عجیب بات

کیا یہ عجیب یعنی مختلف بات نہیں ہے کہ ہمیں کرکٹ نے جوڑ رکھا ہے؟کیا یہ اچھی بات نہیں ہے کہ ہم کہیں سے جڑے ہوئے بھی ہیں

moosaafendi@gmail.com

مجھے عجیب باتیں اور عجیب چیزیں بہت اچھی لگتی ہیں۔ میرے خیال میں عجیب باتیں اگر سب لوگوں کو نہیں تو اکثر لوگوں کو بھی لگتی ہیں۔ عجیب باتیں کیا ہوتی ہیں؟ عجیب باتیں دراصل عام باتوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ مجھے اور اکثر لوگوں کو عام باتوں سے مختلف یعنی عجیب باتیں اچھی لگتی ہیں۔

اب کوئی یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ عام باتوں سے مختلف یعنی عجیب باتیں بُری کیوں نہیں لگتیں؟ یہ صرف اچھی کیوں لگتی ہیں؟ ایسی بات نہیںہے جو باتیں عجیب ہونے کے ساتھ ساتھ بری بھی ہوں تو وہ بھلا کیسے اچھی لگ سکتی ہیں۔ وہ باتیں تو میرے سمیت اکثر لوگوں کو بُری ہی لگیں گی۔ مثلاً اگر کچھ لوگ کسی حادثے کا شکار ہونے والے لوگوں کے لواحقین کے سامنے جو نوحہ کناں ہوں، ہنس رہے ہوں تو یہ بات عجیب ہونے کے باوجود اچھی نہیں لگے گی۔ مجھے بھی نہیں لگے گی اور میرے خیال میں اکثر لوگوں کو اچھی نہیںلگے گی۔ صرف وہی عجیب باتیں اچھی لگتی ہیں جو حقیقت میں اچھی ہوتی ہیں اور اچھی باتوں کا ہونا چونکہ ہمارے ہاں کوئی معمول کی بات نہیں ہوتی اس لیے ان کا ہونا عجیب بھی ہوتا ہے اور اچھا بھی لگتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ مجھے اپنا نقطہ نظر سمجھانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کیونکہ میرے نقطہ نظر کا تعلق کسی فلسفے یا پیچیدہ قسم کے نظریے سے ہرگز نہیں ہے بلکہ میرے نقطہ نظر کا تعلق عام مشاہدے سے ہے۔ اب میں آپ کو اس جگہ پر لے آیا ہوں جہاں میرا اورآپ کا مشاہدہ تقریباً ایک سا ہوجاتا ہے۔

میرے مشاہدے کا تعلق میرے ارد گرد کے حالات واقعات سے جڑا ہوا ہے۔ میرے اردگرد عجیب و غریب واقعات ہورہے ہیں۔ میں ایک ایسے معاشرے میں زندگی گذار رہا ہوں جس کے اندر شرح خواندگی مضحکہ خیز حد تک کم ہونے کے باعث عموماً سمجھا جاتا ہے کہ اس معاشرے میں کالے کوٹ اور سفید کوٹ والے لوگ بہت زیادہ پڑھے لکھے لوگ ہونگے اور یہ بات شاید اتنی غلط بھی نہ ہو اس کے علاوہ بظاہر اَن پڑھوں کی اکثریت صدق دل سے یہ سمجھتی ہے کہ پڑھے لکھے لوگ ان سے مختلف ہوتے ہیں۔ وہ ان سے بہت ساری باتوں میں نہیں بلکہ تقریباً ساری باتوں میں مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً پڑھے لکھے لوگ اپنے طور طریقوں میں بات چیت میں رکھ رکھاؤ میں میل جول میں رہن سہن میں کھانے پینے میں اور ملنے جُلنے میں کچھ اِس طرح مختلف ہوتے ہیں کہ ان کی عزت کرنے کو دل چاہتا ہے۔ میرا مشاہدہ یہ بھی ہے کہ بیچارے ان پڑھ لوگ خلوص نیت سے سمجھتے ہیں کہ ان سب مختلف باتوں کی وجہ سے پڑھے لکھے لوگ ان کی نسبت عزت واحترام کے زیادہ حقدار اور مستحق ہوتے ہیں۔


