مسائل کا حل سرمایہ داری کا خاتمہ

اگر نوازشریف، پی پی پی اور جماعت اسلامی وغیرہ لانگ مارچ کرسکتی ہے تو طاہر القادری کے کرنے میں کیا حرج ہے۔


Zuber Rehman January 06, 2013
[email protected]

بیشتر جماعتیں اکثر یہ بیانات دیتی ہیں کہ پاکستان کا جاگیردارانہ نظام تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اسے ہم ختم کردیں گے، زمین بھی کسانوں میں بانٹ دیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ دراصل یہ سمجھنے کی بات ہے کہ پاکستان کا طریقہ پیداوار کیا ہے؟ جاگیردارانہ سرمایہ دارانہ؟ قدیم جاگیرداری اپنی پرانی ہیئت سے یہاں موجود نہیں ہے۔ جاگیرداری میں پیداوار مقامی ضرورتوں پر مبنی ہوتی ہے۔ یوں کہہ لیں کہ اگر کوئی بڑھئی ہے تو کرسی بناکر پانچ کلو چاول لے لے گا۔

دھوبی کپڑا دھوکر پیسے لینے کے بجائے 10 کلو گندم لے لے گا یا استاد کو تنخواہ دینے کے بجائے 5/10 بوری چاول گزارے کے لیے دے دیے جائیں گے۔ جب کہ ہمارے ملک میں طریقہ پیداوار جاگیرداری کے بجائے سرمایہ داری ہے۔ کھیت میں کسان پیدا کرے یا زمیندار، پیداوار منڈی کے لیے جاتی ہے نہ کہ مقامی ضرورتوں کے لیے، یا یوں کہہ لیں کہ مقامی طور پر اس کی کھپت لوگوں کی انجمنوں یا کھاتے داروں میں ہوجاتی ہے۔ فرض کرلیں کہ اگر قاضی احمد کے کسان اپنے ہاتھوں سے اگائے ہوئے کپاس کا بنا ہوا کپڑا پہننا چاہیں تو انھیں کم ازکم 3/4 ماہ کے بعد ہی نصیب ہوگا۔

اس لیے کہ کپاس کی چنائی ہوگی، پھر گانٹھیں بناکر ٹیکسٹائل مل کو بھیجا جائے گا، وہاں اسپننگ اور جیننگ سے گزرتے ہوئے کپڑے بننے کا عمل ختم ہوکر ڈسٹری بیوٹرکے پاس جائے گا۔ وہ پھر تھوک کے بھاؤ سے فروخت کرے گا۔ اس کے بعد دکانداروں کو پہنچے گا۔ ان تمام عوامل کے بعد قاضی احمد کا کسان وہ کپڑا خرید سکتا ہے جو اس کے ہاتھوں سے اگائے ہوئے کپاس سے تیار ہوا ہے۔ اس لیے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ یہاں جاگیرداری اپنی قدیم شکل میں موجود نہیں اور نہ ترقی یافتہ سرمایہ داری ہے۔ مگر عالمی سرمایہ داری کی سست روی کا ایک حصہ ہے۔

ہمارا ملک زرعی کہلاتاہے، مگر ہم اہم زرعی پیداوار درآمد کرتے ہیں جن میں دودھ، مکھن، پنیر، دالیں، لہسن، پیاز ، گاجر، مرچ، گندم، چینی اور تیل وغیرہ شامل ہیں۔ اس لیے کہ ہماری زراعت میکانائزڈ نہیں ہے۔ ہم جو کچھ پیداوار کرتے ہیں اس کی 50 فیصد سے بھی زیادہ رقم اسلحے کی خریداری، قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلی جاتی ہے۔ امریکا کی 70 فیصد صنعتیں چونکہ اسلحے کی پیداوار کرتی ہیں اور انھیں اسلحے کے استعمال کے لیے میدان جنگ چاہئیں۔ کبھی ویت نام، کبھی کوریا، کبھی روڈیشیا، کبھی افریقہ، کبھی عراق، کبھی افغانستان، کبھی کولمبیا اور کبھی پاکستان۔

اس میں ہندوستان کے خوف میں ہیجانی طور پر مبتلا کرکے جنگی جنون پیدا کروایا جاتا ہے جس میں امریکا سے خوب اسلحہ خریدتے ہیں۔ اگر ہم اسلحے کی خرید و فروخت بند کردیں تو تعلیم اور صحت پر وہ پیسے خرچ کیے جاسکتے ہیں۔ بے روزگاری، بھوک، افلاس، لاعلاجی، جہالت اور بے گھری کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دوسری فضول خرچی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے لیے گئے قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی ہے۔ پاکستان جب بنا تھا تو اس وقت ایک روپیہ ایک ڈالر کے برابر تھا۔ اب قرض لے لے کر اور سود دے دے کر 100 روپے کے برابر ایک ڈالر ہوگیا ہے۔

