دہشتگردی کی تازہ لہراور نیا آئی جی

گزشتہ ہفتے چاروں صوبوں اور فاٹا میں دہشتگردی کے واقعات نے ایک بار پھر ماضی قریب کی یادیں تازہ کردیں

گزشتہ ہفتے چاروں صوبوں اور فاٹا میں دہشتگردی کے واقعات نے ایک بار پھر ماضی قریب کی یادیں تازہ کردیں جب کوئی دن ایسا نہ تھا جب ملک کے کسی حصے میں دھماکہ نہ ہوتا پھر آرمی پبلک اسکول کے سانحہ نے سارے ملک کودہشتگردی کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا موقع دیا،نیشنل ایکشن پلان بنا اور آپریشن ضرب عضب شروع ہو گیا۔

پاک فوج کے اس آپریشن کے نتیجے میں دہشتگردوں کو فرار ہونا پڑا، کچھ سرحد پار چلے گئے اور کچھ پاکستان کے مختلف شہروں میں پھیل گئے،اوربعض کو ماراگیا،جو افغانستان کے سرحدی علاقوں میں چھپے وہ ایک بار پھر دہشتگردی کی کارروائیوں میں مصروف ہو گئے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر افغانستان کی حکومت تقریباً 75 مطلوب اور خطرناک دہشتگردوں کو پاکستان کے حوالے کیوں نہیں کرتی حالانکہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف ان دہشتگردوں کی فہرست خود لے کر افغانستان گئے تھے اوراسے افغان صدر کے حوالے کیا تھا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان اپنے برادر ہمسایہ ملک کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش تو رکھتا ہے لیکن اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس کے پاس کوئی راستہ موجود نہیں کہ جہاں کئی سال سے کوئی وزیر خارجہ ہی نہ ہو وہ ملک کس طرح سے سفارتی کوششوں میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے، سرتاج عزیز مشیر خارجہ تو ہیں لیکن عملاً پاکستان کی جانب سے ایک ناکام خارجہ پالیسی نے ہمیں بیک فٹ پر جانے پر مجبور کر دیا ہے اور یہی بنیادی وجہ ہے کہ ہم افغانستان سے اپنے مطلوب دہشتگردوں کی واپسی کا مطالبہ بھی کچھ یوں کرتے ہیں کہ شاید ان سے ان کا کوئی صوبہ مانگنے نکلے ہوں۔

ادھر افغانستان حکومت کے خدشات کو بھی رفع کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ ان کے یہاں دہشتگردی کے واقعات میں پاکستانی علاقوں سے جانے والے ملوث نہیں ہیں۔یوں یہ غلط فہمیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ آنے والے دن بہت مشکل ہوں گے۔دہشتگردی کے حالیہ واقعات کے بعد اگرچہ پاک فوج نے موثر کارروائیاں کی ہیں لیکن اب عوام کے ذہنوں میں بہت سارے سوالات نے جنم لینا شروع کر دیا ہے اور وہ یہ سوچنے لگے ہیں کہ کیا ہماری ساری زندگی اسی طرح گزرے گی کہ ایک خود مختار ملک ہونے کے باوجود ہم اپنی خود مختاری پر سمجھوتے کرتے رہیں گے۔

ان واقعات نے سارے ملک کو سوگوار کر رکھا ہے۔سیاسی شخصیات کو پشاور سمیت پورے صوبے میں عوامی اجتماعات میں شرکت سے روک دیا گیا ہے اور ایک بار پھر عوام خوف میں مبتلا ہو گئے ہیں۔دوسری جانب پولیس جس نے گزشتہ بارہ برسوں میں بے شمار قربانیاں دی ہیں، ایک بار پھر دہشتگردوں کے نشانے پر ہے اور صوبے بھر کے پولیس افسروں اور اہلکاروں کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں،اس طرح خیبر پختون خوا پولیس کے بہادر افسر اور جوان ایک نئی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔

ایسے میں ایک سیاسی شخصیت کی جانب سے صوبے سے تعلق رکھنے والے بعض پولیس افسران کی صلاحیتوں پر تحفظات سے پولیس کے اعلیٰ افسروں سمیت دیگر سیاسی شخصیات اور عوامی حلقوں نے حیرت کا اظہار کیا ہے۔جنہوں نے نئے انسپکٹر جنرل پولیس کی تعیناتی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں تحفظات کا اظہار کیا ۔اس بیان کے بعد انسپکٹر جنرل پولیس کے عہدے پر کسی ایسے پولیس افسر کی تعیناتی کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے جو صوبے کی روایات و ثقافت سے بھی آشنا ہو اور پولیس فورس کا مورال بلند کرتے ہوئے اسے مزید ترقی کی جانب گامزن کرے۔

عوامی حلقوں کے مطابق موجودہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس سید اختر علی شاہ، کمانڈنٹ فرنٹئیر کانسٹیبلری لیاقت علی خان اور ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس اسپیشل برانچ صلاح الدین محسود اس عہدے کے لیے انتہائی موزوں امیدوار ہیں،موجودہ انسپکٹر جنرل پولیس ناصر خان درانی تین سال سے زیادہ عرصہ گزارنے کے بعد 17 مارچ کو ریٹائر ہو جائیں گے اور غالب امکان ہے کہ موجودہ حکومت ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کے لیے انھیں کسی عہدے کی پیشکش کرے گی۔


نئے آئی جی کے لیے تین نام وفاقی حکومت کو بھیجے جائیں گے اور وزیر اعظم اپنی صوابدید کے مطابق کسی ایک کو صوبہ خیبر پختون خوا کا نیا آئی جی پولیس تعینات کریں گے۔ ایک ایسے موقع پر جب کہ صوبے میںدہشتگردی کی ایک لہر شروع ہو چکی ہے صوبے سے تعلق رکھنے والی شخصیت کو آئی جی پولیس بنانے کی خواہش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس اختر علی شاہ جن کا شمار پولیس فورس کے اعلیٰ ترین افسروں میں کیا جاتا ہے۔ انھوں نے محکمہ پولیس میں کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں جب کہ انھیں صوبائی سیکریٹری داخلہ وقبائلی امور کی اہم ذمے داریاں بھی سونپی گئیںجس کے دوران انھوں نے قیام امن کے لیے اہم تجاویز دیں۔سید اختر علی شاہ نے صوبے میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے بھی کئی اہم منصوبوں پر کام کیا۔

فرانزک سائنس لیبارٹری سوات کے قیام، پشاور میں سات ماڈل پولیس اسٹیشنز کے قیام، اسپیشل ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت دس پولیس لائنز، صوبے میں تیرہ پولیس اسٹیشنز اورسولہ پولیس چوکیوں کا قیام بھی ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران انھوں نے ڈی آئی جی مالاکنڈ،ڈی آئی جی اسپیشل برانچ،ڈی آئی جی انکوائری، ڈی آئی جی بنوں اور ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کے عہدے پر خدمات انجام دیں۔

پولیس میں حالیہ اصلاحات کے حوالے سے بھی سید اختر علی شاہ نے نمایاں کام کیا۔کمانڈنٹ فرنٹئیر کانسٹیبلری کے عہدے پر فائز لیاقت علی خان نے بھی پولیس میں کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں اور کمانڈنٹ ایف سی تعینات ہونے کے بعد نہ صرف انھوں نے ایف سی فورس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے میں اہم کردار ادا کیا جب کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فرنٹئیر کانسٹیبلری کو ایک نیا حوصلہ اور عزم دیا۔

بعض حلقے موجودہ آئی جی پولیس کی تعیناتی سے قبل انھیں اس عہدے کے لیے انتہائی موزوں قرار دے رہے تھے جب کہ بعد میں بھی دو مواقع پر انھیں آئی جی مقرر کرنے کی باتیں سامنے آئیں۔لیاقت علی خان ایک سخت گیر پولیس افسر کے طور پر جانے جاتے ہیںتاہم ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر کے طور بھی شہرت رکھتے ہیں۔

آئی جی کے عہدے پر تعیناتی کے لیے خیبر پختون خوا سے تیسرا نام ایڈیشنل آئی جی پولیس اسپیشل برانچ صلاح الدین محسود کا ہے جو پولیس میں ایک نیک نام افسر کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں، انھوں نے صوبے سمیت وفاق میں بھی اہم عہدوں پر ذمے داریاں نبھائی ہیں اور کچھ عرصہ اسلام آباد میں خدمات انجام دینے کے بعد انھیں انسداد دہشتگردی محکمہ کا سربراہ تعینات کیا گیا جہاں انھوں نے دہشتگردی کی کارروائیوں کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا جب کہ کئی خطرناک مطلوب دہشتگردوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔

صلاح الدین محسود سمیت صوبے سے تعلق رکھنے والے پولیس افسروں میں کسی ایک کی تعیناتی کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور اس سلسلے میں وزیر اعظم کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے چند حلقے کسی ایسی شخصیت کے حق میں ہیں جس کا تعلق اس صوبے سے نہ ہو۔
Load Next Story