ایک سوال کا جواب اور دہلیز

اُس وقت مجھے سمجھ آیا کہ گھر کی دہلیز کے باہر اکیلی اور تنہا محبت دہلیز کے اندر کی محبتوں سے کیوں ہار جاتی ہے۔

اب میری نگاہوں کے سامنے اندھیرا چھا چکا تھا پھر آخری آواز میرے کانوں نے زور سے بند ہونے والے دروازے کی سُنی، اور دروازے کے اِس طرح بند ہونے نے میرے ذہن کے سب کواڑوں کو کھول دیا تھا۔

پتہ نہیں لوگ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ قبرستانوں میں صرف مُردہ لوگوں کو ہی دفن کیا جانا چاہیئے، حالانکہ میرا ماننا ہے کہ بعض زندہ لوگوں کو کسی مُردہ شخص سے زیادہ قبر کی ضرورت ہوتی ہے، اور جب قبر کے ضرورت مند لوگوں کی یہ ضرورت پوری نہیں ہوپاتی تو قبر اور اپنے دفن ہونے کی اِس ضرورت کو کبھی وہ اپنے گھر اور کبھی اپنے کمرے کی صورت پوری کرلیتے ہیں، بس یہی وجہ ہے کہ میں بھی گزشتہ 12 سال سے اپنے روز و شب اِس قبر نما کمرے میں گزار رہا تھا۔

میرے یہ حالات مجھے قبر کی اُس حالت کی بخوبی مشق کراچکے تھے جن سے اِس عمر اور بیماری کے باعث اب کسی بھی دن میرا واسطہ پڑسکتا تھا۔ اپنے کمرے کی چھت اور دیواروں کو تکتے ہوئے میں اکثر سوچنے لگتا تھا کہ وہاں بھی تو ایسی ہی چار دیواری اور منوں مٹی کی صورت ایک چھت ہوگی۔ ہاں یہ سوچ ضرور ستاتی تھی میرے اور میری قبر کے مابین کتنے عرصے کے اندر اجنبیت کی دیوار گرے گی۔ جی ہاں چلتے پھرتے انسان ہوں یا بے جان چیزیں دونوں سے ہی دوستی کرنے اور اپنا بنانے میں برسہا برس گزر جاتے ہیں، پھر یہ سوچ کر خود کو دلاسہ دینے لگتا کہ آخر کو اِس کمرے کے در و دیوار سے بھی تو میری دوستی ہو ہی گئی تھی۔

اب تو گھنٹوں اِس کمرے کی چھت اور دیواروں سے باتیں کرتے ہوئے دن کیسے گزرتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا ہے۔ ہاں اگر، وہاں کسی شے کی کمی محسوس ہوگی تو وہ اُس کمرے کے دروازے کی، میری اِس فکر پر پھر میرا دل ہی مجھے یہ کہہ کر دلاسہ دیتا تو بھلا اِس کمرے کا دروازہ اب تیرے کس کام کا ہے؟ اپنے مفلوج جسم کے باعث تو باہر جا نہیں سکتا اور تیرے تینوں ناکارہ نکمے بیٹوں کو جس طرح کبھی کبھار اِس کمرے کی زیارت کا خیال آجاتا ہے ویسے ہی ممکن ہے کبھی عید، تہوار وہاں بھی حاضری دینے آہی جائیں۔ مجھے یقین تھا کہ موت مجھ سے میری زندگی اور بیٹی کے علاوہ اور کچھ نہیں چھین سکتی، میری بیٹی صبیحہ جو میری بیماری اور اپنے دونوں نکمے بھائیوں کے باعث اس گھر کو چلانے کے لئے ایک گارمنٹ فیکٹری میں نوکری کررہی تھی۔

اِن حالات میں بس ایک اُسی کا سہارا تھا، جس کے لئے میری نظریں دروازے پر لگتی رہتی تھیں کہ کب وہ کام پر سے واپس آئے تو اُن دیواروں کے علاوہ بھی کوئی مجھ سے باتیں کرنے والا ہو ورنہ میری بیوی تو اِس کمرے میں میرے آواز دینے پر ہی اُس وقت آتی تھی جب مجھے کسی حاجت کی ضرورت ہو۔ اچانک دروازے پر پڑنے والی کسی زور دار آواز پر میرے اِن خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا، چند لمحوں بعد ہی مجھے اپنی بیوی کی آوازیں آنے لگیں جو دروازے پر کھڑی ہو کر گلی کے بچوں کو گالیاں کوسنے دینے میں لگی ہوئی تھی، میرا یہ کمرہ باہر کے مرکزی دروازے کے بالکل ساتھ تھا تومجھے اُس کی ایک ایک گالی اور کوسنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔

مجھے پتہ تھا کہ یہ اُس کے سونے کا وقت ہے اور اِس وقت اُس کی نیند میں پڑنے والے اس خلل کا اندازہ، گلی کے بچوں کو دئیے جانے والے اُس کے کوسنوں میں بخوبی محسوس کیا جاسکتا تھا، جو بیک وقت اُس کی نیند اور دماغی خلل کی شہادت تھے۔

باہر کے اِس شور سے بے زار ہو کر ایک بار پھر میری نظریں چھت کو گھورنے لگیں اور اب میرا ذہن اور اُس کی سوچیں میرے اِس حال اور اپنے حال سے نکل کر ایک بار پھر ماضی کی اُس راکھ کو کریدنے لگیں جو اِس تنہائی میں اب میرا محبوب مشغلہ بن چکا تھا اور تقریباً روز ہی میں اِس یقین سے اُس راکھ کو کریدتا رہتا تھا کہ شاید آج میرے اُس سوال کا جواب مجھے مل جائے جو برسوں سے میرے دماغ میں تو روشن ہے لیکن اُس سے وابستہ ایک جواب کوئی شعلہ، کوئی چنگاری مجھے ماضی کی اِس راکھ میں لاکھ کرید کر بھی نہیں ملتی تھی۔

یہ یادیں بھی بچپن کے اُن چند روٹھے ہوئے دوستوں کی مانند ہوتی ہیں کہ جب آپ کے ساتھ کوئی کھیلنے والا نہ ہو تو آپ سے اُن کی ناراضگی اپنے معنی کھو دیتی ہے اور آپ کو یوں تنہا بیٹھا دیکھ کر وہ ایک بار پھر آپ کے ساتھ کھیلنے چلے آتے ہیں۔ یقین جانیں، اپنی معذوری یا بیماری کے باعث میرے جیسا کوئی مریض جس قدر ذہنی صحتمندی کے ہمراہ اِن یادوں کے ساتھ کھیل سکتا ہے کسی جسمانی صحتمند جسم کے بس کا یہ کام ہی نہیں۔

ثناء اور میں اُس وقت سے ایک دوسرے کو جانتے تھے، جب ہم دونوں کی عمریں اتنی چھوٹی تھیں کہ ہمیں لفظ محبت کے معنی بھی پتہ نہیں تھے لیکن محبت واحد شے ہے کہ جس کو کوئی معنی نہ بھی دئیے جاسکیں تو پھر بھی اپنا وجود رکھتی ہے، تو اِس کا یہی وجود میرے اور ثناء کے درمیان موجود تھا اور محبت دو لوگوں کے درمیان وہ درمیانی فاصلہ ہے جو اُن دو لوگوں کے درمیان کے ہر فاصلے کو ختم کردیتی ہے اور مجھے بھی اُس وقت کا منتظر تھا جب میری اِس محبت کی راہ سے میری بے روزگاری کی رکاوٹ ختم ہو اور ثناء کو بیاہ کر اپنے گھر لے آؤں۔

ادھر جیسے ہی میری راہ کا یہ پتھر ہٹا تو قبل اِس کے کہ میں ثناء کے گھر اپنا رشتہ بھیجتا، ثناء کے والد کا شوگر کے باعث ایک پاؤں کاٹنا پڑگیا۔ یہ وقت ایسا نہیں تھا کہ میں ثناء کے گھر اپنا رشتہ بھیج پاتا، لہذا میں کسی مناسب وقت کا انتظار کرنے لگا لیکن کچھ دنوں بعد ہی مجھے پتہ چلا کے ثناء اپنے گھر کے حالات کی وجہ سے کسی آفس میں ملازمت کرنے لگی ہے اب میرے پاس سوائے اِس کے کوئی چارہ نہیں تھا کہ حالات بہتر ہونے کی راہ دیکھوں۔

