سرمایہ دارانہ جمہوریت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ
کیا کوئی صحیح العقل دعویٰ کرسکتاہےکہ متوقع انتخابات کےنتیجےمیں ایسی حقیقی تبدیلی آئے گی جس سے عوام کے حالات بدلیں گے۔
پاکستان کی بری فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے گیارہ سال بعد آپریشنل ترجیحات میں تبدیلی کرتے ہوئے ملک کو لاحق اندرونی خطرات کو ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ پاکستانی فوج کی جانب سے شایع کردہ نئے فوجی نظریے یا آرمی ڈاکٹرائن میں ملک کی مغربی سرحدوں اور قبائلی علاقوں میں جاری گوریلا کاروائیوں اور بعض تنظیموں کی جانب سے اداروں' شہریوں پر بم حملوں کو ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔
کتاب میں کہا گیا ہے کہ بعض تنظیمیں اور عناصر پاکستان کے وجود کو ختم کرنے کی غرض سے قبائلی اور شہری علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ''یہ پہلی بار ہے کہ باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ اب ملک کو اصل خطرہ اندرونی ہے جس کا ارتکاز مغربی سرحد اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ہے۔'' انھوں نے کہا کہ فوجی نظریے میں اس تبدیلی سے پتہ چلتا ہے کہ فوج اب اپنی آپریشنل تیاریوں اور منصوبہ بندی میں زیادہ اہمیت اس نیم روایتی جنگ کو دے رہی ہے جس کا ہدف ممکنہ طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور افغان سرحد کے اس پار ان کے اتحادی ہیں۔
اس وقت پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے۔ عالمی حالات پر نظر دوڑائیں تو وہ بھی پیچیدہ نظر آتے ہیں جب کہ اندرونی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ دہشت گردی کی جنگ شروع ہوئے گیارہ سال گزر چکے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ عسکری ڈاکٹرائن میں تبدیلی پاکستانی عوام کے لیے نئے سال کا تحفہ اور خوش خبری ہے۔ جب پاک فوج اس معاملے میں عوامی اور سیاسی حمایت حاصل کرے گی تو دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے چہرے بھی بے نقاب ہوں گے۔ انھی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہمارا مقابلہ ایسے دشمن سے ہے جس کی کوئی ''واضح شکل'' سامنے نہیں۔
اس وقت دہشت گرد اندرون ملک جو دہشت گردی کر رہے ہیں، اس کو نئے ڈاکٹرائن میں ملکی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے اور اس بات کو پہلی مرتبہ تسلیم کیا گیا ہے کہ بعض تنظیمیں اور گروہ پاکستان کے وجود کو ختم کرنے کے لیے قبائلی اور شہری علاقوں میں دہشت گردی کی کاروائیاں کر رہے ہیں۔بہر حال شکر ہے کہ ہم جیسے لکھنے اور بولنے والے جن کی آواز جھوٹ کے نقارخانے میں طوطی کی آواز تھی، پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ سنی گئی۔ جنرل ضیاء کے دور سے اب تک دہشت گردی کی وارداتوں میں لاکھوں لوگ مارے جا چکے ہیں اور ایک بھی دہشت گرد کو سزا نہیں ملی۔
آخر کیوں؟ پاکستانی قوم کو سوچنا چاہیے' کیونکہ ہمارے کچھ با اثر طبقات اب تک انتہا پسندوں کی سرپرستی فرماتے رہے ہیں... پاکستانی عوام نے 1971ء میں ''جو بغاوت'' کی، اس کی اسے سزا دینے کا ایک نتیجہ پاک بھارت دوستی ہے جس کے ذریعے ہم اس دہشت گردی کے عفریت پر قابو پا سکتے ہیں اور ہم پاک بھارت عوام کے دشمنی سے لتھڑے ہوئے ذہنوں کو صاف بھی کر سکتے ہیں۔پاکستانی عوام کے پاکستان بننے کے ساتھ ایک اور دہشت گردی بھی ہو رہی ہے جو تمام دہشت گردیوں کی ماں ہے اور موجودہ دہشت گردی بھی اس کا نتیجہ ہے یعنی جمہوریت کے روپ میں آمریت اور خاندانی بادشاہتیں۔
کیا کوئی صحیح العقل شخص یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ متوقع انتخابات کے نتیجے میں کوئی ایسی حقیقی تبدیلی آئے گی جس سے عوام کے حالات بدلیں گے۔ اس وقت پاکستان کے عوام کی حیثیت ایک کمی کمین کی سی ہو کر رہ گئی ہے جن کا کام الیکشن میں صرف ووٹ دینا رہ گیا ہے۔ پاکستان کے منتخب ایوانوں میں صرف سرمایہ دار اور جاگیردار ہی جا سکتے ہیں یا وہ جو ان لوگوں کے منظور نظر ہوں۔ ان الیکشن میں صرف وہی لوگ شرکت کر سکتے ہیں جو سب سے پہلے پارٹی فنڈ کے نام پر پانچ سے دس کروڑ کا چندہ پیش کریں۔ اس طرح پارٹی سربراہ چند دنوں میں ارب پتی ہو جاتا ہے پھر وہ اپنے انتخابات پر کروڑوں خرچ بھی کر سکتا ہے۔
پارٹی سربراہ کی قربت وہی حاصل کر سکتا ہے جو اپنی عزت نفس و خود داری اصول پسندی کو فراموش کرتے ہوئے ان کے سامنے حالت رکوع میں رہے۔ ان پارٹی سربراہوں کا لائف اسٹائل ملاحظہ فرمائیں کہ ہزاروں ایکڑ پر قائم محلوں میں رہتے ہیں جب کہ ان کی سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ بیرون ملک اربوں ڈالر کے اکاؤنٹ اور جائیدادیں ہیں۔ اس الیکشن کے بعد بھی ان کی دولت اور جائیداد میں اضافہ ہی ہو گا اور آنے والے وقت میں 8 کروڑ کے بجائے دس کروڑ عوام خط غربت سے نیچے لڑھک جائیں گے۔ اس ملک میں آمریت ہو یا جمہوریت عوام کے لیے حالات بد سے بدتر ہی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پچھلے 65 سالوں میں ہم یہی ظلم دیکھ رہے ہیں۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ'' سرمایہ دارانہ جمہوریت'' صرف سرمایہ داروں اور سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ کرتی ہے جس کے اہم جز آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا ہیں۔ اس جمہوریت کو غریب عوام سے اتنا ہی سروکار ہے کہ وہ اپنے خون پسینے کی محنت سے سرمایہ دارانہ نظام کو محفوظ اور سرمایہ داروں کی دولت میں اضافہ کرتے رہیں۔ اگر کوئی خوش فہمی آپ کے دل و دماغ میں اس سرمایہ دارانہ جمہوریت کے بارے میں ہے تو کہیں اور نہیں اپنے پڑوس میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو جھانک کر دیکھ لیں جہاں ہر گزرتے سال بھوکوں کی تعداد بڑھتی ہی جاتی ہے ۔
ملالہ یوسفزئی کا متوقع آپریشن فروری کے شروع یعنی 7-8-9 فروری کو ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے مارچ کا پہلا ہفتہ اس کی صحت میں مزید بہتری لے کر آئے گا۔
سیل فون: 0346-4527997