تاریکیوں کا شہر

لاکھ کوشش کے باوجود حالیہ صورت حال کے باعث گھر سے نکلنے کی ہمت نہیں کرپاتے۔


سائرہ اکبر January 07, 2013

ہم نے اپنے دل میں یہ عہد کیا تھا کہ اب ہم اپنے پیارے شہر کراچی کے بارے میں اسی وقت لکھیں گے جب یہاں کی فضائیں پہلے کی طرح امن وسلامتی کا پیغام دیں گی اس کے درودیوار ماضی کی طرح اخوت و یگانگت کے گیت گائیں گے اور اس کے چپے چپے سے محبت و شادمانیوں کے چشمے پھوٹیں گے جس کی شیرینی ٹھنڈک و لذت کے باعث اس شہر میں بسنے والے ہر طبقے و علاقے و زبان بولنے والے پھر سے باہم ایک دوسرے سے ایسے ہی شیر وشکر ہوجائیں گے جیسے کہ وہ کبھی پہلے تھے کہ جب جہاں کہیں کسی بھائی کا پسینہ گرتا تھا تو وہاں دوسرا بھائی اپنا خون گرانے کو تیار ہوجاتا تھا۔

کتنا حسین، دلکش ہوا کرتا تھا ہمارے شہر کراچی کا چہرہ کہ جس کے رخسار کسی معصوم و بے گناہ کے خون سے داغدار نہیں تھے۔ ہم نے کچھ عرصہ قبل بے حد شکستہ دل کے ساتھ چند کالم کراچی کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال پر تحریر کیے تھے اور پھر یہ سوچ کر کہ انشاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا کہ جب ایک بار پھر سے اس شہر میں چین کی بانسریاں بجیں گی، ہر سمت سے امن و آشتی کی ہوائیں آئیں گی تو اسی وقت ہم پھر سے اس کی دلفریبی کی داستانیں تحریر کریں گے، مگر اب اسے سوائے اہل کراچی کی بدقسمتی کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ اس شہر کے جو دنیا کے ساتویں بڑے شہر میں شمار ہوتا ہے کے سوئے بھاگ نہ جاگ سکے اور اس کا وجود بدستور زخم زخم ہے۔

آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ ہمارا یہ کبھی روشنیوں کی نسبت سے پہچانا جانے والا شہر اب دن بدن تارکیوں میں ڈوبتا جارہا ہے کہ یہ اندھیرے کچھ تو لوڈشیڈنگ کی دین ہیں جو مسلسل ہماری زندگیوں سے کچھ اسی طرح منسلک ہوکر رہ گئے ہیں کہ اگر کبھی بھولے بھٹکے کسی دن شیڈول کے مطابق لوڈشیڈنگ نہ ہو تو لوگ ایک دوسرے کو یوں اجنبی نگاہوں سے دیکھنے لگتے ہیں کہ خدانخواستہ ہم اپنے شہر کے بجائے اور کسی دیس میں تو نہیں بیٹھے ہوئے، پر ان اندھیروں کو تو اہل کراچی کسی نہ کسی طرح جھیل ہی لیتے ہیں، مگر ان تاریکیوں کا مقابلہ کیسے کریں کہ جو اندھا دھند ٹارگٹ کلنگ کی بدولت اس بدنصیب شہر کے مکینوں کے گھروں میں اترتی جارہی ہے، ٹارگٹ کلنگ پر ہمیں بے ساختہ زیب آنٹی یاد آنے لگیں کہ جن کا جواں سال بیٹا اسی عفریت کی زد میں آکر ہمیشہ کے لیے اپنی ماں کو روتا چھوڑ کر چلا گیا۔