حالات بہتری کی یہ راہ دیکھنا بالکل ایسا ہی تھا جیسے میں گزرے ہوئے کسی ہوا کے جھونکے سے واپس پلٹنے کی یہ اُمید رکھوں کہ وہ ایک بار پھر مجھے آکر اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلائے گا، اور اِدھر میری ماں بہنوں کو میری نوکری لگتے ہی اپنے گھر کے آنگن میں بہو کی صورت کسی چاند کو اُتارنے کی فکر اُن کے سروں پر سوار ہوگئی، اِس بات سے قطعی بے خبر کہ میری گھر کے آنگن میں یوں کسی دوسرے چاند کا اُترنا، میرے دل کے آنگن میں ہمیشہ کے لئے اندھیرے بکھیر دے گا۔ تقدیر اور تدبیر میں چولی دامن کا ساتھ ہے، اور میں نہیں چاہتا تھا کہ ثناء کو اپنا بنانے کے حوالے سے میری تمام تر آرزوئیں تدابیر کی چولی میں جھانکتی رہ جائیں اور میری تقدیر اپنا دامن جھاڑ کر چل دے۔

بس اِسی خوف کے باعث ایک شام میں ثناء کے دروازے پر پہنچ گیا کہ آج اُس کا حتمی جواب لے کر ہی جاؤں گا اور میرے دستک دینے پر ثناء نے ہی دروازہ کھولا تو شاید میرے چہرے کی کیفیت دیکھ کر ہی اُسے اندازہ ہوگیا کہ میں کس خیال سے آیا ہوں اور اُس کا وہ چہرہ جہاں اپنی آمد پر اب تک کتنے بکھرتے ہوئے رنگ دیکھ چکا تھا، آج وہاں مجھے دیکھ کر صرف ایک رنگ تھا، سفید رنگ، کسی نئے لٹھے کی مانند، ہاں وہی سفید رنگ جس کی سفیدی اکثر مُردوں کے چہروں پر اُتر آتی ہے، صرف یہ بتانے کیلئے کہ زندگی اور زندہ رہنے کی خواہشیں یہاں سے رخصت لے چکی ہیں اور جس پر ایک بار یہ رنگ چڑھ جائے پھر آپ خواہ لاکھ اپنی سی کوششیں کرلیں اُس پر اپنی محبت کا، خلوص کا یا جذبات کا کوئی رنگ نہیں چڑھا سکتے۔ چند لمحے اُس کے چہرے کو تکنے کے بعد میں نے اُس سے پوچھا کہ ثناء اب تم مجھے آج اپنا حتمی جواب دے دو تمہیں مجھ سے محبت ہے بھی یا نہیں؟ میں اپنے گھر والوں کو تمہارا رشتہ لینے بھیجوں یا نہیں؟


حالانکہ میں جانتا تھا کہ ثناء سے میں ایک ایسے وقت میں سوال کررہا ہوں جس کا جواب تو خود میرے اپنے پاس ہے اور مجھے یقین تھا بس وہ ابھی میری محبت اور خواہش پر اپنا سر جھکائے گی اور کہے گی کہ میں تو خود اسی لمحے کا انتظار کر رہی ہوں، جب تمہارے گھر والے تمہارے لئے میرا ہاتھ مانگنے آئیں، لیکن میرے اِس سوال پر تو اُس کے چہرے کی وہ سفیدی مزید سفید پڑگئی اور وہ اپنی خالی خالی نظروں سے میرے چہرے کو اپنی ویران نظروں سے گھورنے لگی۔ جن نظروں سے اپنے گھر کی محبت میں گرفتار کوئی مکین گھر چھوڑتے وقت اپنے گھر کے در و دیوار پر یوں ڈالتا ہے کہ جیسے یہ لمحے بھر کی نظر اِن در و دیوار کا منظر آخری سانس تک اُس کے حافظے میں محفوظ کرلے گی۔

