امریکی سابق خاتون اول کے رومانوی خطوط
جیکولین لی بلکہ جیکی کینڈی اوناسیس امریکا کے 35 ویں صدر جون ایف کینڈی کی اہلیہ تھیں
ان دنوں جب کہ امریکا کی نئی خاتون اول کا شوہرکے مقابلے میں ینگ اورخوبصورت ہونے کا خاصا چرچا ہورہا ہے۔ایک سابق خاتون اول جیکولین کینڈی کے کچھ ایسے خطوط بھی منظرعام پر آگئے ہیں جو انھوں نے ایک ایسے شخص کو لکھے تھے جن سے وہ شادی نہیں کرسکی تھیں۔
ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے اپنے کالم میں کچھ دلچسپ اور READABLE مواد بھی شامل کرلیا کریں۔ان خطوط کا تذکرہ بھی ہم اسی مقصد سے کررہے ہیں۔امید ہے ہمارے قارئین کو ہماری یہ کوشش پسند آئے گی۔ یہ درحقیقت لندن سے ارسال کردہ مسٹر اسٹیون ایرلینگرکے نیویارک ٹائمز میں شایع ہونے والے نیوزلیٹرکا اردو ترجمہ ہے۔
نومبر 1967 میں اپنے شوہرکے قتل کے چارسال بعد جیکولین کینڈی نے کلبوڈیا کے مشہور تاریخی مقام اینگکور واٹ کے مندروں کا دورہ کیا تھا،اس دورے میں جسے خاصی پبلسٹی ملی تھی۔ ڈیوڈ اومزبی گور ان کے ہمراہ تھے جو ان کے شوہرکے دوست بھی تھے اورکچھ ہی عرصے پہلے وہ بھی ایک حادثے کے نتیجے میں اپنی بیگم سے محروم ہوئے تھے۔
دونوں کی رومانوی وابستگی کی خاصی افواہیں پھیلی ہوئی تھیں۔ پھر اسی پس منظر میں چند ماہ بعد مسٹر اومزبی نے جو واشنگٹن میں برطانیہ کے سفیر رہ چکے تھے، جیکولین کوشادی کے لیے پروپوزکیا مگر خاتون نے صاف انکارکردیا۔ ایک ہاتھ سے لکھے ہوئے خط میں جس میں بے رخی بھی تھی، بے گانگی اور بے مروتی بھی جھلک رہی تھی۔ جیکولین نے نہ صرف انکارکیا بلکہ ایرسٹوٹل اور ناسیس سے شادی کا ارادہ بھی ظاہرکردیا۔
خاتون نے اپنے خط میں لکھا، اگر میں نے کبھی اپنے زخموں کے مرہم اور آرام کی جستجو کی، دنیا سے دورکا بھی واسطہ نہیں ہوگا۔میں اب ایسا کرسکتی ہوں اگر دنیا نے مجھے ایسا کرنے دیا۔
یہ ان خطوط میں سے ایک ہے جو دوسری دستاویزات کے ساتھ پچھلے ماہ ہی سرخ چمڑے کے باکسز میں بند مسٹر اومزبی کے ویلز میں واقع آبائی گھر سے دریافت ہوئے ہیں۔ مسٹر اومزبی 1985 میں چل بسے تھے اوراب آکے یہ خطوط اگلے ماہ ان کے پوتے لندن میں نیلام کریںگے، تاکہ اس طرح جو رقم حاصل ہو اس سے یہ آبائی گھر ٹھیک ٹھاک کرایا جاسکے۔
یہ خطوط اپنے دورکی انتہائی پرکشش اور ممتاز شخصیت کی حامل خاتون جیکولین کینڈی اوناسیس کے چہرے کے پیچھے چھپے ہوئے جذبات کو بے نقاب کرتے ہیں۔ان میں وہ خط بھی ہے جو انھوں نے اپنے شوہرکے قتل کے پانچ ماہ اور ماسٹراوناسیس سے شادی کے ایک ماہ بعد 13 نومبر 1968 کو لکھا تھا۔