ہماری معیشت کی تباہی کی بنیادی وجہ عالمی سرمایہ داری ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک عالمی سرمایہ داری کے سب سے بڑے اژدھے ہیں۔ امریکا ہمیں ایک ڈالر دے کر 14 ڈالر لے جاتا ہے۔ جاگیرداری استحصال کی سب سے بڑی وجہ ہے، بلکہ تیسرے نمبر پر آتی ہے۔ پاکستان کی کوئی بھی جماعت یہ کہتی ہے اور نہ ان کے منشور میں ہے کہ ہم اقتدار میں آکر آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کے قرضہ جات کو بحق سرکار ضبط کرلیں گے، اس لیے بھی کہ جتنا سود ہم ادا کرچکے ہیں وہ قرضوں سے بھی زیادہ ہے۔ کم ازکم ان سیاسی رہنماؤں کو اس بات کی معلومات ہونی چاہئیں کہ عالمی سرمایہ داری اب اپنی آخری ہچکولی لے رہی ہے۔ یورپ کی گروتھ اوسطاً 1 فیصد، امریکا کی 3 فیصد، جاپان 0 فیصد اور جرمنی 4 فیصد جب کہ چین کی گروتھ ریٹ 11 فیصد سے گھٹ کر 8 پر اور بھارت کی 6 پر آگئی ہے۔ دنیا کی 7 ارب میں سے ساڑھے پانچ ارب کی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔

اس دنیا میں روزانہ صرف بھوک، غذائی قلت اور قحط سے 50 ہزار انسان لقمہ اجل ہورہے ہیں۔ اس صورت حال میںکوئی سیاستدان ہو کس طرح سے عالمی سرمایہ داری سے چھٹکارہ حاصل کیے بغیر عوام کے مسائل حل کرسکتا ہے؟ عمران خان کہتے ہیں کہ ہم سب کچھ ٹھیک کردیں گے۔ مگر وہ عالمی سرمایہ داری پر دم بخود رہتے ہیں۔ الطاف حسین اور طاہر القادری آج کل انقلاب اور تبدیلی کی بات زور وشور سے کر رہے ہیں، مگر وہ یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ یہ تبدیلی کیسے لائیں گے۔ دنیا میں اب تک جو معلوم انقلابات آئے ہیں وہ محنت کشوں کے انقلاب ہیں۔ انقلاب فرانس، انقلاب روس، انقلاب چین، انقلاب اسپین، انقلاب منگولیا اور ویت نام وغیرہ وغیرہ۔

ریاست جبر کا ادارہ ہوتا ہے جب کہ طاہر القادری ریاست کو بچانے نکلے ہیں۔ ریاستیں ٹوٹتی، پھوٹتی، گھٹتی، بڑھتی رہتی ہیں مگر لوگوں کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ ہندوستان ٹوٹ کر پاکستان بنا، پاکستان ٹوٹ کر بنگلہ دیش بنا، مگر ان تینوں ملکوں کے معاشی حالات دگرگوں ہیں۔ اس لیے ان سب ملکوں میں سرمایہ داری برقرار ہے۔ الطاف حسین کہتے ہیں کہ ''فوج بھی انقلاب میں ہمارا ساتھ دے''۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ وہ کون سے انقلاب کی بات کرتے ہیں۔ اگر انقلاب فرانس کی بات کرتے ہیں جیساکہ وہ کہہ چکے ہیں تو انقلاب فرانس میں بادشاہ لوئس 16، فوج، جاگیرداروں اور عمائدین کا عوام نے صفایا کردیا تھا۔

ہاں مگر سپاہیوں نے عوام کا ساتھ دیا تھا۔ اگر جنرلوں کی بات کرتے ہیں تو وہ اکثر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی اولاد ہوتے ہیں جب کہ سپاہی کسانوں کے بیٹے ہوتے ہیں۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن، منور حسن، عمران خان، قمرالزمان کائرہ اور نواز شریف، طاہر القادری کی لانگ مارچ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اگر انھوں نے لانگ مارچ کر ہی لیا تو کیا ہوجائے گا؟ کوئی محنت کش عوام کا انقلاب تو لا نہیں رہے ہیں۔ اگر نوازشریف، پی پی پی اور جماعت اسلامی وغیرہ لانگ مارچ کرسکتی ہے تو طاہر القادری کے کرنے میں کیا حرج ہے۔ ان تمام سرمایہ دار اور سامراجی آلہ کار کو بے نقاب ہونا ہی چاہیے۔

آج یہ بے نقاب ہوں گے تو کل عمران خان ہوں گے۔ مذہبی جماعتوں، پی پی پی، مسلم لیگ اور فوجی حکومتوں کو تو عوام نے دیکھ ہی لیا ہے اب صرف محنت کشوں کا غیرطبقاتی ایسا انقلاب آنا ہے جہاں ساری دولت کے مالک تمام لوگ ہوں۔ جہاں ریاست، عدالت، صدارت، وزارت، فوج، میڈیا، کرنسی نوٹس، سرحدی محافظ، جیل، وکیل اور پولیس کے وجود ختم ہوجائیں گے۔ خودکار انجمنیں تمام کاروبار زندگی کو محلوں، گلیوں اور گاؤں کی کمیٹیوں کی بنیاد پر خوش اسلوبی سے سر انجام دیں گی۔ کوئی بے روزگار ہوگا اور نہ بھوکا۔ کوئی جاہل ہوگا اور نہ بے گھر۔ کوئی لاعلاج ہوگا اور نہ مجبور۔ ہر طرف خوشحالی کے پھولوں کی مہک سے یہ دنیا معطر ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں