مزے کے دس سال
کوئی بھوکا یا پیاسا ابتدائی بھوک پیاس مٹ جانےکےبعدوہ مزےنہیں اٹھاسکتا جو اسے پہلے نوالے یا ابتدائی گھونٹ میں ملا تھا۔
KARACHI:
انسان کی زندگی میں مزے کے دس سال ہوتے ہیں۔ ایک عشرہ ایسا ہوتا ہے جس میں وہ شخص اپنی زندگی کا بہت کچھ بلکہ سب کچھ حاصل کرلیتا ہے۔ اب آپ اپنی اور اپنے آس پاس کے لوگوں کی زندگی پر نظر دوڑائیں، آپ کو اس بات میں سچائی نظر آئے گی۔ کوئی ڈاکٹر، صنعتکار، وکیل، بینکار، مزدور، انجینئر، افسر، بزنس مین، چوکیدار یا کوئی بھی شخص چن لیں۔ اس سے سوال کریں کہ تمہاری زندگی کے سب سے سہانے، خوب صورت اور مزے کے دس سال کون سے تھے؟
وہ ایک لمحے کو سوچے گا پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوگی اور وہ آپ کو بتا دے گا کہ میری زندگی کا فلاں عشرہ سب سے اعلیٰ تھا۔ ہم یہ نہیں کرسکتے۔ کالم نگار کو آپ کو بتانا پڑے گا کہ سیاست، کھیل، فلم، ڈرامے اور ٹی وی کے حالات حاضرہ کے میزبانوں کے کون کون سے دس سال سب سے سہانے تھے۔ آئیے! سیاست سے شروع ہوکر مشہور لوگوں کی زندگیوں میں جھانکتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ تاریخ ان شخصیات کے کس عشرے کو سب سے سہانا قرار دیتی ہے۔ صرف دس سال۔ وقت اس سے زیادہ ہوجائے تو کیا ہوتا ہے؟ یہ سوال بھی بڑا دلچسپ ہے۔
قائد اعظم نے انگلینڈ سے وکالت کا امتحان پاس کیا، شروع کے دو تین مشکل سال گزارنے کے بعد اس پیشے میں کامیابی حاصل کی۔ سیاست اور ازدواجی زندگی مشکلات اور مایوسی کا شکار رہی۔ پھر سن37 سے قیام پاکستان تک قائد کی زندگی کو مزے کے دس سال کہا جاسکتا ہے۔ وہ عشرہ جس میں تمام تر مشکلات پر قابو پاکر ایک بڑا مقصد حاصل کیا۔ جناح نے دنیا کی درجن بھر شخصیات میں اپنا نام شامل کروایا، جنہوں نے بیسویں صدی میں اپنی قوم کی آزادی کی جنگ میں رہنمائی کی۔ اسی طرح لیاقت علی خان نے سن 41 سے شہادت تک کامیابیوں کا عروج دیکھا۔ وہ قائد اعظم کے دست راست کہلائے۔
مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری، پھر ملک کے پہلے وزیر اعظم اور حکمران پارٹی کے سربراہ۔ اسکندر مرزا اور غلام محمد کے مزے کے وہ دس سال تھے جب تقسیم سے قبل وہ بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران تھے۔ انگریزوں کے علاوہ مسلم لیگ نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔ مسلمانوں کے یہ جوہر قابل جب اقتدار کے قریب آئے تو بکھر کر رہ گئے۔ تاریخ میں بیڈ (Bad) کے نام سے یاد کیے جانے والے غلام محمد اور اسکندر مرزا کے دو تین سال قیام پاکستان سے قبل اور چھ سات برس حکومت پاکستان میں ان کی زندگی کے دس مزیدار سال قرار دیے جاسکتے ہیں۔ ایوب دور کا عشرہ ان کی زندگی کا بہترین دور قرار دیا جاسکتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو سن 65 کی جنگ سے ملکی اور بین الاقوامی سیاست میں ابھر کر سامنے آئے۔ ایوب خان سے علیحدگی، پیپلز پارٹی کا قیام، سیاسی جدوجہد، انتخابات میں کامیابی، مجیب سے مذاکرات، پاکستان کے صدر اور بعد میں وزیر اعظم بننے تک کا عشرہ بھٹو صاحب کی زندگی کا بہترین عشرہ کہا جاسکتا ہے۔ ضیاء الحق اور مشرف کے دور اقتدار کے دس دس سال ان کی زندگی کے بہترین سال ہوں گے۔ وہ عشرہ جس میں وہ برسراقتدار رہے اور تاریخ انھیں کسی نہ کسی حوالے سے یاد رکھے گی۔ بے نظیر سن 86 میں پاکستان آئیں اور ایک شاندار استقبال کی تاریخ رقم کر گئیں۔
