قومی زبانیں اور قومی احساسِ کمتری

تیسری مدت ختم ہونے میں اب محض ڈیڑھ برس باقی ہے لیکن نیشنل لینگویج کمیشن کا دور دور تک وجود نہیں

آج اقوامِ متحدہ کے تحت( اکیس فروری)مادری زبان کے عالمی دن کے طور پر منایا جا رہا ہے۔یہ تاریخ انیس سو باون کے ان لسانی مظاہروں سے لی گئی جو آج ہی کے دن ڈھاکا میں شروع ہوئے اور پولیس فائرنگ سے چار طلبا ہلاک ہو گئے۔مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ بنگلہ کو بھی اردو کے مساوی قومی زبان کا درجہ دیا جائے کیونکہ یہ ملک کی چھپن فیصد آبادی کی زبان ہے۔

اگرچہ انیس سو چھپن کے آئین میں بنگلہ کو اردو کے مساوی درجہ دے دیا گیا مگر وفاق کے لسانی نقشے پر خون کی جو لکیر ابھری وہ آخر تک نہ مٹ سکی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نئے پاکستان میں اس مثال سے سبق لے کر مادری اور علاقائی زبانوں کے فروغ اور انھیں قومی درجے تک لانے کے بارے میں کوئی سنجیدہ کوشش کی جاتی۔مگر ذہن پر الٹا اثر ہوا اور آج تک ہے۔

مثلاً مئی دو ہزار گیارہ میں مسلم لیگ ن کی رکنِ قومی اسمبلی ماروی میمن نے آئینی ترمیم کا ایک نجی بل پیش کیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ بلوچی ، بلتی ، براہوی ، پنجابی ، پشتو ، شنا ، سندھی ، سرائیکی اور ہندکو کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل دو سو اکیاون میں ترمیم کی جائے۔ مگر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے یہ بل مسترد کردیا۔

جون دو ہزار تیرہ میں نواز شریف کی تیسری حکومت برسرِاقتدار آئی۔اس بار مسلم لیگ نواز نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا کہ علاقائی زبانوں کی ترقی اور انھیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے نیشنل لینگویج کمیشن قائم کیا جائے گا۔ جیسے انیس سو اناسی سے اردو زبان کی ترقی کے لیے مقتدرہ قومی زبان کا ادارہ کام کر رہا ہے۔

تیسری مدت ختم ہونے میں اب محض ڈیڑھ برس باقی ہے لیکن نیشنل لینگویج کمیشن کا دور دور تک وجود نہیں۔اس کے باوجود ماروی میمن نے نو دیگر ارکانِ اسمبلی کی تائید سے فروری انیس سو چودہ میں ایک بار پھر قومی زبانوں میں اضافے کے لیے آئینی ترمیم کا بل پیش کیا مگر اس بار بھی قومی اسمبلی کی قانون و انصاف سے متعلق قائمہ کمیٹی نے اس بل کو مسترد کردیا۔کمیٹی کے روبرو اس وقت کے اسپیشل سیکریٹری برائے وزارتِ قانون جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے یہ عجیب و غریب تاویل پیش کی کہ ایک پاکستانی قوم کی ایک ہی قومی زبان ہونی چاہیے۔

دو قومی زبانیں تسلیم کرنے کا نتیجہ ہم نے انیس سو اکہتر میں دیکھ لیا۔قائمہ کمیٹی میں اس بل کے حق میں جو واحد ووٹ پڑا وہ ڈیرہ غازی خان سے مسلم لیگ ن کے ایم این اے سردار امجد فاروق کھوسہ کا تھا۔کمیٹی میں جمعیت علماِ اسلام فضل اور تحریکِ انصاف کے ارکان نے اس بل کو غیر ضروری قرار دیا جب کہ ایم کیو ایم کے رکن نے اجلاس سے غیر خاضری کو غنیمت جانا۔ایوانِ بالا سینیٹ میں اے این پی کے مرحوم حاجی عدیل کے پیش کردہ ایسے ہی بل کا یہی حشر ہوا۔

