دھند اور حدنظر
ہماری آبادی کا لگ بھگ 90 فیصد حصہ اپنے اور اپنے خاندان سے آگے نہیں دیکھ پاتا۔
ہر سال سردیوں میں ملک کے شمالی علاقے دھند آلود ہوجاتے ہیں،ٹی وی پر چلنے والی اطلاعاتی پٹیوں میں پچھلے دو تین دن سے دھند کے بارے میں بتایا جارہا ہے ان پٹیوں کے مطابق موٹروے پر دھند چھائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے حد نظر 50 سے 100 میٹر تک محدود ہوکر رہ گئی ہے یعنی اس دھند آلود سڑک پر سفر کرنے والوں کی نظر 50 سے 100 میٹر دور تک دیکھ سکتی ہے۔ عام حالات میں انسان ہزاروں میٹر دور تک دیکھ سکتا ہے اور تیز رفتاری سے سفر کرسکتا ہے۔
دھند کی وجہ سے اکثر حادثات ہوتے ہیں اور انسانی جانیں ضایع ہوتی ہیں۔ موٹروے کے منتظمین کی طرف سے دھند آلود سڑکوں پر سفر کرنے والوں کو احتیاط سے سفر کرنے کی ہدایت دی جارہی تھی اور جہاں زیادہ دھند ہے ان سڑکوں پر سفر کرنے سے روکا جارہا تھا۔ دھند، برف، سردی، گرمی، بارش یہ سارے عناصر موسموں کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ جہاں موسموں کے یہ عنصر نارمل حدود سے تجاوز کرجاتے ہیں تو انسانی زندگی کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔
پچھلے دو تین دن سے جب چینلوں پر یہ پٹیاں چل رہی تھیں تو میرے ذہن میں یہ سوال کلبلا رہا تھا کہ دنیا میں جو برائیاں جو خرابیاں جو تباہ کاریاں دکھائی دیتی ہیں، کیا ان کے پیچھے بھی کوئی نظریاتی دھند کارفرما ہے؟ انسان رنگ نسل، زبان، ملک و ملت کی جن حدبندیوں میں جکڑا ہوا ہے کیا اس کا تعلق نظریاتی دھند سے ہے؟ دھند کا تعلق حد نظر سے ہوتا ہے یا حد نظر کا تعلق دھند سے ہوتا ہے؟ ایک انسان صرف اپنے گھر، اپنے خاندان تک ہی دیکھتا ہے، ایک انسان کی نظر گھر، خاندان سے آگے اپنے علاقے، اپنی بستی تک دیکھتی ہے۔ ایک انسان اپنی بستی سے نکل کر اپنے شہر تک دیکھتا ہے، ایک انسان اپنے شہر سے آگے اپنے صوبے تک دیکھتا ہے۔
ایک انسان اپنے صوبے سے آگے اپنے ملک تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک انسان کی نظر اپنے ملک سے آگے خطے تک جاتی ہے اور ایک انسان خطے سے نکل کر ساری دنیا کو دیکھتا ہے۔ ایک انسان ذات پات، فرقے تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ایک انسان ذات پات، رنگ نسل سے آگے مذہب کی سرحدوں تک جاکر رک جاتا ہے، ایک انسان ان ساری حدوں کو پھلانگ کر آسمان اور آسمان کے اسرار تک جا پہنچتا ہے، جب ایسے انسان آسمان اور اس کے اسرار تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں تو وہ نظریاتی دھند سے باہر نکل جاتے ہیں، ان کی نظر بلاامتیاز مذہب و ملت پوری انسانی برادری تک رسائی حاصل کرلیتی ہے۔ یہ بصارت نہیں بصیرت ہے۔
انسان جب بصیرت کے اس کوہ طور پر کھڑا ہوجاتا ہے وہ ''من تو شدم تو من شدی'' کی سرحدوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ عرفان ذات کا یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچنے والا خلق خدا میں ضم ہوجاتا ہے۔ پوری انسانی برادری کی خوشیاں اس کی خوشیاں بن جاتی ہیں، پوری انسانی برادری کے دکھ اس کے دکھ بن جاتے ہیں، یہ تصوف کی کوئی منزل نہیں بلکہ انسانی بصیرت، انسانی وژن کا وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر ایسا انسان دنیا پر نظر ڈالتا ہے تو اس کی آنکھیں ہی نہیں اس کی روح بھی آنسو بہانے لگتی ہے۔ اس بلندی، اس انسانی عظمت کا ایک المیہ یہ ہے کہ 50 اور 100 میٹر تک دیکھنے والے اس نظریاتی حدود کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں ''سنگ باری'' شروع کردیتے ہیں اس کی وسعت نظر کو خدائی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہیں۔ مسجد، مندر، گرجا، پگوڈے متحد ہوجاتے ہیں اور اس پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اس تقسیم سے بغاوت کر رہا ہے جو دین دھرم، خدا، بھگوان، گاڈ کے نام پر خود انسان نے کر رکھی ہے۔
انسان کی حد نظر محدود ہونے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ ہماری آبادی کا لگ بھگ 90 فیصد حصہ اپنے اور اپنے خاندان سے آگے نہیں دیکھ پاتا۔ اس کی ایک وجہ علم و شعور کی کمی ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ جس نظام میں زندہ ہے اس نظام نے اسے اپنی ذات، اپنے خاندان کی بقاء کی جنگ میں اس طرح جھونک رکھا ہے کہ اس کے پاس اپنے اور اپنے خاندان سے آگے دیکھنے کا وقت ہی نہیں رہتا، ویسے تو ساری دنیا ہی کم نگاہی کی شکار ہے، لیکن ہمارا ملک اس بیماری میں اس شدت سے مبتلا ہے کہ اور اس کی کم نگاہی کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنے پرایوں میں فرق تک بھول گیا ہے۔
کم نگاہی، کم ظرفی ہی کی دوسری صورت ہے۔ اس بیماری نے پاکستانی معاشرے کے جسم کو زخموں سے چورکر رکھا ہے۔ اس کم نگاہی کے مظاہرے ہم زبان، نسل، قومیت، فرقوں اور فقہوں کے درمیان عصبیتوں اور نفرتوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ عصبیت کا مظاہرہ فقہی تقسیم میں ہورہا ہے۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم ایک طرف سب سے برتر قوم ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں دوسری طرف فقہی تنگ نظری کا عالم یہ ہے کہ ہم اس حوالے سے ایسی بدترین دہشت گردی کا ارتکاب کر رہے ہیں کہ دنیا ہمیں حیوانوں سے بدتر انسان قرار دے رہی ہے۔
سڑکیں خواہ پاکستان کی ہوں یا دنیا کے کسی اور ملک کی، جہاں بھی سڑکیں دھند کی لپیٹ میں آتی ہیں وہاں حادثات ہوتے ہیں اور جانی نقصانات ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ انسان کی بصارت اپنی ناک کے آگے دیکھنے سے محروم ہوجاتی ہے۔ حدنگاہ کی دو انتہائی ہیں جب وہ تنگ ہوجاتی ہے تو اپنے نام سے آگے نہیں دیکھ پاتی اور اگر وہ کشادہ ہوجاتی ہے تو اپنے نظام شمسی سے بھی پرے ساری کائنات کا مشاہدہ کرتی ہے، ہمارے ملک کے شمالی علاقے موسمیاتی دھند کی لپیٹ میں آتے ہیں اور اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ ہمارے شمالی علاقے ہی نظریاتی دھند کا شکار ہیں اور اس نظریاتی دھند نے انھیں اس قدر اندھا کردیا ہے کہ انھیں نہ اپنا ہم قوم نظر آرہا ہے، نہ ہم نسل، نہ ہم مذہب جو ان کے سامنے آرہا ہے موت کے منہ میں جارہا ہے۔
میں آج کچھ انگریزی اخبارات پڑھ رہا تھا تو یہ دھند مشرق وسطیٰ سمیت افریقہ کے ممالک تک پھیلتی دکھائی دے رہی تھی، مالی افریقہ کا ایک نارمل ملک تھا جہاں ہر مذہب و ملت کے لوگ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے، کوئی کسی سے نفرت نہیں کرتا تھا، زندگی کے دکھ سکھ میں سارے لوگ ساتھ رہتے تھے کہ اچانک یہ ملک نظریاتی دھند کی لپیٹ میں آگیا۔ پھر یہ ملک بھی ہمارے شمالی علاقوں کی راہ پر چل نکلا ہے۔
قتل وغارت گری ہورہی ہے، ہاتھ پاؤں کاٹے جارہے ہیں، انسانوں کو سنگسار کیا جارہا ہے، شہری خوف و دہشت کا شکار ہیں، جسے موقع مل رہا ہے وہ یہاں سے بھاگ رہا ہے، لیکن آس پاس روانڈا، کانگو، نائیجریا، سوڈان ہر جگہ ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ مالی کے صحافی، مالی کے اہل دانش، مالی کے کالم نگار چلا رہے ہیں، امریکی صدر اوباما سے کہہ رہے ہیں کہ تم نے افغانستان سے روس کو نکالنے کے لیے اس ملک کو جس نظریاتی دھند میں دھکیلا تھا وہ دھند اب یہاں سے ہوتی ہوئی افریقہ تک پہنچ گئی ہے۔ اگر تم نے اس دھند کو پھیلنے سے نہ روکا تو یہ دھند امریکا سمیت ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی، سوچنے ، سیاست کرنے کا وقت نہیں، کچھ کرو۔
مالی کے ان قلمکاروں پر ہمیں اعتماد نہیں کیونکہ ان کا تعلق یہود و نصاری سے ہے اور یہود و نصاری ہمارے ازلی دشمن ہیں، ہوسکتا ہے یہ ہمیں بدنام کرنے کے لیے اس قسم کا پروپیگنڈہ کر رہے ہوں اس لیے یہاں کے امن پسند لوگوں کے وفود مالی بھیجو، افریقہ بھیجو، مشرق وسطیٰ بھیجو تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے سچ اور جھوٹ کا مشاہدہ کرسکیں۔
امریکا نے افغانستان پر قبضہ دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کو روکنے کے نام پر کیا۔ اس اچھوتی مہم پر امریکا اور اس کے حواریوں نے کھربوں ڈالر لٹا دیے، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟جو دہشت گردی افغانستان کے پہاڑوں میں محصور تھی وہ یہاں سے نکل کر پاکستان کے قبائلی علاقوں تک آگئی، پھر یہاں سے پیش رفت کرکے لاہور، کراچی تک پہنچ گئی اور اب وہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ملکوں میں دندناتی پھر رہی ہے۔ امریکا کو صرف یہ فکر ہے کہ یہ بلا اس کی سرحدوں تک نہ آجائے، اسے ہرگز یہ فکر نہیں کہ پاکستان میں خیبر سے کراچی تک یہ کالی ماتا ہر روز کتنے بے گناہ انسانوں کی بھینٹ لے رہی ہے۔ یہ وہ تضاد ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے بطن سے جنم لینے والی جمہوریت، جمہوری سیاست اور 7 ارب انسانوں کی خواہشوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔
پاکستان کے شمالی علاقے جس نظریاتی دھند کا شکار ہیں اب یہ دھند تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس دھند کا خاتمہ لاکھوں کی فوج اور کھربوں کے ہتھیاروں سے ممکن نہیں، اس کا خاتمہ وہ فکر اور وہ بصیرت ہی کرسکتی ہے جو عقل و خرد کے گھوڑے پر سوار ہوکر کوہ طور پر پہنچ جاتی ہے اور جہاں پہنچ کر وہ کرہ ارض کے سات ارب انسانوں کو صرف انسان کے روپ میں دیکھتی ہے۔ ایسی فکر ایسی عقل و دانش کو عوام تک پہنچنے سے روکا جاتا ہے تو پھر نظریاتی دھند حاوی ہونے لگتی ہے اور انسان شیطان بن کر خود اپنے آپ کو قتل کرنے لگ جاتا ہے۔ کیا امریکا بہادر فوجوں اور جدید ہتھیاروں کے بجائے جدید افکار سقراط اور گلیلو کی فکر سے مدد لینے کی اہلیت رکھتا ہے؟