مردم شماری کے حوالے سے تحفظات اور ضروریات

مردم شماری کو اعتراضات سے پاک کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جانے انتہائی ضروری ہیں


Editorial February 19, 2017
۔ فوٹو؛ فائل

عدالتی حکم کے بموجب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں 18سال کے بعد مردم شماری کرانے کا اعلان کر دیا گیا ہے جس کے لیے عسکری قیادت کی طرف سے فوج کی ڈیوٹی لگانے کی منظوری بھی مل چکی ہے اور اس حوالے سے خبریں بھی شایع ہو چکی ہیں۔کراچی کی کمیونٹی بیس آرگنائزیشن نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر رکھی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ کسی نہ کسی معذوری کا شکار افراد کے لیے مردم شماری کے فارم میں ایک خانہ مختص کرنے کے لیے وفاقی حکومت کوحکم دیا جائے۔

کسی فرد کی یہ معذوری پیدائشی بھی ہو سکتی ہے اور کسی مہلک حادثہ کے نتیجے میں بھی اچھا بھلا صحت مند انسان کسی معذوری کا شکار ہو سکتا ہے، ہاتھ پاؤں یا ٹانگ وغیرہ ٹوٹنے سے بھی زیادہ مہلک اثر سر کی چوٹ کا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ پورا جسم مفلوج ہو جاتا ہے بلکہ بینائی اور آواز بھی بند ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں ان افراد کی ذمے داری حکومت کو اٹھانی چاہیے مگر یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے جب مردم شماری میں ان افراد کی تعداد اور ان کی معذوری کی وضاحت موجود ہو۔

مردم شماری بین الاقوامی رواج کے مطابق تو ہر دس سال بعد ہونی چاہیے مگر ہمارے یہاں بوجوہ کافی عرصے سے اس ضمن میں کام نہیں کیا جا سکا۔ اس مرتبہ اگرچہ حکومت نے مردم شماری کرانے کا اعلان کر دیا ہے مگر پھر بھی بعض سیاسی حلقوں سے مخالفانہ آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ صوبہ بلوچستان والوں کا موقف ہے کہ افغان پناہ گزینوں کی مکمل واپسی تک مردم شماری نہ کرائی جائے کیونکہ اس طرح مقامی آبادی کے اقلیت میں بدلنے کا احتمال ہو سکتا ہے۔ مردم شماری کے کالم میں مویشیوں کی تعداد کا بھی کوئی خانہ ضرور ہونا چاہیے تاکہ پتہ چل سکے کہ وطن عزیز میں کتنی بھینسیں' گائیں' اونٹ' بھیڑ بکریاں وغیرہ موجود ہیں۔

دریں اثناء بلوچستان میں ایک جرگہ منعقد ہوا جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ غیر ملکیوں کو مردم شماری میں شامل نہ کیا جائے یا ان کا الگ حساب رکھا جائے۔ دریں اثناء محکمہ سٹیٹسٹکس (اعدادو شمار) کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ مردم شماری ہر حال میں آیندہ ماہ شروع ہو جائے گی۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ ملک میں حالیہ عرصہ میں سیکیورٹی کی صورت حال میں قدرے مشکلات پیدا ہوئی ہیں مگر اس کے باوجود مردم شماری کے عدالتی حکم پر ہر صورت عمل کیا جائے گا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مردم شماری میں اندراج کے لیے نادرا کا شناختی کارڈ ضروری نہیں ہو گا بلکہ فرد کے زبانی بیان پر اعتماد کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ مردم شماری 18مارچ کو ہو گی جس میں ہر شہری کے نام کا اندراج کیا جائے گا۔بہر حال پاکستان کے لیے یہ مردم شماری بڑی اہمیت کی حامل ہے' اس کے ذریعے پاکستان کی کل آبادی کے اعدادوشمار بھی سامنے آئیں گے اور یہ بھی پتہ چلے گا کہ کس صوبے کی کتنی آبادی ہے' معذوروں کی تعداد کا بھی پتہ چلنا چاہیے تاکہ پتہ چل سکے کہ ملک میں معذوروں کی کتنی تعداد ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ جب تک درست اعدادوشمار سامنے نہیں آتے' اس وقت تک ترقیاتی منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ حالیہ مردم شماری کے حوالے سے بہت سے اعتراضات بھی سامنے آئے ہیں' یہ اعتراضات اتنے غلط بھی نہیں ہیں۔بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں افغان مہاجرین کا مسئلہ خاصا پیچیدہ ہے' اسی طرح کراچی میں مردم شماری کے حوالے سے بھی تحفظات پائے جا رہے ہیں۔

مردم شماری کو اعتراضات سے پاک کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جانے انتہائی ضروری ہیں'اعدادوشمار میں ہیر پھیر کر کے بعض قومیتوں کو بڑا یا چھوٹا ظاہر کرنے کے حوالے سے بھی خدشات سامنے آ رہے ہیں۔ ان تمام تحفظات کو دور کر کے ہی مردم شماری اور خانہ شماری پر قومی اتفاق رائے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