اس خط میں مسزکینڈی نے اس محبت اورجذباتی وابستگی کا ذکرکیا تھا، جو وہ مسٹر اومزبی کے بارے میں رکھتی تھیں جن کی اپنی بیگم مئی 1967 میں کارکے حادثے میں ہلاک ہوگئی تھیں۔ انھوں نے لکھا تھا کہ ''ہم نے ایک دوسرے کو اتنا جانا پہچانا اور شیئرکیا ہے اور مل کر بہت کچھ کھویا ہے دکھوں کے ایک سے عذاب سے گزرے ہیں۔ مجھے امید ہے ہماری محبت محرومی اورکرب کا یہ رشتہ کبھی ختم نہیں ہوگا'' پھر جب وہ یونان کے ساحل پرکھڑے مسٹر اوناسیس کے محل نما بحری جہاز میں عیش وآرام کی زندگی کے مزے لے رہی تھیں تو ان کا پیغام قدرے سرد مہری پر مبنی تھا جس میں انھوں نے صاف صاف کہہ دیاتھا۔ ''مسٹر اومزبی گور! تم میرے بالکل پیارے پیارے سے بھائی ہو، قابل بھروسہ مشیر مجھ سے اسی طرح قریب تر جیسے تم جیک سے تھے، اس کے علاوہ مزید کچھ نہیں۔''
ماسٹر اومزبی نے جیکولین کی مسٹر اوناسیس کی چوائس پر بھی تھوڑی سی ناگواری کا اظہار کیا تھا جس پر خاتون کا رسپانس کچھ یوں تھا۔
پلیز جاننے کی کوشش کرو۔ ہم کبھی اچھی طرح ایک دوسرے کے دلوں میں اچھی طرح نہیں جھانک سکتے۔ تمہارے لیے یہ جاننا لازمی ہے کہ تم اپنے خط میں جس شخص کو چند الفاظ میں رائٹ آف کررہے ہو وہ درحقیقت وہ شخص نہیں ہے جس سے میں نے شادی کی ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہے۔
مسٹر اوناسیس تنہائی کا شکار ہیں مگر وہ مجھے تنہائی سے محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ عقلمند بھی ہیں، مہرباں بھی اوررحم دل بھی۔ مجھے معلوم ہے میں نے بہت سوں کو یہ کام کرکے حیران پریشان کیا ہے مگر یہ لوگ میرے لیے وہ چیزیں دیکھتے ہیں جو مجھے اپنے لیے مطلوب نہیں ہیں۔
مسٹر اومزبی گور جون ایف کینڈی کے یارغار تھے بلکہ جون کی چھوٹی بہن کیتھلین نے مسٹرگور کے فرسٹ کزن سے شادی کی تھی جس کے بعد دونوں ایک دوسرے کے اور زیادہ قریب آگئے تھے۔ پھر 1960 میں مسٹرکینڈی کے جوان سال صدر بننے کے بعد اس وقت کے برطانوی وزیراعظم مسٹر ہیرالڈ مکملن نے مسٹر اومزبی گورکو برطانوی سفیر بناکر واشنگٹن بھیج دیا تھا۔
دونوں افراد جن کی عمروں میں صرف ایک سال کا فرق تھا، ایک دوسرے سے خاصے قریب تھے۔ صدر کینڈی خارجہ پالیسی کے ہر اہم معاملے پر ان سے صلاح مشورے کیا کرتے تھے۔خاص طور پر 1962 کے کیوبا کے میزائل بحران ویت نام کی خانہ جنگی اورایٹمی تخفیف اسلحہ پر دونوں ایک دوسرے سے اکثر CONSULT کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک خط وہ بھی ہے جس میں صدرکینڈی نے فاضل سفیرکی تعریف کی اور لکھا جیساکہ تمہیں خود معلوم ہے میں نے ان اہم ترین معاملات پر تمہارے ججمنٹ کی ہمیشہ تعریف کی ہے جسے میں نے ہمیشہ سچا اور نشانے پر پایا ہے۔
مجموعی طور پر مسٹر اومزبی کے ذاتی سازوسامان سے دوسرے کاغذات کے علاوہ مسزکینڈی کے ہاتھ سے لکھے ہوئے اٹھارہ خطوط اورایک ٹائپ شدہ خط برآمد ہوا ہے۔ ان میں ایک پاس بھی ہے جس کے ذریعے جون کینڈی کے قتل کے ایک دن بعد مسٹر اومزبی وہائٹ ہاؤس میں داخل ہوئے تھے۔ ایک خط وہ ہے جو مسزکینڈی نے ایک حادثے میں مسٹر اومزبی کی اہلیہ سلویا کے ہلاک ہونے پر لکھا تھا جس سے دونوں کے درمیان خاصی اپنائیت جھلکتی تھی، شاید اسی خط سے مسٹر اومزبی کے دل میں مسزکینڈی سے شادی کرنے کی خواہش جاگی ہوگی۔
