پاکستان الیکشن کمیشن خودمختاری کی راہ پر
وطن عزیز میں صاف شفاف انتخابات کرانے کی راہ ہموار ہونے لگی
ANSAN:
آسٹریلیا کی کہاوت ہے: ''اگر آپ الیکشن میں ووٹ نہیں دیتے' تو آپ کو شکایت کرنے کا بھی حق حاصل نہیں۔'' یہ کہاوت دور جدید میں الیکشنوں کی اہمیت بخوبی اجاگر کرتی ہے۔ آج پاکستان سمیت اکثر ممالک میں عوام الناس الیکشن کے ذریعے ہی اپنے نئے حکمران منتخب کرتے ہیں ۔ لہٰذا یہ ضروری ہو چکا کہ ہر ملک میں عوام و خواص سوچ سمجھ کر صرف اہل و قابل لیڈروں ہی کو ووٹ دیں تاکہ وہ حکومت سنبھال کر ملک و قوم کو ترقی دے سکیں۔ آسٹریلیا میں تو ووٹ ڈالنے کو لازم قرار دیا جا چکا تاکہ شہری ملک وقوم کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھنے والے عمل سے بے اعتنائی نہ برتیں۔
دنیا کے ہر ملک میں الیکشن کمیشن یا اس سے ملتے جلتے ادارے کے تحت الیکشن منعقد ہوتے ہیں۔ بیشتر ممالک میں الیکشن کمیشن خود مختار اور آزاد ادارے ہیں تاکہ وہ صاف وشفاف الیکشن کرانے کے سلسلے میں اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآں ہو سکیں۔ صاف ستھرے انتخابات انجام دینے کی ذمے داری الیکشن کمیشن کے ہی سپرد ہوتی ہے۔
پاکستان میں 23 مارچ 1956ء کو الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔ تاہم مارشل لا لگنے کے بعد وہ منجمد ہئیت اختیار کر لیتا۔ آئین 1973ء کے آرٹیکل 239 نے الیکشن کمیشن کے اختیارات و ذمے داریوں کا تعین کیا اور اسے خود مختار و آزاد ادارہ بنا دیا گیا۔ تاہم حقیقی معنوں میں الیکشن کمیشن حکومت وقت اور عدلیہ کے رحم و کرم پر رہا۔
پارلیمانی انتخابات 2008ء کے بعد یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ الیکشن کمیشن کو صحیح معنوں میں بااختیار' خود مختار' اور طاقتور ادارہ بنایا جائے تاکہ پاکستان میں صاف شفاف انتخابات کرانے کی راہ ہموار ہو سکے۔ چناںچہ تب سے الیکشن کمیشن میں اصلاحات لانے کی غرض سے پارلیمنٹ میں چار ترمیمیں منظور ہو چکیں۔ ان میں اٹھارہویں ترمیم (2010ء) ' انیسویں ترمیم (2010ء) 'بیسویں ترمیم(2012) اور بائیسویں ترمیم (2016ء) شامل ہیں۔
6 فروری 2017ء کو وفاقی کابینہ نے ''انتخابی اصلاحات بل'' منظور کر لیا۔ یہ بل عنقریب پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ اس کی منظوری سے الیکشن کمیشن پہلے سے زیادہ بااختیار اور آزاد ادارے کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ یہ بل ایک پارلیمانی کمیٹی نے اتفاق رائے سے تیار کیا ہے۔ اس بل کی منظوری ایک خوش آئند امر ہے۔ یوں وطن عزیز میں صاف شفاف الیکشن کا انعقاد ممکن ہو سکے گا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور ہمارے پڑوسی' بھارت ' دونوں کے الیکشن کمیشن ازروئے قانون و آئین آزاد و خود مختار ہیں۔ مگر بھارتی الیکشن کمیشن پاکستانی معاصر کی نسبت کہیں زیادہ طاقت و قوت رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں وفاقی سطح پر یا کسی ریاست میں انتخابات کرانے کا اعلان ہو ' تو وہاں بھارتی الیکشن کمیشن سب سے طاقتور ریاستی ادارے کی شکل اختیار کر لیتاہے۔
