جدیدیت کا کچرا اور ہم

ہم چونکہ مغرب سے متاثر ہیں اور ان ہی کی کہی گئی بات کو غور سے سنتے ہیں

apro_ku@yahoo.com

ہم چونکہ مغرب سے متاثر ہیں اور ان ہی کی کہی گئی بات کو غور سے سنتے ہیں، لہٰذا آج کے کالم میں ایک اہم مسئلے کا ذکر کیا جارہا ہے جو ایک غیر ملکی اخبار میں ایک مضمون نگار نے اٹھایا ہے۔ گو کہ یہ مسئلہ بین الاقوامی سطح کا ہے تاہم اس کا شکار ہم بھی ہیں، کیونکہ ہمارے ہاں بھی مغرب کی نقالی بہت شوق و ذوق سے ہی نہیں، بڑے فخر کے ساتھ کی جاتی ہے۔

سارہ کناپٹن لکھتی ہیں کہ برطانیہ میں سپر مارکیٹوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ہر اسٹور میں پلاسٹک فری راہداریاں بنائیں، تاکہ ٹنوں کے حساب سے دنیا بھر کے سمندروں میں جمع ہونے والے کوڑا کرکٹ کا مسئلہ حل کیا جاسکے۔ مضمون نگار کے مطابق دنیا بھر تیس کروڑ ٹن پلاسٹک کا استعمال مختلف شکلوں میں ہوتا ہے اور استعمال کے بعد اس کا صرف بارہ فیصد ہی ری سائیکل یعنی قابل استعمال بنایا جاسکتا ہے اور باقی سمندر کی نذر ہوجاتا ہے، جس کے باعث سمندر میں موجود آبی حیات کو نقصان پہنچتا ہے۔

برطانیہ میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کو شش کی جارہی ہے کہ مختلف اشیاء کی خریدوفروخت میں پلاسٹک شاپرز کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے دو سال قبل حکومت نے پلاسٹک کی تھیلوں پر پانچ برطانوی پنس کا ٹیکس لگایا تھا ۔مگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا البتہ اس میں کمی ضرور واقع ہوئی۔ اب برطانوی حکومت یہ ٹیکس بڑھا کر بیس پنس کرنا چاہتی ہے۔

مضمون نگار کے مطابق سائنس سے ثابت ہوچکا ہے کہ پلاسٹک میں پیک کیا ہوا کھانا بیماریوں کا سبب بنتا ہے مگر اب ہر شے ہی پلاسٹک کی پیکنگ میں فروخت کی جارہی ہے۔ یہ مسئلہ اس قدر خطرناک ہے کہ اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے ایک فلم ''آ پلاسٹک اوشین'' کی نمائش پورے برطانیہ میں کی جارہی ہے۔ اس فلم میں سمندورں میں پلاسٹک سے پھیلنے والی شدید آلودگی کے مسئلے کو پیش کیا گیا ہے۔ سمندر سے ایسی مچھلیاں بھی برآمد ہورہی ہیں کہ جن کے پیٹ سے لائٹر نکل رہے ہیں، لہٰذا عوام سے اپیل کی جارہی ہے کہ وہ آگ جلانے کے لیے بھی ماچس کا استعمال کریں، پلاسٹک کے بنے ہوئے لائٹر استعمال نہ کریں۔

یوں صرف پلاسٹک سے بنی اشیا نے سمندری حیاتیات کو شدید نقصان پہنچانا شروع کردیا ہے۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اس سے انسانی زندگی کو بھی خطرہ ہے کیونکہ انسان کی خوراک میں آبی حیاتیات بھی شامل ہیں، خاص کر مچھلیاں انسان بڑی مقدار میں کھاتا ہے۔ کیمکل اور آلودگی سے بیمار ہونے والی مچھلیاں انسان کے پیٹ میں جاکر انسانوں کو بھی بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہیں۔

آلودگی دنیا کا سرفہرست مسئلہ بن چکی ہے، تاہم میڈیا میں اس مسئلے کو جگہ نہیں ملتی، جس کے سبب یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہوتا جارہا ہے۔ پلاسٹک کی تھیلیاں اور مختلف اشیاء کے ریپر صرف برطانیہ نہیں، پاکستان سمیت دنیا بھر میں خطرناک مسائل پیدا کر رہے۔ سرمایہ دار اپنے سرمائے میں اضافے کے لیے سب کچھ کر رہے ہیں مگر ماحول اور انسانوں کو اس سے پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ نہیں کررہے ہیں، مثلاً ہر شے کو فروخت کرنے کے لیے ڈسپوزل کلچر کو بڑھا رہے ہیں، حالانکہ اس سے کچرے میں اضافہ ہوتا ہے جس کو ٹھکانے لگانا ایک بڑا مسئلہ ہے۔

'دی ویسٹ' کی مصنفہ پنگوٹن لکھتی ہیں کہ دنیا کی تمام تہذیبوں نے اتنا کوڑا پیدا نہیں کیا، جتنا کوڑا جدید انسان ایک سال میں پیدا کرتا ہے۔ اس کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے لیے اسی جیسا ایک اور کرۂ ارض (سیارہ) چاہیے۔


آلودگی کی مختلف اقسام میں سے یہاں صرف ایک قسم کی بات کی گئی ہے یعنی کوڑا، اور وہ بھی ایسا کوڑا جو ہم سب بلاوجہ بغیر سوچے سمجھے پیدا کررہے ہیں اور اس کوڑے سے ہمارا ماحول خراب ہورہا ہے اور صحت کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ شہروں میں یہ مسائل زیادہ جنم لے رہے ہیں۔ کراچی شہر کو ہی لے لیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور شاید سب سے گندا شہر بھی یہی ہوگا۔ یہ کہنا تو کوئی مشکل کام نہیں کہ اس شہر میں مقامی حکومت کو اختیارات حاصل نہیں، صفائی کے لیے وسائل نہیں، کچرا اٹھانے کے لیے گاڑیاں بھی کم ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

لیکن غور طلب بات تو یہ کہ ہے کوڑا ٹھکانے لگانے کا معاملہ تو تب پیش آتا ہے جب کوڑا گھر سے باہر آتا ہے۔ آخر ہم اتنا کوڑا پیدا ہی کیوں کرتے ہیں؟ ایک دو دہائی قبل اتنا کوڑا کیوں نہیں پیدا ہوتا تھا؟ آخر آج ہی اس قدر مقدار میں کوڑا کیوں پیدا ہورہا ہے؟ بات یہ ہے کہ ہم مغرب کی نقل بلا سوچے سمجھے کرنے لگے ہیں، اگر کسی معاملے میں مغرب کو اپنے کسی عمل کے غلط نتائج حاصل ہوئے ہیں تو پھر ہم نقالی کیوں کریں؟

ذرا غور کیجیے کل تک ہمیں کسی پلاسٹک کے شاپر کی ضرورت نہ تھی، ہم میں سے ہر شخص کپڑے کا تھیلا یا ٹوکری وغیرہ بازار لے کر نکلتا تھا اور سامان خرید کر لاتا تھا، ہر گھر میں اس تھیلے اور ٹوکری کی موجودگی ہوتی تھی مگر آج یہ رواج ہم نے ختم کردیا ہے، ہم میں سے ہر شخص خالی ہاتھ خریداری کے لیے جاتا ہے اور پلاسٹک کی تھیلیوں میں اشیاء خرید کر لاتا ہے، بلکہ کچھ لوگ تو دکاندار سے کہتے ہیں کہ بھائی شاپر ڈبل کردو۔ اسی طرح فروخت کرنے والوں نے بھی نہ صرف اشیا کو پلاسٹک کی تھیلوں میں پیک کرنا شروع کردیا ہے بلکہ جو اشیا پہلے بغیر کسی پیکنگ کے فروخت ہوتی تھیں انھیں بھی پیک کرنے کا کلچر متعارف کرا دیا ہے، یوں ڈسپوزایبل کلچر بھی خوب بڑھ رہا ہے۔

ڈسپوزایبل گلاس اور کپ ہماری شان بن چکے ہیں۔ جامعہ کراچی میں کولڈڈرنک کی بوتل میں استعمال ہونے والے اسٹرا سے اس قدر کچرے کا ڈھیر لگ جاتا تھا کہ انتظامیہ نے مجبوراً اسٹرا پر پابندی عائد کردی۔ باقی شہر کا کیا حال ہوگا۔

خواتین بچوں کے لیے پیمپرز کا استعمال اس قدر زیادہ کرنے لگی ہیں کہ اکثر اوقات بچوں کی جلد ہی خراب ہو جاتی ہے۔ ہر گلی نکڑ پر کچرے میں پیمپر کے بھی ڈھیر نظر آتے ہیں۔ برسات میں ندی نالے بند ہوجاتے ہیں اور سڑکیں تالاب بن جاتی ہیں، محض ان ہی کچروں کے ڈھیر سے۔ کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں اور ہمارے ہیرو یا رول ماڈل امام غزالی جیسی شخصیات ہیں، اگر ہم ان کی تعلیمات میں سے چند ایک باتوں کو اپنے ذہن میں بٹھالیں تو یہ مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔

امام غزالی تعلیمات سنت کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ جب کوئی شے گھر لے کر جائیں تو اس طرح کہ کسی پڑوسی کی نظر نہ پڑے اور اگر پڑجائے تو کچھ حصہ اس کو بھی دے دیں۔ اس بات پر ہم گزشتہ دہائی تک عمل کرتے تھے یعنی اپنی خریداری کے لیے تھیلے اور ٹوکری استعمال کرتے تھے۔ ہمارے بزرگ بھی کہتے تھے کے کھانے پینے کی اشیاء خاص کر دودھ ڈھک کر لانا چاہیے، کسی کی نظر بھی لگ سکتی ہے۔

آج ہم دودھ، دہی سے لے کر بڑی شاپنگ تک کی خریداری کرکے گھر میں داخل نہیں ہوتے کہ اس سے قبل ہمارے پڑوسی اور راستے کے تمام لوگ جان چکے ہوتے ہیں کہ ہم نے کیا خریدا اور ہم اب کیا پکائیں گے اور کیا کھائیں گے؟

اسی طرح ہمارا کچرا دان ہماری ساری کارگزاری بیان کر رہا ہوتا ہے۔ ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ مہنگائی کے اس دور میں کسی بھوکے شخص کی نظر جب کھانے پینے کی اشیاء سے بھرے شاپرز پر پڑتی ہوگی تو اس کے دل پر کیا گزر تی ہوگی؟ اسی طرح پرانی قابل استعمال اشیا کو چھوڑ کر نئی اشیا خریدنے کی عادت ہمیں کہاں لے کر جارہی ہے اور ہمارے کوڑے کچرے میں کس قدر اضافہ کر رہی ہے، اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ آیئے کچھ دیر اس پر غور کریں۔
Load Next Story