جس کے جانے کے بعد زیب آنٹی چلتی پھرتی لاش بن کر رہ گئی ہیں، یہ وہی زیب آنٹی ہیں جو اپنے بیٹے کی ناگہانی وفات سے قبل اس قدر بن سنور کر رہتی تھیں کہ دیکھنے پر بالکل نوجوان لڑکی لگتی تھیں، سونے پر سہاگہ ان کی خوش لباسی ان کے حسن میں مزید چار چاند لگا دیتی تھی، مگر اب انھیں دیکھ کر کسی ویران مقبرے کا سا گمان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ وہ انھیں صبرجمیل عطا فرمائے (آمین)۔ اسی طرح حمید انکل کا خیال آتا ہے تو دل بے ساختہ بھر آتا ہے با اصول اور شفیق سے حمید انکل محض اس لیے جان کی بازی ہار گئے کہ انھوں نے بھتہ خوروں سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ وہ اپنی برسوں کی محنت ومشقت سے کمائی گئی خون پسینے کی کمائی کو یوں ہی ان مفت خوروں اور لٹیروں کے حوالے نہیں کریں گے یوں انھوں نے لاکھوں کا بھتہ دینے سے صاف انکار کردیا جس کی پاداش میں انھیں ان بھتہ خوروں نے عمر بھر کے لیے گہری نیند سلادیا ۔

الغرض اب ہر سمت و ہر جانب ہمیں اپنے اسی پیارے شہر میں وحشتوں و لاقانونیت کے سائے رقص کرتے نظر آتے ہیں، اسی لیے اب گھر سے باہر قدم نکالنے سے پہلے دس بار سوچنا پڑتا ہے جب کہ اب سے کچھ عرصہ قبل پہلے ہم جب کبھی شادی بیاہ یا دیگر تقریبات سے واپس گھر آتے تھے تو اپنے علاقے میں پہنچتے ہی سکون سا آجاتا تھا کہ اب گھر زیادہ دور نہیں ہے کہ ان دنوں رات گئے خوب چہل پہل رہتی تھی مگر اب کچھ عرصے سے موجودہ حالات کے پیش نظر اب ہم جب کبھی کسی فنکشن سے رات گئے لوٹتے ہیں تو اب اپنے علاقے میں آنے کے بعد پہلے کی طرح سکون آنے کے بجائے خوف آنے لگتا ہے۔ ہر سمت اندھیرے، مہیب سناٹے جب کہ پہلے کبھی راتوں کو گھر لوٹنا یوں سوہان روح نہ بنا تھا۔

کیونکہ کہیں نزدیکی پارکوں میں تو کہیں چائے خانوں میں تو کبھی کہیں گروہ کی شکل میں لوگ مختلف مقامات پر بیٹھے ہنستے مسکراتے خوش گپیوں میں مصروف نظر آتے، مگر اب جب سے ٹارگٹ کلنگ اور بے مقصد اندھا دھند گلی محلّوں میں فائرنگ جیسے دلدوز واقعات نے جنم لیا ہے اس کے بعد سے اب رفتہ رفتہ پہلے جیسی رونقیں دم توڑ رہی ہیں، اسی بناء پر نہ اب علاقوں میں پہلے جیسی چہل پہل رہی اور نہ ہی اب وہ پہلے جیسی محفلیں۔ جب کہ علاقہ مکینوں کو تاریک، ویران، سنسان ماحول کے بجائے ہنگامہ پرور، پررونق اور ہنستے کھیلتے شہر ہی زندگیوں کا احساس دلاتے ہیں جس کے باعث اب سچی بات ہے کہ ہم نے راتوں کو تقریبات میں جانا ہی کم کردیا ہے جس کی بناء پر دوست احباب، عزیز و اقارب ہم سے ناراض رہنے لگے ہیں، پر ہم کیا کریں کہ لاکھ کوشش کے باوجود حالیہ صورت حال کے باعث گھر سے نکلنے کی ہمت نہیں کرپاتے۔

غرض ان حالات نے لوگوں کو نہایت خوفزدہ، بے بس و مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ اسی ضمن میں ہماری ایک دوست نے ایک نہایت دردناک واقعہ سنایا تھا کہ جب چند روز قبل ان کی ایک عزیزہ جنہوں نے تنگ دستی و غربت کے باوجود کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا تھا وہ ایک روز اس کے دروازے پر شدید ضرورت کے تحت یہ کہہ کر آنے پر مجبور ہوگئیں کہ گزشتہ کئی روز سے شہر کے مسلسل خراب حالات کی بناء پر ان کے گھر پر فاقے ہورہے ہیں وہ شاید آج بھی اپنے عزت نفس پر آنچ نہ آنے دیتیں۔ اگر ان کی شدید بیمار بیٹی کے لیے دواؤں اور غذاؤں کی ضرورت نہ پڑتی کہ شہر میں ہونے والی آئے دن کی مسلسل ہڑتال کے باعث وہ کام پر نہ جاسکیں جس کی وجہ سے گھر میں پیسوں کی ضرورت پڑ گئی یوں وہ زندگی میں پہلی بار 30-25 سال میں اپنے کسی رشتے دار کے گھر سوالی بن کر آئی ہیں تو یہ کہتے وقت ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے تو ادھر ہماری دوست کا اپنی اس عزیزہ کی اس حالت زار پر رو رو کر برا حال تھا۔

