نگران حکمران صد ر زرداری کا امتحان
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگران حکومت پر مذاکرات معمول کی کارروائی سمجھے جاتے ہیں۔
نظر بظاہر یہ آ رہا ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد کا مکمل انحصار اب ایسی نگران حکومتوں کے قیام پر ہے، جن کو صرف پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا نہیں، سب جماعتوں کا بھر پور اعتماد حاصل ہو، اور خدا نخواستہ اگر نگران حکومتوں کے قیام کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے نہ پایا تو عام انتخابات کا بر وقت انعقاد مشکوک ہو جائے گا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے قائدین کا نقطۂ نظر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نگران حکومتوں سے متعلق جملہ امور کی انجام دہی اُن کا آئینی استحقاق ہے، اور اس معاملہ میں وہ کسی تیسری جماعت سے مشاورت کے پابند نہیں۔
یہ بات اب راز نہیں رہی کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان نگران حکومتوں پر مذاکرات در پردہ جاری ہیں۔ یہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں کم از کم یہ مفاہمت ہو چکی ہے کہ سندھ میں نگران سیٹ اپ، پیپلز پارٹی کی مرضی کا اور پنجاب میں نگران سیٹ اپ ، ن لیگ کی مرضی کا ہو گا۔ نگران وزیر ِاعظم کی ''ڈمی'' بھی تیار کر لی گئی ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگران حکومت پر مذاکرات معمول کی کارروائی سمجھے جاتے ہیں، اور بظاہر ان پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا تھا، لیکن معمول کی یہ کارروائی غیر معمولی اور کسی حد تک غیر منطقی اس لیے سمجھی گئی کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ یہ کارروائی بہت خفیہ طور پر کر رہی تھیں۔ نہ پیپلزپارٹی نے بطورِ حکومت اپنی حلیف جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی زحمت گوارا کی، اور نہ ن لیگ نے بطور اپوزیشن دوسری اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کر نا ضروری سمجھا۔ اس میں شک نہیں کہ آئینی طور پر نگران حکومت کا قیام، حکومت اور اپوزیشن کا ''باہمی معاملہ'' ہے۔
لیکن یہ 'باہمی معاملہ' اس لیے سادہ نہیں کہ نہ پیپلز پارٹی تنہا حکومت کر رہی ہے اور نہ ن لیگ تنہا اپوزیشن کر رہی ہے۔ صرف ایک سال پیشتر، جب ن لیگ کے بعد ایم کیو ایم نے بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کو خیر باد کہہ دیا تو پیپلزپارٹی کی حکومت قومی اسمبلی میں اکثریت سے محروم ہو گئی تھی۔ اس مرحلہ پر اگر مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی میں اتحاد قائم نہ ہوتا تو پیپلز پارٹی کے لیے تنہا اپنی حکومت برقرار رکھنا ناممکن تھا۔ دوسرے لفظوں میں مسلم لیگ ق اور پیپلزپارٹی کے اتحاد کے بعد اب یہ مخلوط حکومت ہے، جس میں پیپلزپارٹی کے راجہ پرویز اشرف وزیر ِاعظم ہیں تو مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الٰہی نائب وزیر ِاعظم۔ بطورِ اپوزیشن ن لیگ کا معاملہ، پیپلز پارٹی سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔
پنجاب کے سوا باقی تین صوبوں، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں ن لیگ کا وجود برائے نام ہے۔ پنجاب میں بھی صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے بغیر ن لیگ کی حکومت اکثریت کھو چکی ہے۔ پچھلے سال بجٹ کا مرحلہ آیا تو معلوم ہوا کہ پنجاب حکومت کے پاس بجٹ منظور کرانے کے لیے ارکان ِاسمبلی کی مطلوبہ تعداد بہر حال نہیں۔ صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر پیپلزپارٹی کے ارکان ن لیگ کو کمک نہ پہنچاتے تو پنجاب میں آئینی بحران پیدا ہو سکتا تھا۔
بطورِ حکومت پیپلز پارٹی اور بطورِ اپوزیشن ن لیگ کی اس کمزور پوزیشن کے باعث ہی، نگران سیٹ اپ پر دونوں جماعتوں کے خفیہ مذاکرات کو ''مُک مُکا'' کا نام دیا جا رہا ہے۔ یہ ''نگران سیٹ اپ'' نہ پیپلز پارٹی کی حلیف مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کو منظور ہے، اور نہ ن لیگ کی حریف تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو۔ الطاف حسین، طاہر القادری کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔ ایم کیو ایم نے لانگ مارچ میں بھرپور شرکت کا عزم ظاہر کیا ہے۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی، طاہر القادری کی رہایش گاہ پر، ان سے تفصیلی ملاقات کر چکے ہیں۔
چوہدری برادران نے غالباً یہ محسوس کر لیا ہے کہ عام انتخابات سے پہلے غیر جانبدار نگران حکومت کے قیام کا مطالبہ تسلیم نہ کرایا گیا تو عام انتخابات میں اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ ق کو ہو گا۔ عمران خان پہلے ہی طاہر القادری کے مطالبہ کی تائید کر چکے ہیں۔ جماعت اسلامی نے فی الحال کوئی واضح پوزیشن نہیں لی، لیکن اس امر کا امکان بہت کم ہے کہ جماعت اسلامی غیر جانبدار نگران حکومت کے مطالبہ کی مخالفت کرے گی۔ صاحبزادہ فضل کریم تک نے نگران حکومت کے مطالبہ پر طاہر القادری کو حق بجانب قرار دے دیا ہے۔
اطلاعات یہ ہیں کہ اندرون سندھ، پیپلز پارٹی حکومت مخالف پارٹیاں بھی غیر جانبدار حکومت کے مطالبہ کو بر وقت اور درست سمت میں قدم قرار دے رہی ہیں، اور مناسب وقت پر مولانا فضل الرحمٰن بھی اس مطالبہ کو آئینی قرار دے دیں ۔ اس طرح طاہر القادری کا مطالبہ، اصلاً ان سب پارٹیوں کا مطالبہ ہے، جو آیندہ عام انتخابات، یا اس کے بعد پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حریف ہو سکتی ہیں۔ یہ ہے وہ پس منظر، جس میں طاہر القادری کا 14 جنوری کا لانگ مارچ غیر معمولی اہمیت اختیار کر رہا ہے۔ 1993ء کے '' بے نظیر بھٹو لانگ مارچ'' اور 2009ء کے ''نوازشریف لانگ مارچ'' پیش نظر رہیں تو یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ طاہر القادری کا لانگ مارچ اب یونہی ٹلنے والا نہیں۔
طاہر القادری کا لانگ مارچ اب لاہور سے اسلام آباد کی طرف کوچ کر رہا ہے، جہاں صدر آصف علی زرداری متمکن ہیں۔کیا ن لیگ واقعی غیر جانبدار نگران حکومت کے مطالبہ سے سراسیمہ ہو چکی ہے، اور اس کو اندیشہ ہے کہ طاہر القادری کے دباؤ پر کہیں صدر آصف علی زرداری نگران سیٹ اپ کے لیے وسیع تر مشاورت کا مطالبہ تسلیم نہ کر لیں۔ یہ امر قابلِ فہم تو ہے کہ ایک بار لانگ مارچ چل پڑا تو صدر آصف علی زرداری ایک حد تک ہی مزاحمت کر سکیں گے، خاص طور پر اس صورت میں، جب انھیں اس مزاحمت میں اپنا، یا اپنی پارٹی کا کوئی خاص فائدہ بھی نظر نہ آ رہا ہو۔