میرا یہ بھی مشاہدہ ہے اور غالباً میرے علاوہ اور لوگوں کا بھی یہ مشاہدہ ہوگا کہ بظاہر ہمارے ان پڑھ بھائیوں کا یہ خیال ہے کہ پڑھے لکھے لوگ ان کی نسبت زیادہ عزت اور احترام کے مستحق ہوتے ہیں اس لیے ان کے دل کے اندر کی یہ خواہش کہ کاش وہ بھی پڑھے ہوتے صاف صاف اور واضح نظر آتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ بذات خود اِس محرومی کے ذمے دار نہیں ہوتے کیونکہ ہمارے ہاں تعلیم کے حصول کے لیے بہت سارے پیسے اور رقم درکار ہوتی ہے جو ان لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ اَن پڑھ ہونے کے ساتھ ساتھ غریب بھی ہوتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ غربت اور جہالت لازم وملزوم ہیں جب کہ مجھے یقین ہے کہ ان پڑھ غریب تو ہوسکتا ہے جاہل نہیں کیونکہ میں نے آکسفورڈ ، کیمرج اور ہارورڈ سے تعلیم یافتہ لوگوں کو جہالت سے بھر پور زندگی گذارتے دیکھا ہے۔میرا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ بیچارے اَن پڑھ ڈگری یافتہ لوگوں کو اپنی طرح گنوار نہیں سمجھتے بلکہ انھیں روشن خیال اور باکردار بھی سمجھتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں بیچارہ ان پڑھ مار کھا جاتا ہے اور غالباً یہ مار وہ اسی لیے کھاتا ہے کیونکہ وہ اس غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے کہ نصاب کی کتابوں میں درج معلومات کا اضافہ آدمی کے اندر کی کمینگیوں اور غلاظتوں کو بھی دُور کردیتا ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہوتا کیونکہ کوئی بھی قابل نفرت شخصیت مہنگا ترین پُرفیوم لگا کر بھی خوشبودار نہیں بن سکتی۔

جب میں نوجوان ڈاکٹروں کو اپنے بڑوں کی پٹائی کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے یہ بات عجیب ہونے کے باوجود اچھی نہیں لگتی کیونکہ ڈاکٹروں کو لوگ ان پڑھ نہیں کہہ سکتے اسی طرح جب وکیل لوگوں کو کچہریوں کے احاطے اور وکیلوں کو کورٹوں کی چار دیواریوں کے اندر پولیس والوں کو سبق سکھاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو میری طرح کے بیچارے اَن پڑھ خواہ مخواہ پریشان ہوجاتے ہیں ۔ مجھے بعض اَن پڑھوں نے خود بتایا ہے کہ ایسے موقعوں پر وہ لوگ اﷲ کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے انھیں ان پڑھ ہی رکھا۔ اب یہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ آپ دیکھیں کہ اس میں عجیب بات یعنی اور باتوں سے مختلف بات کیا ہے؟

یہ بھی میرا مشاہدہ ہے اور میری طرح یہ مشاہدہ میرے تمام عظیم ہم وطنوں کا بھی مشاہدہ ہوسکتا ہے کہ ہم طرح طرح سے بُری طرح بکھرے ہوئے ہیں اور سمجھ نہیں پا رہے کہ کیسے آپس میں جُڑ جائیں اور ایک ہوجائیں۔ کیونکہ اپنی اپنی بند گلیوں میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں سے نکلنے کا راستہ سُجھائی نہیں دیتا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انتشار بذات خود اندھیرے کی ایک قسم ہے اور یکجہتی اور اتحاد بذات خود روشنی کا دوسرا نام ہے۔ اس لیے اندھیروں میں گِھر ے ہوئے مایوس اور ناامیدوں کو جو میرے ایمان کے مطابق اپنے اوپر ظلم کرنے کی پاداش میں تاریکیوں میں گِھر چکے ہیں روشنی کی چھوٹی سی کرِ ن بھی امیدوں کے ان گنت دروازے کھول دیتی ہے۔

اس وقت بھارت میں کرکٹ کھیلنے والے ہمارے بچے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کے وہ مینار ہیں جن کی وجہ سے میری قوم کا انتشار چھٹتا ہو ا نظر آتا ہے کیونکہ لنڈی کوتل سے کراچی تک اور کوئٹہ سے لاہور تک اور پشاور سے مظفرآباد گلگت اور اسکردو تک مجھے یوں لگتا ہے کہ ہم ابھی بالکل جدا جدا نہیں ہوئے۔ ہم ابھی جڑے ہوئے بھی ہیں بس پیچوں کو کسنے کی ضرورت ہے ۔ اگر پیچ کس لیے گئے تو نہ صرف ہر دوڑ ممکن ہوجائے گی بلکہ ہر دوڑ کی جیت بھی یقینی ہو جائے گی۔

کیا یہ عجیب یعنی مختلف بات نہیں ہے کہ ہمیں فی الحال کرکٹ نے جوڑ رکھا ہے؟ اور کیا یہ ایک اچھی بات نہیں ہے کہ ہم کہیں سے جڑے ہوئے بھی ہیں۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔
Load Next Story