دہشت گردی اور پاکستان کی کمزور پالیسیاں
پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں زیادہ تر افغان باشندے ملوث رہے ہیں
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر نے ایک نئی صورت حال کو جنم دیا ہے' پاک فوج نے افغانستان کے سرحدی علاقے میںایکشن کیا ہے'گزشتہ روز بھی ایسی کارروائی کی گئی 'جس کے نتیجے میںدہشت گردوں کے ٹریننگ کیمپس کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا' لاہور میں ہونے والے دہشت گردی کے ایک مرکزی کردار کو گرفتار کر لیا گیا ہے' یہ ایک بڑی اہم پیش رفت ہے' اس سہولت کار سے تفتیش کے نتیجے میں بہت سی اہم معلومات سامنے آئیں گی۔
ادھر سیہون شریف میں صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر کے دربار میں خود کش حملے نے جہاں پورے ملک میں سوگ اور غم کی فضا رہی' وہاں یہ بھی محسوس کیا گیا کہ سیہون میں بہت سے زخمی بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث جاں بحق ہوئے' سیہون شریف میں انفراسٹرکچر کی حالت انتہائی خراب ہے' یوں دیکھا جائے تو حالیہ دہشت گردی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بہت سی کمزوریوں اور پالیسی کی خامیوں کو بے نقاب کیا ہے' اب یہ بات سب کی زبان پر ہے کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی کوئی حتمی فیصلہ کر لینا چاہیے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں زیادہ تر افغان باشندے ملوث رہے ہیں' اور یہ لوگ ڈیورنڈ لائن کراس کر کے پاکستان داخل ہوتے ہیں' اس کے علاوہ لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اس حوالے سے حتمی فیصلے کرے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے اسٹیٹس کے حوالے سے بھی حتمی فیصلے کا وقت آن پہنچا ہے۔
پاکستان کے اندر اب کسی ایسے علاقے کی گنجائش نہیں ہے جہاں ریاست اور اس کے اداروں کی عملداری نہ ہو۔ قبائلی رسم و رواج کا تعلق روز مرہ امور سے ہونا چاہیے نہ کہ ریاستی معاملات سے۔ پاکستان جس قسم کے حالات سے دوچار ہے' اس سے عہدہ برا ہونے کے لیے پاک افغان سرحد پر ایسے انتظامات کیے جانے چاہئیں جس سے آمدورفت کو کنٹرول کیا جا سکے۔ بعض صاحبان جن میں اہل قلم بھی شامل ہیں اور سیاستدان بھی جب کہ کئی تجزیہ نگار بھی شامل ہیں جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ پاک افغان سرحد تقریباً ڈھائی ہزار کلو میٹر طویل ہے اور یہ دشوار گزار بھی ہے اس لیے اس سرحد کو کنٹرول کرنا یا اس پر باڑ لگانا ممکن نہیں۔
اس حوالے سے حقیقت یہ ہے کہ اس سرحد پر آمدورفت کے لیے مخصوص مقامات اور درے استعمال ہوتے ہیں' اگر ان پر حفاظتی اقدامات کر دیے جائیں اور باڑ لگا دی جائے تو 90فیصد آمدورفت کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ باقی سرحد پر چونکہ بلند و بالا پہاڑ ہیں اور ان کی ڈھلوانیں گہری کھائیوں کو بناتی ہیں' یہاں سے آمدورفت تقریباً نا ممکن ہے اور اس لیے یہاں باڑ لگانے کی ضرورت بھی نہیںہے 'اس کے ساتھ ساتھ سفارتی حوالے سے بھی پاکستان کو اب متحرک کردار ادا کرنا چاہیے۔
جب افغانستان کے اندر کوئی دہشت گردی ہوتی ہے تو افغانستان صدر اشرف غنی' چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور دیگر اعلیٰ عہدے دار فوراً پاکستان کی طرف انگلی اٹھاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان قدرے نرم لہجہ اختیار کرتا ہے' جب دہشت گردی میں افغان سرزمین کے استعمال ہونے کے ثبوت مل جاتے ہیں تو پھر افغانستان کی حکومت سے احتجاج کرنا بھی لازم ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے بھی پاکستان کو سخت لب و لہجہ اختیار کرنا چاہیے۔
