قاضی حسین احمد جہد ِمسلسل کا اِستعارہ تھے
بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ قاضی حسین احمد جماعتِ اسلامی میں ایک نئے دور کے خالق رہے۔
جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کے انتقال سے مذہبی سیاست کا ایک درخشاں باب بند ہوگیا ہے۔
سیاست کو جو رخ قاضی حسین احمد نے دیا اس سے عمومی اور خصوصی طور پر جماعتِ اسلامی پاکستان کا رجحان تبدیل ہو گیا تھا۔ انہوں نے 1993 میں احتساب اور انصاف کا نعرہ بلند کیا اور اُس زمانے میں ''ظالمو قاضی آرہا ہے '' کا نعرہ بہت مقبول ہوا تھا۔ اس کے بعد کے برسوں میں قاضی حسین احمد ایک انتہائی متحرک شخصیت کے طور پر سیاسی منظرنامے پر چھائے رہے۔ وہ جماعت اسلامیِٔ پاکستان کے تیسرے امیر تھے۔ ان کے پیش رووں کے دور میں جماعت اسلامی عوامی جماعت کی تعریف پر کبھی پورا نہیں اتری اسے حقیقی عوامی جماعت کا روپ قاضی حسین احمد نے اس کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد دیا۔ بہ جا کہا جاتا ہے کہ قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کو مراکز جاعت اسلامی سے اٹھا کر سڑکوں اور گلیوں میں لے آئے۔
قاضی صاحب میاں محمد طفیل کے سبک دوش ہونے کے بعد جماعت اسلامی کے امیر چنے گئے حاؒل آںکہ اس وقت پروفیسر محمد خورشید اور پروفیسر غفور احمد جیسی شخصیات جماعت کے افق پر جگ مگا رہی تھیں۔ قاضی صاحب کے مزاج میں تحرک بہت تھا اور انہوں نے جماعت اسلامی کی سیاست کو بھی اپنے مزاج پر استوار کرنے کی کام یاب کوشش کی۔ اسی سبب انہیں جماعت کا سب سے کام یاب امیر سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے 1988 کے انتخابات سے قبل بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد میں بہت فعال کردار ادا کیا جب کہ 1993 کے انتخابات میں اسلامک فرنٹ کے پلیٹ فارم سے جس انداز میں وہ انتخابات کے میدان میں اترے وہ اب تک عوام کے ذہنوں پر نقش ہے۔ ان ہی دنوں قاضی حسین احمد کے حوالے سے ''ظالمو قاضی آرہا ہے '' کا نعرہ کوچہ و بازار میں گونجا کیا یوں جماعت ایک نئے انداز میں عوام سے متعارف ہوئی انہوں نے پہلی مرتبہ یہ احساس دلایا کہ سیاست، احتساب کے بغیر نامکمل ہے۔ یہ الگ بات کہ بدقسمتی سے اس الیکشن میں بھی جماعت اسلامی خود کو مؤثر پارلیمانی پارٹی ثابت نہ کرسکی اور پیپلزپارٹی حکومت بنانے میں کام یاب ہوگئی۔
قاضی حسین احمد ''اصولی سیاست'' کے حوالے سے تو شہرت رکھتے ہی تھے ان کی ایک وجۂِ شہرت یہ بھی تھی کہ وہ بہ حیثیت امیر جماعت اسلامی عام انتخابات کا بائیکاٹ کرتے رہے۔ 1997 کے انتخابات میں بھی ان کی جماعت نے عام انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا جس کی وجہ سے ان کی پارٹی اسمبلیوں سے باہر ہی رہی لیکن وہ اس حال میں بھی سیاست میں پوری طرح متحرک رہے اس سارے دورانیے میں ایک بھی ایسا موقع نہیں آیا جب قاضی حسین احمد اور ان کی جماعت اسلامی منظر سے غائب رہی ہو۔
نائین الیون کے بعد تو خصوصی طور پر قاضی حسین احمد کی قیادت میں پوری جماعت اسلامی ملک بھر میں سڑکوں اور میدانوں ہی میں ایستادہ رہی۔ قاضی حسین احمد، مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمٰن نے افغانستان پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے حملے کے خلاف ''دفاع افغانستان و پاکستان کونسل'' کی بنیاد رکھی جس نے اس حملے کی نہ صرف شدید مذمت کی بل کہ اس کے خلاف ان قائدین کی قیادت میں مذہبی جماعتوں نے کھل کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں، اسی دفاع افغانستان و پاکستان کونسل کے بطن سے بعد میں متحدہ مجلس عمل نے جنم لیا جس کے پلیٹ فارم سے چھ مذہبی جماعتوں نے پہلی مرتبہ یک جا ہوکر عام انتخابات میں حصہ لیا اور خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں بڑی تعداد میں نشستیں بھی حاصل کیں۔
