افغان صدر مکالمہ کی طرف آئیں
پاکستان میں جوکچھ بھی انتہائی خراب ہورہا ہے، اس کے ڈانڈے افغانستان کی سرزمین سے مل رہے ہیں
ایک جانب تو افغانستان نے دھمکی دی ہے کہ اگر پاکستان نے سرحد پار سے گولہ باری کا سلسلہ بند نہ کیا تو اسے بھرپورجواب دیا جائے گا، جب کہ دوسری جانب افغان صدرڈاکٹر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جاری جنگ خانہ جنگی نہیں بلکہ یہ منشیات فروشوں، دہشتگردوں اور ریاستوں کے مابین غیر اعلانیہ جنگ ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے جرمنی کے شہرمیونخ میں سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
کہا جاتا ہے کہ کہنے اورکرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے یہ بات افغان حکومت پرصادق آتی ہے کہ چاردہائیوں سے پاکستان، افغانستان کی بھرپورمددکررہا ہے، تیس لاکھ سے زائد افغانوں کو اپنے ملک میں پناہ دینے والے پاکستان پر تہمت لگانا کچھ جچتا نہیں ہے ۔ افغانستان سے وفاؤں کا صلہ ہمیں ہمیشہ الزام تراشیوں کی صورت میں ملا ہے۔
پاکستان میں جوکچھ بھی انتہائی خراب ہورہا ہے، اس کے ڈانڈے افغانستان کی سرزمین سے مل رہے ہیں، تو پھر الزام تراشی کے کیا معنی ہیں جب کہ پاکستان نے افغانستان کو مجرموں کی ایک لمبی فہرست دی ہے جس پر ان کی حکومت کو کارروائی کرنی چاہیے نا کہ وہ پاکستان پر چڑھ دوڑیں۔ پاکستان کا موقف انتہائی درست ہے کہ افغانستان ہماری انٹیلی جنس شیئرنگ پر دہشتگردوں کے خلاف موثرکارروائی کرے تاکہ ان کا خاتمہ ہوسکے۔
اسی عالمی کانفرنس سے خطاب کے دوران افغان صدر کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردی ہمارے عہدکا واضح ترین چیلنج ہے جس پر فتح پانے کے لیے ایک پوری نسل کی جانب سے عزم وہمت درکارہے۔دنیا کو سنانے کو خیالات توبہت اچھے ہیں لیکن حقیقت کتنی تلخ ہے،اس کا ادراک افغان صدر اوران کی حکومت کو بھی کرنا چاہیے۔
آخر وہ پاکستان پر الزامات لگا کر کیونکر اپنی ناکامیوں کو پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ انھیں اس حقیقت کا برملا اعتراف کرنا چاہیے کہ ان کی سرزمین جو دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہورہی ہے ایک محفوظ جنت ہے افغانستان مجرموں کے لیے۔ افغانستان نہ جانے کیوں پاکستان کے خلاف سازشوں کا گڑھ بن گیا ہے، ہر مشکل وقت ساتھ دینے والے پاکستان کو بھلا کر بھارت سے نہ صرف دوستی کرلی ہے بلکہ اپنی سرزمین گھناؤنی سازشوں کے لیے فراہم کی جاتی ہے۔
حقیقی صورتحال تو یہ ہے کہ افغانستان خود بھی دہشتگردی کا شکار ہے اور وہاں کے حالات سب کے سامنے ہیں، معاملات کو افہام و تفہیم اور بات چیت سے حل ہونا چاہیے اور اس نہج پر نہیں جانا چاہئیں کہ جہاں سے تعلقات میں کشیدگی کا عنصر نمایاں ہو اور بات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچے۔
اس بات کے لیے پاکستان نے عالمی سطح پر انتہائی مخلصانہ اور پر امن کوششیں کی ہیں اور انھیں مستقبل میں بھی جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے، جب تک وہاں امن بحال نہیں ہوجاتا۔ افغان حکومت کو تمام معاملات کے حوالہ سے سفارتی سطح پر بات چیت کا عمل شروع کرنا چاہیے اور الزام تراشی کی روش چھوڑ کر درست راستے کو اپنانا چاہیے۔ مکالمے میں ہی دونوں ممالک کی فلاح پوشیدہ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کہنے اورکرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے یہ بات افغان حکومت پرصادق آتی ہے کہ چاردہائیوں سے پاکستان، افغانستان کی بھرپورمددکررہا ہے، تیس لاکھ سے زائد افغانوں کو اپنے ملک میں پناہ دینے والے پاکستان پر تہمت لگانا کچھ جچتا نہیں ہے ۔ افغانستان سے وفاؤں کا صلہ ہمیں ہمیشہ الزام تراشیوں کی صورت میں ملا ہے۔
پاکستان میں جوکچھ بھی انتہائی خراب ہورہا ہے، اس کے ڈانڈے افغانستان کی سرزمین سے مل رہے ہیں، تو پھر الزام تراشی کے کیا معنی ہیں جب کہ پاکستان نے افغانستان کو مجرموں کی ایک لمبی فہرست دی ہے جس پر ان کی حکومت کو کارروائی کرنی چاہیے نا کہ وہ پاکستان پر چڑھ دوڑیں۔ پاکستان کا موقف انتہائی درست ہے کہ افغانستان ہماری انٹیلی جنس شیئرنگ پر دہشتگردوں کے خلاف موثرکارروائی کرے تاکہ ان کا خاتمہ ہوسکے۔
اسی عالمی کانفرنس سے خطاب کے دوران افغان صدر کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردی ہمارے عہدکا واضح ترین چیلنج ہے جس پر فتح پانے کے لیے ایک پوری نسل کی جانب سے عزم وہمت درکارہے۔دنیا کو سنانے کو خیالات توبہت اچھے ہیں لیکن حقیقت کتنی تلخ ہے،اس کا ادراک افغان صدر اوران کی حکومت کو بھی کرنا چاہیے۔
آخر وہ پاکستان پر الزامات لگا کر کیونکر اپنی ناکامیوں کو پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ انھیں اس حقیقت کا برملا اعتراف کرنا چاہیے کہ ان کی سرزمین جو دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہورہی ہے ایک محفوظ جنت ہے افغانستان مجرموں کے لیے۔ افغانستان نہ جانے کیوں پاکستان کے خلاف سازشوں کا گڑھ بن گیا ہے، ہر مشکل وقت ساتھ دینے والے پاکستان کو بھلا کر بھارت سے نہ صرف دوستی کرلی ہے بلکہ اپنی سرزمین گھناؤنی سازشوں کے لیے فراہم کی جاتی ہے۔
حقیقی صورتحال تو یہ ہے کہ افغانستان خود بھی دہشتگردی کا شکار ہے اور وہاں کے حالات سب کے سامنے ہیں، معاملات کو افہام و تفہیم اور بات چیت سے حل ہونا چاہیے اور اس نہج پر نہیں جانا چاہئیں کہ جہاں سے تعلقات میں کشیدگی کا عنصر نمایاں ہو اور بات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچے۔
اس بات کے لیے پاکستان نے عالمی سطح پر انتہائی مخلصانہ اور پر امن کوششیں کی ہیں اور انھیں مستقبل میں بھی جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے، جب تک وہاں امن بحال نہیں ہوجاتا۔ افغان حکومت کو تمام معاملات کے حوالہ سے سفارتی سطح پر بات چیت کا عمل شروع کرنا چاہیے اور الزام تراشی کی روش چھوڑ کر درست راستے کو اپنانا چاہیے۔ مکالمے میں ہی دونوں ممالک کی فلاح پوشیدہ ہے۔