اللہ صابرین کے ساتھ ہے

صبر ہی دنیا و آخرت میں قربِ خداوندی کا مظہر اور انسان کو نیا ولولہ بخشتا ہے

قرآن حکیم میں حضرت ایوبؑ کی ابتلا و آزمائش کا ذکر ہے۔ فوٹو : فائل

یوں تو اللہ رب العزت کی رضا و قرب کے لیے قرآن و صاحب ِ قرآن ﷺ نے پرستاران ِ حق کو بہت سے طریقوں اور تدابیر سے شرفِ آشنائی بخشا ہے اور ایک ایسا جامع و مانع نظام ِحیات وضع فرمایا ہے، جس میں کوئی تشنگی یا کمی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔

اس بے مثال ضابطۂ حیات کا ہر پہلو انسان کو صراطِ مستقیم پر گام زن کرتے ہوئے فردوسِ بریں کی بہاروں سے ہم آغوش کر دیتا ہے۔ ان میں رواداری، مقام ِشکر، اخلاص ِنیت، بردباری، شرم و حیا، عفو و درگزر، احترام ِآدمیت، چھوٹوں پر شفقت، بڑوں کی تعظیم، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، غرض دین ِمبین کی ہر ادا اپنے اندر قوسِ قزح کی رنگینی اور کہکشاں کی جاذبیت رکھتی ہے۔ اور پھر ان پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں جنت کی حیاتِ جاوداں کا تحفہ ارزانی ہوتا ہے۔ لیکن اسلام میں صبر کے ثمرات اور سعادت آفرین نتائج کی لذت و لطافت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ مگر اس کے لیے ایک مسلمان کو آزمائش کی بھٹیوں میں سے گذرنا پڑتا ہے، قدم قدم پر مصائب و آلام کی آندھیاں انسان کی کائناتِ دل و جاں کو زیر و زبر کر دیتی ہیں۔ دولت ِ سکون و قرار اور ثروت ِ تسکین و طمانیت سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ تب جاکر ایک مسلمان مسجود ِ ملائک کے اُس ارفع مرتبے کا مستحق بن جاتا ہے، جسے عبودیت کی انتہا کا نام دیا جاتا ہے۔

مشکلات و مصائب میں اظہارِ صبر و استقامت کے اعتبار سے سب سے بلند تر مقام و مرتبہ انبیائے کرام علیہم السلام کا ہے۔ اللہ کی ان محبوب ترین ہستیوں پر اعلان حق کے جرم کی پاداش میں جور و استبداد اور بہیمانہ اذیتوں کے جو پہاڑ توڑے گئے، اُن کے محض تصور سے ہی جبین انسانیت پر پسینہ آ جاتا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا چالیس سال تک اپنے عزیز از جان و دل لخت ِ جگر سیدنا یوسف علیہ السلام سے بچھڑنا مقام ِ صبر کا کتنا محیّرالعقول مشاہدہ ہے۔

جو ہستی اپنے نورِ نظر کو ایک لحظے کے لیے بھی جدا نہیں ہونے دیتی تھی، اسے ایسا ہول ناک عرصۂ مفارقت دیکھنا پڑا کہ آبشار کے بہاؤ کی طرح اشک باریوں کی وجہ سے آنکھوں کا نُور سلب ہوگیا۔ لیکن آپؑ صبر جمیل کے ساتھ وقت کے اُڑتے ہوئے لمحوں سے سمجھوتا کرتے رہے۔ یہ سب کچھ ٹھیک مشیت ِ ایزدی کے حکیمانہ انداز کے مطابق ہوتا رہا، بالاآخر صبر جمیل کا ثمر آپؑ کو اُس کیف آفرین وقت پر نصیب ہوا جب پیکر حُسن و جمال حضرت یوسف ؑ کا ستارہ قسمت اوج کمال پر تھا۔ یعنی مقام نبوت کے ساتھ تخت و تاج و حکومت بھی آپؑ کے زیر پا تھی۔ خُود حضرت یوسف ؑ کو دار و رسن اور قید قفس کے سنگین مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ لیکن اللہ کا یہ نبی صبر و طمانیت کے ساتھ یہ اذیتیں برداشت کرتا رہا۔

قرآن حکیم میں حضرت ایوبؑ کی ابتلا و آزمائش کا ذکر ہے۔ آپؑ کا جسم اقدس پھوڑوں اور پھنسیوں کی وجہ سے کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن گیا اور یہ اذیت ایک دو دن یا ایک دو ماہ کے لیے نہیں تھی، بل کہ سال ہا سال تک آپؑ کو اس شدید امتحان سے گزرنا پڑا۔ تب کہیں جاکر حکم ِ خدا وندی سے یہ امتحان بڑی پُروقار اور عظیم الشان کام یابی سے ہم کنار ہوا۔ صبر و رضا کے اسی شان دار مظاہرے اور واقعے کی بنا پر'' صبر ِ ایوب'' کی تلمیح تخلیق و ایجاد ہوئی۔ بلاشبہ اللہ کے چُنے ہوئے بندے صبر و توکل کے ساتھ ایام ِامتحان گزارتے اور سُرخ رو ہوتے ہیں۔