انھوں نے لکھا تھا ''ڈیئر اومزبی! تمہارے پچھلے خط سے مجھے تمہاری تنہائیوں کا اچھی طرح اندازہ ہوگیا ہے میں تمہاری بے چینی دورکرنے کے لیے کچھ بھی کرگزروںگی، تم اپنے زخموں کے لیے مرہم چاہتے ہو اپنی زندگی کے بکھرے ہوئے تانے بانے سمیٹنا چاہتے ہو، مگر تم یہ نہیں کر پاؤگے کیونکہ تمہاری زندگی وہ رخ اختیار نہیں کرے گی جیساکہ تم چاہتے ہو۔
ایک خط میں مسزکینڈی نے یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا ہے کہ جون کینڈی کے صدر بننے کے بعد جب وہ انتہا درجے کی مصروفیات کی وجہ سے مجھ سے قدرے دورچلے گئے تھے، میں خاتون اول ہونے کے باوجود ان ایام کا ماتم کیا کرتی تھی، مگر جون کے افسوسناک انداز سے جدا ہونے کے بعد یہی وہ دور تھا جس نے مجھ میں بعد کے کربناک واقعات کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کیا تھا۔
ایک خط میں برسبیل تذکرہ مسزکینڈی نے ایسی خواتین کو جو ان جیسے حالات سے گزر رہی ہیں کچھ مشورے بھی دیے ہیں۔ ان کا سب سے قیمتی اور اہم مشورہ خود کو مصروف رکھنا ہے جس کے لیے دوسری شادی سے بہترکوئی اور راستہ نہیں ہوسکتا۔ نئی آدمی میں آپ اپنی اس محبوب شخصیت کا پر تو ڈھونڈسکتے ہیں جسے آپ کھوچکے ہیں۔
بقول ان کے ''دوسری شادی پرانے زخموں کو مندمل کرسکتی ہے پچھلے دکھوں کا مداوا بھی کرسکتی ہے۔ دوسری صورت میں نئے دکھ، نئے صدمے بھی دے سکتی ہے اور آپ اپنے پچھلے غموں کو بھول بھی سکتے ہیں، لیکن کسی صورت میں بھی اپنی شخصیت سے غافل نہ ہوں۔اپنے روحانی اور جسمانی صحت کا ہر حال میں خیال رکھیں، اپنی سوشل لائف، فیملی لائف خاص طور پر بچوں کی دیکھ بھال میں مگن رہیں۔
جیکولین لی بلکہ جیکی کینڈی اوناسیس امریکا کے 35 ویں صدر جون ایف کینڈی کی اہلیہ تھیں جو 1961 سے لے کر 1963 میں اپنے شوہرکے قتل تک امریکا کی خاتون اول رہیں۔ وہ 28 جولائی 1929 کو ساؤتھ میتن نیو یارک میں پیدا ہوئیں، ان کے والد جون لوویئر ایک دولت مند بزنس مین تھے۔ مسزکینڈی اوناسیس کا انتقال 19 مئی 1996 کو مین ہٹن نیو یارک سٹی میں ہوا تھا۔ مسٹر اومزبی کے کاغذات میں ایک اور جذبات میں تلاطم پیدا کرنے والی دستاویز وہ خط ہے جو انھوں نے اس وقت لکھا تھا جب مسزکینڈی نے ان کی شادی کی پیشکش ٹھکرادی تھی۔
وہ سارے دلخراش منصوبے جو میں اس وقت اپنے ساتھ لایا تھا جب ہم دونوں ایک ساتھ چھٹیاں منانے نکلے تھے ۔ ان میں ہماری شادی کے کئی مسائل کے بہت سارے حل تھے جن میں اس موسم گرما میں ''سیکرٹ میرج'' کی تجویز شامل تھی۔ وہ سارے منصوبے جن پر ہم بڑی دلچسپی اور انہماک سے کلبوڈیا میں دس دن تک بحث کرتے رہے۔ اتفاق و اختلاف کرتے رہے وہ سارے منصوبے اب بالکل غیر متعلق ہوگئے اور نیو یارک میں لینڈ کرنے کے چندگھنٹوں کے اندرکوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے جن کا واحد مصرف انہیں ڈسٹ بن میں پھینک دینا ہے۔