اس مرحلہ پر، جب کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر چکی ہے، اور خود اُن کی صدارت کو آخری آئینی سال لگ چکا ہے، وہ کیوں چاہیں گے، ان پر یہ الزام عائد ہو کہ بطورِ صدر، وہ غیر جانبدار نگران حکومت کے قیام اور شفاف انتخابات کے انعقاد کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر صدر یہ اعلان کر چکے ہیں کہ نگران حکومتیں متفقہ اور غیر جانبدار ہوں گی۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ صدر کی ہدایت پر طاہر القادری اور حکومت کے درمیان بالواسطہ رابطہ ہو چکا ہے۔ لانگ مارچ کی کال پر جی ایچ کیو کا جو رد ِعمل دیکھنے میں آ رہا ہے، اس میں بین السطور پیغام یہی ہے کہ نگران سیٹ اپ کا سیاسی تنازع، سیاستدان اپنے طور پر سلجھا لیں، تو بہتر ہے، ورنہ پھر ''وہ تو ہیں۔'' اس پیغام میں غیر جانبدار نگران حکومت کے قیام اور شفاف انتخابات کے انعقاد کی خواہش صاف طور پر جھلک رہی ہے۔ طاہر القادری ہوا میں تیر نہیں چلا رہے ہیں۔
طاہر القادری کے لانگ مارچ کے علی الرغم یہ بات اب قریب قریب واضح ہو چکی ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں پنجاب اور سندھ میں مرضی کا نگران سیٹ اپ قائم کرنے کی جو اسکیم بن رہی تھی، اب یہ نہیں چل سکے گی۔ اس کے باوجود، اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی جُوا کھیلتی ہیں اور وسیع تر مشاورت کے بغیر مرضی کی نگران حکومتیں قائم کر دیتی ہیں تو یہ ایک سنگین بحران کو دعوت دینے کے مترادف ہو گا۔ ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
مسلم لیگ ق نے اپنے حالیہ اجلاس میں الیکشن کمیشن کے خلاف نہ صرف عدم اعتماد کی قرارداد منظور کی، بلکہ الیکشن کمیشن کو ن لیگ کا ترجمان تک قرار دے دیا ہے۔ یہ تحفظات غیر معمولی ہیں۔ عام انتخابات سے پیشتر نگران سیٹ اپ بھی متنازع قرار پا گیا، اور ''نگران حکومت، نامنظور'' کے نعرہ کی بنیاد پر احتجاجی جلسے، جلوسوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تو پھر نگران حکومتوں کی جگہ، نگران حکومتیں بہرحال قائم نہیں ہوں گی۔ پھر ان کی جگہ ایسی حکومتیں قائم ہوں گی، جن کے پاس ایجنڈا بھی ہو گا اور ڈنڈا بھی۔ اب یہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر ہے کہ وہ کون سا راستہ منتخب کرتے ہیں۔
یہ بات اب راز نہیں رہی کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان نگران حکومتوں پر مذاکرات در پردہ جاری ہیں۔ یہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں کم از کم یہ مفاہمت ہو چکی ہے کہ سندھ میں نگران سیٹ اپ، پیپلز پارٹی کی مرضی کا اور پنجاب میں نگران سیٹ اپ ، ن لیگ کی مرضی کا ہو گا۔ نگران وزیر ِاعظم کی ''ڈمی'' بھی تیار کر لی گئی ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگران حکومت پر مذاکرات معمول کی کارروائی سمجھے جاتے ہیں، اور بظاہر ان پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا تھا، لیکن معمول کی یہ کارروائی غیر معمولی اور کسی حد تک غیر منطقی اس لیے سمجھی گئی کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ یہ کارروائی بہت خفیہ طور پر کر رہی تھیں۔ نہ پیپلزپارٹی نے بطورِ حکومت اپنی حلیف جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی زحمت گوارا کی، اور نہ ن لیگ نے بطور اپوزیشن دوسری اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کر نا ضروری سمجھا۔ اس میں شک نہیں کہ آئینی طور پر نگران حکومت کا قیام، حکومت اور اپوزیشن کا ''باہمی معاملہ'' ہے۔
