملی حیات موجودہ بھیانک مسائل کا حل بیان کرتے ہوئے دستیاب ملتی ہے۔ جنھوں نے فطرت (قوانین مادہ پر عمل) سے جانداروں کے معاشروں کی بقا اور انسانی برگزیدگی کے لیے ''جان لینے کے بجائے جان دینے'' کے نظریے کو عملی طور رائج کیا۔
عالم انسانیت میں موسیٰ نبیؑ، داؤد نبیؑ، سلیمان نبیؑ، ذکریا نبیؑ، یحییٰ نبیؑ، یسوع مسیح (عیسیٰؑ ابن مریم) حیات کائنات کو تحفظ فراہم کرنے والے آئین ابراہیمؑ کے اطلاق کے لیے متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح کا تسلسل انسان کے کسی بھی دوسرے گروہ کی تاریخ میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ عالم انسانیت کے تمام گروہوں (قوموں) کی تمدنی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انھوں نے انسانی معاشروں میں برتری کے معیار کو جنگلی معاشروں کے مکینوں یعنی خونی درندوں پر تسلط کے اظہار سے وابستہ کیا ہوا تھا، یا تو پھر خود انسان کے درندہ بن جانے کو قرار دیا ہوا تھا۔
قدیم مصری (فرعونی) معاشروں اور ہندوستانی (دیوتائی) معاشروں میں مشترکہ طور پر سانپ، حورس دیوتا و نرسمہا دیوتا، کالی دیوی، اس کی چھوٹی اور سمجھ میں آنے والی مثالیں ہیں۔ شیوشنکر کا اپنے گلے میں سانپ لٹکائے رکھنا اور بیل (نندی و مہیش دیوتا) پر، گنڑیش دیوتا کا موشک (چوہے) پر، جب کہ ان کے بھائی کارتیک دیوتا کا مور پر اور سنتوشی دیوی کا شیروں پر سواری کرتے رہنا بلاشبہ انسان کی دیگر جانداروں پر برتری کا ثبوت ہیں۔ قدیم چینی معاشرے اور ان سے منسلک مشرق بعید کے انسانی گروہوں میں ڈریگن کا تصور اور موئن جو دڑو میں بیل کا نمایاں مقام بھی اس ضمن میں گنوایا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔
لیکن یعقوب نبیؑ (اسرائیل) کے حضور بھیڑیوں کی جانب سے اپنی صفائی پیش کرنے، موسیٰؑ کی لاٹھی کے اژدہا بن جانے، اسی لاٹھی سے سمندر کے پانی کو تقسیم کرنے، داؤد نبیؑ کے لوہے کو چھوکر موم بنادینے، سلیمان نبیؑ کے پانی پر چلنے والی کشتیوں کو ہوا میں اڑانے، مابعدالطبیعات یعنی جنوں سے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرانے، چرند، پرند و درند سے گفتگو کرنے اور جناب یسوع مسیح کے مردے زندہ کرنے کی روشن مثالوں کے باوجود ان (علیہ والسلام) کی انسانی طرز زندگی گزارنا اس بات کی ناقابل تردید کھلی دلیل ہے کہ جناب ابراہیمؑ کی تعلیمات وتحقیقات کا نکتۂ توازن ٹھوس عقلی ومادی بنیادوں پر غیر متبدل قوانین مادہ پر ٹکا ہوا ہے۔
اور انؑ کی اولاد کی تاریخ ان قوانین کی تشریح وتفسیر کرتی ہوئی عالم انسانیت کی رہنمائی کرتی ہوئی ملتی ہے جو کہ انسان کے گدھوں وخچروں پر سواری کرنے کے دور سے لے کر موجودہ جدید سپر سانک جہاز اڑانے تک کے تمام ارتقائی مراحل پر یکساں طور اپنی اساسی اہمیت جتاتے ہوئے آج بھی عملی اطلاق کی متقاضی ہے۔ جن کی روشنی میں تاریخ کا طالب علم برملا طور پر یہ دعوت دے سکتا ہے کہ حالیہ ارتقائی مرحلے پر موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی ہولناکیوں اور جدید عالمی معاشرے کے بھیانک حالات اور ان کے نتائج پر ضابطہ لایا جانا آئین ابراہیمؑ کے عملی اطلاق سے ہی ممکن بن سکتا ہے۔
