قاضی صاحب آپ بھی چلے گئے
جماعت اسلامی ایک بار اندر گھس جائے تو پھر اس سے چھٹکارہ ممکن نہیں ۔
AHMEDABAD:
رات کے سوا دو بجے ایس ایم ایس نے چونکا کر رکھ دیا، یہ قاضی حسین احمد کی اندوہناک رحلت کی خبر تھی۔ میرے سامنے ان کا وہ روپ ہے جو شاید ان کی زندگی کا آخری ٹی وی انٹرویو بھی ہے، لاہور ایڈٹرز کلب کے قیام پر سوچ بچار کے لیے ہم کچھ دوست جمع تھے، محفل ختم ہوئی تو ضیاء شاہد نے مجھ سے کہا کہ میرے ساتھ چلو، قاضی صاحب کا ایک انٹرویو کرنا ہے، مجھے قاضی صاحب سے ملے ایک عرصہ ہو چکا تھا، اس لیے اس موقع کو غنیمت جانا مگر راستے میں ضیاء شاہد بار بار مجھے منع کر رہے تھے کہ تم ہر ایک سے الجھ پڑتے ہو، قاضی صاحب سے ایسی کوئی حرکت نہ کرنا۔
منصورہ کا وہی کمرہ جہاں برسہا برس سے جماعت اسلامی کی قیادت سے ملاقات رہی، ٹی وی کیمرے نصب کیے جا چکے تھے، روشنیوں سے کمرہ بقعۂ نور بنا ہوا تھا، قاضی صاحب وقت مقررہ پر تشریف لائے، ہم دونوں سے گلے ملے، ان کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی، گفتگو شروع ہوئی، ضیاء شاہد اس انٹرویو کے میزبان اور اینکر تھے اور میں شریک میزبان، مگر ضیاء صاحب کے دو چار سوالات کے بعد میں نے تابڑ توڑ سوالات داغنا شروع کر دیے، قاضی صاحب نے اقبال کے فارسی اشعار کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن ہے تو ایشیا میں امن ہے اور اگر افغانستان میں بد امنی ہے تو پورے ایشیاء میں بد امنی کا راج ہو گا۔
میں نے کہا کہ قاضی صاحب آپ نے ایک شاعر کو ذریعہ اظہار بنایا ہے، میں بھی ایک شاعر کی زبان میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے، قاضی صاحب تلملا اٹھے مگر دھیمے لہجے میں کہنے لگے کہ میں نے شاعر مشرق علامہ اقبال کے حوالے سے بات کی ہے، اسد اللہ غالب نے اس پر کسی اور شاعر کی گرہ لگا دی۔ میں مصلحت کے تحت خاموش رہا، میں جانتا تھا کہ قاضی صاحب دل کے مریض ہیں، ان کے معالج نے کچھ عرصہ پہلے برادرم مجیب شامی صاحب کے گھر برپا ایک محفل میں انکشاف کیا تھا کہ قاضی صاحب کے دل کی بیماری سنگین صورت اختیار کرتی جا رہی ہے اور وہ آرام کا مشورہ بھی قبول نہیں کرتے۔
لاہور کے ڈاکٹرز اسپتال میں قاضی صاحب کوئی نو برس قبل علاج کے لیے داخل ہوئے تو میں مئی جون کی چلچلاتی دوپہر میں ان کی عیادت کے لیے حاضر ہوا تھا، قاضی صاحب مختلف مشینوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ مگر تھے بہت حوصلے میں، ان کے چہرے مہرے سے ہر گز احساس نہیں ہوتا تھا کہ ان کا دل ساتھ چھوڑ رہا ہے۔ چنانچہ انٹرویو کے دوران جب انھوں نے میرے بیان کردہ شاعر کے مرتبے کا احساس نہ کیا تو میں نے یہ کہنا مناسب نہیں سمجھا کہ حضرت! یہ شاعر جسے آپ خاطر میں لانے کو تیار نہیں، کوئی اور نہیں مرزا غالب ہیں۔ میری کوشش تھی کہ میری وجہ سے ایک انٹرویو میں کھنڈت نہ پڑے۔