پاکستان میں اگر دہشت گردی یا کسی اور جرم کے ارتکاب کے نتیجے میں افغان باشندوں کو انکوائری یا تفتیش کے لیے گرفتار کیا جاتا ہے تو افغانستان اس پر بھی احتجاج کرتا ہے۔افغانستان کی حکومت کو اس حوالے سے بتایا جانا چاہیے کہ وہ اپنے باشندوں کو وطن واپس بلانے کے انتظامات کرے۔ یہ کوئی طریقہ کار نہیں ہے کہ افغانستان کی حکومت اپنے باشندوں کو واپس لینے کے لیے بھی تیار نہیں اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کہ مصداق پاکستان سے احتجاج کیا جاتا ہے۔ ماضی کی ان کوتاہیوں اور مصلحت اندیشیوں کا نتیجہ آج دہشت گردی اور لاقانونیت کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔
پاکستان کو شمال مغرب میں موجود خطرات سے نمٹنے کے لیے بلاتاخیر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ فاٹا کے اسٹیٹس کا فیصلہ جلد کیا جانا چاہیے اور اس علاقے کو آئین و قانون کی عملداری میں لانا چاہیے۔ یہاں تھانے اور کچہری قائم ہوں تاکہ ریاستی رٹ گراس روٹ لیول تک جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں پر یہ دباؤ بڑھایا جانا چاہیے کہ وہ سوشل سیکٹر میں کارکردگی دکھائیں۔یہ بڑے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ سندھ میں تقریباً 9سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اندرون سندھ پسماندگی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ یہی حال بلوچستان کا ہے۔
ہماری قوم پرستی کے نام پر سیاست کرنے والی قیادت کا کھوکھلا پن بھی بے نقاب ہوتا ہے۔ یہ سیاسی پریشر گروپ ترقیاتی اور ماڈرن سوچ کو پروان چڑھان کی راہ میں بڑی رکاوٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اگر فاٹا میں تبدیلی لانے کے لیے وفاق کوئی اقدام کرنے کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کی بھی مخالفت کی جاتی ہے۔ بلوچستان میں جدیدیت کی راہ روکنے کی کوشش کی جاتی ہے' ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کو خود احتسابی کے کلچر کو اپنانا چاہیے۔
دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے جہاں فوجی آپریشنوں' انتظامی اور عدالتی اقدامات کی ضرورت ہے' وہاں سماجی تبدیلیوں کے عمل کا آغاز کرنے کے لیے ترقیاتی سرگرمیوں کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ سطح پر اس سوچ کو پختہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ریاستوں کے درمیان رشتے مفادات کے تابع ہوتے ہیں' کوئی ریاست اپنی سرحدوں کو رشتے نبھانے کے لیے کھلا نہیں چھوڑ سکتی۔
ادھر سیہون شریف میں صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر کے دربار میں خود کش حملے نے جہاں پورے ملک میں سوگ اور غم کی فضا رہی' وہاں یہ بھی محسوس کیا گیا کہ سیہون میں بہت سے زخمی بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث جاں بحق ہوئے' سیہون شریف میں انفراسٹرکچر کی حالت انتہائی خراب ہے' یوں دیکھا جائے تو حالیہ دہشت گردی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بہت سی کمزوریوں اور پالیسی کی خامیوں کو بے نقاب کیا ہے' اب یہ بات سب کی زبان پر ہے کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی کوئی حتمی فیصلہ کر لینا چاہیے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں زیادہ تر افغان باشندے ملوث رہے ہیں' اور یہ لوگ ڈیورنڈ لائن کراس کر کے پاکستان داخل ہوتے ہیں' اس کے علاوہ لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اس حوالے سے حتمی فیصلے کرے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے اسٹیٹس کے حوالے سے بھی حتمی فیصلے کا وقت آن پہنچا ہے۔
پاکستان کے اندر اب کسی ایسے علاقے کی گنجائش نہیں ہے جہاں ریاست اور اس کے اداروں کی عملداری نہ ہو۔ قبائلی رسم و رواج کا تعلق روز مرہ امور سے ہونا چاہیے نہ کہ ریاستی معاملات سے۔ پاکستان جس قسم کے حالات سے دوچار ہے' اس سے عہدہ برا ہونے کے لیے پاک افغان سرحد پر ایسے انتظامات کیے جانے چاہئیں جس سے آمدورفت کو کنٹرول کیا جا سکے۔ بعض صاحبان جن میں اہل قلم بھی شامل ہیں اور سیاستدان بھی جب کہ کئی تجزیہ نگار بھی شامل ہیں جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ پاک افغان سرحد تقریباً ڈھائی ہزار کلو میٹر طویل ہے اور یہ دشوار گزار بھی ہے اس لیے اس سرحد کو کنٹرول کرنا یا اس پر باڑ لگانا ممکن نہیں۔
