زندہ انسانوں کا قبرستان
پاکستان کے عوام اپنے دوستوں اور دشمنوں سے اچھی طرح آگاہ ہیں انھیں معلوم ہے کہ آج جمہوریت کا نام ہی انقلاب ہے۔
جوزف ڈی ویسٹر کی عمر اس وقت 19برس تھی جب اس کی مثالی مہم کا آغاز ہو چکا تھا اس کا تعلق بلجیم سے تھا اس دن اس کا باپ اسے اس درس گاہ لے گیا جہاں پر اس کا بھائی ایک پادری بننے کی تر بیت حاصل کررہا تھا اس کا باپ جانتا تھا کہ دونوں بھائی ایک دوسرے سے بہت کچھ کہنا سننا پسند کریں گے، لہذ ا اس کے باپ نے کہا کہ وہ دونوں رات کا کھانا اکٹھا تناول کریں اور اس دوران گپ شپ سے دل بہلائیں جب کہ وہ خود ایک نزدیکی قصبے میں اپنے دوستوں سے ملاقات کی غرض سے چلا گیا۔
جب وہ واپس آیا کہ جوزف کو اپنے ہمراہ واپس گھر لے جا سکے تو اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اسے یہ معلوم ہوا کہ جوزف نے اسی درس گاہ میں قیام کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔ باپ نے اس سے دریافت کیا کہ اس اچانک فیصلے کی کیا وجہ ہے جوزف نے جواب دیا یہ فیصلہ اچانک نہیں ہے بلکہ اس فیصلے کو ظاہر کرنے کا لمحہ آن پہنچا ہے، جوزف یہ کہنے میں ہچکچاہٹ سے کام لے رہا تھا کہ وہ ایک پادری بننا چاہتا تھا وہ چار برس تک اس درس گاہ میں مقیم رہا اور وہ ہی تربیت حاصل کرتا رہا جو اس کا بھائی حاصل کر رہا تھا ایک روز اس کے علم میں یہ بات آئی کہ اس کا بھائی مشنری میں شمولیت اختیار کر رہا ہے اور وہ دیگر پادریوں کے ہمراہ ہونو لولو جا رہا ہے۔
بالخصوص سینڈوچ جزیروں پر۔ اس کے بھائی کی خو اہش کو اس وقت شد ید دھچکا لگا جب وہ بیمار پڑگیا اور اس کو اپنی روانگی ملتوی کر نا پڑی۔ جوزف یہ چاہتا تھا کہ وہ اس کی جگہ روانہ ہوجائے اور اس نے ایسا کر نے کی درخواست بھی پیش کردی حیران کن بات یہ تھی کہ اس کی یہ درخواست منظورکر لی گئی۔ سینڈوچ جزیروں (ان میں سے ایک آج کل جزیرہ ہوائی کے نام سے جا نا جا تا ہے) کو کپتان کک نے 1768 میں دریا فت کیا تھا۔ ان جزیروں کو یورپی تاجروں نے بدامنی کی آما جگا ہ بنا دیا تھا اسلحہ، الکحل اور تا زہ پانی یہاں باآسانی دستیاب تھے۔ اس کے علاوہ خوبصورت لڑکیاں بھی دستیاب تھیں اہل یورپ نے ان جزیروں کو جو بدترین چیز عطا کی وہ یورپی بیماریاں تھیں جن سے اہل جزیر ہ اس سے قبل آشنا نہ تھے۔
جب جوزف ڈی ویسٹرجو اب فادر ڈیمن بن چکا تھا ہونو لو لو پہنچا تو وہ اس کی خوبصور تی سے متا ثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکا وہ دس برس تک وہاں خدمت کرتا رہا اس دوران فادر ڈیمن نے فیصلہ کیا کہ وہ جو کچھ بھی سر انجام دے رہا ہے وہ کافی نہیں ہے وہ اس سے زیا دہ کچھ کر نا چاہتا تھا۔ ملوکی ایک ایسا جزیرہ تھا جس کے بارے میں اسے زیا دہ تشویش تھی حکو مت نے اس جز یر ے کو ایک الگ تھلگ جز یر ے کے طور پر رکھا ہوا تھا اور اس میں کوڑھی آباد تھے ۔ اس جزیرے میں جو کوڑھی آباد تھے ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا وہ بے بسی اور بے چارگی کی زندگی بسر کر تے تھے۔
بشپ کی یہ خواہش تھی کہ کوڑھیوں کے اس جزیرے میں ایک مشنری روانہ کرنی چا ہیے جو ان کی نگہداشت اور دیکھ بھال سر انجام دے لیکن تمام مشنریاں دیگر جزیروں میں اپنے اپنے کام میں مشغول تھیں اور وہ کسی مشنری کو اس جزیرے کی جانب روانہ کر نے سے قاصر رہا تھا۔ فادر ڈیمن نے اسے یہ با ور کر وایا کہ مشن میں کچھ نئے لوگ بھرتی ہو کر پہنچ رہے ہیں۔ اس نے مز ید کہا کہ ان میں سے کوئی ایک میری جگہ سنبھال سکتا ہے لہذا اسے جزیرہ ملوکی جا نے کی اجازت دے دی جائے اور یہ اجازت فو ری دی جائے اس کی اس خواہش کومنظور کر لیا گیا اور اسے وہاں جانے کی اجازت دے دی گئی۔
جوں ہی کشتی جزیرہ ملوکی کی جانب روانہ ہوئی وہ یہ سوچنے لگا کہ ایک کوڑھی کے طور پر اس جزیرے کی جانب جلا وطنی اس کوڑھی کے دل و دما غ پر کیا اثر مرتب کرتی ہو گی۔ آدھی رات کے وقت وہ جزیرہ ملو کی پہنچ گئے اگلے روز اس نے جو کچھ دیکھا وہ درج ذیل ہے۔ ''تقریباً 80 کوڑھی اسپتال میں داخل تھے اور دیگر کوڑھی جزیرے میں مقیم تھے انھوں نے درخت کی شاخیں کاٹ کر اپنے لیے جھونپڑیاں بنا رکھی تھیں جن پرگھاس پھوس کی چھتیں ڈالی گئی تھیں۔''... ''یہ لوگ شکستہ جھونپڑوں میں پڑے تھے ان میں عمر اور جنس کی کوئی تفر یق نہ تھی اور نہ ہی نئے اور پرانے مر یض کی کوئی تفریق تھی وہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے یہ وہ لوگ تھے جنھیں معا شرے نے دیس نکالا دے رکھا تھا ۔
میںجب ان کے درمیان تبلیغ کے سلسلے میں موجود ہوتا تھا تب اس دوران مجھے کئی مرتبہ ان سے دور جا کر تازہ ہوا میں سانس لینے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی ان کے کپڑوں سے اٹھنے والی بدبو کا اثر زائل کرنے کے لیے مجھے تمبا کو نوشی کا سہا رہ لینا پڑتا تھا۔ پائپ کی اپنی مخصوص بو کی وجہ سے ان کے کپڑوں سے اٹھنے والی بو کم محسوس ہوتی تھی اس دور میں یہ بیماری ایک خطرناک بیماری تصور کی جا تی تھی لیکن ان مریضوں کے حوصلے بلند تھے اس مقام پر آباد لو گوں کی قابل رحم حالت کی بدولت اس جگہ کو زندہ لوگوں کا قبرستان سے تعبیرکیا جاتا تھا'' ملوکی جزیرے میں اپنے ابتدائی ایام کے یہ تاثرات اس نے چند برس بعد تحریرکیے تھے۔
آغاز میں فادر ڈیمن کو خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہوئی ایک جانب تو وہ حکومت کا تعاون حاصل کرنے میں ناکام رہا جوکہ پانی کی فراہمی اور مناسب ادویات کی فراہمی کے لیے اسے درکار تھا اوردوسری جانب کوڑھی شراب نوشی ترک کرنے پر آما دہ نہ تھے انھوں نے فادرڈیمن کی اس تجویز کو بھی مسترد کردیا تھا کہ وہ اپنے لیے بہتر رہائش گاہوں کی تعمیر کے لیے ان کا ہاتھ بٹائیں لیکن ایک برس بعد ایک خوفناک طوفان فادرڈیمن کی مدد کو آن پہنچا۔ اس طوفان کی وجہ سے ان کی شکستہ جھونپڑیاں تہس نہس ہو گئیں۔ فادر ڈیمن نے اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت سے درخواست کی کہ اسے لکڑی فراہم کی جائے اس کے علا وہ دیگر تعمیراتی سامان بھی مہیا کیا جائے۔
