خود کو دانشور پوز کرنے سے توبہ
تجارت میں بھی ہم صفر ہیں کہ آج تک نہ کسی چیز کے خریدنے کے قابل ہوئے اور نہ کسی ’’چیز‘‘کو بیچا ہے۔
یہ تو ہم سنتے آئے ہیں کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے ''کاموں'' میں، لیکن یہ بالکل بھی پتہ نہیں تھا کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے ''کالموں'' میں بھی، پتہ نہیں دوسرے کالم نگاروں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے یا نہیں لیکن ہمارے ساتھ تو ہوتا ہے اور بہت بلکہ بہت زیادہ ہوتا رہتا ہے، ہم یونہی از راہ تفنن کوئی ''شرشرہ'' یا ہوائی چھوڑ دیتے ہیں اور یار لوگ اسے سنجیدگی سے لے لیتے ہیں۔
بعض اوقات تو اتنی سنجیدگی سے کہ ہمیں رنجیدگی کا سامنا پڑ جاتا ہے اب ہم نے کچھ دنوں پہلے محض خود کو ذرا ''فاضل'' پوز کرنے کے لیے کہ خلق خدا کہیں ہمیں بالکل ہی فضول سمجھ کر فضلاء میں شمار نہ کرنے لگے یہ کہا تھا کہ ۔ لیکن ہم نے اپنا کہا بھی نہیں کہا تھا بلکہ فلپ حتیٰ کا کہا ہوا نقل کیا تھا کہ وسطیٰ ایشیاء کی سرزمین کو علمائے بشریات نے جوف الارض یا رحم مادر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مقام سے ہر ہزار نو سو سال کے بعد انسانوں کی ایک یلغار نکلتی رہی ہے جس کی آخری یلغار چنگیز خان کے منگولوں کی صورت میں تھی اور ساتھ ہی یونہی کچھ یاجوجوں ماجوجوں کا ذکر بھی کر دیا تھا اور اپنی طرف سے محض ایک چھوٹا سا سوال کیا تھا کہ چنگیز خانی یلغار کو تقریباً نو سو سال ہونے والے ہیں۔
بس جناب ہم نے تو جیسے بھڑوں کے چھتے کو ڈھیلا مار دیا ہو یا کسی کی بھینس کو ڈنڈا مارا ہو، یہاں وہاں سے ہماری کلاس لی جانے لگی ہے کہ اگر نو سو سال ہونے کو ہیں تو اگلی یلغارکون سی ہے اور یہ کہ یاجوج ماجوج بھی نکلیں گے یا نہیں، بھئی ہم کیا جانیں نہ تو ماجوجوں یاجوجوں سے ہمارا کوئی لین دین ہے نہ کوئی سفارتی، تجارتی یا ثقافتی تعلقات ہیں یہ تو ان لوگوں سے جا کر پوچھئے جو ''تعلقات'' کے لائق ہیں ہمارا تو آج تک اپنے ساتھ کوئی مضبوط تعلق نہیں بن پایا ہے تو دوسروں کے ساتھ کیا بنائیں گے؟
تجارت میں بھی ہم صفر ہیں کہ آج تک نہ کسی چیز کے خریدنے کے قابل ہوئے اور نہ کسی ''چیز''کو بیچا ہے، بیچنے کے لیے ہمارا تھا ہی کیا سوائے اندرونی اعضائے رئیسہ یعنی دل گردوں یا ضمیر وغیرہ کے ۔ اور وہ قابل فروخت ہیں ہی نہیں اگر کبھی غلطی سے کچھ پاس آیا بھی تو خریدنے کے بجائے لوگوں نے لوٹ لیا اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو بھیک میں مانگ لیا۔
مطلب یہ کہ یاجوجوں ماجوجوں کے بارے میں ہم کیا بتا سکتے ہیں اگر بتا سکتے ہیں تو وہی لوگ جن کا ''ان'' کے ہاں آنا جانا لگا رہتا ہے، جہاں تک چھٹی یلغار کا تعلق ہے جس کا ٹائم ہو چکا ہے اس کے بارے میں اس لیے کچھ بتا نہیں سکتے کہ اس دنیا میں آج کل جو ہوتا ہے وہ نہیں ہوتا اور جو نہیں ہوتا وہی ہوتا ہے یا بقول چشم گل چشم، جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں، خیر یہ تو پھر بھی ایسی باتیں ہیں جن کے بارے میں ہم انٹ شنٹ کچھ بول سکتے ہیں لیکن ایک دو صاحبان تو بالکل سیریس ہو گئے ہیں۔
ایک نے پوچھا ہے کہ یاجوج ماجوج کے ساتھ تو دجال کو بھی آنا تھا اور دوسرے نے خود ہی فتویٰ دے دیا ہے کہ پھر تو مہدی ؑ آخر زمان بھی اترنے والے ہوں گے، کمال ہے ہم نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا تھا کہ آنے والے زمانے میں کیا ہونے والا ہے یا ہو گا ہم نے تو صرف فلپ حتی کو فالو کرتے ہوئے اتنا پوچھا تھا کہ وقت تو اب ہوا چاہتا ہے چھٹی یلغار کا ۔ بس اس سے زیادہ ایک لفظ بھی کہا ہو تو جو سزا فلپ حتی کی وہ ہماری بھی۔ ویسے یہ جو مسٹر دجال یا جو کچھ بھی ہے اسے ہم نے کہیں نہ کہیں تو دیکھا ہے یا شاید ہمیں غلطی لگی ہو وہ دجال کی طرح دکھنے والا کوئی اور ہو لیکن کبھی کبھی ہم نے محسوس ایسا کیا ہے لیکن اس طرح تو ہم اور بھی بہت کچھ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں سب کچھ سچ تھوڑی ہوتا ہے۔
ویسے دجال کے بارے میں ہم نے کسی سے سنا تھا کہ اس کا ایک کان مغرب میں ہو گا اور دوسرا مشرق میں۔ کہیں یہ اشارہ موبائل فون کی طرف تو نہیں لیکن ایسا نہیں لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے موبائل فون تو بڑے کام کی چیز ہے یقین نہ ہو تو جا کر کسی بھی موبائل کمپنی کے دفاتر یا ملازمین کو دیکھ لیجیے سب کے سب عیش ہی عیش ہیں، البتہ تھوڑا شبہ اس بات پر ہوتا ہے کہ موبائل میں کیمرہ بھی ہوتا ہے اور دجال کی بھی ایک آنکھ بتائی جاتی ہے اور اگر کوئی اچھا سا تجزیہ نگار مل جائے تو اس سے دونوں یعنی دجال کی آنکھ اور کیمرے کا تجزیہ کروایئے ممکن ہے کوئی رشتہ نکل ہی آئے۔
ہم تو کچھ بھی نہیں جانتے نہ چھٹی یلغار کے بارے میں اور نہ یاجوجوں ماجوجوں کے بارے میں، اور حضرت مہدی آخر زمان کے بارے میں تو ہم منہ پر ابھی سے ٹیپ لگا ہی دیتے ہیں کیوں کہ اس عہدے کے دعویدار بہت زیادہ ہیں، بہرحال آج سے ہماری توبہ کہ پھر کبھی خود کو دانا پوز کرنے کی غلطی نہیں کریں گے ہمیں کیا اگر چھٹی یلغار ہوتی ہے تو ہم سے کیا لے لے گی،صفا چٹ میدان سے آندھی کیا لے کر جائے گی فکر تو ان کو کرنا چاہیے جو بہت کچھ اپنے سامنے ڈھیر کیے بیٹھے ہیں ہماری تو ایک چٹائی اور ایک تکیہ ہے بغل میں دبا کر یہاں نہیں وہاں ۔۔۔۔ ملک خدا تنگ نیست، پائے گدا لنگ نیست۔