پاکستانی ماں بولیوں کا ادبی میلہ
کل 21 فروری تھی اور یونیسکو نے اب سے 18 برس پہلے ماں بولیوں کا جشن منانے کی جوریت ڈالی تھی۔
یہ میرے بچپن کی بات ہے جب ہمارے آس پاس کئی گجراتی خاندان رہتے تھے اور ان کے بزرگ بہت انہماک سے 'ملت' اور 'ڈان گجراتی' پڑھتے نظر آتے۔ ان کی لکھائی اردو، انگریزی اور سندھی سے قطعاً مختلف تھی، اس لیے ان کے بارے میں جاننے کا تجسس رہتا تھا۔ میری ایک سہیلی زلیخا کا سوبھائی کے گھر میں بھی گجراتی اخبار آتا تھا۔ آہستہ آہستہ دوسری دلچسپیاں بڑھیں اور گجراتی اخبار ذہن سے محو ہوگئے۔ اب یہ عالم ہے کہ گجراتی کے دونوں اخبار لبِ دم ہیں، گجراتی مشاعرے تو شاید دم توڑ چکے ہیں۔
ہندوستان میں ریاست گجرات کی سرکاری زبان گجراتی ہے لیکن پاکستان میں یہ ایک گم ہوتی ہوئی زبان ہے۔ یہ بانیٔ پاکستان کی مادری زبان تھی لیکن آج کے گجراتی نوجوانوں کی طرح وہ بھی صرف انگریزی سے ہی شغف رکھتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گاندھی جی کی مادری زبان بھی گجراتی تھی اور و ہ انگریزی کے ساتھ گجراتی بولتے تھے اور اس میں لکھتے بھی تھے۔
اب جب کبھی احساس ہوتا ہے کہ شاید گجراتی ہمارے درمیان سے اُٹھ جائے تو دکھ ہوتا ہے۔ اس کے نہ اب پڑھنے والے رہے ہیں اور نہ بولنے والے۔ نوجوان نسل کی توجہ انگریزی کی طرف ہے، اس لیے کہ انگریزی دنیا بھر میں سمجھی اور بولی جانے والی زبان ہے، یوں کہیے کہ سکہ رائج الوقت ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان خراب تعلقات نے گجراتی کو بہت نقصان پہنچایا۔ وہاں سے آنے والے رسالوں اور کتابوں کی آمد بند ہوگئی، اس کے ساتھ ہی گجراتی کا ہمارے یہاں دھڑن تختہ ہوگیا۔ خبریں آتی رہتی ہیں کہ دنیا کی بہت سی زبانیں مر رہی ہیں۔ ان زبانوں کا مرنا ایک ثقافت، رہن سہن، کھانوں اور جیتے جاگتے محاوروں کا دنیا سے گزر جانا ہے جو مرنے والی زبان کا ہی نہیں ہم سب کا نقصان ہے۔ یہ ایسا ہی جیسے جنگل سے پیڑ، پودے، پھول اور پھل کم ہونے لگیں۔
ماہرین کی زبان سے یہ سن کر کیسی دہشت ہوتی ہے کہ ہر 3 منٹ بعد دنیا میں بولی جانے والی ایک زبان ختم ہورہی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ دنیا کی تمام بولیاں اور زبانیں زندہ رہیں کہ یہ دنیا میں تنوع کی نشانی ہے۔ دنیا کی ہر ماں بولی کا اصل تعلق ماں سے ہے۔ بچہ جس آغوش میں آنکھ کھولتا ہے، اسی میں وہ ماں کو 'اُم' اور پانی کو 'مم' کہنا سیکھتا ہے۔ ماں اپنی بولی میں اسے لوری سناتی ہے اور یہ لوری اس کے کانوں میں 'چاند' 'نیند' 'پری' اور ایسے ہی لفظوں کا ذخیرہ بناتی ہے اور وہ انھیں اپنی یاد کے ابتدائی خزانے میں جمع کرتا جاتا ہے۔ ماں بولی اسے خوشی اور دکھ سے آشنا کرتی ہے، اسے ہنسنا اور رونا سکھاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے بڑے بوڑھے ہوں یا دنیا بھر کے ماہرین تعلیم، وہ بچوں کو انگریزی، اردو یا کسی بھی غیر مادری زبان میں رٹو طوطا بنانے کے بجائے اس پر اصرار کرتے ہیں کہ گھروں میں بچوں سے ان کی ماں بولی میں بات کی جائے او ر ابتدائی تعلیم بھی مادری زبان میں دی جائے تاکہ جس بارے میں انھیں بتایا جارہا ہے یا پڑھایا جارہا ہے، وہ ان کے ذہن میں نقش ہوجائے اور انھیں اس بارے میں سمجھنے میں کوئی مشکل نہ ہو۔