اس دعوت کو منطقی انداز میں سمجھنے کے لیے تاریخ کے طالب علم کو فلسفاتی توجیحات میں پڑنے کے بجائے صرف ان انسانی گروہوں میں رائج سنت ابراہیمؑ کے سائنسی فوائد کو اپنے سامنے رکھنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ملاحظہ کرنا ہوگا کہ جناب اسماعیل نبیؑ سے وابستہ قربانی کی رسم (فرض) میں انسانی گروہوں کی جانب سے قربان کیے جانے والے درجنوں اقسام کے کروڑوں جانداروں کی نسلوں کو کوئی ہنگامی خطرات لاحق نہیں ہیں، جب کہ آج شیر، بھیڑیے، چیتے، ہاتھی، بھالو، پانڈا، زرافہ سمیت خشکی وپانی کے کتنے ہی جاندار ڈائنوسارز کی نسلوں کا درجہ حاصل کرنے کے قریب تر پہنچنے پر ماتم کناں ہیں، جوکہ انسان کے موجودہ عالمی گاؤں میں وارثانِ ابراہیمؑ سے اپنی نسل کی بقا مانگ رہے ہیں۔ اور بلاشبہ ''وہ'' اپنے ورثے کی حفاظت اور آئین ابراہیمؑ کے اطلاق میں مصروف جہد ہیں، جس سے انکار یا بیگانگی اختیار کیے رکھنا تباہی وبربادی کو اپنا مقدر بنانے جیسا ہی ثابت ہوگا۔
عظمتیں اور خطرات: انسان واحد جاندار ہے کہ جس نے موجودات کرۂ ارض کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنانے کا ہنر حاصل کرلیا ہے۔ زمانہ قدیم میں اہرام مصر کی شاندار تعمیر اور موجودہ زمانے میں شیروں سے رقص کرانا اس کی چھوٹی سی مثالیں ہیں، جن کی روشنی میں تاریخ کا طالب علم یہ سمجھ سکتا ہے کہ انسان پہاڑوں سے زیادہ سخت جان اور شیروں سے بھی زیاہ وحشی ثابت ہوا ہے۔
جنگلی معاشروں یعنی جنگل کے قانون کے مطابق شیر کو جنگل کا بادشاہ مانا جاتا ہے اور آج یہی بادشاہ انسان کی عظمتوں کے آگے سربسجود ہے، جس کے ساتھ ساتھ خشک وتر اور بحر وبر پر موجود تمام جاندار بھی اپنے اپنے معاشروں میں انسان کی عظمتوں و رفعتوں کے گیت گاتے ہوئے اپنی آنے والی نسلوں کی بقا کی بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ انسان نے موجودہ عالمی گاؤں کے جدید معاشرے کی بنیاد ہی ان اجزائے ترکیبی و ضروریات زندگی پر رکھی ہوئی ہے کہ جس کے حتمی ولازمی نتائج میں جنگل، پہاڑ سمیت صحرا وسمندر میں پائی جانے والی حیات شدید و بھیانک خطرات سے دوچار ہوچکی ہے۔
حالانکہ انسان کے اس جدید معاشرے اور اس کے لوازمات نے اس کی اپنی نسل کو بھی ان بھیانک حالات میں گرفتار کردیا ہے اور حضر ت انسان اس کے برملا اظہار کو اجتماعی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کا نام دے چکا ہے۔ یہ ایک ایسا بھیانک مسئلہ ہے جو انسان کو تاریخ کے کسی بھی مرحلے پر اس طرح لاحق نہیں رہا کہ جس سے انسانی نسل ہی داؤ پر لگ چکی ہو۔
سدباب اور برگزیدگی: معروضی حالات کے پیش نظر عالمی مالیاتی اداروں کی توسط سے عالمی گاؤں کے مختلف حصوں میں اس بھیانک مسئلے پر ضابطہ لائے جانے کی عملی کوششیں اور فکری شعور بیدار کرنے کی ذمے داریاں ادا کی جانے لگی ہیں۔ یہ انسان کی اجتماعی فضیلت و برگزیدگی کی سب سے بہترین مثال بھی ہے تو دیگر جانداروں پر اس کی برتری وبزرگی کی علامت بھی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عملی منظرنامے میں تاریخ کا طالب علم یہ دیکھ سکتا ہے کہ اقوام عالم اس ضمن میں عالمی اداروں کی مرتب کردہ سفارشات اور پالیسیوں کے ساتھ ساتھ مالی امداد پر نہ صرف انحصار کرنے لگی ہیں بلکہ گوہر دانش رکھنے والے انسانوں کے متحرک کیے گئے ان اداروں کو اپنا محسن و مسیحا بھی ماننے لگی ہیں۔ فکری طور پر یہ انسان کی خود اپنی نسل کی تعظیم کرنے کا جدید اظہار بھی ہے۔
