گرفتار ملزم سراج تالپور سرکاری گواہ بننے کیلیے تیار
والد کے صلح کرانے کے باوجود شاہ رخ جتوئی نے شاہ زیب کی کار کا تعاقب کیا، فائرنگ کے بعد گاڑی الٹ گئی ،بیان
شاہ زیب قتل کیس میں اندرون سندھ سے گرفتارنامزدملزم نواب سراج عزیز تالپور نے حکومت کوسرکاری گواہ بننے کی پیشکش کردی ہے اورکہا ہے کہ شاہ زیب کوگولیاں شاہ رخ نے ماری تھیں۔
مقتول نے ملازم کو تھپڑماراتھا،پولیس نے چھاپے مارمارکرہمارے لیے زمین تنگ کر دی تھی ،شاہ زیب کی ہلاکت کی25دسمبرکواطلاع ملی تھی اس کے بعدسے سکون کی نیندنہیں سو سکا۔یہ بات ملزم نے اسپیشل انویسٹی گیشن پولیس کواپنے بیان میں بتائی۔پولیس نے مرکزی ملزم شاہ رخ کے والدسکندر جتوئی کو بیٹے کے مالی مدداوراس کی معاونت کرنے کے الزام میں شاہ زیب قتل کے مقدمے میں جرم دفعہ 109 میں نامزد کردیاہے۔
اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کے ڈی ایس پی اصغر عثمان اورپولیس پارٹی کے ہاتھوں شاہ زیب کے قتل کے مقدمے میں اندرون سندھ موروسے گرفتارکیے جانے والے ملزم نواب سراج عزیزتالپور نے پولیس کو اپنے18صفحاتی بیان میں بتایاکہ24 اگست کی شب شاہ زیب اوراس کی بہن کسی تقریب سے گھرآئے تھے،شاہ زیب اپنی کارپارکنگ میں کھڑی کرنے چلاگیااوراس کی بہن اپنے گھرچلی گئی۔
رات دیر سے اکیلی لڑکی کو آتادیکھ کراس کے پڑوسی نواب سکندرجتوئی کے ملازم غلام مرتضیٰ لاشاری نے اس سے پوچھاکہ اتنی رات کوکہاں سے اورکس کے ساتھ آرہی ہوجس پروہ غصہ ہوگئی اسی دوران شاہ زیب بھی وہاں پہنچ گیااوراپنی بہن کومرتضیٰ لاشاری پرغصہ ہوتادیکھ کر اس نے کچھ پوچھنے کے بجائے مرتضیٰ کو ایک تھپڑمار دیاجس کے بعدمرتضیٰ اورشاہ زیب دونوں فلیٹ سے نیچے آگئے تھے جہاں شاہ رخ جتوئی سے اس کے ملازم نے شکایت کی جس پرشاہ زیب اورشاہ رخ میں تلخ کلامی ہوگئی۔
اسی دوران شاہ زیب کے والدڈی ایس پی اورنگزیب بھی پہنچ گئے اورانھوں نے دونوں میں صلح کرادی جس کے بعدشاہ زیب اپنی گاڑی نکال کربڑی تیزی میں باہرنکلا اسے غصے میں دیکھ کرشاہ رخ نے مجھ سے گاڑی نکالنے کوکہااورگاڑی شاہ زیب کی گاڑی کے پیچھے لگادی کچھ دورجا کرشاہ رخ نے اپنے پستول سے شاہ زیب کی گاڑی پر2فائرکیے جس میں سے ایک گولی اس کے بازومیں لگی جبکہ دوسری گولی کہاں لگی اسے نہیںمعلوم،فائرنگ کے بعدشاہ زیب کی گاڑی الٹ گئی جس پرہم لوگ گھبراگئے تاہم شاہ رخ نے کہاکہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے میں سب کچھ سمبھال لوں گا۔
گرفتار ملزم نواب سراج عزیز تالپور نے اپنے بیان میں انکشاف کیاکہ واقعے کے بعد وہ لوگ ڈیفنس میں شاہ رخ جتوئی کے بنگلے پرچلے گئے رات وہاں گزاری اس کے بعداپنے اپنے گاؤں چلے گئے ، 25جنوری کو ٹی وے دیکھاتواس پر شاہ زیب کی نماز جنازہ پڑھائی جا رہی تھی جس پراوسان خطا ہو گئے،اس سے پہلے نہیں معلوم تھاکہ شاہ زیب ہلاک ہو چکاہے،گرفتار ملزم نے بتایا کہ شاہ زیب کی ہلاکت کے بعدسے اسے گرفتاری تک سکون کی نیندنہیں آئی،ہروقت بے سکونی سے کیفیت تھی،ہروقت اﷲ کو یاد کر کے روتا رہتا تھا۔
گرفتار ملزم سراج عزیز تالپور نے اپنے بیان میں بتایاکہ واقعے کے2 روزبعد اس نے شاہ رخ سے موبائل فون پر رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ ملک سے باہر جا رہاہے لیکن تم فکر نہیں کرنامیں نے تمھارا انتظام کر دیاہے لیکن اس کے بعد پولیس نے چھاپے مارنا شروع کر دیے ،جہاں بھی جا کر چھپتا تھا پولیس وہاں پہنچ جاتی تھی ایسا لگتا تھا کہ میرے لیے زمین تنگ ہو گئی ہے،کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کہاں جاؤں،آخرکارخود کو پولیس کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کر لیا،سرکاری گواہ بننا چاہتا اور عدالت میں پوری حقیقت بتانے کوتیارہوں ۔
