عالمی حالات کی روشنی میں پا کستان
عالمی سرمایہ دارا نہ نظام اس حد تک انحطاط پذیرہو گیا ہے کہ اب اپنے پاؤں پرکھڑا نہیں ہو پا رہا
KARACHI:
عالمی سرمایہ دارا نہ نظام اس حد تک انحطاط پذیرہو گیا ہے کہ اب اپنے پاؤں پرکھڑا نہیں ہو پا رہا بلکہ ہر قدم پر لڑکھڑا رہا ہے۔ اس نظام کی اچھی معیشت جرمنی کی شرح نمو آٹھ فیصد سے گھٹ کر دو فیصد پر آن پہنچی ہے۔ دس سال قبل بیروزگار افراد کی تعداد تیس لاکھ تھی، اب ساٹھ لاکھ ہوگئی ہے۔
دوسری ابھرتی ہوئی معیشت چین کی شرح نموگیارہ فیصد سے گھٹ کر چھ فیصد پہ آ گئی ہے اور یہاں بیروزگاری ستائیس کروڑ افراد کی ہوگئی ہے جب کہ چین کے سرمایہ دار دنیا سے بیروزگاری کی خاتمے کے اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے نظرآ رہے ہیں۔ امریکا اپنی تین کروڑکی بیروزگاری کو میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کر کے اور سات ترقی پذیر ملکوں کے مزدوروں کو امریکا میں آنے سے روک کر بیروزگاری کے خاتمے کا احمقانہ منصوبہ بناتے ہوئے نظرآتا ہے، جب کہ امریکا کے سابق صدارتی امیدوار برنی سینڈرز کہتے ہیں کہ امریکی معیشت کی انحطاط پزیری کے ذمے دار امریکا کے ارب پتی ہیں، ٹرمپ بھی انھیں میں سے ایک ہیں۔
ابھرتی ہوئی معیشت بریک کے بعد برازیل کی یہ صورتحال ہے کہ پولیس کے سپاہیوں کو کئی مہینوں سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں، جب پولیس نے ہڑتال کی تو ان پرگولیوں کی بوچھاڑکر دی گئی، نتیجتا ایک سوبائیس سپاہی جان سے جا تے رہے۔ یورپی ملک رومانیہ کے دارالحکومت بخارسٹ سمیت سڑکوں پہ پانچ لا کھ افراد نے صدرکی بدعنوانی کے خلاف جلوس نکالے، جنوبی کوریا کے صدر کی کرپشن کے خلاف سیول میں لاکھوں افرادکا مظاہرہ، فلپائن اور میکسیکو جو کہ امریکا کے قریبی حلیفوں میں سے ہیں۔
فلپائنی صدر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکا کا ہر سفیر جاسوس ہوتا ہے اور میکسیکو کا صدر بیان دیتا ہے کہ جو (ٹرمپ) دوسروں کا احترام کرنا نہیں جانتا ہم بھی اس کا احترام نہیں کرتے۔ امریکا اور بھارت اپنی انحطاط پذیر معیشت کو سہارا دینے کے لیے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر مذہبی تنگ نظری، فرقہ واریت اور نسل پرستی کا سہارا لے رہے ہیں۔ عالمی سرمایہ داری کا ہی ادارہ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق نسل انسان کی تا ریخ میں امارت اور غربت کی خلیج اتنی وسیع کبھی نہیں رہی ہے۔ آکسفیم نے اس امارت کو 'بیہودہ' اور 'شرم ناک ' قرار دیا۔
دو ہزار دس میں صرف باسٹھ افراد کے پاس دنیا کی آدھی دو لت تھی جب کہ چھ سال بعد ان دولت مند درندوں کی خونخواری اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب سب سے بڑا سرمائے کا اجتماع صرف آٹھ افراد کے پاس ہے۔
آکسفیم اعتراف کرتا ہے کہ خیرات سے دنیا میں غربت ختم نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اس میں کوئی کمی لا ئی جا سکتی ہے بلکہ اس عرصے میں اب ایک طرف سرمایہ دارانہ استحصال بڑھا ہے، وہاں دنیا میں خیرات کا رجحان بھی تاریخی طور پر سب سے زیادہ بڑھا ہے، لیکن اسی عرصے میں غربت میں کمی آنے کی بجائے مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔
اس عالمی بدترین معاشی انحطاط پذیری میں پاکستان یقینا بد ترین حالات سے دو چار ہے، اس لیے کہ پاکستان کی معیشت عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تابع ہے۔ ہم بڑی واضح طور پر پانا معہ پیکیج، سرائے محل، سوئیز بینک اور شوکت خانم فنڈز وغیرہ کی لوٹ کو دیکھ رہے ہیں، یہاں چند لوگ تیزی سے ارب پتی سے کھرب پتی بنتے جا رہے ہیں تو دوسری طرف بیروزگاری کی فوج میں دن دگنی اور رات چارگنی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں اسلحے کی تیاری، ترسیل، خریدوفروخت کے بجٹ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن اسپتالوں میں نہیں۔
غریب لوگ بے علاجی، عدم ادویات کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ پورے ملک کا گندا پانی ٹریٹمنٹ کیے بغیر سمندر میں بہایا جا رہا ہے۔ اسی فیصد لو گوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں اور سود میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جب کہ تعلیم کی بجٹ کم ہوتی جا رہی ہے۔ موٹروے بن رہے ہیں لیکن کارخانے بند ہو رہے ہیں، ہمارے ہزاروں کارخانے بنگلہ دیش، سری لنکا اور تھائی لینڈ منتقل ہو گئے ہیں۔ چین سے سی پیک کے ساتھ ساتھ تجارتی خسارے میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
عالمی مارکیٹ میں ایندھن کا تیل پچاس ڈالر فی بیرل بک رہا ہے جب کہ پاکستان میں بہتر روپے فی لیٹر بیچا جا رہا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں آٹا سولہ روپے کلو ہے جب کہ ہم چھیالیس روپے کلو خریدتے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں چینی بتیس روپے کلو ہے اور ہمیں ستر روہے کلو بیچی جا رہی ہے۔ ماڈل ااسکول، اورنج ٹرین، موٹر ویز اور بائی پاس بنائے جا رہے ہیں لیکن نکاسی آب پرکوئی توجہ نہیں۔گندہ پانی پینے کے پانی میں مل کر عوام کو زہر آلود پینے کا پانی مہیا کیا جا رہا ہے۔
دودھ، خوردنی تیل، مصالحہ جات وغیرہ روزمرہ کی غذا میں اس حد تک ملاوٹ ہے کہ بعض اشیاء خورد نی میں غذا کی بجائے کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ دودھ میں دودھ ہی نہیں ہوتا باقی سب کچھ ہوتا ہے، تیل میں تیل کے بجائے چربی اور ٹماٹرکیچپ میں ٹماٹر کے بجائے کیمیکل اور دیگرمضر چیزیں ہوتی ہیں۔ آٹے میں بھوسی ٹکڑے پیس کر عوام کو فراہم کیا جاتا ہے۔ پولٹری فیڈ میں سڑی گلی غذا ہوتی ہے، خاص کر سڑی مچھلی، اوجھڑی اور جمے ہوئے خون کی ملاوٹ ہوتی ہے۔
دوسری جانب عوام سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور حکمرانوں کے ظلم و بربریت سے اکتا گئے ہیں۔ اس لیے کبھی جونئیر ڈاکٹرز کی ہڑتال، کبھی نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی ہڑتال، کبھی اساتذہ کی ہڑتال، کبھی کسانوں اور کبھی فیکٹری مزدوروں کی ہڑتال، کبھی معذور افراد کی ہڑتال، کبھی خواجہ سراؤں کا احتجاج اور کبھی بس ڈرائیوروں کی ریس کرنے کی وجہ سے طالبات کا قتل ہوتا ہے تو وفا قی اردو یونیورسٹی کے طلبہ سڑکوں پہ سراپا احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، مگر حکمرانوں کو کوئی پرواہ نہیں۔ وہ اپنے اپنے گیت گاتے رہتے ہیں کہ چند برسوں میں پاکستان بیس تیز تر ترقی کرنے والے ملکوں میں شامل ہو جائے گا، مگر وہ مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح نمو نہیں بتاتے، وہ صرف بیرون ملک سرمایہ کاری کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