صبر و استقامت کا سب سے عدیم النظیر مظاہرہ امام الانبیائے کرام حضور سرور ِ عالم ﷺ کی ذاتِ والا صفات نے فرمایا۔ صبر کے باب میں حضور ؐ کی حیات ِ مبارکہ کا ایک ایک لمحہ مقام و کیفیتِ صبر کے مشاہدے سے آشنا کر رہا ہے۔ اعلان نبوت سے لے کر وصال نبوت تک امت آپ ؐ کی زندگی مبارک سے جلا پاتی رہے گی۔ اعلان ِحق کی پاداش میں وہ کون سے اذیت تھی، جس کا آپ ؐ کو سامنا نہ کرنا پڑا۔ حضورؐ کے اہل و عیال پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا۔ آپؐ کو تین سال تک محبوس و مقید رکھا گیا۔

آپؐ کے قدوم مبارک کو کانٹوں سے مجروح کیا گیا، گُلوئے مقدسہ میں چادر ڈال کر کھینچا گیا، حالت ِ سجدہ میں ہر آلائش سے منزہ آپ ؐ کی پُشت مبارک پر غلاظت پھینکی گئی، گالیاں دی گئیں حتی کہ حضور ؐ کو اپنے مولد مبارک سے نکلنے پر مجبور کر دیا گیا اور پھر پتا چلنے پر آپ ؐ کا تعاقب کیا گیا، بہ وقت ہجرت آپ ؐ کی بڑی صاحب زادیؓ کو بہیمانہ طریقے سے شہید کیا گیا، آپ ؐ پر جنگیں مسلط کی گئیں، آپ ؐ کو (معاذ اﷲ) صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کی مذموم کوششیں کی گئیں۔

جواب میں حضور ؐ نے صبر جمیل کا ایسا نادرالوجود اظہار فرمایا کہ آپؐ کو نہ صرف فتح ِ مبین سے نوازا گیا، بل کہ ظلم کی قیامتیں ڈھانے والے لرزتے، کپکپاتے ہوئے خُود بہ خود آپؐ کے قدموں میں سمٹ آئے۔ یہ ہے وہ صبر کی وہ دولت ِعظیم جو جان کے دشمنوں کو بھی اپنا اسیر بنا لیتی ہے۔ اس کے بعد آپؐ کے فِداکاروں نے بھی بے مثل صبر کا عدیم المثال مظاہر کیا۔

سیدنا بلال ؓ کو اللہ کی کبریائی کا پرچم بلند کرنے پر جس وحشت ناک عقوبت سے گزرنا پڑا، اُس سے تو ذرات زمین بھی لرز اُٹھتے ہوں گے لیکن اُس بے لوث جاں نثار ِ حبیب ِ کبریا ﷺ نے برداشت کی ایسی روشن مثال قائم کی، جو جریدۂ صبر کے اوراق کو جگمگاتی رہے گی۔ اس ضمن میں سیدنا صدیق اکبرؓ، حضرت عمار بن یاسرؓ اور خُبیب بن ارتؓ کا کردار اس کائنات ِ ارضی کو تابش عطا کرتا رہے گا۔

حضور اکرم ﷺ کے اہل ِ بیت ؓ کو ریگ زار کربلا میں جس طرح بھوکا پیاسا رکھ کر تیشۂ ظلم و ستم سے ذبح کیا گیا، خیموں کو آگ لگائی گئی حتیٰ کہ شہادت کے بعد نمرودان ِ وقت کے غصے کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی اور برگِ گُل سے بھی نازک تر اجسام ِ مقدسہ کو گھوڑوں کے سُموں سے پامال کیا گیا، مگر کروڑہا برکتیں اور رحمتیں نازل ہوں ملکہِ حمیت سیدہ زینبؓ پر کہ آپ نے اس ظلم ِعظیم پر بھی اُف نہ کی اور اسے عین رضائے الٰہی قرار دیا۔ کیوں کہ آپؓ کو معلوم تھا کہ صبر ہی خاندان ِنبوت ﷺ کا طرۂ امتیاز ہے، صبر ہی دنیا و آخرت میں قربت ِ خداوندی کا مظہر ہوتا ہے، صبر ہی انسان کو نیا ولولہ بخشتا ہے، صبر ہی مسلمان کے وقار و تمکنت اور شان و مرتبے میں اضافہ کرتا ہے، صبر ہی دشمنوں کے دل جیتنے کا سبب بنتا ہے، صبر ہی وجۂ تسکین قلب و نظر ہوتا ہے، صبر ہی پیمانۂ فراست و دانش کی علامت ہے، صبر ہی ظلمت ِشب کو ضیائے آفتاب عطا کرتا ہے کیوں کہ فرمان خُداوندی ہے: ''ﷲ، صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔''
Load Next Story