جہاں تک تمہاری تصویرکا تعلق ہے کبھی یہ مجھے خوشیاں دیتی تھی اب اسے دیکھ کر مجھے رونا آجاتا ہے آخر یہ سب کربناک چیزیں ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوتی ہیں۔ آخر ان کی ضرورت کیا ہے؟
ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے اپنے کالم میں کچھ دلچسپ اور READABLE مواد بھی شامل کرلیا کریں۔ان خطوط کا تذکرہ بھی ہم اسی مقصد سے کررہے ہیں۔امید ہے ہمارے قارئین کو ہماری یہ کوشش پسند آئے گی۔ یہ درحقیقت لندن سے ارسال کردہ مسٹر اسٹیون ایرلینگرکے نیویارک ٹائمز میں شایع ہونے والے نیوزلیٹرکا اردو ترجمہ ہے۔
نومبر 1967 میں اپنے شوہرکے قتل کے چارسال بعد جیکولین کینڈی نے کلبوڈیا کے مشہور تاریخی مقام اینگکور واٹ کے مندروں کا دورہ کیا تھا،اس دورے میں جسے خاصی پبلسٹی ملی تھی۔ ڈیوڈ اومزبی گور ان کے ہمراہ تھے جو ان کے شوہرکے دوست بھی تھے اورکچھ ہی عرصے پہلے وہ بھی ایک حادثے کے نتیجے میں اپنی بیگم سے محروم ہوئے تھے۔
دونوں کی رومانوی وابستگی کی خاصی افواہیں پھیلی ہوئی تھیں۔ پھر اسی پس منظر میں چند ماہ بعد مسٹر اومزبی نے جو واشنگٹن میں برطانیہ کے سفیر رہ چکے تھے، جیکولین کوشادی کے لیے پروپوزکیا مگر خاتون نے صاف انکارکردیا۔ ایک ہاتھ سے لکھے ہوئے خط میں جس میں بے رخی بھی تھی، بے گانگی اور بے مروتی بھی جھلک رہی تھی۔ جیکولین نے نہ صرف انکارکیا بلکہ ایرسٹوٹل اور ناسیس سے شادی کا ارادہ بھی ظاہرکردیا۔
خاتون نے اپنے خط میں لکھا، اگر میں نے کبھی اپنے زخموں کے مرہم اور آرام کی جستجو کی، دنیا سے دورکا بھی واسطہ نہیں ہوگا۔میں اب ایسا کرسکتی ہوں اگر دنیا نے مجھے ایسا کرنے دیا۔
یہ ان خطوط میں سے ایک ہے جو دوسری دستاویزات کے ساتھ پچھلے ماہ ہی سرخ چمڑے کے باکسز میں بند مسٹر اومزبی کے ویلز میں واقع آبائی گھر سے دریافت ہوئے ہیں۔ مسٹر اومزبی 1985 میں چل بسے تھے اوراب آکے یہ خطوط اگلے ماہ ان کے پوتے لندن میں نیلام کریںگے، تاکہ اس طرح جو رقم حاصل ہو اس سے یہ آبائی گھر ٹھیک ٹھاک کرایا جاسکے۔
یہ خطوط اپنے دورکی انتہائی پرکشش اور ممتاز شخصیت کی حامل خاتون جیکولین کینڈی اوناسیس کے چہرے کے پیچھے چھپے ہوئے جذبات کو بے نقاب کرتے ہیں۔ان میں وہ خط بھی ہے جو انھوں نے اپنے شوہرکے قتل کے پانچ ماہ اور ماسٹراوناسیس سے شادی کے ایک ماہ بعد 13 نومبر 1968 کو لکھا تھا۔
اس خط میں مسزکینڈی نے اس محبت اورجذباتی وابستگی کا ذکرکیا تھا، جو وہ مسٹر اومزبی کے بارے میں رکھتی تھیں جن کی اپنی بیگم مئی 1967 میں کارکے حادثے میں ہلاک ہوگئی تھیں۔ انھوں نے لکھا تھا کہ ''ہم نے ایک دوسرے کو اتنا جانا پہچانا اور شیئرکیا ہے اور مل کر بہت کچھ کھویا ہے دکھوں کے ایک سے عذاب سے گزرے ہیں۔ مجھے امید ہے ہماری محبت محرومی اورکرب کا یہ رشتہ کبھی ختم نہیں ہوگا'' پھر جب وہ یونان کے ساحل پرکھڑے مسٹر اوناسیس کے محل نما بحری جہاز میں عیش وآرام کی زندگی کے مزے لے رہی تھیں تو ان کا پیغام قدرے سرد مہری پر مبنی تھا جس میں انھوں نے صاف صاف کہہ دیاتھا۔ ''مسٹر اومزبی گور! تم میرے بالکل پیارے پیارے سے بھائی ہو، قابل بھروسہ مشیر مجھ سے اسی طرح قریب تر جیسے تم جیک سے تھے، اس کے علاوہ مزید کچھ نہیں۔''