خیبرپختون خوا میں جماعت اسلامی نے چوںکہ جے یو آئی سے کم نشستیں حاصل کی تھیں اس لیے وزارت اعلیٰ جے یوآئی (فضل الرحمٰن گروپ) کے حصے میں آئی، جماعت اسلامی کے ہاتھ سینیئر وزیر اور سپیکر کے عہدے آئے۔ یہ سب کچھ قاضی حسین احمد کی مؤثر قیادت ہی کی بہ دولت ممکن ہوا تھا۔ ان ہی انتخابات میں خود قاضی حسین احمد ایم این اے منتخب ہوکر قومی اسمبلی میں داخل ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایل ایف او پر جس انداز میں احتجاج کیا جاتا رہا ہے اس میں بھی قاض حسین احمد ہی پیش پیش تھے۔
متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے مذہبی جماعتوں نے جس طرح کام یابی حاصل کرتے ہوئے خیبرپختون خوا میں حکومت بنائی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کیا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے تجزیہ نگار یہ ہی اندازہ کر رہے تھے کہ 2008 کے عام انتخابات میں بھی ایم ایم اے خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کر لے گی تاہم ایسا نہ ہوسکا۔ ایم ایم اے کے پہلے صدر مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات اور مولانا سمیع الحق کی پارٹی کو ایم ایم اے سے نکال دیا گیا اس کے بعد ایم ایم اے کی باگ ڈور جماعت اسلامی پاکستان اور جمعیت علماء اسلام (ف)کے ہاتھ آئی۔
مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد قاضی حسین احمد کو ایم ایم اے کا صدر بنایا گیا اور مولانا فضل الرحمٰن اس کے جنرل سیکریٹری بنے تو جماعتوں میں عام انتخابات کے لیے میدان میں اترنے سے قبل ہی اختلافات پیدا ہونا شرو ع ہوگئے کیوں کہ قاضی حسین احمد کی قیادت میں کام کرنے والی جماعت اسلامی کا موقف تھا کہ موجودہ اسمبلیوں سے جنرل پرویز مشرف کو دوبارہ منتخب ہونے کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہیے جب کہ دوسری جانب جے یو آئی سارے معاملات کو تکنیکی انداز میں ڈیل کررہی تھی۔ وہ بھی اس بات کی حامی تو تھی تاہم دونوں جماعتوں کے درمیان طریقۂِ کار کے حوالے سے اختلاف پیدا ہوگیا جس کے نتیجے میں خیبرپختون خوا اسمبلی، جسے جماعت اسلامی صدارتی انتخابات سے قبل ہی تحلیل کرنے کی خواہاں تھی، صدارتی انتخابات تک تحلیل نہ ہوسکی۔
اس پر جماعت اسلامی کے ارکان اسمبلی مستعفی ہوگئے جب کہ جے یو آئی (ف)کے اراکین اسمبلیوں میں موجود رہے اور صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوجانے کے بعد ہی خیبرپختون خوا اسمبلی کو تحلیل کیا گیا جس کے باعث دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات اتنے شدید ہو گئے کہ نہ صرف ان دونوں جماعتوں کی راہیں جدا ہوگئیں بل کہ ایم ایم اے بھی غیر فعال ہوکر رہ گیا۔
2008 کے عام انتخابات کی صورت حال بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے قطعی طور تبدیل ہوچکی تھی۔ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان انتخابات کے بائیکاٹ کا عندیہ سامنے آرہا تھا، ابتدائی طور پر مسلم لیگ (ن)کی جانب سے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کی بات کی گئی جس ایک وجہ جہاں بے نظیر بھٹو کی شہادت تھی وہاں دوسری اور اصل وجہ یہ بھی تھی کہ مذکورہ انتخابات جنرل پرویز مشرف کے دور صدارت ہی میں ہورہے تھے اور سیاسی پارٹیوں کا خیال تھا کہ ایک بار پھر 2002 کی طرز پر انتخابات کرائے جائیں گے جس میں من پسند پارٹیوں اور افراد کو اسمبلیوں تک پہنچایاجائے گا۔
تاہم جب پیپلز پارٹی نے ''پاکستان کھپے'' کا نعرہ لگاکر الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان کیا تو مسلم لیگ (ن) نے بھی الیکشن کا بائیکاٹ واپس لے لیا جس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کا موقف تھا کہ ایم ایم اے کو بھی بھرپور طریقے سے انتخابی میدان میں اترنا چاہیے تاہم تحریک انصاف، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کا فیصلہ برقرار رکھا اور الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔
مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی پارٹی آخری وقت تک جماعت اسلامی کے ساتھ رابطے میں رہی تاکہ وہ اپنا بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے اور ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لے لیکن قاضی حسین احمد نے پشاور میں مرکز اسلامی میں منعقدہ اجلاس میں الیکشن سے بائیکاٹ کا اعلان کردیا حال آں کہ اس فیصلے سے خود جماعت اسلامی کے کئی رہ نما اور وہ اراکین اسمبلی جو 2002 کے عام انتخابات میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے کام یابی حاصل کرچکے تھے متفق نہیں تھے لیکن قاضی حسین احمد کے بہ حیثیت امیر جماعت اسلامی، کیے گئے فیصلے سے کوئی اختلاف نہ کرسکا اور جماعت بائیکاٹ پر چلی گئی جس کی وجہ سے موجودہ اسمبلیوں میں جماعت اسلامی کی نمائندگی نہیں رہی۔
مذکورہ فیصلے کو بعد میں جماعت اسلامی کے کئی رہ نمائوں نے درست اقدام قرار نہیںدیا جب کہ کئی رہ نما آج بھی اس موقف پر قائم ہیں کہ جماعت اسلامی کا فیصلہ درست تھا کیوںکہ جماعت اسلامی ایک آمر کے زیر اہتمام منعقدہ انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہتی تھی اور یوں اس نے اپنی اصولی سیاست کو برقراررکھا ہے۔
2008 کے عام انتخابات سے قبل ہی ایم ایم اے کا معاملہ ختم ہو گیا تھا کیوںکہ 2007 کی اسمبلیوں کی مدت کے اواخر میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (ف)کی جانب سے ایک دوسرے پر جس انداز میں الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری رہا اس نے اس دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی کہ مذکورہ جماعتیں مخصوص حالات کے تحت اکھٹی نہیں ہوئی تھیں۔ بعد میں عام انتخابات کے بائیکاٹ اور جے یو آئی کے دیگر چار جماعتوں کے ساتھ میدان میں اترنے کے باوجود پندرہ سے بھی کم نشستیں حاصل ہوئیں۔ اس سے معاملات اور خراب ہوگئے کیوںکہ مذکورہ نتائج کی ذمہ داری بھی جے یو آئی کی جانب سے جماعت اسلامی پر ہی عائد کی جاتی رہی۔
جے یو آئی (ف)کا آج بھی یہ موقف ہے کہ اگر جماعت اسلامی الیکشن کا بائیکاٹ نہ کرتی تو نتائج کچھ اور ہوتے۔ بہ ہرحال قاضی حسین احمد اس کے بعد بھی 21 سال جماعت اسلامی کے مرکزی امیر رہے۔ اس کے بعد بھی قاضی حسین احمد متحرک رہے اور دل کے بائی پاس آپریشن اور جوڑوں کی شدید تکلیف بھی انہیں عملی سیاست سے الگ نہ کرسکی، یہ ہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر کے عہدے پر نہ رہنے کے باوجود اہم مواقع اور فیصلہ سازی میں لوگوں کی نگاہیں سید منور حسن کے بہ جائے قاضی حسین احمد ہی پر مرکوز رہتی تھیں جس کی وجہ سے جماعت اسلامی کی پالیسی بھی شکوک و شہبات کا شکار تھی اور کئی مواقع پر سید منور حسن کو یہ کہ کر ان معاملات کی وضاحت کرنی پڑی کہ جماعت اسلامی کے امیر اب وہ ہیں اور جو بھی فیصلے ہوں گے وہ ہی کریں گے۔
افغانستان سے روس کے انخلا کے بعد وہاں قیام امن اور افغان رہ نمائوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹاکرنے کے حوالے سے بھی قاضی حسین احمد کا کردار نمایاں رہا۔ گزشتہ دو، تین سال سے وہ اس بات کے خواہاں تھے کہ متحدہ مجلس عمل بہ حال ہوجائے کیوںکہ ایم ایم اے کے غیر فعال ہونے تک وہی اس کے آخری صدر تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کی صدارت ہی کے دوران ایم ایم اے بحال ہوجائے تاہم دوسری جانب جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت اس حوالے سے تحفظات رکھتی ہے اور وہ ایم ایم اے کی بحالی سے قبل جے یو آئی کے ساتھ کئی امور پر معاملات کو حتمی شکل دینا چاہتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ قاضی حسین احمد اور جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت کے درمیان اختلافات کی خبریں کئی مواقع پر سامنے آتی رہیں تاہم آن دی ریکارڈ گفت گو میں قاضی حسین احمد نے ہمیشہ خود کو جماعت اسلامی کی قیادت اور شوریٰ کے فیصلوں کا پابند قراردیا۔
انہوں نے ہر موقع پر واضح یہ کیا کہ اس سلسلے میں جو بھی فیصلہ ہو گا جماعت کی قیادت اور شوریٰ کرے گی اور وہ ان فیصلوں کے پابند ہوں گے۔ ایم ایم اے کی بحالی قاضی حسین احمد کی خواہش کے مطابق نہ ہوسکی جس کے باعث انہوں نے فرقہ واریت کے خاتمے اور مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے مذہبی جماعتوں کو ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا اور اس میں وہ جے یو آئی (ف) سمیت تمام مذہبی جماعتوں کو اکھٹا کرنے میں کام یاب رہے اور اس بات کے امکانات ظاہر ہونے لگے تھے کہ کونسل کے پلیٹ فارم پر جماعت اسلامی اور جے یو آئی(ف)کے درمیان فاصلے کم ہو جائیں گے اور ایم ایم اے کی بحالی کی راہ ہم ورا ہو جائے گی تاہم قاضی حسین احمد کی اچانک وفات کے بعد کیا صورت حال بنے گی اس بارے میں فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