مثال کے طور پر بھارت میں 17 اپریل تا12مئی 2014ء کو پارلیمانی الیکشن انجام پائے تھے۔ اسی د وران کانگریسی حکومت نے جنرل دلبیر سنگھ کو بھارتی بری فوج کا نیا سربراہ مقرر کر دیا۔ لیکن ازروئے قانون جنرل دلبیر کی تقرری کے لیے حکومت کو الیکشن کمیشن سے اجازت لینا پڑی۔ وجہ یہ کہ جب الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو جائے' تو بھارتی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہر سرکاری عہدے پر تقرری یا تبادلے کی پیشگی اجازت اپنے الیکشن کمیشن سے حاصل کرے۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بھارتی الیکشن کمیشن کو اپنی خود مختاری اور آزادی حاصل کرنے کی خاطر سیاست دانوں اور افسر شاہی سے خصوصاً عدالتوں میں باقاعدہ جنگ لڑنا پڑی ۔ یہ بھارتی سپریم کورٹ ہے جس کے ججوں نے مختلف مقدمات میں الیکشن کمیشن کی طرف داری کی اور حکومت وقت کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ بھارتی عدلیہ کے جامع وبلیغ فیصلوں سے الیکشن کمیشن کی طاقتیں بڑھتی چلی گئیں۔
آج بھارت میں یہ عالم ہے کہ کسی بھی الیکشن کے موقع پر سیاسی جماعتیں یا عام امیدوار انتظامی خرابیوں کی شکایت تو کرتے ہیں' مگر ایک بھی شخص بھارتی الیکشن کمیشن پر یہ الزام نہیں دھرتا کہ اس نے انتخابات میں دھاندلی کرائی ہے۔ حتیٰ کہ سیاست میں در آنے والے جرائم پیشہ افراد بھی یہ ہمت نہیں کرپاتے کہ اپنے الیکشن کمیشن پر انگلی اٹھا سکیں۔ بھارتی سیاست میں یہ نظریہ راسخ ہو چکا کہ صاف و شفاف انتخابات کرانے کی خاطر الیکشن کمیشن ہر ممکن قانونی اقدامات کرتا ہے۔اور یہ کہ وہ دوران الیکشن ہرگز فریق نہیں بنتا اور کامل طور پر غیر جانب داری برتتا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں ہر الیکشن کے بعدیہ شور مچ جاتا ہے کہ خصوصاً جیتنے والے نے دھاندلی کرائی ہے تبھی وہ جیت گیا ۔ یہ شور و غل قدرتاً الیکشن کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ الیکشن 2013ء کے بعد بھی ''دھاندلی' دھاندلی'' کا غل مچا اور قسم قسم کی باتیں اور افواہیں سننے میں آئیں۔ مشکوک الیکشن پورے جمہوری عمل کی سالمیت داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ بھارت کی طرح پاکستان میں بھی الیکشن کمیشن کو مکمل طور پر آزاد و خود مختار بنا دیا جائے۔ اس عمل سے وطن عزیز میں بھی منصفانہ الیکشن کا انعقاد خاصی حد تک یقینی ہو جائے گا۔ یوں جمہوریت پر عوام الناس کا اعتماد بڑھے گا اور صرف وہی لیڈر برسراقتدار آ سکیں گے جو سیاست کو کمائی کا ذریعہ نہیں انسانیت کی خدمت کا طریقہ کار سمجھتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ دنیا بھر میں سیاست اور دولت کی قربت بڑھ رہی ہے۔ حقیقتاً اکثر ممالک میں انتخابات جیتنے کی خاطر دولت کا بے محابہ اور ناجائز استعمال ہر الیکشن کمیشن کے لیے درد سر بن چکا۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں جرائم پیشہ لوگ بہ موقع انتخابات پیسہ پانی کی طرح بہا کر جیت جاتے ہیں ۔ یہ عجوبہ بھارت میں بھی نمایاں ہے۔ مثال کے طور پر الیکشن 2014ء میں 543 ارکان منتخب ہوکر لوک سبھا (قومی اسمبلی) میں پہنچے۔ ان میں سے 186 ارکان اسمبلی پر کوئی نہ کوئی مقدمہ چل رہا تھا۔ کئی مقدمات خطرناک جرائم مثلاً قتل، اغوا، بے حرمتی، فراڈ وغیرہ سے تعلق رکھتے تھے۔