ماسٹر اومزبی نے جیکولین کی مسٹر اوناسیس کی چوائس پر بھی تھوڑی سی ناگواری کا اظہار کیا تھا جس پر خاتون کا رسپانس کچھ یوں تھا۔
پلیز جاننے کی کوشش کرو۔ ہم کبھی اچھی طرح ایک دوسرے کے دلوں میں اچھی طرح نہیں جھانک سکتے۔ تمہارے لیے یہ جاننا لازمی ہے کہ تم اپنے خط میں جس شخص کو چند الفاظ میں رائٹ آف کررہے ہو وہ درحقیقت وہ شخص نہیں ہے جس سے میں نے شادی کی ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہے۔
مسٹر اوناسیس تنہائی کا شکار ہیں مگر وہ مجھے تنہائی سے محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ عقلمند بھی ہیں، مہرباں بھی اوررحم دل بھی۔ مجھے معلوم ہے میں نے بہت سوں کو یہ کام کرکے حیران پریشان کیا ہے مگر یہ لوگ میرے لیے وہ چیزیں دیکھتے ہیں جو مجھے اپنے لیے مطلوب نہیں ہیں۔
مسٹر اومزبی گور جون ایف کینڈی کے یارغار تھے بلکہ جون کی چھوٹی بہن کیتھلین نے مسٹرگور کے فرسٹ کزن سے شادی کی تھی جس کے بعد دونوں ایک دوسرے کے اور زیادہ قریب آگئے تھے۔ پھر 1960 میں مسٹرکینڈی کے جوان سال صدر بننے کے بعد اس وقت کے برطانوی وزیراعظم مسٹر ہیرالڈ مکملن نے مسٹر اومزبی گورکو برطانوی سفیر بناکر واشنگٹن بھیج دیا تھا۔
دونوں افراد جن کی عمروں میں صرف ایک سال کا فرق تھا، ایک دوسرے سے خاصے قریب تھے۔ صدر کینڈی خارجہ پالیسی کے ہر اہم معاملے پر ان سے صلاح مشورے کیا کرتے تھے۔خاص طور پر 1962 کے کیوبا کے میزائل بحران ویت نام کی خانہ جنگی اورایٹمی تخفیف اسلحہ پر دونوں ایک دوسرے سے اکثر CONSULT کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک خط وہ بھی ہے جس میں صدرکینڈی نے فاضل سفیرکی تعریف کی اور لکھا جیساکہ تمہیں خود معلوم ہے میں نے ان اہم ترین معاملات پر تمہارے ججمنٹ کی ہمیشہ تعریف کی ہے جسے میں نے ہمیشہ سچا اور نشانے پر پایا ہے۔
مجموعی طور پر مسٹر اومزبی کے ذاتی سازوسامان سے دوسرے کاغذات کے علاوہ مسزکینڈی کے ہاتھ سے لکھے ہوئے اٹھارہ خطوط اورایک ٹائپ شدہ خط برآمد ہوا ہے۔ ان میں ایک پاس بھی ہے جس کے ذریعے جون کینڈی کے قتل کے ایک دن بعد مسٹر اومزبی وہائٹ ہاؤس میں داخل ہوئے تھے۔ ایک خط وہ ہے جو مسزکینڈی نے ایک حادثے میں مسٹر اومزبی کی اہلیہ سلویا کے ہلاک ہونے پر لکھا تھا جس سے دونوں کے درمیان خاصی اپنائیت جھلکتی تھی، شاید اسی خط سے مسٹر اومزبی کے دل میں مسزکینڈی سے شادی کرنے کی خواہش جاگی ہوگی۔
انھوں نے لکھا تھا ''ڈیئر اومزبی! تمہارے پچھلے خط سے مجھے تمہاری تنہائیوں کا اچھی طرح اندازہ ہوگیا ہے میں تمہاری بے چینی دورکرنے کے لیے کچھ بھی کرگزروںگی، تم اپنے زخموں کے لیے مرہم چاہتے ہو اپنی زندگی کے بکھرے ہوئے تانے بانے سمیٹنا چاہتے ہو، مگر تم یہ نہیں کر پاؤگے کیونکہ تمہاری زندگی وہ رخ اختیار نہیں کرے گی جیساکہ تم چاہتے ہو۔