مقتول نے ملازم کو تھپڑماراتھا،پولیس نے چھاپے مارمارکرہمارے لیے زمین تنگ کر دی تھی ،شاہ زیب کی ہلاکت کی25دسمبرکواطلاع ملی تھی اس کے بعدسے سکون کی نیندنہیں سو سکا۔یہ بات ملزم نے اسپیشل انویسٹی گیشن پولیس کواپنے بیان میں بتائی۔پولیس نے مرکزی ملزم شاہ رخ کے والدسکندر جتوئی کو بیٹے کے مالی مدداوراس کی معاونت کرنے کے الزام میں شاہ زیب قتل کے مقدمے میں جرم دفعہ 109 میں نامزد کردیاہے۔
اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کے ڈی ایس پی اصغر عثمان اورپولیس پارٹی کے ہاتھوں شاہ زیب کے قتل کے مقدمے میں اندرون سندھ موروسے گرفتارکیے جانے والے ملزم نواب سراج عزیزتالپور نے پولیس کو اپنے18صفحاتی بیان میں بتایاکہ24 اگست کی شب شاہ زیب اوراس کی بہن کسی تقریب سے گھرآئے تھے،شاہ زیب اپنی کارپارکنگ میں کھڑی کرنے چلاگیااوراس کی بہن اپنے گھرچلی گئی۔
رات دیر سے اکیلی لڑکی کو آتادیکھ کراس کے پڑوسی نواب سکندرجتوئی کے ملازم غلام مرتضیٰ لاشاری نے اس سے پوچھاکہ اتنی رات کوکہاں سے اورکس کے ساتھ آرہی ہوجس پروہ غصہ ہوگئی اسی دوران شاہ زیب بھی وہاں پہنچ گیااوراپنی بہن کومرتضیٰ لاشاری پرغصہ ہوتادیکھ کر اس نے کچھ پوچھنے کے بجائے مرتضیٰ کو ایک تھپڑمار دیاجس کے بعدمرتضیٰ اورشاہ زیب دونوں فلیٹ سے نیچے آگئے تھے جہاں شاہ رخ جتوئی سے اس کے ملازم نے شکایت کی جس پرشاہ زیب اورشاہ رخ میں تلخ کلامی ہوگئی۔
اسی دوران شاہ زیب کے والدڈی ایس پی اورنگزیب بھی پہنچ گئے اورانھوں نے دونوں میں صلح کرادی جس کے بعدشاہ زیب اپنی گاڑی نکال کربڑی تیزی میں باہرنکلا اسے غصے میں دیکھ کرشاہ رخ نے مجھ سے گاڑی نکالنے کوکہااورگاڑی شاہ زیب کی گاڑی کے پیچھے لگادی کچھ دورجا کرشاہ رخ نے اپنے پستول سے شاہ زیب کی گاڑی پر2فائرکیے جس میں سے ایک گولی اس کے بازومیں لگی جبکہ دوسری گولی کہاں لگی اسے نہیںمعلوم،فائرنگ کے بعدشاہ زیب کی گاڑی الٹ گئی جس پرہم لوگ گھبراگئے تاہم شاہ رخ نے کہاکہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے میں سب کچھ سمبھال لوں گا۔
گرفتار ملزم نواب سراج عزیز تالپور نے اپنے بیان میں انکشاف کیاکہ واقعے کے بعد وہ لوگ ڈیفنس میں شاہ رخ جتوئی کے بنگلے پرچلے گئے رات وہاں گزاری اس کے بعداپنے اپنے گاؤں چلے گئے ، 25جنوری کو ٹی وے دیکھاتواس پر شاہ زیب کی نماز جنازہ پڑھائی جا رہی تھی جس پراوسان خطا ہو گئے،اس سے پہلے نہیں معلوم تھاکہ شاہ زیب ہلاک ہو چکاہے،گرفتار ملزم نے بتایا کہ شاہ زیب کی ہلاکت کے بعدسے اسے گرفتاری تک سکون کی نیندنہیں آئی،ہروقت بے سکونی سے کیفیت تھی،ہروقت اﷲ کو یاد کر کے روتا رہتا تھا۔
گرفتار ملزم سراج عزیز تالپور نے اپنے بیان میں بتایاکہ واقعے کے2 روزبعد اس نے شاہ رخ سے موبائل فون پر رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ ملک سے باہر جا رہاہے لیکن تم فکر نہیں کرنامیں نے تمھارا انتظام کر دیاہے لیکن اس کے بعد پولیس نے چھاپے مارنا شروع کر دیے ،جہاں بھی جا کر چھپتا تھا پولیس وہاں پہنچ جاتی تھی ایسا لگتا تھا کہ میرے لیے زمین تنگ ہو گئی ہے،کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کہاں جاؤں،آخرکارخود کو پولیس کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کر لیا،سرکاری گواہ بننا چاہتا اور عدالت میں پوری حقیقت بتانے کوتیارہوں ۔