اعدادو شمار کی رو سے بھارتی پارلیمنٹ میں جرائم پیشہ اور دولت مند افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ مثال کے طور پر الیکشن 2004ء میں جو ارکان منتخب ہوئے، ان میں سے ''24 فیصد'' پر کرمنل کیس چل رہے تھے۔ الیکشن 2014ء میں ایسے ارکان کی تعداد ''34'' فیصد ہوگئی۔ اسی طرح الیکشن 2004ء میں ہر رکن پارلیمنٹ کی دولت تقریباً ''پونے دو کروڑ روپے'' تھی۔ آج ہر رکن پارلیمنٹ ''پندرہ کروڑ روپے'' کے اثاثے رکھتا ہے۔ گویا بھارت میں سیاست داں روز بروز دولت مند ہوتے جارہے ہیں۔
روپے پیسے کی بڑھتی قوت کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارتی الیکشن کمیشن بھی مودی حکومت سے مطالبہ کررہا ہے کہ اسے یہ اختیار دیا جائے کہ کرپٹ اور جرائم پیشہ لوگوں کو الیکشن لڑنے سے روکا جاسکے۔ دراصل بھارت میں بھی کرپٹ افراد عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کرکے الیکشن کمیشن کے احکامات پرزے کرکے ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔پچھلے سال الیکشن کمیشن نے ریاست تامل ناڈو کے ریاستی انتخابات کے موقع پر دو حلقوں میں ووٹنگ معطل کردی۔ وہاں سے اطلاع آئی تھی کہ امیدوار رقم یا سامان دے کر لوگوں کے ووٹ خرید رہے ہیں۔ جب چند ماہ بعد دونوں حلقوں میں ووٹنگ ہوئی، تو وہی امیدوار دوبارہ اس میں حصہ لے رہے تھے۔ ہائی کورٹ نے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی تھی۔
بھارت کے مسلمان چیف الیکشن کمشنر
شہاب الدین یعقوب قریشی جولائی 2010ء تا جون 2012ء بھارت کے چیف الیکشن کمشنر رہے۔ وہ طویل عرصہ بھارتی الیکشن کمیشن سے منسلک رہے اور جو تلخ و شیریں تجربات انہوں نے حاصل کیے، اپنی کتاب"An undocumented wonder" میں بیان کردیئے۔
قریشی صاحب بتاتے ہیں کہ جب بھارت میں وفاقی یا ریاستی انتخابات کا موقع آئے، تو الیکشن کمیشن اس علاقے کا حکمران بن جاتا ہے۔ اب ساری انتظامیہ اس کے ماتحت ہوتی ہے۔ ووٹنگ سے منسلک سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی اپنی اپنی پارٹی سے علیحدہ کردیئے جاتے ہیں۔ اب وہ پارٹی رہنماؤں سے کوئی رابطہ نہیں کرسکتے۔ اگر الیکشن کمیشن کو یہ معلوم ہو کہ کسی کارکن نے اپنی قیادت سے رابطہ کیا ہے، تو اسے ووٹنگ کے عمل سے الگ کردیا جاتا ہے۔
عام طور پر حکومت سنبھالتے ہی الیکشن کمیشن وفاقی یا ریاستی سطح پر وسیع پیمانے پر تبادلے اور تقرریاں کرتا ہے۔ مدعا یہ ہوتا ہے کہ کوئی سرکاری افسر کسی سیاسی جماعت سے ہمدردی رکھتا ہے تو وہ اس کو دوران الیکشن ناجائز فائدہ نہ پہنچاسکے۔ اسی دوران کوئی عدالت، حتیٰ کہ سپریم کورٹ بھی الیکشن کمیشن کے اقدامات کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا۔
بھارتی الیکشن کمیشن کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر سید نسیم احمد زیدی بھی مسلم اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ زیدی صاحب کا کہنا ہے کہ ''دولت کی طاقت'' سے مقابلہ بھارتی الیکشن کمیشن کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار مل جائے کہ جس ریاستی یا وفاقی الیکشن میں روپیہ پیسہ بہانے کی اطلاع ملے وہ اسے کالعدم قرار دے سکے۔ تاہم مودی حکومت میں بیٹھے مفاد پرست سیاست داں اپنے الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔
بھارتی سیاست دانوں کو علم ہے کہ اگر الیکشن کمیشن کو یہ طاقت مل گئی کہ وہ کرپٹ مال داروں کو الیکشن لڑنے سے روک دے، تو ''سسٹم'' تبدیل کرنے کے خواہش مند نظریاتی لیڈر پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں گے۔ وہ پھر نہ صرف روایتی سیاسی گھرانوں کی کمائی کے دھندے ختم کرسکتے ہیں بلکہ ان کا اثرو رسوخ بھی ماند پڑ جائے گا۔ اسی لیے بھارت کی سیاست پر قابض سیاسی خاندان الیکشن کمیشن کو اتنی زیادہ طاقتیں نہیں دینا چاہتے کہ وہ ان کے اقتدار، مال پانی بنانے کی سرگرمیوں اور طاقت کو چیلنج کرنے لگے۔
بہرحال ہر چھوٹے بڑے الیکشن کو صاف شفاف اور منصفانہ بنانے کے لیے ڈاکٹر نسیم احمد زیدی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ایک اہم حکم نامہ جاری کیا ہے وہ یہ کہ اب ہر الیکشن میں انکم ٹیکس افسر ہر سیاسی جماعت اور امیدوار کے بینک اکاؤنٹس اور حساب کتاب کی نگرانی کریں گے۔ وہ پڑتال کریں گے کہ رقم کہاں سے آئی اور کس پر خرچ ہوئی۔ زیدی صاحب کو یقین ہے کہ اس اقدام سے ان امیدواروں کی حوصلہ شکنی ہوگی کہ جو ووٹ خرید کر الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر نسیم زیدی نے ایک اور انقلابی فیصلہ کیا ہے۔ وہ یہ کہ اسکولوں کے نصاب میں الیکشن کا طریق کار شامل کر دیا جائے۔ یہی نہیں، اب ہر بھارتی اسکول سال میں ایک بار وفاقی یا ریاستی سطح پر ہونے والے الیکشن کی نقل میں انتخابات کرائے گا۔ مقصد یہ ہے کہ ہر بھارتی بچہ نہ صرف ووٹ ڈالنے کا طریقہ سیکھ لے، بلکہ اسے یہ شعور بھی حاصل ہو کہ ووٹ ایک مقدس امانت ہے اور صرف ''اہل'' امیدوار ہی اس کو پانے کا حق رکھتا ہے۔ واضح رہے، بھارت میں ہر سال دو کروڑ شہری ووٹ ڈالنے کے حقدار بن جاتے ہیں۔n
آسٹریلیا کی کہاوت ہے: ''اگر آپ الیکشن میں ووٹ نہیں دیتے' تو آپ کو شکایت کرنے کا بھی حق حاصل نہیں۔'' یہ کہاوت دور جدید میں الیکشنوں کی اہمیت بخوبی اجاگر کرتی ہے۔ آج پاکستان سمیت اکثر ممالک میں عوام الناس الیکشن کے ذریعے ہی اپنے نئے حکمران منتخب کرتے ہیں ۔ لہٰذا یہ ضروری ہو چکا کہ ہر ملک میں عوام و خواص سوچ سمجھ کر صرف اہل و قابل لیڈروں ہی کو ووٹ دیں تاکہ وہ حکومت سنبھال کر ملک و قوم کو ترقی دے سکیں۔ آسٹریلیا میں تو ووٹ ڈالنے کو لازم قرار دیا جا چکا تاکہ شہری ملک وقوم کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھنے والے عمل سے بے اعتنائی نہ برتیں۔
دنیا کے ہر ملک میں الیکشن کمیشن یا اس سے ملتے جلتے ادارے کے تحت الیکشن منعقد ہوتے ہیں۔ بیشتر ممالک میں الیکشن کمیشن خود مختار اور آزاد ادارے ہیں تاکہ وہ صاف وشفاف الیکشن کرانے کے سلسلے میں اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآں ہو سکیں۔ صاف ستھرے انتخابات انجام دینے کی ذمے داری الیکشن کمیشن کے ہی سپرد ہوتی ہے۔
پاکستان میں 23 مارچ 1956ء کو الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔ تاہم مارشل لا لگنے کے بعد وہ منجمد ہئیت اختیار کر لیتا۔ آئین 1973ء کے آرٹیکل 239 نے الیکشن کمیشن کے اختیارات و ذمے داریوں کا تعین کیا اور اسے خود مختار و آزاد ادارہ بنا دیا گیا۔ تاہم حقیقی معنوں میں الیکشن کمیشن حکومت وقت اور عدلیہ کے رحم و کرم پر رہا۔
