قاضی حسین احمد کی رحلت
آج کی سیاست میں قاضی حسین احمد جیسے اصول پسند،ایماندار اور صاحب علم سیاستدان خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
MADRID:
جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب انتقال کر گئے۔ بیشک ہم اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور اسی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ مرحوم قاضی صاحب نے پاکستان کی سیاست کے ہنگامہ خیز دور میں اہم اور نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے جس کا حملہ ان پر کئی سال پہلے بھی ہوا تھا تاہم موثر طبی امداد سے ان کی جان بچ گئی۔ گزشتہ روز کا ہارٹ اٹیک جان لیوا ثابت ہوا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں مختلف شعبہ ہائے زندگی اور سیاسی رہنماؤں نے ان کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
قاضی حسین احمد کو ان کے آبائی علاقے میں سپرد خاک کر دیا ہے۔ ان کی نماز جنازہ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے پڑھائی جب کہ تدفین میں شرکت کرنے والوں میں مولانا فضل الرحمٰن، جنرل حمید گل، حافظ حسین احمد، آفتاب شیرپاؤ، مولانا سمیع الحق کے علاوہ جماعت کے ہزاروں کارکنوں نے شرکت کی۔ قاضی حسین احمد 12 جنوری 1938ء کو خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کی تحصیل نوشہرہ کے گاؤں زیارت کا کا صاحب میں پیدا ہوئے۔ان کے والد مولانا قاضی عبدالرب علاقے کے معروف عالم دین تھے۔ انھوں نے اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کے بعد پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی اور جہانزیب کالج سیدو شریف ریاست سوات میں بحیثیت لیکچرار تعینات ہوگئے۔
3 برس تک طلبا کو پڑھاتے رہے۔ دوران تعلیم اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اختیار کی۔1970ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے۔ پشاور شہر اور ضلع پشاور کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخوا کی امارت کی ذمے داری بھی ادا کی۔ وہ1978ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل بنے۔1985ء میں انھیں چھ سال کے لیے سینیٹر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1992ء میں دوبارہ سینیٹر منتخب ہوئے، تاہم بعد ازاں حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے سینیٹ کی نشست کو خیر باد کہہ دیا۔ 2002ء کے انتخابات میں دو حلقوں سے قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ جولائی 2007ء میں لال مسجد واقعے کے بعد انھوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ وہ 7اکتوبر1987ء سے لے کر 29 مارچ 2009ء تک امیر جماعت اسلامی رہے۔
یوں وہ 22 برس تک جماعت اسلامی کی قیادت کرتے رہے۔قاضی حسین احمدنے دو دہائی سے زائد عرصے تک سیاست میں سرگرم حصہ لیا۔جماعت اسلامی کی سیکریٹری شپ سے لے امارت تک کا دور سیاست کا انتہائی ہنگامہ خیز زمانہ ہے۔ اس عرصے میں افغانستان کے میدانوں اور پہاڑوں میں اشتراکیت اورسرمایہ دارانہ نظام کے مابین آخری اور فیصلہ کن جنگ ہوئی۔اس جنگ کے دوران وہ کمیونزم کے مخالف کیمپ میں رہے۔ان کے سیاسی نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور پاکستان میں ایسے افراد اور جماعتوں کی کمی نہیں ہے جو جماعت اسلامی کے سیاسی نظریات سے اتفاق نہیں کرتے ۔لیکن قاضی صاحب کی حب الوطنی اور شخصی ایمانداری شک وشبہ سے بالاتر رہی۔ان کے مخالفین بھی ان کے ان اوصاف کے معترف ہیں۔
آج کی سیاست میں ان جیسے اصول پسند،ایماندار ، صاحب بصیرت اور صاحب علم سیاستدان خال خال ہی نظر آتے ہیں ورنہ کون ہے جس پر کوئی الزام نہ ہو۔ بلاشبہ جماعت اسلامی کے بانی امیر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے بعد جماعت کے جس امیر کو سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت ملی وہ قاضی حسین احمد ہی تھے۔ مرحوم قاضی صاحب سیاسی مدبر کے ساتھ ساتھ عالم دین بھی تھے ۔انھیں عربی' فارسی' اردو اور انگریزی اور اپنی مادری زبان پشتو پر بھی عبور حاصل تھا۔ وہ علامہ اقبال کے مداح تھے، اپنی تحریر و تقریر میں ان کے اردو اور فارسی اشعار کا حوالہ بھی دیتے تھے۔ان کی وفات سے ملک ایک سچے اور کھرے پاکستانی سے محروم ہوگیا۔ہم دعا گو ہیں کہ خدا مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے(آمین)
جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب انتقال کر گئے۔ بیشک ہم اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور اسی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ مرحوم قاضی صاحب نے پاکستان کی سیاست کے ہنگامہ خیز دور میں اہم اور نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے جس کا حملہ ان پر کئی سال پہلے بھی ہوا تھا تاہم موثر طبی امداد سے ان کی جان بچ گئی۔ گزشتہ روز کا ہارٹ اٹیک جان لیوا ثابت ہوا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں مختلف شعبہ ہائے زندگی اور سیاسی رہنماؤں نے ان کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
قاضی حسین احمد کو ان کے آبائی علاقے میں سپرد خاک کر دیا ہے۔ ان کی نماز جنازہ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے پڑھائی جب کہ تدفین میں شرکت کرنے والوں میں مولانا فضل الرحمٰن، جنرل حمید گل، حافظ حسین احمد، آفتاب شیرپاؤ، مولانا سمیع الحق کے علاوہ جماعت کے ہزاروں کارکنوں نے شرکت کی۔ قاضی حسین احمد 12 جنوری 1938ء کو خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کی تحصیل نوشہرہ کے گاؤں زیارت کا کا صاحب میں پیدا ہوئے۔ان کے والد مولانا قاضی عبدالرب علاقے کے معروف عالم دین تھے۔ انھوں نے اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کے بعد پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی اور جہانزیب کالج سیدو شریف ریاست سوات میں بحیثیت لیکچرار تعینات ہوگئے۔
3 برس تک طلبا کو پڑھاتے رہے۔ دوران تعلیم اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اختیار کی۔1970ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے۔ پشاور شہر اور ضلع پشاور کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخوا کی امارت کی ذمے داری بھی ادا کی۔ وہ1978ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل بنے۔1985ء میں انھیں چھ سال کے لیے سینیٹر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1992ء میں دوبارہ سینیٹر منتخب ہوئے، تاہم بعد ازاں حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے سینیٹ کی نشست کو خیر باد کہہ دیا۔ 2002ء کے انتخابات میں دو حلقوں سے قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ جولائی 2007ء میں لال مسجد واقعے کے بعد انھوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ وہ 7اکتوبر1987ء سے لے کر 29 مارچ 2009ء تک امیر جماعت اسلامی رہے۔
یوں وہ 22 برس تک جماعت اسلامی کی قیادت کرتے رہے۔قاضی حسین احمدنے دو دہائی سے زائد عرصے تک سیاست میں سرگرم حصہ لیا۔جماعت اسلامی کی سیکریٹری شپ سے لے امارت تک کا دور سیاست کا انتہائی ہنگامہ خیز زمانہ ہے۔ اس عرصے میں افغانستان کے میدانوں اور پہاڑوں میں اشتراکیت اورسرمایہ دارانہ نظام کے مابین آخری اور فیصلہ کن جنگ ہوئی۔اس جنگ کے دوران وہ کمیونزم کے مخالف کیمپ میں رہے۔ان کے سیاسی نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور پاکستان میں ایسے افراد اور جماعتوں کی کمی نہیں ہے جو جماعت اسلامی کے سیاسی نظریات سے اتفاق نہیں کرتے ۔لیکن قاضی صاحب کی حب الوطنی اور شخصی ایمانداری شک وشبہ سے بالاتر رہی۔ان کے مخالفین بھی ان کے ان اوصاف کے معترف ہیں۔
آج کی سیاست میں ان جیسے اصول پسند،ایماندار ، صاحب بصیرت اور صاحب علم سیاستدان خال خال ہی نظر آتے ہیں ورنہ کون ہے جس پر کوئی الزام نہ ہو۔ بلاشبہ جماعت اسلامی کے بانی امیر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے بعد جماعت کے جس امیر کو سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت ملی وہ قاضی حسین احمد ہی تھے۔ مرحوم قاضی صاحب سیاسی مدبر کے ساتھ ساتھ عالم دین بھی تھے ۔انھیں عربی' فارسی' اردو اور انگریزی اور اپنی مادری زبان پشتو پر بھی عبور حاصل تھا۔ وہ علامہ اقبال کے مداح تھے، اپنی تحریر و تقریر میں ان کے اردو اور فارسی اشعار کا حوالہ بھی دیتے تھے۔ان کی وفات سے ملک ایک سچے اور کھرے پاکستانی سے محروم ہوگیا۔ہم دعا گو ہیں کہ خدا مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے(آمین)