ہماری اسمبلی ارکان پہلے سے کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں پھر بھلا انھیں تنخواہیں لینے کی کیا ضرورت پڑی ہے؟ لیکن وہ ڈیڑھ ، ڈیڑھ لاکھ رو پے تنخواہیں لیتے ہیں اور ٹی اے ڈی اے الگ سے۔ جب کہ حکو مت کی جا نب سے خود اعلان کردہ مزدوروں کی کم ازکم تنخواہ چودہ ہزار رو پے نوے فیصد مزدوروں کو نہیں دی جاتی ہے۔ کیا یہ بات حکومت کو نہیں پتہ؟ جی بالکل پتہ ہے مگر پھر بھی وہ دم بخود ہیں۔ ہمارے ملک کے بیشتر مزدور، کسان اور کھیت مزدور نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اس کرہ ارض میں صرف بھوک سے روزا نہ پچہتر ہزار لوگ مر رہے ہیںاور پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جہاں بھوک، افلاس، غربت، لاعلاجی اور بیروزگاری سب سے زیادہ ہے اور وہ ہیں پا کستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، افغانستان، نائیجیریا، روانڈا، کینیا اور برطانیہ وغیرہ۔ ان تمام دکھوں، لاچارگیوں، اذیتوں اور ذلتوں سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ پیداواری قوتوں، محنت کشوں اور شہریوں کا ایک ایسا آزاد سوشلسٹ انقلاب لایا جائے جو فوری طور پہ اپنی منزل مقصود کمیونسٹ سماج کی جانب پیش قدمی شروع کرے۔
عالمی سرمایہ دارا نہ نظام اس حد تک انحطاط پذیرہو گیا ہے کہ اب اپنے پاؤں پرکھڑا نہیں ہو پا رہا بلکہ ہر قدم پر لڑکھڑا رہا ہے۔ اس نظام کی اچھی معیشت جرمنی کی شرح نمو آٹھ فیصد سے گھٹ کر دو فیصد پر آن پہنچی ہے۔ دس سال قبل بیروزگار افراد کی تعداد تیس لاکھ تھی، اب ساٹھ لاکھ ہوگئی ہے۔
دوسری ابھرتی ہوئی معیشت چین کی شرح نموگیارہ فیصد سے گھٹ کر چھ فیصد پہ آ گئی ہے اور یہاں بیروزگاری ستائیس کروڑ افراد کی ہوگئی ہے جب کہ چین کے سرمایہ دار دنیا سے بیروزگاری کی خاتمے کے اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے نظرآ رہے ہیں۔ امریکا اپنی تین کروڑکی بیروزگاری کو میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کر کے اور سات ترقی پذیر ملکوں کے مزدوروں کو امریکا میں آنے سے روک کر بیروزگاری کے خاتمے کا احمقانہ منصوبہ بناتے ہوئے نظرآتا ہے، جب کہ امریکا کے سابق صدارتی امیدوار برنی سینڈرز کہتے ہیں کہ امریکی معیشت کی انحطاط پزیری کے ذمے دار امریکا کے ارب پتی ہیں، ٹرمپ بھی انھیں میں سے ایک ہیں۔
ابھرتی ہوئی معیشت بریک کے بعد برازیل کی یہ صورتحال ہے کہ پولیس کے سپاہیوں کو کئی مہینوں سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں، جب پولیس نے ہڑتال کی تو ان پرگولیوں کی بوچھاڑکر دی گئی، نتیجتا ایک سوبائیس سپاہی جان سے جا تے رہے۔ یورپی ملک رومانیہ کے دارالحکومت بخارسٹ سمیت سڑکوں پہ پانچ لا کھ افراد نے صدرکی بدعنوانی کے خلاف جلوس نکالے، جنوبی کوریا کے صدر کی کرپشن کے خلاف سیول میں لاکھوں افرادکا مظاہرہ، فلپائن اور میکسیکو جو کہ امریکا کے قریبی حلیفوں میں سے ہیں۔