بہ ہرحال یہ واضح ہے کہ اب منظرنامے پر وہ مؤثر شخصیت نہیں اور اب جماعت اسلامی کی قیادت کو جو بھی فیصلے کرنے ہوں گے وہ قاضی حسین احمد کے بغیر ہی کرنا پڑیں گے۔ اب ایم ایم اے کو نیا صدر لانے میں کوئی مشکل نہیں رہے گی ایم ایم اے کا صدر کسے بنایا جائے کیوںکہ قاضی صاحب نے اس امر کا اظہار اپنی زندگی میں کر دیا تھا کہ ایم ایم اے کے صدر وہی ہوں گے تاہم اب نہ وہ رہے اور نہ ہی ایم ایم اے کا صدر، اس لیے ایم ایم اے کی بحالی کی خواہش مند جماعتیں، جماعت اسلامی کو مائنس کر کے بڑی سہولت کے ساتھ نئے صدر سمیت دیگر عہدے داروں کا انتخاب کرسکیں گی ۔
دیگر مذہبی جماعتوں کے رہ نمائوں سمیت قاضی حسین احمد بھی عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی وجہ سے پیدا ہونے والے موجودہ حالات میں نہایت بچ بچاکر چل رہے تھے اور ان کا سارا فوکس امریکا کے اس خطے سے انخلا پر تھا کیوںکہ یہ قاضی حسین احمد ہی تھے جن کے دور میں ''گو امریکا گو تحریک'' کا آغاز ہوا، انہوںنے ملین مارچ کی طرز پر اس تحریک کے تحت کئی اکٹھ کیے تاہم کچھ عرصہ قبل افغانستان اور پاکستان کے طالبان کے حوالے سے ان کے ایک بیان کے نتیجے میں ان کے لیے مشکلات پیدا ہوگئی تھیں اور ٹی ٹی پی کے موجودہ سربراہ حکیم اللہ محسود کے آڈیو پیغام نے اس صورت حال کو مزید کشیدہ کردیا تھا۔
یہ ہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل قاضی حسین احمد پر مہمند ایجنسی میں ایک خاتون کے ذریعے خو د کش حملے کی کوشش بھی کی گئی۔ صدر آصف علی زرداری کی جانب سے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کو فاٹا تک توسیع دینے اور قبائلی علاقہ جات میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہونے کے بعد جماعت اسلامی وہاں سب سے زیادہ متحرک رہی، اس کا کریڈٹ قاضی حسین احمد کو بھی جاتا ہے کیوںکہ انہوںنے مہمند ایجنسی سمیت کئی قبائلی ایجنسیوںمیں سیاسی سرگرمیوںکی قیادت کی اور وہاں سیاست کے بند دروازے کھولے۔
قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کی قیادت ایسے دور میں سنبھالی جب افغانستان میں امریکا اور روس کے درمیان جنگ آخری مراحل میں تھی۔ انہوں نے روسی افواج کے انخلا کے بعد کی صورت حال میں افغانستان کے معاملات کو سنبھالنے میں بھی بھرپور کردار ادا کیا جو تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ بھی ان کا ہی خاصہ تھاکہ وہ اصولوں کی بنیاد پر فیصلے کرتے تھے اور اپنے فیصلوں پر ڈٹ جاتے تھے جس کے لیے 2008 کے عام انتخابات کی مثال موجود ہے۔ یہ بھی ان کی اصول پرستی ہی کی ایک مثال ہے کہ ا یم ایم اے کے دور کے سینیئر وزیر سراج الحق جب دوسری مرتبہ خیبرپختون خوا میںجماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے تو مرکزی امیر ہونے کی حیثیت سے قاضی حسین احمد نے انھیں کھلا پیغام دیا کہ ''وزارت یا امارت'' اور اس کھلے پیغام کے نتیجے میں سراج الحق کو وزارت قربان کرنا پڑی جس کی تحسین قاضی صاحب کئی مواقع پر کی۔
قاضی حسین احمد نے 74 سالہ زندگی طوفانی انداز میں گزاری۔ انھیں اپنی زندگی میں اپنے داماد کے اس دنیا سے رخصت ہونے کا غم بھی سہنا پڑا تاہم ان کی ہمت جوان رہی۔ وہ ایک جانب یہ غم دل کو لگائے بیٹھے تھے تودوسری جانب ان کا دل بھی ان کے ساتھ دغا کررہا تھا جس کا انہیں بائی پاس کروانا پڑا جب کہ گھٹنوں کا شدید درد الگ سے ان کی راہ میں روڑٹے اٹکا رہا تھا تاہم قاضی صاحب ان تمام رکاوٹوں کو مات دیتے ہوئے میدان سیاست کے شہ سوار بنے رہے۔ وہ دل جس کے عارضے سے کافی عرصے سے نبردآزما تھے۔ بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ جماعتِ اسلامی میں ایک نئے دور کے خالق رہے اور کیا بعید کہ ان کا آغاز کیا ہوا عہد ان ہی پر اپنے انجام کو پہنچ گیا ہو۔ انہوں نے جماعت کی ''سختی'' کو گداز کر کے اسے خاصی حد تک کشادہ روی کی روش سے روشناس کرایا تھا، حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