اقوام عالم کی جانب سے اس تعظیم وتکریم سمیت اطاعت و فرمانبرداری Jewish نامی تشخص رکھنے والے انسانی گروہ کے لیے مخصوص کی جاچکی ہے۔ تاریخ کا طالب علم شاید ہی انکار کرنے کی جرأت کرسکے کہ انسان کا یہی گروہ دیگر انسانوں سمیت موجودات کرۂ ارض کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنانے کے ''ہنر'' میں دیگر انسانی گروہوں سے زیادہ ماہر ہے، جس کے لازمی وحتمی نتائج کی صورت ان کو یہ حق حاصل ہوچکا ہے کہ وہ انسان سمیت کرۂ ارض کے تمام جانداروں کی طرز حیات کا تعین کرسکیں۔ چاہیں تو انھیں ''پالتو'' بنا لیں، چاہیں تو انھیں ان کے ''معاشروں'' میں واپس بھیج دیں۔
فکری طور معروضی حالات کے عملی اظہار میں مختلف گروہی (قومی) تشخص میں بٹا انسان آج اپنی اور دیگر جانداروں کی نسلی بقا کے لیے ان کے مرتب شدہ نظریہ حیات وتمدنی نظام پر عمل پیرا ہے۔ لیکن اس کھلی حقیقت کے باوجود عالم انسانیت اس انسانی گروہ کے ان اسلاف کی تحقیقات وتعلیمات سے بیگانگی اختیار کیے ہوئے ہے جنھوں نے عملی زندگی سے اپنے جد امجد جناب ابراہیمؑ کی تعلیمات وتحقیقات کو ثابت کیا تھا کہ انسان کے تمدنی معاشروں میں رائج انداز واطوار کے معمولات کائنات پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ان کے اسلاف کی تاریخ کا ہر ایک ارتقائی مرحلہ عالم انسانیت کے تمام ارتقائی مرحلوں پر انؑ کی برگزیدگی کا بیان ہے۔ جوکہ تاریخ کے طالب علم کی دلچسپی کے تمام تر سامان اپنے اندر سمائے ہوئے ہے۔ جس کی روشنی میں وہ واضح طور پر یہ دیکھ سکتے ہیں کہ عالم انسانیت سے متعلق گروہوں کے کثیر تعداد میں افراد (یہودی، عیسائی، مسلم) اس بات کے اقراری ہیں کہ تمدنی معاشروں سمیت خشک وتر، بحروبر میں پائے جانے والے معاشروں اور وہاں بسنے والی حیات کے تحفظ کی خاطر جناب ابراہیم نبیؑ کی جانب سے انسان پر جو ذمے داریاں عائد کی گئی ہیں، ان کی ادائیگی کے باضابطہ اقراری حلف لینے کو یہ سنت ابراہیمؑ کی رسم سے ادا بھی کرتے ہیں، یعنی جناب ابراہیمؑ عالم انسانیت کی وہ واحد مقدس ومتبرک ہستی ہیں کہ کرۂ ارض پر انؑ کے آئین سے وابستہ انسان اتنی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔
تاریخ کا دلچسپ پہلو تو ملاحظہ فرمائیں کہ چار ہزار سال قبل ابراہیم نبیؑ کی جانب سے ترتیب دیے گئے نظریات اور ان کے جانشینوں (علیہ والسلام) کی عملی حیات موجودہ بھیانک مسائل کا حل بیان کرتے ہوئے دستیاب ملتی ہے۔ جنھوں نے فطرت (قوانین مادہ پر عمل) سے جانداروں کے معاشروں کی بقا اور انسانی برگزیدگی کے لیے ''جان لینے کے بجائے جان دینے'' کے نظریے کو عملی طور رائج کیا۔
عالم انسانیت میں موسیٰ نبیؑ، داؤد نبیؑ، سلیمان نبیؑ، ذکریا نبیؑ، یحییٰ نبیؑ، یسوع مسیح (عیسیٰؑ ابن مریم) حیات کائنات کو تحفظ فراہم کرنے والے آئین ابراہیمؑ کے اطلاق کے لیے متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح کا تسلسل انسان کے کسی بھی دوسرے گروہ کی تاریخ میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ عالم انسانیت کے تمام گروہوں (قوموں) کی تمدنی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انھوں نے انسانی معاشروں میں برتری کے معیار کو جنگلی معاشروں کے مکینوں یعنی خونی درندوں پر تسلط کے اظہار سے وابستہ کیا ہوا تھا، یا تو پھر خود انسان کے درندہ بن جانے کو قرار دیا ہوا تھا۔