پارلیمانی انتخابات 2008ء کے بعد یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ الیکشن کمیشن کو صحیح معنوں میں بااختیار' خود مختار' اور طاقتور ادارہ بنایا جائے تاکہ پاکستان میں صاف شفاف انتخابات کرانے کی راہ ہموار ہو سکے۔ چناںچہ تب سے الیکشن کمیشن میں اصلاحات لانے کی غرض سے پارلیمنٹ میں چار ترمیمیں منظور ہو چکیں۔ ان میں اٹھارہویں ترمیم (2010ء) ' انیسویں ترمیم (2010ء) 'بیسویں ترمیم(2012) اور بائیسویں ترمیم (2016ء) شامل ہیں۔
6 فروری 2017ء کو وفاقی کابینہ نے ''انتخابی اصلاحات بل'' منظور کر لیا۔ یہ بل عنقریب پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ اس کی منظوری سے الیکشن کمیشن پہلے سے زیادہ بااختیار اور آزاد ادارے کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ یہ بل ایک پارلیمانی کمیٹی نے اتفاق رائے سے تیار کیا ہے۔ اس بل کی منظوری ایک خوش آئند امر ہے۔ یوں وطن عزیز میں صاف شفاف الیکشن کا انعقاد ممکن ہو سکے گا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور ہمارے پڑوسی' بھارت ' دونوں کے الیکشن کمیشن ازروئے قانون و آئین آزاد و خود مختار ہیں۔ مگر بھارتی الیکشن کمیشن پاکستانی معاصر کی نسبت کہیں زیادہ طاقت و قوت رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں وفاقی سطح پر یا کسی ریاست میں انتخابات کرانے کا اعلان ہو ' تو وہاں بھارتی الیکشن کمیشن سب سے طاقتور ریاستی ادارے کی شکل اختیار کر لیتاہے۔
مثال کے طور پر بھارت میں 17 اپریل تا12مئی 2014ء کو پارلیمانی الیکشن انجام پائے تھے۔ اسی د وران کانگریسی حکومت نے جنرل دلبیر سنگھ کو بھارتی بری فوج کا نیا سربراہ مقرر کر دیا۔ لیکن ازروئے قانون جنرل دلبیر کی تقرری کے لیے حکومت کو الیکشن کمیشن سے اجازت لینا پڑی۔ وجہ یہ کہ جب الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو جائے' تو بھارتی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہر سرکاری عہدے پر تقرری یا تبادلے کی پیشگی اجازت اپنے الیکشن کمیشن سے حاصل کرے۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بھارتی الیکشن کمیشن کو اپنی خود مختاری اور آزادی حاصل کرنے کی خاطر سیاست دانوں اور افسر شاہی سے خصوصاً عدالتوں میں باقاعدہ جنگ لڑنا پڑی ۔ یہ بھارتی سپریم کورٹ ہے جس کے ججوں نے مختلف مقدمات میں الیکشن کمیشن کی طرف داری کی اور حکومت وقت کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ بھارتی عدلیہ کے جامع وبلیغ فیصلوں سے الیکشن کمیشن کی طاقتیں بڑھتی چلی گئیں۔
آج بھارت میں یہ عالم ہے کہ کسی بھی الیکشن کے موقع پر سیاسی جماعتیں یا عام امیدوار انتظامی خرابیوں کی شکایت تو کرتے ہیں' مگر ایک بھی شخص بھارتی الیکشن کمیشن پر یہ الزام نہیں دھرتا کہ اس نے انتخابات میں دھاندلی کرائی ہے۔ حتیٰ کہ سیاست میں در آنے والے جرائم پیشہ افراد بھی یہ ہمت نہیں کرپاتے کہ اپنے الیکشن کمیشن پر انگلی اٹھا سکیں۔ بھارتی سیاست میں یہ نظریہ راسخ ہو چکا کہ صاف و شفاف انتخابات کرانے کی خاطر الیکشن کمیشن ہر ممکن قانونی اقدامات کرتا ہے۔اور یہ کہ وہ دوران الیکشن ہرگز فریق نہیں بنتا اور کامل طور پر غیر جانب داری برتتا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں ہر الیکشن کے بعدیہ شور مچ جاتا ہے کہ خصوصاً جیتنے والے نے دھاندلی کرائی ہے تبھی وہ جیت گیا ۔ یہ شور و غل قدرتاً الیکشن کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ الیکشن 2013ء کے بعد بھی ''دھاندلی' دھاندلی'' کا غل مچا اور قسم قسم کی باتیں اور افواہیں سننے میں آئیں۔ مشکوک الیکشن پورے جمہوری عمل کی سالمیت داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ بھارت کی طرح پاکستان میں بھی الیکشن کمیشن کو مکمل طور پر آزاد و خود مختار بنا دیا جائے۔ اس عمل سے وطن عزیز میں بھی منصفانہ الیکشن کا انعقاد خاصی حد تک یقینی ہو جائے گا۔ یوں جمہوریت پر عوام الناس کا اعتماد بڑھے گا اور صرف وہی لیڈر برسراقتدار آ سکیں گے جو سیاست کو کمائی کا ذریعہ نہیں انسانیت کی خدمت کا طریقہ کار سمجھتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ دنیا بھر میں سیاست اور دولت کی قربت بڑھ رہی ہے۔ حقیقتاً اکثر ممالک میں انتخابات جیتنے کی خاطر دولت کا بے محابہ اور ناجائز استعمال ہر الیکشن کمیشن کے لیے درد سر بن چکا۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں جرائم پیشہ لوگ بہ موقع انتخابات پیسہ پانی کی طرح بہا کر جیت جاتے ہیں ۔ یہ عجوبہ بھارت میں بھی نمایاں ہے۔ مثال کے طور پر الیکشن 2014ء میں 543 ارکان منتخب ہوکر لوک سبھا (قومی اسمبلی) میں پہنچے۔ ان میں سے 186 ارکان اسمبلی پر کوئی نہ کوئی مقدمہ چل رہا تھا۔ کئی مقدمات خطرناک جرائم مثلاً قتل، اغوا، بے حرمتی، فراڈ وغیرہ سے تعلق رکھتے تھے۔
اعدادو شمار کی رو سے بھارتی پارلیمنٹ میں جرائم پیشہ اور دولت مند افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ مثال کے طور پر الیکشن 2004ء میں جو ارکان منتخب ہوئے، ان میں سے ''24 فیصد'' پر کرمنل کیس چل رہے تھے۔ الیکشن 2014ء میں ایسے ارکان کی تعداد ''34'' فیصد ہوگئی۔ اسی طرح الیکشن 2004ء میں ہر رکن پارلیمنٹ کی دولت تقریباً ''پونے دو کروڑ روپے'' تھی۔ آج ہر رکن پارلیمنٹ ''پندرہ کروڑ روپے'' کے اثاثے رکھتا ہے۔ گویا بھارت میں سیاست داں روز بروز دولت مند ہوتے جارہے ہیں۔
روپے پیسے کی بڑھتی قوت کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارتی الیکشن کمیشن بھی مودی حکومت سے مطالبہ کررہا ہے کہ اسے یہ اختیار دیا جائے کہ کرپٹ اور جرائم پیشہ لوگوں کو الیکشن لڑنے سے روکا جاسکے۔ دراصل بھارت میں بھی کرپٹ افراد عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کرکے الیکشن کمیشن کے احکامات پرزے کرکے ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔پچھلے سال الیکشن کمیشن نے ریاست تامل ناڈو کے ریاستی انتخابات کے موقع پر دو حلقوں میں ووٹنگ معطل کردی۔ وہاں سے اطلاع آئی تھی کہ امیدوار رقم یا سامان دے کر لوگوں کے ووٹ خرید رہے ہیں۔ جب چند ماہ بعد دونوں حلقوں میں ووٹنگ ہوئی، تو وہی امیدوار دوبارہ اس میں حصہ لے رہے تھے۔ ہائی کورٹ نے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی تھی۔
بھارت کے مسلمان چیف الیکشن کمشنر
شہاب الدین یعقوب قریشی جولائی 2010ء تا جون 2012ء بھارت کے چیف الیکشن کمشنر رہے۔ وہ طویل عرصہ بھارتی الیکشن کمیشن سے منسلک رہے اور جو تلخ و شیریں تجربات انہوں نے حاصل کیے، اپنی کتاب"An undocumented wonder" میں بیان کردیئے۔