کیونکہ اس وقت جزیرے میں ہنگامی صورت حال کا سامنا ہے جزیرے کی آبادی کو کھلے آسمان تلے رہنا پڑ رہا ہے۔ وہ بارش میں بھیگتے رہتے ہیں۔ لہذا حکومت کو کچھ نہ کچھ بنیادی اشیاء فراہم کرنا ہی تھیں اس کے ساتھ ساتھ لوگوں نے بھی عطیا ت دیے اور تعمیراتی کام فادرڈیمن کی نگرانی میں شروع ہوا اور ان لوگوں نے بھی فادرڈیمن کے ساتھ تعاون کیا جواب اس کے بہتر پیروکر بن چکے تھے جب اس جزیرے کا دورہ کرنے والے ڈاکٹروں اور حکومتی نمایندوں نے تبدیلی کے عمل کو محسوس کیا تب ان کے دل میں بھی امداد کی فراہمی کے جذبات پیدا ہو گئے۔ فادرڈیمن کے بقول وہ لمحہ سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا۔ جب کوڑھی اس پر مکمل اعتماد کرنے لگے تھے اور یہ صورت حال اس وقت منظر عام پر آئی جب کوڑھیوں نے یہ محسوس کیا کہ وہ بھی ان میں سے ایک بن چکا تھا۔
شروع کے برسوں میں ان کی مخالفت سمجھ میں آتی تھی کیونکہ فادر ڈیمن ایک خوبصورت اور تندر ست نوجوان تھا اور وہ سب لوگ خطر ناک بیماری کا شکار تھے لیکن ان لوگوں کے ساتھ دس برس کا عرصہ گزارنے کے بعد ان کے درمیان رہتے ہوئے اپنی خدمات سر انجام دیتے ہوئے اس میں بھی ان کی خطر ناک بیماری کی علامات ظاہر ہونے لگی تھیں اور یہ لوگ جان چکے تھے کہ وہ بھی ان میں سے ایک تھا لہذا وہ اس کے دوست اور حمایتی بن چکے تھے ''جب بھی میں اپنے لوگوں میں تبلیغ سرانجام دیتا تھا میں ان کو یہ کہہ کر مخاطب نہیں کرتا تھا کہ ''میرے بھائیوں'' جیسا کہ تم کرتے ہو بلکہ میں کچھ اس طرح مخاطب ہوتا تھا کہ ''ہم کوڑھی''چونکہ یہ درست تھا لہذا وہ اس سے محبت کرتے تھے۔''
اس بات سے انکار ممکن ہی نہیں ہو سکتا کہ لوگوں کو اپنا بنانے کے لیے ان جیسا ہی بننا پڑتا ہے تب ہی لوگ آپ کو اپنا ہمدرد اور دوست سمجھنے لگتے ہیں۔ آج کل پاکستان کی سیاست میں غریبوں کی بات کرنا ایک فیشن بن چکا ہے محلوں میں رہنے والے بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے والے عیش و عشر ت کی زندگی گزارنے والے غریبوں کے لیے مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں کوئی انقلاب کی باتیں کر رہا ہے تو کوئی خواب دیکھ رہا ہے لیکن غریب ہیں کہ انھیں اپنا دوست اور ہمدرد ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ پاکستان کے عوام اپنے دوستوں اور دشمنوں سے اچھی طرح آگاہ ہیں انھیں معلوم ہے کہ آج جمہوریت کا نام ہی انقلاب ہے وہ یہ بھی اچھی طر یقے سے جانتے ہیں کہ ان کے حالات میں بہتری صر ف جمہو ریت کے ذریعے ہی سے ممکن ہے۔