جدوجہد، اقتدار، بے دخلی اور پھر اقتدار۔ یوں سن 96 تک کا دور بے نظیر کی زندگی کا خوبصورت ترین دور تھا۔ اس کے بعد مقدمے، جلاوطنی کے دکھ ہیں۔ نواز شریف نے جنرل ضیاء کی مدد سے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد اپنی پارٹی بنائی، قائد حزب اختلاف رہے اور دو مرتبہ وزیر اعظم بنے۔ یوں اسّی اور نوے کے نصف نصف عشرے نواز شریف کی زندگی کے مزے کے دس سال قرار دیے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد جلاوطنی کے دکھ اور جدوجہد کی داستان ہے۔
کرکٹ کی دنیا میں کھلاڑیوں کا عروج پندرہ سولہ سال تک کا ہوتا ہے۔ شروع کے دو تین سال جدوجہد اور آخر کے تو تین سال چل چلاؤ کے نکال دیے جائیں تو عروج کا دور دس سال ہی قرار پاتا ہے۔ حنیف محمد، عمران خان، جاوید میانداد، اطہر عباس، ماجد خان، انضمام الحق، یونس خان، شاہد آفریدی پر نظر دوڑائیں۔ ہمیں صرف دس سال ہی ان کی زندگی کے مزے کے دس سال قرار دینے پڑیں گے۔ ہاکی میں اصلاح الدین، شہنازشیخ، حسن سردار کو دیکھیں یا اسکواش میں جہانگیر خان اور جان شیر کو ، ہم یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ کھلاڑیوں کی زندگی کے دس سال ہی مزے کے سال ہوتے ہیں۔ سیاست اور کھیل کے بعد اب آئیے ذرا فلمی دنیا کی جانب۔
محمد علی، وحید مراد، ندیم کا ستّر کا عشرہ ہو یا سنتوش، درپن، سدھیر، اسلم پرویز کا ساٹھ کا عشرہ۔ عروج کے دس سال ہی اداکاروں کو ملے۔ جدوجہد کے بعد کلائمیکس دیکھ لینے کے بعد ہر کمال کو زوال شروع ہوجاتا ہے۔ لہٰذا دس سال ہی مزے کے دس سال قرار پاتے ہیں۔ ٹی وی کی دنیا میں آئیں تو ہمیں قوی، طلعت حسین، جاوید شیخ نظر آتے ہیں جو کب کے اپنے عروج کا عشرہ گزار چکے ہیں۔ اسی طرح آج کے اداکار فیصل قریشی، نعمان اعجاز، نبیل نے بھی عروج کا عشرہ دیکھ لیا ہے۔ پھر نجانے کیا ہوتا ہے کہ ایسی تبدیلی آتی ہے جس کا چند ہفتوں اور مہینوں پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہر شعبے میں ہوتا ہے کہ شاید قدرت کسی اور سے عزت، دولت اور شہرت لے کر پھر کسی اور کو دینا چاہتی ہے۔
ٹی وی کے اینکر پرسنز کو دیکھیں تو ان میں سے اکثر اپنے عروج کا دور دیکھ چکے ہیں۔ ناظرین کے سامنے آنے کے دس برس مکمل کرچکے ہیں۔ انسانی فطرت بھی تبدیلی مانگتی ہے۔ موسم بھی اسی طرح بدلتے ہیں کہ کبھی سرد ہوائیں، کبھی لو، کبھی دھند تو کبھی برف باری۔ یہ انسانی زندگی میں ہوتا رہتا ہے۔ یہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
امریکا کے اکثر صدور اپنے آٹھ سال مکمل کرتے ہیں۔ ایک سال پارٹی کی نامزدگی کے حصول میں کامیابی، پھر دنیا کی طاقتور ترین شخصیت اور آخر میں رخصتی کی یادیںہٹلر، مسولینی، گوربا چوف، ہر ایک کو عروج کا ایک عشرہ ہی ملا جس میں انھوں نے اپنا نام پیدا کیا، اچھا یا برا؟ شاہ رخ، سلمان اور عامرہوں یا امیتابھ اور ٹنڈولکر۔ ان بھارتی شخصیات کے بارے میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے مزے کے دور کے عشرے زیادہ ہیں۔ پاکستان میں عمران، وسیم اکرم اداکار ندیم، رمیز راجہ، ایسی شخصیات ہیں جو ایک میدان سے نکل کر دوسرے میدان میں آئی ہیں۔ یوں ان کے مزے کی مدت بڑھ جاتی ہے۔
لیکن نہیں۔ یہ صرف نظر آتا ہے۔ مزے کا عشرہ صرف ایک عشرہ ہوتا ہے۔ دس برسوں بعد مزے کی مدت اکثر بوریت کی مدت ہوتی ہے۔ اگر کوئی کاروباری شخص بہت دولت کما رہا ہو تو ابتدائی عشرے میں بہت کچھ حاصل کرنے کے بعد مزے کی مدت ختم ہوجاتی ہے۔ ہوس ہوتی ہے، لالچ ہوتی ہے، زیادہ کی طلب ہوتی ہے، لیکن مزہ نہیں رہتا۔ یہ ایسا ہی ہے جیساکہ کوئی بھوکا یا پیاسا ابتدائی بھوک پیاس مٹ جانے کے بعد وہ مزے نہیں اٹھاسکتا جو اسے پہلے نوالے یا ابتدائی گھونٹ میں ملا تھا۔ پھر صرف یادیں اور حسرتیں رہ جاتی ہیں۔ ہر انسان کی زندگی میں ہوتے ہیں مزے کے دس سال۔