خامہ خونچکاں اپنا

لکھتے لکھتے انگلیاں معدوم ہوگئیں، اب ہتھیلیوں سے لکھوں کیا؟


Safora Khairi February 20, 2017
[email protected]

لکھتے لکھتے انگلیاں معدوم ہوگئیں، اب ہتھیلیوں سے لکھوں کیا؟ پس دیوار ایک آواز آئی، ایک آواز تھی، کیا جانیے کس کی آواز، جو نہ حیوانی تھی نہ انسانی، بس اتنا پتہ ہے کہ اس کے بعد قلم میرے ہاتھوں سے گرگیا۔ ہاں جو اخبارات کے صفحات خبروں، کالموں سے بھرے ہوتے ہیں ان کا حاصل کیا ہوتا ہے، شاید ہم اپنے احساسات اور جذبات کو لفظوں کا پیراہن پہنا کر کاغذ پر منتقل کردیتے ہیں، مگر کیا ہم جو لکھتے ہیں یا کہتے ہیں خود بھی ان پر عمل کرتے ہیں؟

ہم غریبوں کی حمایت میں کیا کچھ لکھ جاتے ہیں، مگر ہماری تجوریوں کے منہ ان کے لیے کبھی نہیں کھلتے۔ ہم میں سے کتنے قلمکار ہیں جو منافقت کے بیج بوتے ہیں اور جب وہ تن آور درخت بن جاتے ہیں تو وہ ان کی چھاؤں میں عمر بھر سستاتے ہیں۔ ہم پی آر شپ کی اس دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں، کیونکہ ہم میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ سمندر پار نام نہاد دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کی تقریب میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیں۔ ہمارے پاس نہ اتنا وقت ہے اور نہ اتنا پیسہ کہ ان کو ظہرانے اور عشائیے پر مدعو کریں اور اس توقع پر کریں کہ وہ واپس جاکر ہم کو ویزے اور ٹکٹ بھیجیں اور ہماری شہرت کا چاند دور دیسوں میں بھی چمک سکے۔

ہم جو کمٹمنٹ کا مفہوم ہی نہیں سمجھتے ہیں، وعدے کرلیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں، عہد توڑ دیتے ہیں، کیونکہ اس میں ہمارا مفاد نہیں ہوتا۔ اب یہ معاشرہ give and take کا ہے، لینے والے ہاتھوں کا لامتناہی سلسلہ ہے اور دینے والے ہاتھ بھی اس شرائط پر دیتے ہیں کہ ان کی تصویریں اور خبریں اخبارات کی زینت بنیں۔ کوئی بلیک منی کو وائٹ کرنے کے لیے صدقات، خیرات کرتا ہے تاکہ آم کے ساتھ گٹھلیوں کے دام بھی وصول ہوجائیں۔

سنا ہے حکومت بڑی دیالو ہوگئی ہے، وہ اپنے وفاداروں کو نوازنے میں قطعی خجالت سے کام نہیں لیتی، وہ عوام کے ان نمایندوں کو تو ہر طرح کی مراعات دیتی ہے مگر عوام کے نصیب میں سوائے غربت، احساس محرومی اور بیروزگاری کے کچھ اور نہیں ہوتا، وہ بے گھروں کو ٹین کی چھت تک مہیا نہیں کرتی، مگر افسران کے سرکاری گھروں کی تزئین و آرائش کے لیے کروڑوں کے فنڈز مختص کردیتی ہے، وہ عوام کو ٹریفک کی روانی نہیں دیتی مگر پروٹوکول کے لیے ٹریفک روکنا جانتی ہے، وہ ایک ایک اعلیٰ افسر کو چار چار سرکاری گاڑیاں مہیا کرتی ہے، مگر ایک بے گھر، بے در، بیروزگار انسان کو پرانی سائیکل بھی نہیں دیتی۔

وہ ایوانوں میں براجمان عوامی نمایندوں کی تنخواہوں میں تین سو فیصد اضافہ کرنا تو جانتی ہے مگر غریب پنشنرز کو صرف دس فیصد اضافہ دیتی ہے۔ وہ پنجاب کے اراکین اسمبلی کے اس مطالبے پر سنجیدگی سے غور کرتی ہے جو کھانے میں صرف سی فوڈ کی فرمائش کرتے ہیں، مگر اسے کوڑے کچرے میں سوکھی روٹی کے ٹکڑے اور باسی چاول چنتے بچے نظر نہیں آتے۔

اس شہر ناپرساں میں اب بھی عالیشان رہائشی عمارات تعمیر ہورہی ہیں، جہاں کے مکینوں کے لیے دنیا بھر کی آسائشیں، آرائشیں موجود ہیں، مگر کیا حکومت نے یا کسی مخیر شخص نے غریبوں کے لیے بھی مفت مکانات تعمیر کرنے کی ہمت کی ہے یا جو فٹ پاتھ پر سوتے ہیں اور کرایہ نہ دینے پر نوٹس پہ نوٹس وصول کرتے رہتے ہیں اور بالآخر دربدر ہوجاتے ہیں، وہ سوچتے ہیں زندگی میں رہائش کے لیے زمین نہ ملی تو کیا ہوا؟ مرنے کے بعد تو دو گز زمین یقینی ہے، مگر اب تو 6 قبرستانوں پر بھی پابندی عائد ہوگئی ہے۔ بقول ذوقؔ