کل 21 فروری تھی اور یونیسکو نے اب سے 18 برس پہلے ماں بولیوں کا جشن منانے کی جوریت ڈالی تھی۔ اس کی پیروی کرتے ہوئے بہت سے دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی یہ دن منایا جانے لگا ہے۔ 18 اور 19 فروری 2017 کو اسلام آباد میں پاکستان کی مادری زبانوں کا ادبی میلہ منایا گیا۔ لوک ورثہ میں سجنے والا یہ میلہ انڈس کلچر فورم، ایس پی او، اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن، ریڈیو پاکستان اور آلٹرنیٹو میڈیا کے اشتراک سے منعقد ہوا۔ لوک ورثہ کی ڈاکٹر فوزیہ سعید، انڈس کلچر فورم کے نیاز ندیم، نصرت زہرا اور ایس پی او کے نصیر میمن نے پاکستانی زبانوں کا ادبی میلہ شان سے آراستہ کیا۔
اس میلے میں شریک ہونے والے بے ساختگی سے بے دھڑک باتیں کررہے تھے۔ پاکستان متنوع زبانوں، بولیوں اور ثقافتوں کا مجموعہ ہے، اس کا یہ تنوع ہمیں یقین دلارہا تھا کہ اگر لوگوں پر دوسروں کی زبانیں اور ثقافتیں تھوپی نہ جائیں تو مختلف زبانوں کے درمیان تناؤ پیدا نہ ہو۔ سندھی، پنجابی، سرائیکی، پشتو اور ہندکو کے علاوہ بروشسکی، ہزارگی، بلتی، پہاڑی، کھوار، شینا، براہوی، بلوچی، ڈھاٹکی اور دوسری پاکستانی زبانوں کے ادیب اس میلے میں موجود تھے۔ کوئی اپنی شاعری کا مجموعہ اور کوئی کہانیوں کی کتاب ساتھ لایا تھا اور کسی کے ہاتھ میں بروشسکی۔ اردو لغت تھی۔ مشاعرے میں بھی بہت سی زبانوں کی شرکت تھی۔ سب کے دکھ سکھ سانجھے تھے۔ اس کے ساتھ ہی گلے شکوے بھی تھے کہ ان کی زبانوں کو سرکاری طور پر قومی حیثیت نہیں دی گئی۔
یہ شکوے بجا تھے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنے کی بات تھی کہ جن زبانوں کے بولنے والوں نے جی جان سے محنت کی، وہ حالات سازگار نہ ہونے کے باوجود آگے بڑھیں، ان میں سب سے سامنے کی مثال سندھی کی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد سندھی کو کئی سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے بزرگ دانشوروں اور نوجوانوں نے اس کے تحفظ اور اس کی ترقی کے لیے لگن سے کام کیا۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ سندھی ایک ترقی یافتہ زبان ہے۔ سندھی یا پاکستان میں بولی جانے والی دوسری زبانوں کا یہ مطالبہ بجا ہے کہ انھیں قومی درجہ دیا جائے اور ان کے ساتھ ہی انھیں مناسب رقم بھی فراہم کی جائے تاکہ ان کی ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
لوک ورثہ میں ہونے والے زبانوں کے ادبی میلے کے تنوع اور رنگا رنگی سے اندازہ ہوتا تھا کہ ذرا نم ہوتو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی، یک رنگی فطرت کا مزاج نہیں، اگر صرف پتوں کے سبز رنگ پر نگاہ ڈالیے تو یقین نہیں آتا کہ ایک ہی سبز رنگ کے اتنے شیڈ ہوسکتے ہیں۔ اگر ذرا پیچھے رہ جانے والی زبانوں کی پذیرائی کی جائے اور ملک میں بولی جانے والی نسبتاً زیادہ دائرہ اثر رکھنے والی زبانیں ڈھاڈ کی، پوٹھوہاری، گوجری، بلتی، کھوار اور دوسری زبانوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلیں تو ہمارا سماج زیادہ روادار وسیع المشرب بن سکے گا۔
