دو کھلاڑی۔۔۔۔ دو فلمیں

اگر شرجیل خان اور خالد لطیف نے اداکار شاہ رخ خان کی دو فلمیں دیکھی ہوتیں تو وہ یوں جواریوں کے پھندے میں نہ پھنستے

03332257239@hotmail.com

اگر شرجیل خان اور خالد لطیف نے اداکار شاہ رخ خان کی دو فلمیں دیکھی ہوتیں تو وہ یوں جواریوں کے پھندے میں نہ پھنستے۔ عرب کے ریگستانوں میں سجنے والے کرکٹ میلے میں پاکستان کے دو کھلاڑی ایک بکی کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھے گئے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ کی ٹیمیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔

پاکستان سپر لیگ کے نام سے ہونے والے چند روزہ میلے میں ہر کھلاڑی کو بڑی بڑی رقمیں ملیں گی۔ دو تین ہفتوں میں دو تین ملین روپے۔ اتنے کم وقت اور اتنی کم عمری میں اتنی بڑی رقمیں جائز ذرایع سے کمانے کے باوجود یہ کھلاڑی کیوں پھنس گئے؟ کیا اس لیے کہ شرجیل خان اور خالد لطیف نے کنگ خان کی دو فلمیں نہیں دیکھی ہوں گی؟

شاہ رخ خان کی ''ڈر'' اور ''بازی گر'' نہ دیکھنے کے سبب کرکٹ کے یہ کھلاڑی جوئے کی دنیا کے کھلاڑی کے دام میں آگئے؟ شکاری نے دانا ڈالا اور بھولے بھالے پرندے پھنس گئے۔ کھیل اور فلم کا خوبصورت سنگم ہمارے آج کے کالم کا عنوان ہے۔ لازمی ہے کہ سمجھا جائے کہ ان فلموں میں کیا تھا؟ ہم ان دو فلموں کی بات کر رہے ہیں جن کا اسپورٹس کی دنیا سے کوئی واسطہ نہیں۔ ہم نہ سلطان اور دنگل کی بات کر رہے ہیں جن میں پہلوانوں کی کشتی کی بات تھی۔

آج ہمارا موضوع چک دے انڈیا نہیں، جس میں ہاکی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے کچھ مواد تھا۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ رہے کہ شرجیل اور خالد نے لگان اور اظہر نامی فلمیں نہیں دیکھیں، جو کرکٹ سے متعلق تھیں۔ ہم شاہ رخ کی Triangle Love والی دو فلموں کی بات کر رہے ہیں۔ دو ہیروز اور ایک ہیروئن والی ''ڈر'' اور ایک ہیرو اور دو ہیروئنوں والی ''بازی گر'' میں ایسا کیا تھا جو مشہور و معروف کھلاڑیوں کے لیے دیکھنا لازمی قرار پا رہا ہے؟ اب ہم فلمی کہانیوں پر مختصراً بات کرنے کے بعد کھیل کے میدان کی طرف بڑھیں گے۔

شاہ رخ خان کے والد کی انڈسٹری میں کام کرنے والے ایک رشتے دار ملازم نے فراڈ کیا۔ اس جرم کے باوجود اسے معاف کرکے دوبارہ اعتماد کیا گیا۔ رشتے دار نے پھر دھوکا دیا اور تمام جائیداد ہتھیالی۔ صدمے سے شاہ رخ کے والد اور بہن کا انتقال ہوگیا اور باقی خاندان فٹ پاتھ پر آگیا۔ جوان ہوکر انتقام لینا ہیرو کی زندگی کا مقصد قرار پاتا ہے۔ کاجول اور شلپا شیٹی فلم کے ولن کی بیٹیاں ہوتی ہیں۔ شاہ رخ چھپ چھپ کر دونوں بہنوں سے پیار کا کھیل کھیلتا ہے۔ شادی دفتر کی چھت سے شلپا کو گرا دیتا ہے۔