قدیم مصری (فرعونی) معاشروں اور ہندوستانی (دیوتائی) معاشروں میں مشترکہ طور پر سانپ، حورس دیوتا و نرسمہا دیوتا، کالی دیوی، اس کی چھوٹی اور سمجھ میں آنے والی مثالیں ہیں۔ شیوشنکر کا اپنے گلے میں سانپ لٹکائے رکھنا اور بیل (نندی و مہیش دیوتا) پر، گنڑیش دیوتا کا موشک (چوہے) پر، جب کہ ان کے بھائی کارتیک دیوتا کا مور پر اور سنتوشی دیوی کا شیروں پر سواری کرتے رہنا بلاشبہ انسان کی دیگر جانداروں پر برتری کا ثبوت ہیں۔ قدیم چینی معاشرے اور ان سے منسلک مشرق بعید کے انسانی گروہوں میں ڈریگن کا تصور اور موئن جو دڑو میں بیل کا نمایاں مقام بھی اس ضمن میں گنوایا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔
لیکن یعقوب نبیؑ (اسرائیل) کے حضور بھیڑیوں کی جانب سے اپنی صفائی پیش کرنے، موسیٰؑ کی لاٹھی کے اژدہا بن جانے، اسی لاٹھی سے سمندر کے پانی کو تقسیم کرنے، داؤد نبیؑ کے لوہے کو چھوکر موم بنادینے، سلیمان نبیؑ کے پانی پر چلنے والی کشتیوں کو ہوا میں اڑانے، مابعدالطبیعات یعنی جنوں سے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرانے، چرند، پرند و درند سے گفتگو کرنے اور جناب یسوع مسیح کے مردے زندہ کرنے کی روشن مثالوں کے باوجود ان (علیہ والسلام) کی انسانی طرز زندگی گزارنا اس بات کی ناقابل تردید کھلی دلیل ہے کہ جناب ابراہیمؑ کی تعلیمات وتحقیقات کا نکتۂ توازن ٹھوس عقلی ومادی بنیادوں پر غیر متبدل قوانین مادہ پر ٹکا ہوا ہے۔
اور انؑ کی اولاد کی تاریخ ان قوانین کی تشریح وتفسیر کرتی ہوئی عالم انسانیت کی رہنمائی کرتی ہوئی ملتی ہے جو کہ انسان کے گدھوں وخچروں پر سواری کرنے کے دور سے لے کر موجودہ جدید سپر سانک جہاز اڑانے تک کے تمام ارتقائی مراحل پر یکساں طور اپنی اساسی اہمیت جتاتے ہوئے آج بھی عملی اطلاق کی متقاضی ہے۔ جن کی روشنی میں تاریخ کا طالب علم برملا طور پر یہ دعوت دے سکتا ہے کہ حالیہ ارتقائی مرحلے پر موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی ہولناکیوں اور جدید عالمی معاشرے کے بھیانک حالات اور ان کے نتائج پر ضابطہ لایا جانا آئین ابراہیمؑ کے عملی اطلاق سے ہی ممکن بن سکتا ہے۔
اس دعوت کو منطقی انداز میں سمجھنے کے لیے تاریخ کے طالب علم کو فلسفاتی توجیحات میں پڑنے کے بجائے صرف ان انسانی گروہوں میں رائج سنت ابراہیمؑ کے سائنسی فوائد کو اپنے سامنے رکھنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ملاحظہ کرنا ہوگا کہ جناب اسماعیل نبیؑ سے وابستہ قربانی کی رسم (فرض) میں انسانی گروہوں کی جانب سے قربان کیے جانے والے درجنوں اقسام کے کروڑوں جانداروں کی نسلوں کو کوئی ہنگامی خطرات لاحق نہیں ہیں، جب کہ آج شیر، بھیڑیے، چیتے، ہاتھی، بھالو، پانڈا، زرافہ سمیت خشکی وپانی کے کتنے ہی جاندار ڈائنوسارز کی نسلوں کا درجہ حاصل کرنے کے قریب تر پہنچنے پر ماتم کناں ہیں، جوکہ انسان کے موجودہ عالمی گاؤں میں وارثانِ ابراہیمؑ سے اپنی نسل کی بقا مانگ رہے ہیں۔ اور بلاشبہ ''وہ'' اپنے ورثے کی حفاظت اور آئین ابراہیمؑ کے اطلاق میں مصروف جہد ہیں، جس سے انکار یا بیگانگی اختیار کیے رکھنا تباہی وبربادی کو اپنا مقدر بنانے جیسا ہی ثابت ہوگا۔