گذشتہ برس ستمبر میں سندھ اسمبلی نے ایک قرار داد منظور کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ تقسیم سے قبل بھی روزمرہ سرکاری کام کاج سندھی میں ہوتا تھا اور یہ اتنی ترقی یافتہ زبان ہے کہ ڈیڑھ سو برس سے سندھی میں اخبارات و رسائل نکل رہے ہیں اور کتابیں چھپ رہی ہیں لہذا اسے قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا نے اس بل کو منظور ہونے دیا مگر پیپلز پارٹی کے بیشتر ارکان نے بل کی منظوری کے وقت یہ کہہ کر ایوان سے واک آؤٹ کیا کہ انھیں بولنے کا وقت نہیں دیا گیا۔اور آج ان ہی میں سے بیشتر ارکانِ اسمبلی الاپ رہے ہیں کہ سندھ کا ہر باشندہ مردم شماری میں اپنی زبان سندھی لکھوائے۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ خوف کس بات کا ہے ؟ اگر علاقائی زبانیں اتنی ترقی یافتہ ہیں کہ وہ اپنا ادب اور میڈیا پیدا کر رہی ہیں تو پھر انھیں قومی زبان کا درجہ کیوں نہیں ملنا چاہیے۔ جب بھی اس طرح کی کوشش ہوتی ہے تو ملکی بقا خطرے میں پڑنی شروع ہو جاتی ہے اور پاکستانیت اور اس کا تشخص لرزنے لگتا ہے۔یہ بات بہت آرام سے نظرانداز کر دی جاتی ہے کہ پاکستان کسی بادشاہت کا نہیں بلکہ وفاق کا نام ہے اور اس وفاق نے پاکستان تشکیل دیا ہے نہ کہ پاکستان نے وفاق بنایا۔

بیشتر دنیا میں اب تسلیم کیا جا رہا ہے کہ بچے کو اپنی مادری زبان میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کا بنیادی حق ہے اور اگر مادری زبان اس قابل نہیں کہ اس میں تعلیم ہو سکے تو یہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ اس زبان کو معدومی و پسماندگی سے بچاتے ہوئے ایک زندہ جدید زبان کے درجے تک لائے۔


اگر دیکھنا ہو کہ ایسا کیسے ہوتا ہے تو پھر نیوزی لینڈ کا تجربہ دیکھئے جس نے ان جزائر کے اصل باشندوں کی بولی ماؤری کو آج ترقی یافتہ زبان کے اس درجے تک پہنچا دیا کہ اب ماؤری میں اسکول کی سطح تک تعلیم دی جا رہی ہے۔

انیس سو اڑتالیس سے پہلے تک عبرانی متروک زبان کے درجے تک پہنچ گئی تھی مگر آج ہر اسرائیلی باشندہ نہ صرف فر فر عبرانی بولتا ہے بلکہ یونیورسٹی لیول تک اگر کوئی عبرانی میں تعلیم حاصل کرنا چاہے تو اسے آزادی ہے۔(اس وقت اسرائیل کی دو قومی زبانیں ہیں۔عبرانی اور عربی )۔

برطانیہ میں تو بقول شخصے بچہ بچہ انگریزی بولتا ہے۔مگر اسکاٹش اور آئرش کو بھی قومی درجہ حاصل ہے اور دو ہزار بارہ میں معدوم ہوتی ویلش زبان کو بچانے کے ایک بڑے قدم کے طور پر ویلش اسمبلی میں چھ سو برس میں پہلی بار ایک قانونی بل ویلش زبان میں منظور کیا گیا۔برطانوی پارلیمنٹ میں بھلے رابطے کی زبان کے طور پر سب انگریزی بولتے ہوں مگر علاقائی پارلیمانوں اور بلدیات میں مقامی زبانوں کے استعمال کا موقع بھی مساوی طور پر مہیا ہے۔

مگر آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم تو ترقی پذیر ملک ہیں، ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی مثال دے کر کیوں مرعوب کرنا چاہتے ہو۔چلیے بھارت کی مثال لے لیتے ہیں۔بھارتی آئین کے مطابق ہندی اور انگریزی کو ملک گیر رابطے کی زبان کا درجہ حاصل ہے۔کیونکہ تمام بھارتی صوبے ہندی نہیں سمجھتے۔اسی لیے سپریم کورٹ کی زبان صرف انگریزی ہے۔مگر آئین کے آٹھویں شیڈول میں ہندی سمیت بائیس زبانوں کو قومی درجہ دیا گیا ہے۔یعنی اگر صوبے چاہیں تو ان زبانوں میں کارِ سرکار چلانے کے لیے خود مختار ہیں۔چنانچہ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، بہار اور راجھستان کے ہائی کورٹس اور ماتحت عدالتوں میں ہندی کو بھی عدالتی درجہ بھی حاصل ہے جب کہ تامل ناڈو میں انگریزی کے ساتھ ساتھ تامل کو عدالتی درجہ حاصل ہے۔

آئین کے آٹھویں شیڈول کے تحت ان زبانوں کو بھی قومی درجہ دیا گیا ہے جن کے بولنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔مثلاً منی پوری محض صفر اعشاریہ چودہ فیصد ، سندھی محض صفر اعشاریہ چوبیس فیصد ، ڈوگری محض صفر اعشاریہ بتیس فیصد اور کشمیری صفر اعشاریہ چون فیصد آبادی کی زبان ہے۔بھارتی کرنسی پر انگریزی کے علاوہ ہندی سمیت سولہ دیگر قومی زبانوں میں بھی کرنسی کی مالیت درج ہے۔تو کیا بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا یا مزید مضبوط ہوا؟

پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ رابطے کی زبان جو کہ اردو اور انگریزی ہے اور قومی زبانوں کو ایک ہی سمجھ لیا گیا ہے۔ حالانکہ اگر علاقائی زبانوں کو قومی اور ابتدائی تعلیم کا تدریسی درجہ مل جائے تب بھی رابطے کی زبان اردو اور انگریزی ہی رہے گی۔اگرچہ عوام الناس کا بطور رابطے کی زبان محض اردو سے اچھی طرح کام چل رہا ہے مگر اس ملک میں صرف عوام ہی تو نہیں رہے۔اشرافیہ بھی تو رہتی ہے۔وہ بنا انگریزی کیسے زندہ رہے گی اور ہمیں انگریزی میں کیسے سمجھائے گی کہ اردو کی کیا اہمیت ہے اور دیگر زبانیں کیوں قومی درجہ نہیں پا سکتیں۔

چلیے اگر ملکی سالمیت خطرے میں پڑتی ہے تو نہ دیجیے علاقائی زبانوں کو قومی درجہ اور موند لیجیے اپنی آنکھیں باقی دنیا کے لسانی تجربات سے۔مگر اس کا کیا کریں کہ اس وقت پاکستان میں یہاں سے وہاں تک جو بہتر زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں ان میں سے دس معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں اور آدھی زبانیں اردو انگریزی میڈیائی تسلط کے سبب اپنے ادبی و صحافتی اظہار سے قاصر ہیں۔کیا ان زبانوں کو بچانا ریاست کا فرض نہیں ؟ یہ کام محض پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی جانب سے ان زبانوں میں تبرکاً دو چار کتابیں چھاپنے سے تو نہیں ہوگا۔

لیکن آپ ان زبانوں کو کیا بچائیں گے۔آپ سے تو اردو نہیں بچائی جا رہی۔یقین نہ آئے تو دیکھ لیجیے چوبیس گھنٹے کے نشریاتی چینل اور بتائیے کہ وہاں کون سی زبان بولی جا رہی ہے ؟ غالب تو دور کی بات فیض صاحب بھی زندہ ہوتے تو آج اپنے ٹی وی سیٹ کو سنگسار کر کے ہاتھ جھاڑ چکے ہوتے۔

نہ آپ کو اپنی شناخت کا یقین ہے ، نہ زبان کا۔ اور جو زبانیں زمین اور تاریخ میں گڑی ہوئی ہیں انھیں بولتے، لکھتے اور عزت دیتے آپ کو شدید احساسِ کمتری لاحق ہے۔کہنے کو پنجابی پاکستان کی سب سے بڑی زبان ہے۔ مگر کوئی اخبار پنجابی میں ہو تو مجھے بھی بتائیے گا۔ایک کئی برس پہلے نکلا ضرور تھا۔مگر یاروں نے اس کی اتنی پذیرائی کی کہ دفتر کی کھڑکی سے کود کر خود کشی کر لی ؟ اور اردو کو تحفظِ پاکستان سے جوڑنے کی سب سے زیادہ وکالت یہی پڑھا لکھا پنجاب کر رہا ہے۔

آپ نے اردو کا کرتا تو پہن لیا مگر یہ تو بتائیے کہ مادری زبان کا پاجامہ کہاں رکھ کے بھول گئے ؟ کیا بلھے شاہ اور وارث شاہ وغیرہ ہی رہ گئے ہیں پنجابی کا وجود ثابت کرنے اور اس وجود پر یقین دلانے کے لیے ؟ اگر سب سے بڑا صوبہ اپنی ہی زبان کے بارے میں اس قدر احساسِ کمتری میں مبتلا ہو وہ باقی پاکستان کی لسانی آرزوئیں کہاں اور کیوں سمجھے گا ؟

 
Load Next Story