قبل اِس کہ وہ میرے سوال کا کوئی جواب دیتی اچانک گھر کے آنگن سے ثناء کے باپ کے کھانسنے کی اتنی شدید آوازیں آنے لگیں کہ جیسے کسی کو آخری بار کھانسنے کی مہلت ملی ہو، اور تبھی ثناء نے گھبرا کر اپنے آنگن کی جانب دیکھا اور اِس بار جو پلٹ کر اُس نے میری جانب دیکھا تو اُس کی نظروں میں جو جواب تھا، اُس کے بولنے سے قبل ہی مجھ پر عیاں ہوچکا تھا پھر بھی وہ جواب دینے کی رسم کو اپنی رُندھی ہوئی آواز کے ساتھ نبھاتے ہوئے بولی، تم نے یہی پوچھا نہ کہ، مجھے تم سے محبت ہے کہ نہیں میں تم سے شادی کرونگی یا نہیں تو سُنو مجھے تم سے کبھی محبت نہیں رہی اور جب محبت ہی نہیں تو شادی کرنے یا نہ کرنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، مگر اُس نے مزید کوئی بات سننے سے قبل ہی اپنا دروازہ بند کرلیا۔

دروازے کا اِس طرح بند ہونا مجھ پر واضح کرچکا تھا کہ اب میری لاکھ دستک دینے پر بھی میرے لئے یہ دروازہ کُھلنے والا نہیں لیکن ثناء کے یوں ایک دم دروازہ بند کرنے پر میرے ذہن میں ایک سوال کی گرہ پڑگئی، جس کو میں اپنی جانب سے سو فرضی جواب دے دے کر کھولنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن میری ہر سوچ اِس نقطے پر آکر رک جاتی ہے کہ ثناء نے جب پلٹ کر اپنے گھر کے آنگن میں دیکھا تو اُس کو وہاں آخر ایسا کیا نظر آیا تھا کہ جس نے اُس کی نگاہوں میں برسوں سے ڈیرہ جمائے ہوئے میری محبت کے تمام رنگوں کو یوں ایک دم مٹا ڈالا تھا۔

پھر میری شادی گھر والوں کی ہی پسند سے ہوگئی، میں دو بیٹوں اور ایک بیٹی کا باپ بن گیا اور ایک روز آفس سے واپسی کے دوران ایک ایکسیڈنٹ کے باعث میرا نچلا دھڑ مفلوج ہوگیا، اور اب میں تھا اور میرا مفلوج جسم جو کسی مردے کی مانند اِس قبر نما کمرے میں پڑا رہتا تھا۔

آج اتوار کا دن تھا اور ہر اتوار کی طرح میری بیٹی صبیحہ نے آج اپنا زیادہ سے زیادہ وقت میرے پاس بیٹھ کر گزارا تھا۔ وہ ہر اتوار اِسی طرح مجھے پورے ہفتے اپنی کمپنی کی دوستوں کے قصے رستے میں نظر آنے والے تماشوں، غرض دنیا جہاں کے قصے سُنا سُنا کر ہر ممکن میرا دل بہلانے کی کوشش کرتی تھی۔ اُس وقت بھی وہ میرے پاس بیٹھی شام کی چائے پی رہی تھی کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی، تو وہ اُٹھ کر دروازے پر گئی اور اب میری نظریں دروازے پر کھڑی اپنی بیٹی کی پشت پر تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ شاید اتوار کی وجہ سے کوئی مہمان آگیا ہو لیکن جب کوئی اندر نہیں آیا تو میں سمجھ گیا کوئی محلے کی ہی عورت ہوگی جو شاید جلدی کی وجہ سے اندر نہیں آرہی۔

تبھی میرے کانوں نے تیز مگر جھنجلائی ہوئی مردانہ آواز میں سرگوشی سُنی تو میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ایسا کون ہے جو یوں سرگوشیوں میں باتیں کررہا ہے اور میری بیٹی صبیحہ بھی یقینًا اِس خیال سے اتنی دھیمی آواز میں بات کررہی تھی کہ دروازے پر ہونے والی گفتگو میرے کانوں تک نہ پہنچے۔ اِسی خیال سے اُس نے دروازے پر موجود اجنبی سے بات کرتے ہوئے ایک بار پلٹ کر میری جانب دیکھا بھی تھا، اور اُس کے یوں پلٹنے پر میری نظریں جب اُس کے چہرے پر پڑیں تو میرا دل لرزکر رہ گیا۔ ابھی تو میرے پاس سے یہ مسکراتی ہوئی دروازے پر گئی تھی مگر اب اِس کے چہرے کا رنگ یوں سفید تھا جیسے کسی مُردے کے چہرے پر سفیدی اُتر آئی ہو۔

ابھی میں کچھ اور سوچتا ہی کہ اُس سے قبل ہی دروازے کے باہر موجود کھڑے شخص کی آواز ایک بار پھر میرے کانوں سے ٹکرائی، شاید غصے اور جھنجھلاہٹ کے باعث وہ اپنی آواز کے دھیمے پن پر قابو کھو بیٹھا تھا، اور اُس کا کہا ہوا جملہ جب میری سماعت سے ٹکرایا تو اُس جملے کی بازگشت نے مجھے اُس کیفیت میں مبتلا کردیا جو زیرِ زمین آنے والا کوئی بڑا زلزلہ زمین کے اوپری حصے کی حالت کرتا ہے۔ تبھی گھر کی دہلیز پر کھڑے اُس شخص کی آواز نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا۔
''صبیحہ اب تم مجھے اپنا آخری بار جواب دے دو تمہیں مجھ سے محبت ہے یا نہیں؟ میں اپنے گھر والوں کو تمہارا رشتہ لینے بھیجوں یا نہیں؟''

اور لگتا تھا اِن ساعتوں میں میرے کان فقط سُن ہی نہیں رہے بلکہ دیکھ بھی رہے ہیں ، مجھے وہ سفید رنگ اور سفیدی دکھائی دے رہی تھی جو میرے اِسی سوال پر کبھی ثناء کے چہرے پر اُمڈ آئی تھی، آج ثناء، صبیحہ کی صورت گھر کی دہلیز پر کھڑی تھی، گو نام بدل چکے تھے چہرے بھی، لیکن اُن کی محبتیں وہی تھیں اور شاید مجبوریاں بھی اور اب مجھے اپنی بیٹی صبیحہ کے جواب کا انتظار تھا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ اُسی کا جواب برسوں سے کُلبلاتے ہوئے میرے اُس سوال کا جواب بھی ہوگا کہ جس کو جاننے کی خواہش نے برسہا برس سے مجھے بے چین کیا ہوا ہے کہ آخر ثناء نے پلٹ کر دیکھنے پر گھر میں ایسا کیا دیکھ لیا تھا برسوں میری ہونے کا دم بھرنے والی لمحے بھر میں میری نہ رہی تھی۔

اِس وقت ثناء اور صبیحہ کے دو مختلف وجود آپس میں گڈ مڈ ہوکر ایک ہوچکے تھے اور اب آواز اور چہرہ گو صبیحہ کا تھا لیکن مجھے لگ رہا تھا کہ دروازے پر کھڑی ثناء ہے اور اُس ایک لمحے نے گزشتہ نہ جانے کتنے برسوں کو پچھاڑ کر مجھے سالوں پیچھے لے جا پھینکا تھا۔ میری گھبراہٹ بڑھتی جارہی تھی اور میرا دم جیسے گھٹ رہا تھا، اِسی گھبراہٹ کے باعث اچانک مجھے کھانسی کا شدید دورہ پڑا۔ میرے یوں بُری طرح کھانسنے پر اچانک صبیحہ نے پلٹ کر میری جانب دیکھا۔ اُس کی نظریں میرے چہرے پر پڑیں اور وہ عجلت میں دوبارہ دروازے کی جانب مُڑی اور اُس کی آواز دوبارہ اُبھری،
''تم نے یہی پوچھا نہ کہ، مجھے تم سے محبت ہے کہ نہیں؟ میں تم سے شادی کروں گی یا نہیں؟ تو سُنو مجھے تم سے کبھی محبت نہیں رہی اور جب محبت ہی نہیں تو شادی کرنے یا نہ کرنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا''

اب میری نگاہوں کے سامنے اندھیرا چھا چکا تھا پھر آخری آواز میرے کانوں نے زور سے بند ہونے والے دروازے کی سُنی، اور دروازے کے اِس طرح بند ہونے نے میرے ذہن کے سب کواڑوں کو کھول دیا تھا۔ آج مجھے اپنے سوال کا جواب مل چکا تھا کہ ثناء نے اپنے باپ کے کھانسنے کی آواز میں پلٹ کر دیکھنے پر کیا دیکھا تھا، آج میری بیٹی صبیحہ کا پلٹ کر مجھے دیکھنا، مجھے یہ سمجھا چکا تھا کہ گھر کی دہلیز کے باہر کھڑی ہوئی اکیلی اور تنہا محبت دہلیز کے اندر کی محبتوں سے کیوں ہار جاتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story