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

جب کفن دفن اور قبر کے حصول کے لیے بھی چالیس پچاس ہزار روپے خرچ ہوتے ہوں تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ مرنے والوں کو اس جنھجھٹ سے ہی آزاد کردیا جائے یعنی یہ شہر وسیع و عریض سمندروں سے مالامال ہے تو پھر لاشوں کو سمندر برد کرنے میں حرج کیا ہے؟ سمندری مخلوق کو بھی غذا مل جائے گی اور لوگ قبروں پر بھی جانے سے بچ جائیں گے۔ ہاں نقصان ہوگا تو شاید گورکنوں کا۔

سچ تو یہ ہے کہ اب دور بدل چکا ہے، اقدار تبدیل ہوگئی ہیں، وفاداریوں کی طرح، پیمانہ صرف دولت ہے، اس لیے لوگ اپنے غریب رشتہ داروں سے بھی نہیں ملتے، کیونکہ وہ ان کے اسٹیٹس کے نہیں ہوتے، کیونکہ ان کو دنیا والوں کی عقاب زدہ نظروں سے بھی محفوظ رکھنا ہوتا ہے، تو پھر یہ کہنے میں کیا حرج ہے کہ اب دو دنیائیں ہیں۔ ایک ان کی، جو زندگی کی تمام آسائشوں سے مالامال ہیں، جن کے اثاثے پوری دنیا میں ہیں، ایک وہ جو نان شبینہ کو ترستے ہیں، بیماریوں سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ ان کے پاس علاج کا پیسہ نہیں ہوتا، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس مصروف اور دوڑتی بھاگتی زندگی میں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ ان کی دیکھ بھال کرسکے۔

تو اے اہل وطن! تم اسی طرح ساری زندگی گزارنا کہ کچھ نہیں بدلنے والا اور اے حاکمان وطن، تم اسی طمطراق اور شان سے عوام کے سروں پر مسلط رہنا کہ انھی کے ٹیکس سے تمہاری آن بان قائم ہے، جس ملک میں جزا اور سزا نہ ہو وہاں انصاف کا کیا کام، اور جو واقعی انصاف کرتے ہیں دھمکیاں ان کا انتظار کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں دھماکے ظہور میں آتے ہیں۔

کیا ہم نے سنت رسولؐؐ پر عمل بھی کیا ہے؟ کیا ہم صرف کھجور اور نمک سے روزہ کھول سکتے ہیں؟ کیا ہم اصراف بے جا سے کنارہ کرسکتے ہیں؟ اگر نہیں تو ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم آقائے دوجہاںؐ کے لیے بھی اسی منافقت سے کام لیتے ہیں جو ہماری رگ و پے میں سرائیت کرچکی ہے۔ اپنے وطن کے لیے جتنا سوچیے اسی قدر ذہن ماؤف ہوجاتا ہے اور خصوصاً کراچی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے وہ کسی کی چشم بینا سے نہاں نہیں۔

ہم خواب دیکھنے کے عادی تو نہیں ہیں مگر خواب جیسی باتیں اس لیے کرلیتے ہیں کہ اس شہر بے اماں کی گرد نے ہماری بصارت کو بھی گرد آلود کردیا ہے، ایسے میں خوابوں کا نظر آنا منظور وسان کے ہی حصے میں آتا ہے۔ ہم نے تو اپنے بزرگوں سے یہ ہی سنا تھا کہ کبھی اس عروس البلاد شہر کی سڑکوں کو دھویا جاتا تھا، شاید اسی صفائی ستھرائی کا یہ نتیجہ ہے کہ ان سڑکوں پر گندے پانی کے جوہڑ ہیں اور فٹ پاتھوں پر پرانے جوتے اور کپڑے والوں کی موج ہے۔

سنا یہ بھی ہے کہ ٹائروں کا بھی کاوربار کرنے والے اب خوش ہیں، اسی طرح جیسے ڈاکٹروں کو اگر مریض نہ ملیں تو ان کی آمدنی متاثر ہوجاتی ہے، سو نئی گاڑیاں پرانی ہونے اور پرانی گاڑیاں کباڑیے کے پاس جانے کے لیے تیار رہیں۔ کراچی اب اپنی شکل تبدیل کررہا ہے، کیا عجب کہ اس کا نام تبدیل ہوکر ''کچرستان'' ہوجائے۔ سنا تو یہ بھی ہے کہ 'اہل نظر' تازہ بستیاں آباد کرنے کی تگ و دو میں ہمہ تن مصروف ہیں، مگر... کیا یہ بستیاں صرف اسلام آباد تک تو محدود نہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