لیکن یہ 'باہمی معاملہ' اس لیے سادہ نہیں کہ نہ پیپلز پارٹی تنہا حکومت کر رہی ہے اور نہ ن لیگ تنہا اپوزیشن کر رہی ہے۔ صرف ایک سال پیشتر، جب ن لیگ کے بعد ایم کیو ایم نے بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کو خیر باد کہہ دیا تو پیپلزپارٹی کی حکومت قومی اسمبلی میں اکثریت سے محروم ہو گئی تھی۔ اس مرحلہ پر اگر مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی میں اتحاد قائم نہ ہوتا تو پیپلز پارٹی کے لیے تنہا اپنی حکومت برقرار رکھنا ناممکن تھا۔ دوسرے لفظوں میں مسلم لیگ ق اور پیپلزپارٹی کے اتحاد کے بعد اب یہ مخلوط حکومت ہے، جس میں پیپلزپارٹی کے راجہ پرویز اشرف وزیر ِاعظم ہیں تو مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الٰہی نائب وزیر ِاعظم۔ بطورِ اپوزیشن ن لیگ کا معاملہ، پیپلز پارٹی سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔
پنجاب کے سوا باقی تین صوبوں، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں ن لیگ کا وجود برائے نام ہے۔ پنجاب میں بھی صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے بغیر ن لیگ کی حکومت اکثریت کھو چکی ہے۔ پچھلے سال بجٹ کا مرحلہ آیا تو معلوم ہوا کہ پنجاب حکومت کے پاس بجٹ منظور کرانے کے لیے ارکان ِاسمبلی کی مطلوبہ تعداد بہر حال نہیں۔ صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر پیپلزپارٹی کے ارکان ن لیگ کو کمک نہ پہنچاتے تو پنجاب میں آئینی بحران پیدا ہو سکتا تھا۔
بطورِ حکومت پیپلز پارٹی اور بطورِ اپوزیشن ن لیگ کی اس کمزور پوزیشن کے باعث ہی، نگران سیٹ اپ پر دونوں جماعتوں کے خفیہ مذاکرات کو ''مُک مُکا'' کا نام دیا جا رہا ہے۔ یہ ''نگران سیٹ اپ'' نہ پیپلز پارٹی کی حلیف مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کو منظور ہے، اور نہ ن لیگ کی حریف تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو۔ الطاف حسین، طاہر القادری کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔ ایم کیو ایم نے لانگ مارچ میں بھرپور شرکت کا عزم ظاہر کیا ہے۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی، طاہر القادری کی رہایش گاہ پر، ان سے تفصیلی ملاقات کر چکے ہیں۔
چوہدری برادران نے غالباً یہ محسوس کر لیا ہے کہ عام انتخابات سے پہلے غیر جانبدار نگران حکومت کے قیام کا مطالبہ تسلیم نہ کرایا گیا تو عام انتخابات میں اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ ق کو ہو گا۔ عمران خان پہلے ہی طاہر القادری کے مطالبہ کی تائید کر چکے ہیں۔ جماعت اسلامی نے فی الحال کوئی واضح پوزیشن نہیں لی، لیکن اس امر کا امکان بہت کم ہے کہ جماعت اسلامی غیر جانبدار نگران حکومت کے مطالبہ کی مخالفت کرے گی۔ صاحبزادہ فضل کریم تک نے نگران حکومت کے مطالبہ پر طاہر القادری کو حق بجانب قرار دے دیا ہے۔
اطلاعات یہ ہیں کہ اندرون سندھ، پیپلز پارٹی حکومت مخالف پارٹیاں بھی غیر جانبدار حکومت کے مطالبہ کو بر وقت اور درست سمت میں قدم قرار دے رہی ہیں، اور مناسب وقت پر مولانا فضل الرحمٰن بھی اس مطالبہ کو آئینی قرار دے دیں ۔ اس طرح طاہر القادری کا مطالبہ، اصلاً ان سب پارٹیوں کا مطالبہ ہے، جو آیندہ عام انتخابات، یا اس کے بعد پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حریف ہو سکتی ہیں۔ یہ ہے وہ پس منظر، جس میں طاہر القادری کا 14 جنوری کا لانگ مارچ غیر معمولی اہمیت اختیار کر رہا ہے۔ 1993ء کے '' بے نظیر بھٹو لانگ مارچ'' اور 2009ء کے ''نوازشریف لانگ مارچ'' پیش نظر رہیں تو یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ طاہر القادری کا لانگ مارچ اب یونہی ٹلنے والا نہیں۔