قریشی صاحب بتاتے ہیں کہ جب بھارت میں وفاقی یا ریاستی انتخابات کا موقع آئے، تو الیکشن کمیشن اس علاقے کا حکمران بن جاتا ہے۔ اب ساری انتظامیہ اس کے ماتحت ہوتی ہے۔ ووٹنگ سے منسلک سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی اپنی اپنی پارٹی سے علیحدہ کردیئے جاتے ہیں۔ اب وہ پارٹی رہنماؤں سے کوئی رابطہ نہیں کرسکتے۔ اگر الیکشن کمیشن کو یہ معلوم ہو کہ کسی کارکن نے اپنی قیادت سے رابطہ کیا ہے، تو اسے ووٹنگ کے عمل سے الگ کردیا جاتا ہے۔
عام طور پر حکومت سنبھالتے ہی الیکشن کمیشن وفاقی یا ریاستی سطح پر وسیع پیمانے پر تبادلے اور تقرریاں کرتا ہے۔ مدعا یہ ہوتا ہے کہ کوئی سرکاری افسر کسی سیاسی جماعت سے ہمدردی رکھتا ہے تو وہ اس کو دوران الیکشن ناجائز فائدہ نہ پہنچاسکے۔ اسی دوران کوئی عدالت، حتیٰ کہ سپریم کورٹ بھی الیکشن کمیشن کے اقدامات کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا۔
بھارتی الیکشن کمیشن کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر سید نسیم احمد زیدی بھی مسلم اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ زیدی صاحب کا کہنا ہے کہ ''دولت کی طاقت'' سے مقابلہ بھارتی الیکشن کمیشن کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار مل جائے کہ جس ریاستی یا وفاقی الیکشن میں روپیہ پیسہ بہانے کی اطلاع ملے وہ اسے کالعدم قرار دے سکے۔ تاہم مودی حکومت میں بیٹھے مفاد پرست سیاست داں اپنے الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔
بھارتی سیاست دانوں کو علم ہے کہ اگر الیکشن کمیشن کو یہ طاقت مل گئی کہ وہ کرپٹ مال داروں کو الیکشن لڑنے سے روک دے، تو ''سسٹم'' تبدیل کرنے کے خواہش مند نظریاتی لیڈر پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں گے۔ وہ پھر نہ صرف روایتی سیاسی گھرانوں کی کمائی کے دھندے ختم کرسکتے ہیں بلکہ ان کا اثرو رسوخ بھی ماند پڑ جائے گا۔ اسی لیے بھارت کی سیاست پر قابض سیاسی خاندان الیکشن کمیشن کو اتنی زیادہ طاقتیں نہیں دینا چاہتے کہ وہ ان کے اقتدار، مال پانی بنانے کی سرگرمیوں اور طاقت کو چیلنج کرنے لگے۔
بہرحال ہر چھوٹے بڑے الیکشن کو صاف شفاف اور منصفانہ بنانے کے لیے ڈاکٹر نسیم احمد زیدی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ایک اہم حکم نامہ جاری کیا ہے وہ یہ کہ اب ہر الیکشن میں انکم ٹیکس افسر ہر سیاسی جماعت اور امیدوار کے بینک اکاؤنٹس اور حساب کتاب کی نگرانی کریں گے۔ وہ پڑتال کریں گے کہ رقم کہاں سے آئی اور کس پر خرچ ہوئی۔ زیدی صاحب کو یقین ہے کہ اس اقدام سے ان امیدواروں کی حوصلہ شکنی ہوگی کہ جو ووٹ خرید کر الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر نسیم زیدی نے ایک اور انقلابی فیصلہ کیا ہے۔ وہ یہ کہ اسکولوں کے نصاب میں الیکشن کا طریق کار شامل کر دیا جائے۔ یہی نہیں، اب ہر بھارتی اسکول سال میں ایک بار وفاقی یا ریاستی سطح پر ہونے والے الیکشن کی نقل میں انتخابات کرائے گا۔ مقصد یہ ہے کہ ہر بھارتی بچہ نہ صرف ووٹ ڈالنے کا طریقہ سیکھ لے، بلکہ اسے یہ شعور بھی حاصل ہو کہ ووٹ ایک مقدس امانت ہے اور صرف ''اہل'' امیدوار ہی اس کو پانے کا حق رکھتا ہے۔ واضح رہے، بھارت میں ہر سال دو کروڑ شہری ووٹ ڈالنے کے حقدار بن جاتے ہیں۔n