سب سے زیادہ دکھ اسے اس بات کا تھا کہ اتنا نزدیک رہنے کے باوجود اسے اندازہ نہیں ہوسکا کہ اس کی آنٹی اپنے گھر والوں سمیت کئی دنوں سے بنا کھائے پیے رہ رہی ہیں، نہ جانے ہمارے پیارے شہر میں یہ سب کیا دھرا کس کا ہے؟ کون اس ہنستے بستے شہر کو بار بار معصوم شہریوں کے خون میں نہلا دیتا ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں ان سب میں بیرونی عناصر کا ہاتھ ہے تو کچھ کا خیال ہے کہ یہ سب ہمارے مفاد پرست سیاستدانوں کے مرہون منت ہے جنہوں نے محض اپنی سیاست کی دکان چمکانے کے لیے اس شہر کو بلکہ اسی شہر پر ہی کیا موقف سارے ملک کو ہی تباہی و بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے کہ اس سے پہلے تو ہم نے کبھی نہیں سنا کہ یہ سندھی ہے، یہ پنجابی ہے، یہ بلوچی ہے تو یہ پٹھان۔

ہم تو کئی برسوں سے چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتے آرہے تھے، کبھی کسی نے کسی کو احساس کمتری یا احساس برتری کا احساس نہیں دلایا بلکہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وقت پڑنے پر اہل زبان کے اہل زباںسے زیادہ سندھی، بلوچی، پنجابی و پٹھان بھائی ہی کام آتے تھے۔ تو اب۔۔۔۔۔اب دلوں میں کیوں اس قدر فاصلے بڑھ گئے ہیں کہ اب ایک ساتھ رہنا تو دور کی بات ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہی دشوار ہوگیا ہے؟ یہ یک دم اتنی نفرتیں ہمارے بیچ کہاں سے آگئیں کہ ایک جماعت کے سربراہ ٹی وی پر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے جنہوں نے بڑی سنگدلی کے ساتھ کہا تھا کہ اگر ہمیں کراچی سے نکالنے کی کوشش کی گئی تو ہم اس کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے اور اسے ایسا ہی کرکے جائیں گے جیساکہ یہ پہلے کبھی تھا تو ان کے یہ تخریبانہ خیالات سن کر ہم افسوس کے ساتھ سوچنے لگے کہ یہ ہمارا تمہارا کب سے ہونے لگا؟

کہ یہ شہر یہ ملک تو سب کا ہے اور سب کا اس پر برابر کا حق ہے، پر اب تو شدید دکھ ہوتا ہے، یہ دیکھ کر کہ اب تو ملک عزیز کے حوالے سے بھی احساس برتری دکھائی جانے لگی کہ اسی کے لیے ہم نے اتنی قربانیاں دی، فلاں طبقے نے اتنی قربانیاں دیں، کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اپنی زندگی میں یہ دن بھی دیکھنے پڑیں گے، اب تو دوستیاں، رشتے داریاں بھی دیکھ بھال کر کی جارہی ہیں کہ اس سے قبل تک ہر صوبے و ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے آپس میں بلا جھجھک نئے رشتے و تعلق استوار کرتے تھے۔بہرطور اس تمام تر افسوس ناک صورت حال کے پیش نظر دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ پاک پروردگار! تُو ہمارے اس شہر و ملک کو اپنے حفظ و امان میں رکھنا، آمین! اور ہمارے پیارے شہر کی رونقیں پھر سے دوبالا ہوجائیں اور اس کی بجھتی روشنیاں پھر سے جگمگا اٹھیں اور ہر کوئی اسے پھر سے روشنیوں کا شہر کہنے لگے، جسے اب ایک عرصے سے تاریکیوں کا شہر کہا جانے لگا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں