روسی تعاون مزارات پر حملے اوربے معنی حرف
چین کے صدر شی جن پنگ نے بھی خود کُش حملے کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے حضرت لعل شہباز قلندرکے مزار میں ہونے والے خودکش حملے پر اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف تعاون بڑھانے کی پیش کش کی ہے۔کریملن کی جانب سے جاری بیان کے مطابق صدرپیوٹن نے اپنے پاکستانی ہم منصب کے نام پیغام میں کہا کہ وہ سندھ میں دہشت گرد حملے کے افسوس ناک نتائج پر پاکستان سے دلی تعزیت کرتے ہیں۔
اِس موقعے پر روسی صدر نے اپنے اِس عزم کا اعادہ کیا کہ روس انسدادِ دہشت گردی کے لیے دوطرفہ اور وسیع عالمی کوششوں کے اندر رہتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعاون بڑھانے پر تیار ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے بھی خود کُش حملے کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
16فروری کوحضرت لعل شہباز قلندر کے مزار میں ہونے والا حملہ پاکستان کی تاریخ کے اندوہناک ترین واقعات میں سے ایک ہے۔جب دھمال کے دوران ایک خود کُش بمبار نے دھماکے سے خود کو اُڑا دیا۔نتیجے میں بیسیوں جانیں گئیں اور سیکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں 20بچے بھی شامل ہیں۔یہ واقعہ 13فروری کو ہونے والے خود کُش دھماکے کا تسلسل معلوم ہوتا ہے۔پاکستان میں مختصر وقفہِ امن کے بعد بے امنی کی یہ نئی لہر ہے۔ اِس لہر نے دہشت گردی کے خلاف حکومتی بلند بانگ (اکثر بے سر و پا) دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔
بڑے ہی طمطراق سے یہ دعوے کیے گئے تھے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت لی گئی ہے۔ابھی دعوؤں کی بازگشت بھی ختم نہ ہوئی ہوگی کہ پیر سے جمعرات تک چند دنوں میں دہشت گردی کی ایک دو نہیں کئی کارروائیاں ہوئیں، جس میں 125 افراد کے جاں بحق اور سیکڑوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔چئیرنگ کراس لاہور کے سانحے کے فوراً ہی بعد سیہون میں یہ دہشت گردی کی کارروائی ہوئی۔ دہشت گرد یکے بعد دیگرے کارروائیاں کیے جا رہے ہیں اور ہمارے دعوے ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آرہے۔نوحہ گروں کی آہیں اور ہم ایسے حرف گروں کے حرف بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ بار بار وہی تکرار۔وہی گھسی پِٹی باتیں۔آخرکب تک؟
جانے کِس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں۔
صرف2017 میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کو دیکھا جائے تو یہ ایک طویل فہرست بنتی ہے۔4جنوری کوٹلی امام ،ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس موبائل کے قریب ریموٹ کنٹرول دھماکا۔6 جنوری کراچی فائیواسٹار چورنگی کے قریب تیموریہ تھانے پر حملہ۔کوئٹہ، ٹیکسی پر حملہ5افراد جاں بحق۔ 20جنوری پارا چنار، سبزی منڈی میں دھماکا۔ 22جنوری ٹانک (خیبر پختون خواہ ) میں دھماکا۔23جنوری، پنج گور۔
بلوچستان، فوجی کانوائے پر حملہ۔ 31 جنوری، پشاور، چار سدہ روڈ پر دھماکا۔ 6فروری بنوں میں حملہ ۔7 فروری، چمن افغان سرحد کے قریب حملہ۔ 10 فروری دو کارروائیاں، ارنگ باجوڑ ایجنسی۔ اُسی دن جنوبی وزیرستان میں بھی دھماکا۔ 13 فروری لاہور اور کوئٹہ میں دھماکے۔ 15 فروری 3 واقعات ،حیات آباد پشاور، مہمند ایجنسی اور نوشہرہ۔ 16فروری اوران، سیہون اورڈیرہ اسماعیل خان حملے۔17فروری خیبر ایجنسی چیک پوسٹ حملہ۔
قریباً ڈیڑھ پونے دوماہ کے مندرجہ بالا حملوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو کِس درجہ شدید حالات کا سامنا ہے۔ہمارے سیاسی عمائدین کو اِس موقعے پر جِس اتحاد، یگانگت اور بالغ نظری کاثبوت دینا چاہیے وہ اُس سے شاید ابھی بہت پیچھے ہیں۔ دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2003 میں 164تھی جو2009میں بڑھ کر 3318 ہوگئی تھی۔ایک اندازے کے مطابق ستم گر ستمبر 2001 سے مئی 2011 تک35,000 پاکستانی دہشت گرد کارروائیوں کی نذر ہوئے۔
حکومتی اعداد وشمار کے مطابق 2000 سے 2010 کے دوران پاکستان کوبراہِ راست اور بلواسطہ دہشت گردی کے نتیجے میں 68 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔ پاکستانی عوام اِس جانی اورمالی نقصان پر خودکوتنہا اور بے یارومددگار محسوس کرنے کے عادی ہوچلے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ دہشت گردی ہمارے لیے ایک بالکل نئی چیز ہے۔ یہ خطہ امن وآشتی کا گہوارا ہوا کرتا تھا۔بعینہٖ 2005سے قبل مزاروں پر حملے کا کوئی تصور نہیں تھا۔
19مارچ 2005کو جھل مگسی، فتح پور میں واقع پیر راکھیل شاہ کے مزار پرپہلا حملہ ہوا۔35افراد جاں بحق او کئی درجن زخمی ہوئے۔صرف2ماہ کے بعد 27 مئی 2005کودارالحکومت میں بری امام کے مزار پر حملہ ہوتا ہے۔18افراد جاں بحق اور 80زخمی ہوتے ہیں۔یکم جولائی2010کو لاہور داتا دربار پر خود کُش حملہ ہوتا ہے40افراد جاں بحق اور 170زخمی ہوتے ہیں۔ 2010 اکتوبرمیں 2مزارات پر حملہ ہوا 7اکتوبر کو کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر اور27اکتوبر کو پاک پتن میں بابا فرید گنجِ شکر کے مزار پر۔ دونوں حملوں میں14افراد جاں بحق اور 160سے زائد زخمی ہوئے۔
3 اپریل 2011 کو سخی سرور،ڈیرہ غازی خان میں واقع صوفی احمد سلطان کے مزار پر حملہ ہوتا ہے۔50افراد لقمہِ اجل بنے اور70زخمی ہوئے۔ڈسٹرکٹ شکار میں واقع درگاہ غلام شاہ غازی پر2013 فروری میں حملہ ہوتا ہے۔21جون 2014اسلام آباد نانگے شاہ کے مزار پر حملہ۔گزشتہ برس خضدار، بلوچستان میں واقع شاہ نورانی کے مزار پرحملہ ہوتا ہے65افراد ہلاک 100سے زائد زخمی۔اور اب سیہون۔
ایسے حملوں کو روکنے میں 2005 سے اب تک کی حکومتی ناکامیاں اپنی جگہ لیکن افسوس تو اِس بات کا ہے کہ اب تک ایسے کسی سانحے یا کسی حادثے سے نپٹنے کا کوئی حکومتی پلان کہیں نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں سیکڑوں مزارات ہیں۔ لاکھوں زائرین وہاں جاتے ہیں۔اُن کی سہولیات سے لے کرکسی بھی ایمرجنسی کا کہیں کوئی معقول نظام نہیں۔سیہون میں تو اُس سے بھی بڑھ کر بے حسی یہ دیکھی گئی کہ شنید ہے کہ شہداء کی باقیات اہلکار گندے نالوں میں پھینک گئے۔کیا یہ کم سانحہ ہے؟کیا یہ کم نامرادی ہے؟
حضرت لال شہباز قلندر کے مزار کے احاطے میں دھماکے سے قبل تک کِسی کوکوئی خیال نہ تھا۔دھماکے کے جواب میں ادارے حرکت میں آئے100سے زائد دہشت گرد کیفرِ کردار تک پہنچا دیے گئے۔اِس طرز پرکئی حلقوں میں سوالات پائے جاتے ہیں۔
امریکا ، روس، چین اورکئی ممالک پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعاون پر تیار نظر آتے ہیں۔ آخر اُن سے یہ درخواست کیوں نہیں کی جاتی کہ بھائی آپ یہ بم، یہ گولا بارود بنانا کیوں نہیں چھوڑتے۔ کیوں اِس تجارت کو ترک نہیں کرتے کہ جِس کا نشانہ بے چارے عوام بنتے ہیں۔آخرکو یہ تمام دہشت گرد گوروں کے بنے ہتھیار تواستعمال کرتے ہیں۔ نہ گورے یہ ہتھیار تیارکریں نہ بیچیں نہ دہشت گردی ہو۔
ہمارے دانشوروں کو ،ہمارے لکھنے بولنے والوں کوکیا ہوا ہے جو یہ سوال نہیں کرتے؟ روس اور چین سے ایک بنیادی سوال کے حل میں مدد لی جاسکتی ہے، وہ سوال یہ ہے کہ 2005 سے قبل مزاروں پر حملے کیوں نہیں ہوئے؟ انیسویں صدی میںہندوستانی علماء کی جانب سے شاہ سعود سے مزارات پرگفتگو کے نتیجے میں اِس طرح کے تمام مسائل حل ہوچکے تھے۔