کچھ ہی دیر بعد پاک بھارت تعلقات پر گفتگو شروع ہو ئی تو خلاف توقع قاضی صاحب نے بھارت کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا، مجھ سے پھر نہ رہا گیا، میں نے پوچھا کہ قبلہ! کیا آپ مذاکرات کے لیے بھارت جانے کو تیار ہوں گے، قاضی صاحب کے چہرے پر محسوس ہونے والی مسکراہٹ نمودار ہوئی، کہنے لگے، کیوں نہیں اگر وہ کشمیر کے حل پر آمادہ ہو تو اس سے بات کرنے جا سکتا ہوں۔ انٹرویو کے دوران ظہر کی اذان ہو گئی، اور قاضی صاحب نے ہمارا شکریہ ادا کرتے ہوئے انٹرویو ختم کر دیا۔ میری قاضی صاحب سے جتنی بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں، ان میں سے یہ واحد خوشگوار ملاقات تھی۔
ایک زمانے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک جاری تھی، میں نے قاضی صاحب کو محدود مہمانوں کے ساتھ لاہور کے فائیو اسٹار ہوٹل میں کھانے پر بلایا، قاضی صاحب یہی تاثر دے رہے تھے کہ بس یہ تحریک اپنی کامیابی سے ہمکنار ہونے والی ہے اور پھر اقتدار ان کو مل جائے گا۔ میں نے آداب میزبانی پس پشت ڈالے اور بڑی بدتمیزی سے کام لیتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ کو اس امر کی یقین دہانی کوئی حوالدار کرا رہا ہے یا کسی بڑے جرنیل سے آپ کا رابطہ ہے، قاضی صاحب نے پیچ و تاب کھاتے ہوئے کہا، افغان جہاد کے دنوں سے ہمارا رابطہ صرف بڑے بڑے جرنیلوں سے ہے۔
اس کھانے کے چند ماہ بعد قاضی صاحب نے مجھے اور امام کالم نگاراں عبدالقادر حسن کو منصورہ ضیافت پر بلایا، میں نے پھر بد تمیزی سے پوچھا کہ قاضی صاحب! آپ کے وہ جرنیل کہاں گئے، وہ مسکرائے، اور کہا کہ آپ ٹھیک ہی کہتے تھے۔ جن دنوں قاضی صاحب کی سیاست عروج پر تھی اور اس دور کا میڈیا ڈاکٹر طاہر القادری کی طرح ان کی کردار کشی میں پیش پیش تھا تو میں نے اس مظلوم قاضی کا ساتھ نبھانے کی قسم کھائی۔ گزری نصف شب کو ایک اور ایس ایم ایس موصول ہوا۔ ظالمو! قاضی چلا گیا تو آنکھیں ڈبڈبا گئیں، قاضی کے جانے پر نہیں، موت تو برحق ہے، ہر کسی کو آنی ہے مگر رونا آیا تو میڈیا کی کردار کشی کی اس مہم پر جس میں قاضی صاحب کی عفت مآب بیگم کو کارٹون میں یہ کہتے دکھایا گیا تھا کہ ظالمو! قاضی نہا رہا ہے۔
سیاست میں کردار کشی کی کوئی حد ہوتی ہے، ہمارا میڈیا ہر حد کو پار کر جاتا ہے، مولوی کی سیاست کی ہمیشہ تضحیک کی جاتی رہی، 1970ء کے انتخابات میں مولانا مودودی کا سر کسی رقاصہ کے دھڑ پر چسپاں کر کے ایک اخبار نے شایع کر دیا تھا۔ اب قادری کی وہ درگت بن رہی ہے کہ خدا کی پناہ! یہ موضوع چلتا رہے گا۔ ابھی تو قاضی حسین ا حمد کی خوبصورت اور خوشبودار یادیں ہیں جو میرے ذہن کی اسکرین پر یکے بعد دیگرے نمودار ہو رہی ہیں۔ 1974ء کی بات ہے۔
بشام اور پتن میں تباہ کن زلزلہ آیا تو میں نے اردو ڈائجسٹ میں اس پر فیچر لکھنے کا ارادہ کیا، راستے میں پشاور قیام کیا تو قاضی صاحب نے بڑی محبت سے اپنے دولت کدے پر شام کے کھانے پر بلایا، اس کھانے میں دو معصوم بچے بھی شامل تھے، تب وہ بہت چھوٹے تھے، آصف لقمان اور سمیعہ راحیل کو اس کھانے کا یاد نہیں ہو گا۔ مگر ان کے انتہائی پاکیزہ چہرے میری یادوں کی کہکشاں میں ہمیشہ جھلملاتے رہیں گے۔ مجھے اس کھانے سے قاضی صاحب کی میزبانی کے ذوق کا اندازہ ہوا، میں نے یہ سب کچھ کیا کھانا تھا مگر دنیا کی ہر نعمت اس دستر خوان پر موجود تھی۔
میں جماعت اسلامی میں کبھی نہیں رہا مگر نویں جماعت میں جماعت کی رکنیت کے لیے درخواست دے دی تھی، اس کا جواب یہ ملا کہ ہم بچوں کو رکن نہیں بناتے، بڑے ہو جائو اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو، بعد میں گیارہویں جماعت میں تھا تو ایک روز عبدالجبار شاکر اور صفدر علی مجھے ڈھونڈتے میرے گائوں فتوحی والہ جا پہنچے، میں گھر پر نہ تھا، کنویں پر کھیتی باڑی میں مصروف تھا، وہ بھی پوچھتے پچھاتے وہیں آ گئے اور اسلامی جمعیت طلبہ کے لیے کام کرنے کے لیے زور ڈالنے لگے، اب میں کچھ زیادہ ہی سوچنے سمجھنے لگ گیا تھا، اس لیے دو چار گام کے بعد میں نے آزادی کی راہ لی۔
مگر جماعت اسلامی ایک بار اندر گھس جائے تو پھر اس سے چھٹکارہ ممکن نہیں اور اب تو بیگم صاحبہ کی شکل میں جماعت اسلامی سے عمر بھر کا ساتھ چل رہا ہے۔ بیگم صاحبہ نے استقامت دکھائی ہے مگر بیماریوں نے ان کی سرگرمیاں چاٹ لی ہیں۔ انھوں نے قاضی صاحب کی وفات حسرت آیات کی خبر بڑے حوصلے سے اخبارات میں پڑھی ہے۔ ان کے حوصلے نے مجھے بھی حوصلہ دیا۔ اس دنیا میں آنا جانا لگا رہے گا مگر قاضی صاحب ایک دیر پا نقش چھوڑ گئے ہیں، وہ اس دور کے مجدد تھے، ایک لبرل عالم دین تھے، ہمارے ساتھ آخری ٹی وی انٹرویو میں انھوں نے صاف کہا کہ وہ طالبان کو سمجھاتے رہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت اور ان کے بعض دیگر غیر مقبول اقدامات کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں، یہ سب کچھ قبائلی اقدار کا اثر ہے۔ اسے اسلام کے ساتھ گڈ مڈ نہ کیا جائے۔ اب قاضی صاحب اپنے اللہ کے حضور پیش ہو چکے ہیں، وہ ایک انسان تھے، خطائیں ان سے بھی ہوئی ہوں گی مگر ان کی نیکیوں کا پلڑہ بھاری نکلے گا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را، ان کی موت ایک عالم کی موت ہے، ایک عہد ہے جو ان کے ساتھ قبر میں اتر گیا مگر اس عہد کے نقوش لوح حیات پر دیر پا اور مستقل کندہ رہیں گے۔ درخشا ں اور تاباں۔