ایک خط میں مسزکینڈی نے یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا ہے کہ جون کینڈی کے صدر بننے کے بعد جب وہ انتہا درجے کی مصروفیات کی وجہ سے مجھ سے قدرے دورچلے گئے تھے، میں خاتون اول ہونے کے باوجود ان ایام کا ماتم کیا کرتی تھی، مگر جون کے افسوسناک انداز سے جدا ہونے کے بعد یہی وہ دور تھا جس نے مجھ میں بعد کے کربناک واقعات کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کیا تھا۔
ایک خط میں برسبیل تذکرہ مسزکینڈی نے ایسی خواتین کو جو ان جیسے حالات سے گزر رہی ہیں کچھ مشورے بھی دیے ہیں۔ ان کا سب سے قیمتی اور اہم مشورہ خود کو مصروف رکھنا ہے جس کے لیے دوسری شادی سے بہترکوئی اور راستہ نہیں ہوسکتا۔ نئی آدمی میں آپ اپنی اس محبوب شخصیت کا پر تو ڈھونڈسکتے ہیں جسے آپ کھوچکے ہیں۔
بقول ان کے ''دوسری شادی پرانے زخموں کو مندمل کرسکتی ہے پچھلے دکھوں کا مداوا بھی کرسکتی ہے۔ دوسری صورت میں نئے دکھ، نئے صدمے بھی دے سکتی ہے اور آپ اپنے پچھلے غموں کو بھول بھی سکتے ہیں، لیکن کسی صورت میں بھی اپنی شخصیت سے غافل نہ ہوں۔اپنے روحانی اور جسمانی صحت کا ہر حال میں خیال رکھیں، اپنی سوشل لائف، فیملی لائف خاص طور پر بچوں کی دیکھ بھال میں مگن رہیں۔
جیکولین لی بلکہ جیکی کینڈی اوناسیس امریکا کے 35 ویں صدر جون ایف کینڈی کی اہلیہ تھیں جو 1961 سے لے کر 1963 میں اپنے شوہرکے قتل تک امریکا کی خاتون اول رہیں۔ وہ 28 جولائی 1929 کو ساؤتھ میتن نیو یارک میں پیدا ہوئیں، ان کے والد جون لوویئر ایک دولت مند بزنس مین تھے۔ مسزکینڈی اوناسیس کا انتقال 19 مئی 1996 کو مین ہٹن نیو یارک سٹی میں ہوا تھا۔ مسٹر اومزبی کے کاغذات میں ایک اور جذبات میں تلاطم پیدا کرنے والی دستاویز وہ خط ہے جو انھوں نے اس وقت لکھا تھا جب مسزکینڈی نے ان کی شادی کی پیشکش ٹھکرادی تھی۔
وہ سارے دلخراش منصوبے جو میں اس وقت اپنے ساتھ لایا تھا جب ہم دونوں ایک ساتھ چھٹیاں منانے نکلے تھے ۔ ان میں ہماری شادی کے کئی مسائل کے بہت سارے حل تھے جن میں اس موسم گرما میں ''سیکرٹ میرج'' کی تجویز شامل تھی۔ وہ سارے منصوبے جن پر ہم بڑی دلچسپی اور انہماک سے کلبوڈیا میں دس دن تک بحث کرتے رہے۔ اتفاق و اختلاف کرتے رہے وہ سارے منصوبے اب بالکل غیر متعلق ہوگئے اور نیو یارک میں لینڈ کرنے کے چندگھنٹوں کے اندرکوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے جن کا واحد مصرف انہیں ڈسٹ بن میں پھینک دینا ہے۔
جہاں تک تمہاری تصویرکا تعلق ہے کبھی یہ مجھے خوشیاں دیتی تھی اب اسے دیکھ کر مجھے رونا آجاتا ہے آخر یہ سب کربناک چیزیں ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوتی ہیں۔ آخر ان کی ضرورت کیا ہے؟