بانو آپا کی یاد میں
بانو قدسیہ گزشتہ 4 فروری کو اس سرائے فانی سے کوچ کرگئیں
بانو قدسیہ گزشتہ 4 فروری کو اس سرائے فانی سے کوچ کرگئیں جس کے بعد صرف ''داستان سرائے'' ہی نہیں بلکہ دنیائے ادب ہی ویران ہوگئی۔ لگتا ہے کہ فضا میں ہر طرف اداسی ہے اورماحول پر سناٹا چھایا ہوا ہے۔اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی جوڑی اردو ادب کی ایک مثالی جوڑی تھی۔اس پر ہمیں ہندی ساہتیہ (ادب) کی وہ مشہور و معروف جوڑی یاد آرہی ہے جو مہادیوی ورما اور ڈاکٹر رام کمار ورما پر مشتمل تھی۔ یہ دونوں میاں بیوی نامور نثر نگار بھی تھے اور شاعر بھی۔ مہا دیوی ورما چھایہ واد (Romanticism)کے سلسلے کی نمایندہ کوتری (شاعرہ) تھیں جن کی ایک خوبصورت کویتا کا یہ بند ہمارے ذہن میں آج تک محفوظ ہے۔
پلک پلک مرے دیپک جل
سِہتر سِہتر مرے دیپک جل
اگرچہ مہا دیوی ورما نے ''اتیت کے چل چتر''کے عنوان سے بڑے خوبصورت خاکے بھی تحریر کیے جن کا موازنہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے خاکوں بعنوان ''چند ہم عصر'' سے کیا جاسکتا ہے، تاہم ان کی اصل وجہ شہرت ان کی شاعری ہی ہے۔ بانو آپا کا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ انھوں نے اپنی قلمی زندگی کا آغاز اگرچہ (انگریزی زبان میں) کہانی اور شاعری سے کیا مگر اپنی شناخت ادبی شہ پاروں اور ڈراموں سے حاصل کی۔ مگر شریک حیات کے قابل رشک رشتے کو ہندی اور اردو ادب کے ان دونوں مایہ نازجوڑوں میں فردِ مشترک کی حیثیت حاصل ہے۔ دونوں ہی یک جان دو قالب تھے اور دونوں ہی نے اپنے اٹوٹ بندھن کو اپنی آخری سانس تک انتہائی عقیدت اور بے پایاں محبت کے ساتھ نبھایا۔
میاں بیوی کا رشتہ دیگر تمام رشتوں سے انوکھا اور نرالا ہوتا ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک داغِ مفارقت دے جائے تو زندہ بچ رہنے والے جیون ساتھی کے لیے بقیہ زندگی ایک سزا بن جاتی ہے اور اگر اتفاق سے یہ سانحہ بیوی کے ساتھ پیش آجائے تو وہ کیفیت بیان سے باہر ہوتی ہے۔
2004 میں اشفاق احمد صاحب کی وفات کے بعد کا پہاڑ سا عرصہ بانو آپا جیسی شدت سے چاہنے والی جان نثار اور وفا شعار عورت نے کس عالم میں گزارا ہوگا۔ اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ 13سال سے اوپر اس طویل عرصے کے دوران بانو آپا نے اشفاق احمد کی 70 کتابیں مکرر شایع کیں اور اس کے علاوہ اپنے شوہر نام دارکی دو نئی کتابوں کی اشاعت کا اہتمام بھی کیا۔ یوں انھوں نے اپنی بقیہ زندگی میں اپنے چہیتے شوہر کے لیے وقف کردی۔ مگر سچ پوچھیے تو ان کے اندر کے انسان کی وفات بھی اشفاق صاحب کی وفات کے ساتھ ہی واقع ہوگئی تھی۔
بانو قدسیہ نے 28نومبر1928کو غیر منقسم ہندوستان میں فیروز پور میں آنکھ کھولی۔ ان کا گھرانہ ایک تعلیم یافتہ گھرانہ تھا اور ان کے والد نے زراعت میں گریجویشن کی ہوئی تھی۔ انھوں نے پانچ سال کی چھوٹی سی عمر میں ہی لکھنے پڑھنے کا آغاز کردیا تھا۔ ابتدا میں ان کا میڈیم انگریزی زبان تھی مگر قدرت کا فیصلہ تھا کہ وہ اپنے قلمی جوہر اردو میں دکھائیں اور دنیائے ادب میں اپنا ایک منفرد مقام حاصل کریں۔
بانو قدسیہ نے ایف اے اسلامیہ کالج اور بی اے کینئرڈ کالج لاہور سے کیا پھر انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے اردو میں داخلہ لے لیا جو ان کی زندگی کا ایک نیا موڑ ثابت ہوا۔ یہیں انھیں اشفاق احمد کی ہم جماعت ہونے کا موقع ملا جس کے بعد وہ دسمبر 1956 میں اشفاق صاحب کی جیون ساتھی بن گئیں اور عملاً ان ہی کی ہوکر رہ گئیں۔ اشفاق صاحب سے انھیں اتھاہ محبت تھی جس کی بنا پر وہ ان ہی کے رنگ میں رنگ گئیں اور یک جان دو قالب بن کر پوری زندگی گزاردی۔
اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی جُگل جوڑی نے ادبی دنیا میں بڑا نام کمایا اور دونوں مل کر ایک ادبی جریدے ''داستان گو'' کا اجرا بھی کیا جو چند سال پابندی کے ساتھ شایع ہوتا رہا۔ اشفاق احمد کی طرح بانو آپا نے بھی ڈرامے لکھنے کا آغاز ریڈیو ہی سے کیا جو اپنے دورکا انتہائی مقبول اور موثر الیکٹرونک ذریعہ ابلاغ تھا۔ اس کے بعد انھوں نے ٹی وی ڈرامے بھی تحریر کیے جو بے حد مقبول ہوئے۔ ان کی ادبی تخلیقات برصغیرکے معیاری رسائل اور جریدوں میں شایع ہوئیں۔ جنھیں عام قارئین کے علاوہ معتبر ادبی حلقوں میں بھی یکساں مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔
انھوں نے بڑے زبردست انسانوں کے علاوہ کئی ناول بھی تحریرکیے اور اپنی قوت تحریر کا خوب لوہا منوایا۔ ان کے افسانوں کے مجموعوں میں بازگشت، امر بیل، آتش زیر پا، کچھ اور نہیں جب کہ ناولوں میں ایک دن، پردا، شہر بے مثال، موم کی گلیاں اور چہار چمن شامل ہیں۔ ڈراموں میں آدھی بات، دوسرا قدم، حور کے نام اور تماثیل قابل ذکر ہیں۔ سب سے زیادہ شہرت انھیں ان کے ناول ''راجا گدھ'' سے ملی جس نے عالمگیر مقبولیت حاصل کی۔ قدرت اﷲ شہاب کے بارے میں ان کی تاثراتی کتاب ''مرد ابریشم'' بھی قابل ذکر ہے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف پوری دنیا میں کیا جاتا ہے جس کے عوض انھیں کئی قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز بھی دیے گئے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی ادبی خدمات کے اعترافات میں 2003 میں انھیں ''ستارۂ امتیاز''اور 2010 میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ ان کی تحریروں میں بڑی گہرائی پوشیدہ ہے جن میں ان کے عظیم شوہر اشفاق احمد کے علاوہ ممتاز مفتی اور قدرت اﷲ شہاب جیسے معاصرین کے اثرات نمایاں ہیں۔ اردو کی خواتین لکھاریوں کی صف میں ان کا نام قرۃ العین حیدر کے فوراً بعد آتا ہے۔ تاہم ان کے طرز تحریر اور انداز بیاں پر ان کی انفرادی چھاپ ثبت ہے کہ بقول غالبؔ
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور
افسانہ ہو یا ناول یا ریڈیائی اور ٹی وی ڈرامہ اخلاقیات کا عنصر ان کے ہر شہ پارے میں بالکل نمایاں نظر آتا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ادب برائے ادب نہیں بلکہ ادب برائے زندگی کی قائل تھیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہر عظیم آدمی کی پشت پر ایک عورت موجود ہوتی ہے، اشفاق صاحب اور بانو آپا کی جوڑی نے یہ ثابت کردیا کہ ہر عظیم عورت کے پیچھے ایک مرد موجود ہوتا ہے۔
اشفاق احمد اور بانو آپا کے بارے میں ہم نے بہت سے تذکرے ممتاز ادیب ممتاز مفتی اور نامور براڈ کاسٹر عبدالحمید اعظمی کی زبانی سنے تھے جو آپس میں بڑے گہرے دوست تھے مگر ہماری یہ بڑی خوش قسمتی تھی کہ ہمیں اس عظیم جوڑی سے بالمشافہ ملاقات کا شرف دسمبر 1999 کی آخری شب راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں ریڈیو پاکستان کی ایکسیلینس ایوارڈز کی تقریب کے موقعے پر میزبانی کے فرائض انجام دینے کے دوران حاصل ہوا جس کی ناقابل فراموش خوشگوار یادیں ہمارے قلب و ذہن میں ہمیشہ تر و تازہ اور محفوظ رہیں گی۔