کاجول ایک جانب شاہ رخ سے پیار کرتی ہے تو دوسری جانب اپنی بہن کے قاتل کا پتہ لگانا چاہتی ہے۔ قاتل کی ایک تصویر شلپا کے ایک دوست کے پاس ہوتی ہے جو ہیرو کے ہاتھوں قتل ہوجاتا ہے۔ ایک سہیلی فون پر بتانا چاہتی ہے لیکن ملازم کا کردار ادا کرنیوالے جانی لیور کی بھولنے کی عادت کے سبب دونوں سہیلیوں کی بات نہیں ہوسکتی۔ وہ فون شاہ رخ سن لیتا ہے اور پھر اس لڑکی کو قتل کردیتا ہے۔ کئی اتار چڑھاؤ کے بعد کنگ خان اپنے خاندان کو تباہ کرنیوالے کا اعتماد حاصل کرلیتا ہے۔

ہیرو اپنے ہونے والے سسر کو اسی طرح برباد کردیتا ہے جیسے اس نے شاہ رخ کے باپ کو زندہ درگور کردیا تھا۔ فلم بازی گر ان دو کھلاڑیوں نے نہیں دیکھی ہوگی، جو ایک غلطی کرکے تباہی و بربادی کے زینے پر قدم رکھ چکے ہیں۔فلم ڈر شاہ رخ کے ابتدائی دور کی فلم ہے۔ جوہی چاؤلہ کو شدت سے پیار کرنے والے کا پیار یکطرفہ ہوتا ہے۔ فلم کی ہیروئن اپنے منگیتر سنی دیول کو چاہتی ہے۔ ہر جگہ پیچھا کرنے والا شاہ رخ فلم کے دونوں پریمیوں کو پریشان کرکے رکھ دیتا ہے۔

وہ اس طرح فون کرتا ہے کہ جوہی چاؤلہ فون کی گھنٹی سن کر کانپ جاتی ہے۔ ہیرو اور ہیروئن شاہ رخ کے ڈر سے سوئٹزرلینڈ چلے جاتے ہیں۔ یہاں بھی یکطرفہ پریمی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ جوہی اور سنی کے خاندان سے تھوڑی بہت جان پہچان ہوتی ہے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ دور کا جاننے والا اس طرح پیچھے پڑ جائے گا کہ پکڑا بھی نہیں جائے گا۔


شاہ رخ کے کردار کے لیے ہدایتکار یش چوپڑا نے عامر خان اور اجے دیوگن سمیت کئی ہیروز سے بات کی لیکن کوئی یہ کردار ادا کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ عجیب و غریب نفسیات لیے کرن سے محبت کرنیوالا رول ہیرو جیسا نہیں بلکہ ولن جیسا تھا۔ اگر یہ فلم شرجیل اور خالد نے دیکھی ہوتی تو وہ آج بھی ہمارے ہیرو ہوتے نہ کہ ولن۔

فلم اور کھیل کے حوالے سے کالم نصف سے زائد گزر چکا ہے۔ اب تک یہ علم نہیں ہوسکا کہ آخر ان دو فلموں میں ایسا کیا تھا؟ اگر کرکٹ کے دو کھلاڑی یہ فلمیں دیکھ لیتے تو شاید جواریوں کے پھندے میں نہ پھنستے۔ بازی گر اور ڈر نامی دو فلمیں 1993-94ء میں ریلیز ہوئیں۔ سوال یہ ہے کہ کیوں ایک قاتل نہ پکڑا جا سکا؟ وہ دور ٹیلی فون کا دور تھا۔ بھارتی فلم انڈسٹری اتنی ترقی یافتہ ہونے کے باوجود موبائل فون سے آشنا نہ تھی کہ یہ ایجاد عام نہیں ہوئی تھی۔

پچھلی صدی کے آخر میں مقبول ہونے والے سیل فون نے دھوم مچا دی ہے۔ تفصیلی تبادلہ خیال سے پہلے فون نمبرز کا تبادلہ ہوتا ہے۔ آج کے دور میں کوئی موبائل فون رکھنے والا شخص کسی سے چھپ چھپ کر مل کر نقصان پہنچا کر پکڑے جانے سے نہیں بچ سکتا۔