سیاست کو جو رخ قاضی حسین احمد نے دیا اس سے عمومی اور خصوصی طور پر جماعتِ اسلامی پاکستان کا رجحان تبدیل ہو گیا تھا۔ انہوں نے 1993 میں احتساب اور انصاف کا نعرہ بلند کیا اور اُس زمانے میں ''ظالمو قاضی آرہا ہے '' کا نعرہ بہت مقبول ہوا تھا۔ اس کے بعد کے برسوں میں قاضی حسین احمد ایک انتہائی متحرک شخصیت کے طور پر سیاسی منظرنامے پر چھائے رہے۔ وہ جماعت اسلامیِٔ پاکستان کے تیسرے امیر تھے۔ ان کے پیش رووں کے دور میں جماعت اسلامی عوامی جماعت کی تعریف پر کبھی پورا نہیں اتری اسے حقیقی عوامی جماعت کا روپ قاضی حسین احمد نے اس کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد دیا۔ بہ جا کہا جاتا ہے کہ قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کو مراکز جاعت اسلامی سے اٹھا کر سڑکوں اور گلیوں میں لے آئے۔
قاضی صاحب میاں محمد طفیل کے سبک دوش ہونے کے بعد جماعت اسلامی کے امیر چنے گئے حاؒل آںکہ اس وقت پروفیسر محمد خورشید اور پروفیسر غفور احمد جیسی شخصیات جماعت کے افق پر جگ مگا رہی تھیں۔ قاضی صاحب کے مزاج میں تحرک بہت تھا اور انہوں نے جماعت اسلامی کی سیاست کو بھی اپنے مزاج پر استوار کرنے کی کام یاب کوشش کی۔ اسی سبب انہیں جماعت کا سب سے کام یاب امیر سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے 1988 کے انتخابات سے قبل بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد میں بہت فعال کردار ادا کیا جب کہ 1993 کے انتخابات میں اسلامک فرنٹ کے پلیٹ فارم سے جس انداز میں وہ انتخابات کے میدان میں اترے وہ اب تک عوام کے ذہنوں پر نقش ہے۔ ان ہی دنوں قاضی حسین احمد کے حوالے سے ''ظالمو قاضی آرہا ہے '' کا نعرہ کوچہ و بازار میں گونجا کیا یوں جماعت ایک نئے انداز میں عوام سے متعارف ہوئی انہوں نے پہلی مرتبہ یہ احساس دلایا کہ سیاست، احتساب کے بغیر نامکمل ہے۔ یہ الگ بات کہ بدقسمتی سے اس الیکشن میں بھی جماعت اسلامی خود کو مؤثر پارلیمانی پارٹی ثابت نہ کرسکی اور پیپلزپارٹی حکومت بنانے میں کام یاب ہوگئی۔
قاضی حسین احمد ''اصولی سیاست'' کے حوالے سے تو شہرت رکھتے ہی تھے ان کی ایک وجۂِ شہرت یہ بھی تھی کہ وہ بہ حیثیت امیر جماعت اسلامی عام انتخابات کا بائیکاٹ کرتے رہے۔ 1997 کے انتخابات میں بھی ان کی جماعت نے عام انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا جس کی وجہ سے ان کی پارٹی اسمبلیوں سے باہر ہی رہی لیکن وہ اس حال میں بھی سیاست میں پوری طرح متحرک رہے اس سارے دورانیے میں ایک بھی ایسا موقع نہیں آیا جب قاضی حسین احمد اور ان کی جماعت اسلامی منظر سے غائب رہی ہو۔
نائین الیون کے بعد تو خصوصی طور پر قاضی حسین احمد کی قیادت میں پوری جماعت اسلامی ملک بھر میں سڑکوں اور میدانوں ہی میں ایستادہ رہی۔ قاضی حسین احمد، مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمٰن نے افغانستان پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے حملے کے خلاف ''دفاع افغانستان و پاکستان کونسل'' کی بنیاد رکھی جس نے اس حملے کی نہ صرف شدید مذمت کی بل کہ اس کے خلاف ان قائدین کی قیادت میں مذہبی جماعتوں نے کھل کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں، اسی دفاع افغانستان و پاکستان کونسل کے بطن سے بعد میں متحدہ مجلس عمل نے جنم لیا جس کے پلیٹ فارم سے چھ مذہبی جماعتوں نے پہلی مرتبہ یک جا ہوکر عام انتخابات میں حصہ لیا اور خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں بڑی تعداد میں نشستیں بھی حاصل کیں۔
خیبرپختون خوا میں جماعت اسلامی نے چوںکہ جے یو آئی سے کم نشستیں حاصل کی تھیں اس لیے وزارت اعلیٰ جے یوآئی (فضل الرحمٰن گروپ) کے حصے میں آئی، جماعت اسلامی کے ہاتھ سینیئر وزیر اور سپیکر کے عہدے آئے۔ یہ سب کچھ قاضی حسین احمد کی مؤثر قیادت ہی کی بہ دولت ممکن ہوا تھا۔ ان ہی انتخابات میں خود قاضی حسین احمد ایم این اے منتخب ہوکر قومی اسمبلی میں داخل ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایل ایف او پر جس انداز میں احتجاج کیا جاتا رہا ہے اس میں بھی قاض حسین احمد ہی پیش پیش تھے۔
متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے مذہبی جماعتوں نے جس طرح کام یابی حاصل کرتے ہوئے خیبرپختون خوا میں حکومت بنائی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کیا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے تجزیہ نگار یہ ہی اندازہ کر رہے تھے کہ 2008 کے عام انتخابات میں بھی ایم ایم اے خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کر لے گی تاہم ایسا نہ ہوسکا۔ ایم ایم اے کے پہلے صدر مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات اور مولانا سمیع الحق کی پارٹی کو ایم ایم اے سے نکال دیا گیا اس کے بعد ایم ایم اے کی باگ ڈور جماعت اسلامی پاکستان اور جمعیت علماء اسلام (ف)کے ہاتھ آئی۔
مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد قاضی حسین احمد کو ایم ایم اے کا صدر بنایا گیا اور مولانا فضل الرحمٰن اس کے جنرل سیکریٹری بنے تو جماعتوں میں عام انتخابات کے لیے میدان میں اترنے سے قبل ہی اختلافات پیدا ہونا شرو ع ہوگئے کیوں کہ قاضی حسین احمد کی قیادت میں کام کرنے والی جماعت اسلامی کا موقف تھا کہ موجودہ اسمبلیوں سے جنرل پرویز مشرف کو دوبارہ منتخب ہونے کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہیے جب کہ دوسری جانب جے یو آئی سارے معاملات کو تکنیکی انداز میں ڈیل کررہی تھی۔ وہ بھی اس بات کی حامی تو تھی تاہم دونوں جماعتوں کے درمیان طریقۂِ کار کے حوالے سے اختلاف پیدا ہوگیا جس کے نتیجے میں خیبرپختون خوا اسمبلی، جسے جماعت اسلامی صدارتی انتخابات سے قبل ہی تحلیل کرنے کی خواہاں تھی، صدارتی انتخابات تک تحلیل نہ ہوسکی۔
اس پر جماعت اسلامی کے ارکان اسمبلی مستعفی ہوگئے جب کہ جے یو آئی (ف)کے اراکین اسمبلیوں میں موجود رہے اور صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوجانے کے بعد ہی خیبرپختون خوا اسمبلی کو تحلیل کیا گیا جس کے باعث دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات اتنے شدید ہو گئے کہ نہ صرف ان دونوں جماعتوں کی راہیں جدا ہوگئیں بل کہ ایم ایم اے بھی غیر فعال ہوکر رہ گیا۔
2008 کے عام انتخابات کی صورت حال بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے قطعی طور تبدیل ہوچکی تھی۔ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان انتخابات کے بائیکاٹ کا عندیہ سامنے آرہا تھا، ابتدائی طور پر مسلم لیگ (ن)کی جانب سے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کی بات کی گئی جس ایک وجہ جہاں بے نظیر بھٹو کی شہادت تھی وہاں دوسری اور اصل وجہ یہ بھی تھی کہ مذکورہ انتخابات جنرل پرویز مشرف کے دور صدارت ہی میں ہورہے تھے اور سیاسی پارٹیوں کا خیال تھا کہ ایک بار پھر 2002 کی طرز پر انتخابات کرائے جائیں گے جس میں من پسند پارٹیوں اور افراد کو اسمبلیوں تک پہنچایاجائے گا۔
تاہم جب پیپلز پارٹی نے ''پاکستان کھپے'' کا نعرہ لگاکر الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان کیا تو مسلم لیگ (ن) نے بھی الیکشن کا بائیکاٹ واپس لے لیا جس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کا موقف تھا کہ ایم ایم اے کو بھی بھرپور طریقے سے انتخابی میدان میں اترنا چاہیے تاہم تحریک انصاف، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کا فیصلہ برقرار رکھا اور الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔
مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی پارٹی آخری وقت تک جماعت اسلامی کے ساتھ رابطے میں رہی تاکہ وہ اپنا بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے اور ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لے لیکن قاضی حسین احمد نے پشاور میں مرکز اسلامی میں منعقدہ اجلاس میں الیکشن سے بائیکاٹ کا اعلان کردیا حال آں کہ اس فیصلے سے خود جماعت اسلامی کے کئی رہ نما اور وہ اراکین اسمبلی جو 2002 کے عام انتخابات میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے کام یابی حاصل کرچکے تھے متفق نہیں تھے لیکن قاضی حسین احمد کے بہ حیثیت امیر جماعت اسلامی، کیے گئے فیصلے سے کوئی اختلاف نہ کرسکا اور جماعت بائیکاٹ پر چلی گئی جس کی وجہ سے موجودہ اسمبلیوں میں جماعت اسلامی کی نمائندگی نہیں رہی۔