اس حوالے سے حقیقت یہ ہے کہ اس سرحد پر آمدورفت کے لیے مخصوص مقامات اور درے استعمال ہوتے ہیں' اگر ان پر حفاظتی اقدامات کر دیے جائیں اور باڑ لگا دی جائے تو 90فیصد آمدورفت کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ باقی سرحد پر چونکہ بلند و بالا پہاڑ ہیں اور ان کی ڈھلوانیں گہری کھائیوں کو بناتی ہیں' یہاں سے آمدورفت تقریباً نا ممکن ہے اور اس لیے یہاں باڑ لگانے کی ضرورت بھی نہیںہے 'اس کے ساتھ ساتھ سفارتی حوالے سے بھی پاکستان کو اب متحرک کردار ادا کرنا چاہیے۔
جب افغانستان کے اندر کوئی دہشت گردی ہوتی ہے تو افغانستان صدر اشرف غنی' چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور دیگر اعلیٰ عہدے دار فوراً پاکستان کی طرف انگلی اٹھاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان قدرے نرم لہجہ اختیار کرتا ہے' جب دہشت گردی میں افغان سرزمین کے استعمال ہونے کے ثبوت مل جاتے ہیں تو پھر افغانستان کی حکومت سے احتجاج کرنا بھی لازم ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے بھی پاکستان کو سخت لب و لہجہ اختیار کرنا چاہیے۔
پاکستان میں اگر دہشت گردی یا کسی اور جرم کے ارتکاب کے نتیجے میں افغان باشندوں کو انکوائری یا تفتیش کے لیے گرفتار کیا جاتا ہے تو افغانستان اس پر بھی احتجاج کرتا ہے۔افغانستان کی حکومت کو اس حوالے سے بتایا جانا چاہیے کہ وہ اپنے باشندوں کو وطن واپس بلانے کے انتظامات کرے۔ یہ کوئی طریقہ کار نہیں ہے کہ افغانستان کی حکومت اپنے باشندوں کو واپس لینے کے لیے بھی تیار نہیں اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کہ مصداق پاکستان سے احتجاج کیا جاتا ہے۔ ماضی کی ان کوتاہیوں اور مصلحت اندیشیوں کا نتیجہ آج دہشت گردی اور لاقانونیت کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔
پاکستان کو شمال مغرب میں موجود خطرات سے نمٹنے کے لیے بلاتاخیر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ فاٹا کے اسٹیٹس کا فیصلہ جلد کیا جانا چاہیے اور اس علاقے کو آئین و قانون کی عملداری میں لانا چاہیے۔ یہاں تھانے اور کچہری قائم ہوں تاکہ ریاستی رٹ گراس روٹ لیول تک جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں پر یہ دباؤ بڑھایا جانا چاہیے کہ وہ سوشل سیکٹر میں کارکردگی دکھائیں۔یہ بڑے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ سندھ میں تقریباً 9سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اندرون سندھ پسماندگی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ یہی حال بلوچستان کا ہے۔
ہماری قوم پرستی کے نام پر سیاست کرنے والی قیادت کا کھوکھلا پن بھی بے نقاب ہوتا ہے۔ یہ سیاسی پریشر گروپ ترقیاتی اور ماڈرن سوچ کو پروان چڑھان کی راہ میں بڑی رکاوٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اگر فاٹا میں تبدیلی لانے کے لیے وفاق کوئی اقدام کرنے کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کی بھی مخالفت کی جاتی ہے۔ بلوچستان میں جدیدیت کی راہ روکنے کی کوشش کی جاتی ہے' ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کو خود احتسابی کے کلچر کو اپنانا چاہیے۔
دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے جہاں فوجی آپریشنوں' انتظامی اور عدالتی اقدامات کی ضرورت ہے' وہاں سماجی تبدیلیوں کے عمل کا آغاز کرنے کے لیے ترقیاتی سرگرمیوں کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ سطح پر اس سوچ کو پختہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ریاستوں کے درمیان رشتے مفادات کے تابع ہوتے ہیں' کوئی ریاست اپنی سرحدوں کو رشتے نبھانے کے لیے کھلا نہیں چھوڑ سکتی۔