فلپائنی صدر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکا کا ہر سفیر جاسوس ہوتا ہے اور میکسیکو کا صدر بیان دیتا ہے کہ جو (ٹرمپ) دوسروں کا احترام کرنا نہیں جانتا ہم بھی اس کا احترام نہیں کرتے۔ امریکا اور بھارت اپنی انحطاط پذیر معیشت کو سہارا دینے کے لیے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر مذہبی تنگ نظری، فرقہ واریت اور نسل پرستی کا سہارا لے رہے ہیں۔ عالمی سرمایہ داری کا ہی ادارہ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق نسل انسان کی تا ریخ میں امارت اور غربت کی خلیج اتنی وسیع کبھی نہیں رہی ہے۔ آکسفیم نے اس امارت کو 'بیہودہ' اور 'شرم ناک ' قرار دیا۔
دو ہزار دس میں صرف باسٹھ افراد کے پاس دنیا کی آدھی دو لت تھی جب کہ چھ سال بعد ان دولت مند درندوں کی خونخواری اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب سب سے بڑا سرمائے کا اجتماع صرف آٹھ افراد کے پاس ہے۔
آکسفیم اعتراف کرتا ہے کہ خیرات سے دنیا میں غربت ختم نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اس میں کوئی کمی لا ئی جا سکتی ہے بلکہ اس عرصے میں اب ایک طرف سرمایہ دارانہ استحصال بڑھا ہے، وہاں دنیا میں خیرات کا رجحان بھی تاریخی طور پر سب سے زیادہ بڑھا ہے، لیکن اسی عرصے میں غربت میں کمی آنے کی بجائے مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔
اس عالمی بدترین معاشی انحطاط پذیری میں پاکستان یقینا بد ترین حالات سے دو چار ہے، اس لیے کہ پاکستان کی معیشت عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تابع ہے۔ ہم بڑی واضح طور پر پانا معہ پیکیج، سرائے محل، سوئیز بینک اور شوکت خانم فنڈز وغیرہ کی لوٹ کو دیکھ رہے ہیں، یہاں چند لوگ تیزی سے ارب پتی سے کھرب پتی بنتے جا رہے ہیں تو دوسری طرف بیروزگاری کی فوج میں دن دگنی اور رات چارگنی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں اسلحے کی تیاری، ترسیل، خریدوفروخت کے بجٹ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن اسپتالوں میں نہیں۔
غریب لوگ بے علاجی، عدم ادویات کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ پورے ملک کا گندا پانی ٹریٹمنٹ کیے بغیر سمندر میں بہایا جا رہا ہے۔ اسی فیصد لو گوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں اور سود میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جب کہ تعلیم کی بجٹ کم ہوتی جا رہی ہے۔ موٹروے بن رہے ہیں لیکن کارخانے بند ہو رہے ہیں، ہمارے ہزاروں کارخانے بنگلہ دیش، سری لنکا اور تھائی لینڈ منتقل ہو گئے ہیں۔ چین سے سی پیک کے ساتھ ساتھ تجارتی خسارے میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