مذکورہ فیصلے کو بعد میں جماعت اسلامی کے کئی رہ نمائوں نے درست اقدام قرار نہیںدیا جب کہ کئی رہ نما آج بھی اس موقف پر قائم ہیں کہ جماعت اسلامی کا فیصلہ درست تھا کیوںکہ جماعت اسلامی ایک آمر کے زیر اہتمام منعقدہ انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہتی تھی اور یوں اس نے اپنی اصولی سیاست کو برقراررکھا ہے۔
2008 کے عام انتخابات سے قبل ہی ایم ایم اے کا معاملہ ختم ہو گیا تھا کیوںکہ 2007 کی اسمبلیوں کی مدت کے اواخر میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (ف)کی جانب سے ایک دوسرے پر جس انداز میں الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری رہا اس نے اس دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی کہ مذکورہ جماعتیں مخصوص حالات کے تحت اکھٹی نہیں ہوئی تھیں۔ بعد میں عام انتخابات کے بائیکاٹ اور جے یو آئی کے دیگر چار جماعتوں کے ساتھ میدان میں اترنے کے باوجود پندرہ سے بھی کم نشستیں حاصل ہوئیں۔ اس سے معاملات اور خراب ہوگئے کیوںکہ مذکورہ نتائج کی ذمہ داری بھی جے یو آئی کی جانب سے جماعت اسلامی پر ہی عائد کی جاتی رہی۔
جے یو آئی (ف)کا آج بھی یہ موقف ہے کہ اگر جماعت اسلامی الیکشن کا بائیکاٹ نہ کرتی تو نتائج کچھ اور ہوتے۔ بہ ہرحال قاضی حسین احمد اس کے بعد بھی 21 سال جماعت اسلامی کے مرکزی امیر رہے۔ اس کے بعد بھی قاضی حسین احمد متحرک رہے اور دل کے بائی پاس آپریشن اور جوڑوں کی شدید تکلیف بھی انہیں عملی سیاست سے الگ نہ کرسکی، یہ ہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر کے عہدے پر نہ رہنے کے باوجود اہم مواقع اور فیصلہ سازی میں لوگوں کی نگاہیں سید منور حسن کے بہ جائے قاضی حسین احمد ہی پر مرکوز رہتی تھیں جس کی وجہ سے جماعت اسلامی کی پالیسی بھی شکوک و شہبات کا شکار تھی اور کئی مواقع پر سید منور حسن کو یہ کہ کر ان معاملات کی وضاحت کرنی پڑی کہ جماعت اسلامی کے امیر اب وہ ہیں اور جو بھی فیصلے ہوں گے وہ ہی کریں گے۔
افغانستان سے روس کے انخلا کے بعد وہاں قیام امن اور افغان رہ نمائوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹاکرنے کے حوالے سے بھی قاضی حسین احمد کا کردار نمایاں رہا۔ گزشتہ دو، تین سال سے وہ اس بات کے خواہاں تھے کہ متحدہ مجلس عمل بہ حال ہوجائے کیوںکہ ایم ایم اے کے غیر فعال ہونے تک وہی اس کے آخری صدر تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کی صدارت ہی کے دوران ایم ایم اے بحال ہوجائے تاہم دوسری جانب جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت اس حوالے سے تحفظات رکھتی ہے اور وہ ایم ایم اے کی بحالی سے قبل جے یو آئی کے ساتھ کئی امور پر معاملات کو حتمی شکل دینا چاہتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ قاضی حسین احمد اور جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت کے درمیان اختلافات کی خبریں کئی مواقع پر سامنے آتی رہیں تاہم آن دی ریکارڈ گفت گو میں قاضی حسین احمد نے ہمیشہ خود کو جماعت اسلامی کی قیادت اور شوریٰ کے فیصلوں کا پابند قراردیا۔
انہوں نے ہر موقع پر واضح یہ کیا کہ اس سلسلے میں جو بھی فیصلہ ہو گا جماعت کی قیادت اور شوریٰ کرے گی اور وہ ان فیصلوں کے پابند ہوں گے۔ ایم ایم اے کی بحالی قاضی حسین احمد کی خواہش کے مطابق نہ ہوسکی جس کے باعث انہوں نے فرقہ واریت کے خاتمے اور مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے مذہبی جماعتوں کو ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا اور اس میں وہ جے یو آئی (ف) سمیت تمام مذہبی جماعتوں کو اکھٹا کرنے میں کام یاب رہے اور اس بات کے امکانات ظاہر ہونے لگے تھے کہ کونسل کے پلیٹ فارم پر جماعت اسلامی اور جے یو آئی(ف)کے درمیان فاصلے کم ہو جائیں گے اور ایم ایم اے کی بحالی کی راہ ہم ورا ہو جائے گی تاہم قاضی حسین احمد کی اچانک وفات کے بعد کیا صورت حال بنے گی اس بارے میں فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
