عدالتیں بدعنوانوں کو سخت ترین سزائیں سنائیں سپریم کورٹ
بدعنوانی معیشت کی جڑیں کاٹ رہی ہے، ہماری پہلی ذمے داری ہے کہ اس برائی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے عدالتوں اور انسداد بدعنوانی کے تمام اداروں کو حکم دیا ہے کہ کرپشن کے خلاف سخت رویہ اپنایا جائے اورزیرو ٹالرنس کا مظاہرہ کرتے ہوئے بدعنوانی میں ملوث افراد کو زیادہ سے زیادہ سزائیں سنائی جائیں، ملزمان پرکوئی رحم نہ کھایا جائے۔
جسٹس دوست محمد کی سربراہی میں جسٹس فائز عیسیٰ اورجسٹس مقبول باقر پر مشتمل فل بینچ نے ڈیرہ مراد جمالی میں مارکیٹ کمیٹی کے ملازمین سہراب مری اورخدا بخش کی کرپشن کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر تحریری فیصلہ جاری کردیا، نیب عدالت نے ملزموں کو 42لاکھ روپے کی کرپشن کا الزام ثابت ہونے پر5 سال قید اور21لاکھ روپے فی کس جرمانے کی سزاسنائی تھی۔
عدالت عظمیٰ نے نیب عدالت اورہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے قرار دیا کہ ان ملزمان نے سرکاری عہدوں پر رہتے ہوئے ملک وقوم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی، اس لیے ان کے ساتھ رعایت نہیں برتی جاسکتی، عالمگیریت (گلوبلائزیشن) کے اس دور میں ملکی آزادی کا انحصارمحفوظ معیشت پرہے، اس لیے ریاست کے وسیع تر مفاد میں عدالتوں کو سخت معیار اپنانا ہوگا۔ ماضی میں عدالتوں نے بدعنوانی جسے سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کے ساتھ نرم رویہ روا رکھا لیکن اب جبکہ کرپشن بڑے پیمانے پرایک منظم انداز میں ملکی معیشت کی جڑیں کاٹ رہی ہے اورفری فارآل (کرپشن سب کیلیے) ہوچکی ہے اس لیے عدالت عظمیٰ کی پہلی ذمے داری ہے کہ اس برائی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے کیونکہ یہ ریاست کے وجود کیلیے سنگین خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ بڑے پیمانے پرکرپشن کی وجہ سے غریب غریب تر ہورہا ہے، اور غربا پینے کا صاف پانی حاصل کرنے اور آئین کے تحت حاصل ہونے والے باعزت زندگی کے حق سے بھی محروم ہیں، کروڑوں بچے اس وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں کیونکہ ان کے والدین اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔ یہی صورتحال صحت سمیت دیگر شعبوں میں ہے، لاکھوں قربانیاں دے کر آزادی اس لیے حاصل کی گئی تھی تاکہ فلاحی ریاست میں بسنے والے تمام شہری آئین کے مطابق باعزت طریقے سے زندگی گزارسکیں تاہم قوم ابھی تک انتظارمیں ہے کہ فلاحی ریاست کاخواب کب پورا ہوگا، اگراب بھی بڑے پیمانے پرہونے والی کرپشن پرچشم پوشی کی تو ہم کبھی کشکول نہیں توڑسکیں گے۔
4 صٖفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس دوست محمد نے تحریر کیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ اس کی کاپیاں تمام ہائیکورٹس کے رجسٹرارز، انسداد بدعنوانی کی وفاقی وصوبائی عدالتوں کے ججوں، چیئرمین نیب، ڈی جی ایف آئی اے، ڈی جیز وڈائریکٹر اینٹی کرپشن کوبھجوائی جائیں۔
جسٹس دوست محمد کی سربراہی میں جسٹس فائز عیسیٰ اورجسٹس مقبول باقر پر مشتمل فل بینچ نے ڈیرہ مراد جمالی میں مارکیٹ کمیٹی کے ملازمین سہراب مری اورخدا بخش کی کرپشن کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر تحریری فیصلہ جاری کردیا، نیب عدالت نے ملزموں کو 42لاکھ روپے کی کرپشن کا الزام ثابت ہونے پر5 سال قید اور21لاکھ روپے فی کس جرمانے کی سزاسنائی تھی۔
عدالت عظمیٰ نے نیب عدالت اورہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے قرار دیا کہ ان ملزمان نے سرکاری عہدوں پر رہتے ہوئے ملک وقوم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی، اس لیے ان کے ساتھ رعایت نہیں برتی جاسکتی، عالمگیریت (گلوبلائزیشن) کے اس دور میں ملکی آزادی کا انحصارمحفوظ معیشت پرہے، اس لیے ریاست کے وسیع تر مفاد میں عدالتوں کو سخت معیار اپنانا ہوگا۔ ماضی میں عدالتوں نے بدعنوانی جسے سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کے ساتھ نرم رویہ روا رکھا لیکن اب جبکہ کرپشن بڑے پیمانے پرایک منظم انداز میں ملکی معیشت کی جڑیں کاٹ رہی ہے اورفری فارآل (کرپشن سب کیلیے) ہوچکی ہے اس لیے عدالت عظمیٰ کی پہلی ذمے داری ہے کہ اس برائی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے کیونکہ یہ ریاست کے وجود کیلیے سنگین خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ بڑے پیمانے پرکرپشن کی وجہ سے غریب غریب تر ہورہا ہے، اور غربا پینے کا صاف پانی حاصل کرنے اور آئین کے تحت حاصل ہونے والے باعزت زندگی کے حق سے بھی محروم ہیں، کروڑوں بچے اس وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں کیونکہ ان کے والدین اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔ یہی صورتحال صحت سمیت دیگر شعبوں میں ہے، لاکھوں قربانیاں دے کر آزادی اس لیے حاصل کی گئی تھی تاکہ فلاحی ریاست میں بسنے والے تمام شہری آئین کے مطابق باعزت طریقے سے زندگی گزارسکیں تاہم قوم ابھی تک انتظارمیں ہے کہ فلاحی ریاست کاخواب کب پورا ہوگا، اگراب بھی بڑے پیمانے پرہونے والی کرپشن پرچشم پوشی کی تو ہم کبھی کشکول نہیں توڑسکیں گے۔
4 صٖفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس دوست محمد نے تحریر کیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ اس کی کاپیاں تمام ہائیکورٹس کے رجسٹرارز، انسداد بدعنوانی کی وفاقی وصوبائی عدالتوں کے ججوں، چیئرمین نیب، ڈی جی ایف آئی اے، ڈی جیز وڈائریکٹر اینٹی کرپشن کوبھجوائی جائیں۔