اگر فلم بازی گر چار پانچ سال نہ بنتی تو پھر کبھی نہ بنتی۔ موبائل فون کے ہوتے ہوئے کسی لڑکے کا لڑکی سے ملنا یا قتل کرکے بالکل انجان بن جانا ممکن نہیں۔ نئی صدی میں موبائل فون کے ساتھ کیمرے بھی آگئے ہیں۔ اب کسی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اس ایجاد کا استعمال بھی کرے اور جرم کرکے اپنے آپ کو پوشیدہ رکھ پائے۔

فلم بازی گر میں شاہ رخ کا اپنے آپ کو چھپا کر رکھنا اس لیے ممکن ہوسکا کہ نوے کی دہائی کی ابتدا میں موبائل فون عام نہیں ہوئے تھے۔ یہی صورتحال فلم ڈر میں تھی۔ شاہ رخ کا جوہی چاؤلہ کو فون کرکے ستانا اس لیے ممکن تھا کہ اس زمانے میں فون پر CLI نہیں ہوا کرتا تھا اور کالر کی شناخت ممکن نہ تھی۔ موبائل فون اور ان میں لگے کیمروں کے علاوہ دفتروں، بینکوں، ہوٹلوں، عدالتوں اور ہوائی اڈوں پر سی سی ٹی وی کیمرے بھی مجرموں کو قانون کے دائرے میں لے آتے ہیں۔

پچیس سال قبل جب یہ فلمیں بنیں تو اس وقت شرجیل خان مونٹیسوری اور خالد لطیف پرائمری کے طالب علم ہوں گے۔ ممکن ہے یہ فلمیں ان کی نظروں سے نہ گزری ہوں۔ شاہ رخ کے ابتدائی دور کی فلموں سے پتہ چلتا ہے کہ معاشرہ بڑی حد تک بدل چکا ہے۔ موبائل فون اور ان میں لگے کیمروں کے علاوہ جگہ جگہ نصب کیمروں نے لوگوں کو محتاط کردیا ہے۔ ایک شخص نے کاؤنٹر پر کھڑے شخص کی جیب سے بٹوہ نکال لیا۔ اسے فوراً احساس ہوا کہ کیمرے کی آنکھ نے اس منظر کو قید کرلیا ہے۔

اس مجرم نے کیمرے کی طرف دیکھ کر دونوں ہاتھ جوڑے۔ پھر اس نے وہ بٹوہ زمین پر گرا کر اس کے مالک کو اشارہ کیا کہ آپ کا والٹ گر گیا ہے۔ دوبارہ اس شخص نے کیمرے کی طرف دیکھ کر معافی مانگ کر اپنی جان چھڑائی۔ وکٹ کیپر معین خان بھی ایک جوئے خانے گئے اور کسی نے ان کی تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر جاری کردی۔ معین کو کرکٹ بورڈ کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔

یہ صدی کیمروں کی صدی ہے۔ ''خدا دیکھ رہا ہے'' جیسے جملوں کو نظرانداز کرنے والے اب کیمروں کی نظروں سے خوف کھانے لگے ہیں۔ ہر طرف کیمروں کی چکاچوند کے باوجود شرجیل خان اور خالد لطیف کا بے وقوفیاں کرکے یوں رنگے ہاتھوں پکڑا جانا کیا ظاہر کرتا ہے؟ یہی نا کہ ان دونوں کو احساس ہی نہیں تھا کہ دنیا کس قدر بدل چکی ہے۔ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کرکٹ کے دونوں کھلاڑیوں کی نظروں سے شاہ رخ کی فلمیں بازی گر اور ڈر نہیں گزریں۔ شرجیل اور خالد ہیرو سے ولن نہ بنتے اگر دیکھی ہوتیں دو کھلاڑیوں نے دو فلمیں۔
Load Next Story