عالمی مارکیٹ میں ایندھن کا تیل پچاس ڈالر فی بیرل بک رہا ہے جب کہ پاکستان میں بہتر روپے فی لیٹر بیچا جا رہا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں آٹا سولہ روپے کلو ہے جب کہ ہم چھیالیس روپے کلو خریدتے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں چینی بتیس روپے کلو ہے اور ہمیں ستر روہے کلو بیچی جا رہی ہے۔ ماڈل ااسکول، اورنج ٹرین، موٹر ویز اور بائی پاس بنائے جا رہے ہیں لیکن نکاسی آب پرکوئی توجہ نہیں۔گندہ پانی پینے کے پانی میں مل کر عوام کو زہر آلود پینے کا پانی مہیا کیا جا رہا ہے۔
دودھ، خوردنی تیل، مصالحہ جات وغیرہ روزمرہ کی غذا میں اس حد تک ملاوٹ ہے کہ بعض اشیاء خورد نی میں غذا کی بجائے کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ دودھ میں دودھ ہی نہیں ہوتا باقی سب کچھ ہوتا ہے، تیل میں تیل کے بجائے چربی اور ٹماٹرکیچپ میں ٹماٹر کے بجائے کیمیکل اور دیگرمضر چیزیں ہوتی ہیں۔ آٹے میں بھوسی ٹکڑے پیس کر عوام کو فراہم کیا جاتا ہے۔ پولٹری فیڈ میں سڑی گلی غذا ہوتی ہے، خاص کر سڑی مچھلی، اوجھڑی اور جمے ہوئے خون کی ملاوٹ ہوتی ہے۔
دوسری جانب عوام سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور حکمرانوں کے ظلم و بربریت سے اکتا گئے ہیں۔ اس لیے کبھی جونئیر ڈاکٹرز کی ہڑتال، کبھی نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی ہڑتال، کبھی اساتذہ کی ہڑتال، کبھی کسانوں اور کبھی فیکٹری مزدوروں کی ہڑتال، کبھی معذور افراد کی ہڑتال، کبھی خواجہ سراؤں کا احتجاج اور کبھی بس ڈرائیوروں کی ریس کرنے کی وجہ سے طالبات کا قتل ہوتا ہے تو وفا قی اردو یونیورسٹی کے طلبہ سڑکوں پہ سراپا احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، مگر حکمرانوں کو کوئی پرواہ نہیں۔ وہ اپنے اپنے گیت گاتے رہتے ہیں کہ چند برسوں میں پاکستان بیس تیز تر ترقی کرنے والے ملکوں میں شامل ہو جائے گا، مگر وہ مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح نمو نہیں بتاتے، وہ صرف بیرون ملک سرمایہ کاری کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
ہماری اسمبلی ارکان پہلے سے کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں پھر بھلا انھیں تنخواہیں لینے کی کیا ضرورت پڑی ہے؟ لیکن وہ ڈیڑھ ، ڈیڑھ لاکھ رو پے تنخواہیں لیتے ہیں اور ٹی اے ڈی اے الگ سے۔ جب کہ حکو مت کی جا نب سے خود اعلان کردہ مزدوروں کی کم ازکم تنخواہ چودہ ہزار رو پے نوے فیصد مزدوروں کو نہیں دی جاتی ہے۔ کیا یہ بات حکومت کو نہیں پتہ؟ جی بالکل پتہ ہے مگر پھر بھی وہ دم بخود ہیں۔ ہمارے ملک کے بیشتر مزدور، کسان اور کھیت مزدور نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اس کرہ ارض میں صرف بھوک سے روزا نہ پچہتر ہزار لوگ مر رہے ہیںاور پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جہاں بھوک، افلاس، غربت، لاعلاجی اور بیروزگاری سب سے زیادہ ہے اور وہ ہیں پا کستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، افغانستان، نائیجیریا، روانڈا، کینیا اور برطانیہ وغیرہ۔ ان تمام دکھوں، لاچارگیوں، اذیتوں اور ذلتوں سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ پیداواری قوتوں، محنت کشوں اور شہریوں کا ایک ایسا آزاد سوشلسٹ انقلاب لایا جائے جو فوری طور پہ اپنی منزل مقصود کمیونسٹ سماج کی جانب پیش قدمی شروع کرے۔