دہشت گردی اور ریاستی بیانیہ
طویل خاموشی کے بعد خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے
طویل خاموشی کے بعد خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے۔ جنوری کے آخری ہفتے میں کرم ایجنسی سے شروع ہونے والی دہشت گردی کی نئی لہر لاہور، پشاور اور شبقدر کے بعد سیہون تک پہنچ گئی۔ عثمان مروندی بالعروف لعل شہباز قلندرؒ کے مزارکے احاطے میں ہونے والے خودکش حملے میں 80 زائرین جاں بحق اور 250 سے زائد زخمی ہوئے۔ اسی روز ڈیرہ اسماعیل خان اور آواران میں بھی دہشت گردوں کے حملوں کے نتیجے میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 8افراد جاں بحق ہوئے۔
گزشتہ پانچ دنوں میں 8 دہشت گرد حملوں میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ انسانی جانیں ضایع ہوئیں، جب کہ ساڑھے 300 کے قریب لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ مزارات اور درگاہوں کو نشانہ بنایا جانا دراصل خطے کے ثقافتی ورثے اور مذہبی روایات پر حملہ ہے۔ جب کہ مذہب کے نام پر ہونے والی دہشت گردی ریاستی بیانیہ اور انتظانی ڈھانچے کی مکمل طور پر ناکامی ہے۔
یہ طے ہے کہ واقعات، حادثات اور سانحات ایک دم رونما نہیں ہوتے، بلکہ وقت ان کی برسوں پرورش کرتا ہے۔ جو حکمرانوں اور منصوبہ سازوں کے غلط فیصلوں کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صاحبِ بصیرت قیادتیں جرأتمندانہ فیصلوں کے ذریعے اپنے ملک ومعاشرے کو بدترین حالات سے بھی نکال لیتی ہیں، جب کہ کوتاہ بین، موقع پرست اور سیاسی عزم سے عاری قیادتیں معاشرے کو بحرانوں کی دلدل میں پھنسا دینے کا باعث بنتی ہیں۔
پاکستان جس مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کی عفریت کا شکار ہے، اس کی جڑیں کئی دہائیوں کے غلط فیصلوں اور کوتاہ بینی میں پیوست ہیں۔ وہ فیصلے جو فکری اور تہذیبی نرگسیت کے تحت مختلف اوقات میں کیے گئے، ان پر آج بھی تسلسل کے ساتھ اصرار کیا جارہا ہے۔ یہ پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے کھلا چیلنج بن گئے ہیں۔
ریاستی منصوبہ ساز یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ ریاست کے منطقی جواز کے حوالے سے فروری 1949 میں قرارداد مقاصد کی شکل میں جو بیانیہ تشکیل دیا گیا تھا، وہ اب قابل عمل نہیں رہا ہے۔ وہ یہ بھی تسلیم کرنے پر تیار نہیں کہ اس بیانیہ کو بھٹو مرحوم کی جانب سے کی گئی دوسری آئینی ترمیم نے مہمیز لگائی، جب کہ جنرل ضیاالحق کے اقدامات کی وجہ سے مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کی راہ ہموار ہوئی۔
سرد جنگ کے زمانے میں وقتی مفادات کے حصول کی خاطر جو فیصلے کیے گئے تھے، وہ آج اس ملک کے عوام کے لیے ایک عفریت بن چکے ہیں۔ مگر ان منصوبہ سازوں میں اتنا سیاسی عزم وجرأت نہیں کہ وہ سخت گیر فیصلے کرتے ہوئے ٹھوس اور پائیدار اقدام کرکے اس فرسودہ بیانیہ سے جان چھڑا سکیں۔
ریاستی منتظمہ کے فکری ابہام اور دہرے معیار کا اندازہ کراچی آپریشن سے لگایا جاسکتا ہے، جہاں کچی بستیوں میں موجود کالعدم تنظیموں کے محفوظ ٹھکانوں اور دینی مدارس میں پروان چڑھائی جانے والی فرقہ وارانہ اور مسلکی منافرت کو نظر انداز کیا گیااور آپریشن کا رخ ایک سیاسی جماعت کی طرف ہو گیا۔اس جماعت کا نمدہ کسنے کے ساتھ اس کے حصے بخرے کرنے کی کوشش جاری ہے۔ حالانکہ کراچی بدامنی کیس کے حوالے سے عدالت عظمیٰ میں مسلح ونگز رکھنے والی پانچ جماعتوں کی فہرست جمع کرائی گئی تھی۔ لیکن سب کے خلاف آپریشن نہیں ہوا۔
عجب طرفہ تماشا ہے کہ حکومت کو یہ علم تو ہوتا ہے کہ فلاں بلاگر بیرون ملک سے لاہور پہنچ گیا ہے۔ کون سا بلاگر کس شہر میں ہے۔ انھیں حسب ضرورت ملک کے مختلف شہروں سے اٹھا بھی لیا جاتا ہے۔ مگر دہشت گرد کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں تباہی پھیلانے والے ہیں، اس کا علم ہوجانے کے باجود کوئی مناسب کارروائی کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ پر مذمتی بیان دینے کے سوا کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔
ریاستی منتظمہ اور منصوبہ سازوں کا دہرا معیار اپنی جگہ، سیاسی جماعتیں بھی مذہبی شدت پسندی کے مسئلے پر فکری ابہام کا شکار ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اس مسئلے پر منقسم ہے۔ اس کا ایک دھڑا کسی حد تک سخت گیر کارروائی کا حامی ہے، جب کہ دوسرا دھڑا آج بھی ان عناصر کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ تحریک انصاف ان متشدد عناصر کے ساتھ مذاکرات پر مسلسل زور دیتی رہی ہے، گزشتہ صوبائی بجٹ میں اس نے ایک مخصوص مکتبہ فکر کے مدرسہ کو 30 کروڑ روپے کی گرانٹ دے چکی ہے، جب کہ ایک مذہبی جماعت خیبر پختونخوا میں اس کی اتحادی ہے۔ اس لیے تحریک انصاف سے مذہبی شدت پسندی کے خلاف واضح سوچ کے ساتھ کسی ٹھوس لائحہ عمل کی توقع عبث ہے۔
پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ اس عفریت کا سامنا کرسکیں۔ ایم کیو ایم اربن سندھ میں اس عفریت کا راستہ روکنے کی صلاحیت رکھتی تھی، مگر اب وہ اس پوزیشن میں نہیں رہی۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس کی کمر توڑ کر اربن سندھ میں مذہبی شدت پسندوں کے لیے میدان صاف کر دیا ہے۔ یوں پورا ملک اب ان عناصر کی زد میں آچکا ہے۔ لہٰذا موجودہ صورتحال میں دہشت گردی کے عفریت کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔
اب دوسری طرف آئیے۔ ایک مخصوص نقطہ نظر مزارات اور درگاہوں سے جڑی مذہبی اقدار (Rituals) کو بدعت اور گمراہی سمجھتا ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بنیادی دینی اصول اپنی جگہ مسلمہ، لیکن ہر خطے کی اپنی مذہبی اقدار ہوتی ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ برصغیر میں اسلام کی تفہیم و تشریح عرب اور ایران میں کی جانے والی تشریحات سے قطعی مختلف ہے۔ یہاں 8 سو برس سے صوفیا کی تعلیمات سے جڑی مذہبی اقدار (Rituals) رائج ہیں، جو ثقافتی شکل اختیار کرچکی ہیں۔
اہم دینی اراکین نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے ساتھ اس خطے کے عوام صوفیا کے لیے دلی عقیدت رکھتے ہیں۔ صوفیا کے عرس عقیدت و احترام سے منائے جاتے ہیں، جب کہ صوفیانہ کلام کو قوالی اور کافی کے انداز میں جب گایا جاتا ہے، تو شرکا ذوق وشوق سے سنتے ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ امیر خسروؒ سے شاہ لطیفؒ تک ہر صوفی شاعر کسی نہ کسی ساز کا موجد بھی ہے۔
اس صورتحال کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ مزارات اور درگاہوں سے ویسے تو سماج کے ہر طبقے کے لوگ عقیدت رکھتے ہیں، لیکن وہاں آنے والوں کی اکثریت ان غریب ومفلس اور نادار لوگوں کی ہوتی ہے، جن کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہوتا ہے۔
ان مزارات پر چلنے والے لنگر ان کے پیٹ کی آگ بجھانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ پھر ایسے بیمار بھی یہاں آتے ہیں، جن کے پلے علاج معالجہ کے لیے دمڑی نہیں ہوتی۔ وہ اس امید پر یہاں پڑے ہوتے ہیں کہ ان بزرگوں کی کرامات کے طفیل انھیں مرض سے شفا مل جائے، لیکن اصل مسئلہ علاج معالجہ کے لیے پیسے کا نہ ہونا ہوتا ہے۔ چنانچہ مزارات اور درگاہوں پر حملہ دراصل ان غریب اور نادار لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی ہے۔
شہباز قلندرؒ کے مزار پر حملے کے بعد بیشتر مزارات بند کردیے گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان سے وابستہ لاکھوں نہیں تو کم از کم ہزاروں افراد کی دو وقت کی روٹی ضرور بند ہوگئی ہے۔ بہت سوں کو ان خانقاہوں کے طفیل جو چھت میسر تھی، وہ چھن گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ریاست عوامی فلاحی کاموں میں دلچسپی نہ رکھتی ہو، حکمران لوٹ کھسوٹ میں لگے ہوئے ہوں، وہاں اس قسم کی کارروائیوں کے ذریعے غریب، مفلس اور نادار لوگوں کو کس راہ پر لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