ہم نے اگر وسیع القلبی اور کشادہ ذہنی سے کام لیا ہوتا تو نہ مشرقی بنگال ہم سے الگ ہوتا اور نہ دوسری زبانوں کو ایک دوسرے سے ناراضگی کا موقع ملتا۔ اسکولوں میں ابتدائی تعلیم بچوں کو ان کی مادری زبان میں دی جائے تو ان کے ذہن کی بہت سی گرہیں کھل سکتی ہیں۔ ہم انتہا پسندی اور جنون کے جس گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں، اس سے نکلنے میں مختلف زبانوں کا ادب اور صوفیا کا کلام ہماری دست گیری کو آتا ہے۔
ایک کم عمر بچے کے ذہن پر نفرت کا زہر اس وقت اثر انداز نہیں ہوسکتا اگر اس نے اپنی مادری زبانوں میں انسان دوست شاعروں کا کلام پڑھا اور سنا ہو۔ اس نے بابا فرید ؒ اور باہوؒ کا کلام پڑھا ہو، شاہ لطیفؒ اور سچل سرمستؒ کی شاعری اس کی آنکھوں اور کانوں تک پہنچی ہو، تو وہ کس طرح انسانوں کی گردنیں کاٹ دینے یا انھیں بارود سے اڑا دینے کو درست سمجھ سکتا ہے۔
حضرت سچل سرمستؒ یوں تو ہفت زبان تھے لیکن سرائیکی، سندھی، پنجابی، فارسی اور اردو میں ہمیں ان کا صوفیانہ کلام ملتا ہے۔ پانچ زبانوں میں شاعری کرنے والے سچل کے معتقد کسی بھی زبان سے نفرت کیسے کرسکتے ہیں۔ سچل کے مریدوں میں ہندو، بودھ اور عیسائی بھی ہوتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سچو سائیں کے یہاں نام و نسب کی پوچھ نہیں اور کسی بھی مذہب یا مسلک کا ماننے والا ان کے لیے غیر نہیں۔ بھٹائی اور ہمارے دوسرے صوفی شعرا کا کلام اگر ہمارے نوخیز ذہنوں تک پہنچے تو ان کے اندر ترقی پسند اور متنوع خیالات کی پرورش کیوں نہ ہوگی؟
ہمارے تمام صوفیا سخت گیر اور دلوں کو کاٹنے اور انسان کو بانٹنے والے رویوں کی مزاحمت کرتے تھے۔ وہ محبت، رواداری اور تحمل کی بات کرتے تھے۔ وہ یہ کہتے تھے کہ اپنے اندر کے انسان کو ڈھونڈو، صرف اللہ اللہ کا ورد کرنے سے تمہارا دل موم کی طرح نرم نہیں ہوگا۔
سچل کا کہنا تھا کہ میں نہ تسبیح کے دانے گنتا ہوں، نہ نمازیں پڑھتا ہوں، نہ میں مسجد گیا، نہ مندر، نہ میں نے سر جھکایا۔ اسی طرح ان کا کہنا تھا کہ میں عشق کے اندر سانس لیتا ہوں۔ تمہارے پاس اگر عشق آجائے تو اسے اختیار کرو اور آمین کہو۔ سچل سرمستؒ ہوں، بھٹائی ؒ اور محمد بخشؒ ہوں یا بلھے شاہؒ اور بابا فرید ؒ ہوں، ان کے علاوہ ہمارے دوسرے بہت سے صوفیا ہیں۔ ان کا کلام ، ان کی زندگی بچوں کی اپنی اپنی ماں بولی میں ان تک ابتدا سے پہنچے تو یہ بہت مشکل ہے کہ ان کے ذہن میں شیطان کی رسائی ہو۔
پاکستانی زبانوں کا یہ میلہ چوڑے پاٹ والے دریا کی طرح تھا جو دلوں کو سیراب کررہا تھا اور بہت سی کدورتوں کو دھو رہا تھا۔ نفرت آمیز اور اشتعال انگیز باتوں کو رواداری او رمتنوع خیالات سے ہی پسپا کیا جاسکتا ہے اور ہماری ماں بولیوں میں ان خیالات کی کوئی کمی نہیں، ہمیں تو بس یہ کرنا ہے کہ ہم اپنے دلوں پر پڑے ہوئے زنگ آلود قفل کو انسان دوستی اور وسیع المشربی کی کلید سے کھولیں اور اپنے دلوں کو رواداری کے پانی سے دھوئیں۔