بہ ہرحال یہ واضح ہے کہ اب منظرنامے پر وہ مؤثر شخصیت نہیں اور اب جماعت اسلامی کی قیادت کو جو بھی فیصلے کرنے ہوں گے وہ قاضی حسین احمد کے بغیر ہی کرنا پڑیں گے۔ اب ایم ایم اے کو نیا صدر لانے میں کوئی مشکل نہیں رہے گی ایم ایم اے کا صدر کسے بنایا جائے کیوںکہ قاضی صاحب نے اس امر کا اظہار اپنی زندگی میں کر دیا تھا کہ ایم ایم اے کے صدر وہی ہوں گے تاہم اب نہ وہ رہے اور نہ ہی ایم ایم اے کا صدر، اس لیے ایم ایم اے کی بحالی کی خواہش مند جماعتیں، جماعت اسلامی کو مائنس کر کے بڑی سہولت کے ساتھ نئے صدر سمیت دیگر عہدے داروں کا انتخاب کرسکیں گی ۔
دیگر مذہبی جماعتوں کے رہ نمائوں سمیت قاضی حسین احمد بھی عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی وجہ سے پیدا ہونے والے موجودہ حالات میں نہایت بچ بچاکر چل رہے تھے اور ان کا سارا فوکس امریکا کے اس خطے سے انخلا پر تھا کیوںکہ یہ قاضی حسین احمد ہی تھے جن کے دور میں ''گو امریکا گو تحریک'' کا آغاز ہوا، انہوںنے ملین مارچ کی طرز پر اس تحریک کے تحت کئی اکٹھ کیے تاہم کچھ عرصہ قبل افغانستان اور پاکستان کے طالبان کے حوالے سے ان کے ایک بیان کے نتیجے میں ان کے لیے مشکلات پیدا ہوگئی تھیں اور ٹی ٹی پی کے موجودہ سربراہ حکیم اللہ محسود کے آڈیو پیغام نے اس صورت حال کو مزید کشیدہ کردیا تھا۔
یہ ہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل قاضی حسین احمد پر مہمند ایجنسی میں ایک خاتون کے ذریعے خو د کش حملے کی کوشش بھی کی گئی۔ صدر آصف علی زرداری کی جانب سے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کو فاٹا تک توسیع دینے اور قبائلی علاقہ جات میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہونے کے بعد جماعت اسلامی وہاں سب سے زیادہ متحرک رہی، اس کا کریڈٹ قاضی حسین احمد کو بھی جاتا ہے کیوںکہ انہوںنے مہمند ایجنسی سمیت کئی قبائلی ایجنسیوںمیں سیاسی سرگرمیوںکی قیادت کی اور وہاں سیاست کے بند دروازے کھولے۔
قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کی قیادت ایسے دور میں سنبھالی جب افغانستان میں امریکا اور روس کے درمیان جنگ آخری مراحل میں تھی۔ انہوں نے روسی افواج کے انخلا کے بعد کی صورت حال میں افغانستان کے معاملات کو سنبھالنے میں بھی بھرپور کردار ادا کیا جو تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ بھی ان کا ہی خاصہ تھاکہ وہ اصولوں کی بنیاد پر فیصلے کرتے تھے اور اپنے فیصلوں پر ڈٹ جاتے تھے جس کے لیے 2008 کے عام انتخابات کی مثال موجود ہے۔ یہ بھی ان کی اصول پرستی ہی کی ایک مثال ہے کہ ا یم ایم اے کے دور کے سینیئر وزیر سراج الحق جب دوسری مرتبہ خیبرپختون خوا میںجماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے تو مرکزی امیر ہونے کی حیثیت سے قاضی حسین احمد نے انھیں کھلا پیغام دیا کہ ''وزارت یا امارت'' اور اس کھلے پیغام کے نتیجے میں سراج الحق کو وزارت قربان کرنا پڑی جس کی تحسین قاضی صاحب کئی مواقع پر کی۔
قاضی حسین احمد نے 74 سالہ زندگی طوفانی انداز میں گزاری۔ انھیں اپنی زندگی میں اپنے داماد کے اس دنیا سے رخصت ہونے کا غم بھی سہنا پڑا تاہم ان کی ہمت جوان رہی۔ وہ ایک جانب یہ غم دل کو لگائے بیٹھے تھے تودوسری جانب ان کا دل بھی ان کے ساتھ دغا کررہا تھا جس کا انہیں بائی پاس کروانا پڑا جب کہ گھٹنوں کا شدید درد الگ سے ان کی راہ میں روڑٹے اٹکا رہا تھا تاہم قاضی صاحب ان تمام رکاوٹوں کو مات دیتے ہوئے میدان سیاست کے شہ سوار بنے رہے۔ وہ دل جس کے عارضے سے کافی عرصے سے نبردآزما تھے۔ بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ جماعتِ اسلامی میں ایک نئے دور کے خالق رہے اور کیا بعید کہ ان کا آغاز کیا ہوا عہد ان ہی پر اپنے انجام کو پہنچ گیا ہو۔ انہوں نے جماعت کی ''سختی'' کو گداز کر کے اسے خاصی حد تک کشادہ روی کی روش سے روشناس کرایا تھا، حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