طاہر القادری کا لانگ مارچ اب لاہور سے اسلام آباد کی طرف کوچ کر رہا ہے، جہاں صدر آصف علی زرداری متمکن ہیں۔کیا ن لیگ واقعی غیر جانبدار نگران حکومت کے مطالبہ سے سراسیمہ ہو چکی ہے، اور اس کو اندیشہ ہے کہ طاہر القادری کے دباؤ پر کہیں صدر آصف علی زرداری نگران سیٹ اپ کے لیے وسیع تر مشاورت کا مطالبہ تسلیم نہ کر لیں۔ یہ امر قابلِ فہم تو ہے کہ ایک بار لانگ مارچ چل پڑا تو صدر آصف علی زرداری ایک حد تک ہی مزاحمت کر سکیں گے، خاص طور پر اس صورت میں، جب انھیں اس مزاحمت میں اپنا، یا اپنی پارٹی کا کوئی خاص فائدہ بھی نظر نہ آ رہا ہو۔
اس مرحلہ پر، جب کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر چکی ہے، اور خود اُن کی صدارت کو آخری آئینی سال لگ چکا ہے، وہ کیوں چاہیں گے، ان پر یہ الزام عائد ہو کہ بطورِ صدر، وہ غیر جانبدار نگران حکومت کے قیام اور شفاف انتخابات کے انعقاد کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر صدر یہ اعلان کر چکے ہیں کہ نگران حکومتیں متفقہ اور غیر جانبدار ہوں گی۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ صدر کی ہدایت پر طاہر القادری اور حکومت کے درمیان بالواسطہ رابطہ ہو چکا ہے۔ لانگ مارچ کی کال پر جی ایچ کیو کا جو رد ِعمل دیکھنے میں آ رہا ہے، اس میں بین السطور پیغام یہی ہے کہ نگران سیٹ اپ کا سیاسی تنازع، سیاستدان اپنے طور پر سلجھا لیں، تو بہتر ہے، ورنہ پھر ''وہ تو ہیں۔'' اس پیغام میں غیر جانبدار نگران حکومت کے قیام اور شفاف انتخابات کے انعقاد کی خواہش صاف طور پر جھلک رہی ہے۔ طاہر القادری ہوا میں تیر نہیں چلا رہے ہیں۔
طاہر القادری کے لانگ مارچ کے علی الرغم یہ بات اب قریب قریب واضح ہو چکی ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں پنجاب اور سندھ میں مرضی کا نگران سیٹ اپ قائم کرنے کی جو اسکیم بن رہی تھی، اب یہ نہیں چل سکے گی۔ اس کے باوجود، اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی جُوا کھیلتی ہیں اور وسیع تر مشاورت کے بغیر مرضی کی نگران حکومتیں قائم کر دیتی ہیں تو یہ ایک سنگین بحران کو دعوت دینے کے مترادف ہو گا۔ ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
مسلم لیگ ق نے اپنے حالیہ اجلاس میں الیکشن کمیشن کے خلاف نہ صرف عدم اعتماد کی قرارداد منظور کی، بلکہ الیکشن کمیشن کو ن لیگ کا ترجمان تک قرار دے دیا ہے۔ یہ تحفظات غیر معمولی ہیں۔ عام انتخابات سے پیشتر نگران سیٹ اپ بھی متنازع قرار پا گیا، اور ''نگران حکومت، نامنظور'' کے نعرہ کی بنیاد پر احتجاجی جلسے، جلوسوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تو پھر نگران حکومتوں کی جگہ، نگران حکومتیں بہرحال قائم نہیں ہوں گی۔ پھر ان کی جگہ ایسی حکومتیں قائم ہوں گی، جن کے پاس ایجنڈا بھی ہو گا اور ڈنڈا بھی۔ اب یہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر ہے کہ وہ کون سا راستہ منتخب کرتے ہیں۔