نیب گزشتہ روز ہمارے سامنے وفات پا گیا سپریم کورٹ
سپریم کورٹ سے نہ کوئی تعاون کررہا ہے اور نہ معلومات فراہم کی جا رہی ہیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ
سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ نیب گزشتہ روز ہمارے سامنے وفات پا گیا کیونکہ اگر حدیبیہ پیپرز کیس میں الزامات غلط تھے تو اس کیس سے کیوں کترا رہے ہیں اور اگر کیس میں الزامات درست ہیں تو اس کیس کو دفن کیوں کیا گیا۔
سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی، سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت نے گزشتہ روز اپیل دائر کرنے کے حوالے سے سوال پوچھا تھا، حدیبیہ پیپر ملز اور پاناما کیس کی نوعیت میں فرق ہے، حدیبیہ پیپرز ملز کیس کو پاناما لیکس کے معاملے سے منسلک نہ کیا جائے، انہوں نے کیس کے ریکارڈ کا جائزہ لیا ہے، اس میں فارن کرنسی اکاوٴنٹس پر قرض لیا گیا تھا۔ جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ آپ بطور اٹارنی جنرل دلائل دیں فریق نہ بنیں، اٹارنی جنرل اور تمام وکلا ء عدالت پر رحم کریں، ہر وکیل الگ بات کر کے پریشان کر دیتا ہے، اگر کوئی اسٹوری بنائی بھی ہے تو اس پر قائم رہیں، پہلے بتایا گیا کہ قطری کے پاس انوسٹمنٹ کی گئی تھی، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کیس میں فریق نہیں بلکہ عدالت کی معاونت کر رہا ہوں۔
جسٹس عظمت سعید شیخ ریمارکس دیئے کہ نیب گزشتہ روز ہمارے سامنے وفات پا گیا کیونکہ اگر حدیبیہ پیپرز کیس میں الزامات غلط تھے تو اس کیس سے کیوں کترا رہے ہیں اور اگر کیس میں الزامات درست ہیں تو اس کیس کو دفن کیوں کیا گیا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ایک خاندان نے کرپشن بچانے کے لیے ادارے تباہ کر دیے، عمران خان
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ حدیبیہ کیس میں ریاست مدعی تھی اور آپ ریاست کی نمائندگی کر رہے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا کام عدالت کے سامنے حقائق لانا ہے، میں وفاق کی وکالت نہیں، عدالت کی معاونت کر رہا ہوں، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جانتے ہیں کہ آپ مشکلات کا شکار ہیں، آپ اعلیٰ پائے کے وکیل ہیں، آپ سے ویسی ہی معاونت کی توقع ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے سامنے ریکارڈ کے مطابق حقائق پیش کر رہاہوں،عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کوئی بھی کر سکتا تھا جس پر جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ اپیل کا حق متاثرہ فریق کو ہی ہوتا ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آئین میں ایسی کوئی بات نہیں تاہم درخواست گزار کو بتانا ہوتا ہے کہ کس بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی۔
جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس میں کہا کہ یہ جاننا ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ ان کا وزیر اعظم اہل ہے یا نہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ نوازشریف کی بطور وزیراعظم نہیں رکن اسمبلی اہلیت کا ہے۔ جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ عدالت نے 3 نومبر 2016 کو درخواستیں قابل سماعت قرار دی تھیں لہذا عدالت عوامی مفاد کا معاملہ ہونے کا فیصلہ پہلے ہی کرچکی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ حکم نہ دے اپیل دائر کرنے کے بہت سے راستے ہیں، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ معاونت کریں کہ عدالت کس حد تک جا سکتی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت نا اہلی کےلیے ریفرنس اسپیکر کو بھیجا جا سکتا ہے اوراسپیکر سے فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں ہی کسی اور فورم پر جا سکتا ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کو ہمیشہ پاکستان کو مضبوط کرنے کی سزا دی گئی، سعد رفیق
جسٹس عظمت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دیگر ادارے اپنا کام نہ کر رہے ہوں تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے، نعیم بخاری نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ یوسف رضاگیلانی کیس میں عدالت نے نا صرف ایکشن لیا بلکہ ان کو گھر بھی بھیجا، اگرچہ 65 ملین ڈالرز واپس نہیں آئے لیکن وزیراعظم گھر چلے گئے جس پر اٹارنی جنرل بولے کہ آئین کا آرٹیکل 63 ڈیکلیریشن دینے کی اجازت نہیں دیتا۔
جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ مطلب اپیل دائر کرنے کا کہا تو سپریم کورٹ کی غیر جانبداری متاثر ہوگی جب کہ جسٹس عظمت کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا بنیادی حق یہ ہے کہ عوام پر ان کے منتخب نمائندے حکومت کریں جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ صرف وزیراعظم کا نہیں ہر پارلیمانی رکن کا معاملہ ہے، جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بنیادی حقوق معاملہ سے آگے بڑھیں کیونکہ قابل سماعت کا فیصلہ ہو چکا، درخواست گزار وزیراعظم کی نا اہلی کے لیے آیا ہے، وزیراعظم رکن اسمبلی بھی ہوں تو مسئلہ کیا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اب سوال یہ ہے کہ ہم کہاں تک جا سکتے ہیں اور کہاں نہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے اسپیکر کے پاس جائیں پھر الیکشن کمیشن موجود ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : سپریم کورٹ نے سماعت جمعرات تک مکمل کرنے کا عندیہ دے دیا
جسٹس عظمت نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک وزیراعظم کو گھر بھیجا جس کا فیصلہ موجود ہے جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ 65 ملین ڈالرز نہیں آئے لیکن وزیراعظم گھر چلے گئے، نعیم بخاری کے جواب پر جسٹس عظمت نے ریمارکس دیے کہ وہ تو آپ نے لے کر آنے تھے آپ گئے ہی نہیں۔
سپریم کورٹ میں وقفہ کے بعد پاناما کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس عظمت نے استفسار کیا کہ لگائے گئے الزام کو لیکر عدالت کہاں جائے،آپ بطور اٹارنی جنرل جواب دیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کچھ الزامات کو تسلیم کیا گیا اور دستاویزات بھی دی گئیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمارے اداروں کا وقار بیرون ملک مجروح کیا گیا۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ ادارے کام نہیں کریں گے تو ایسا تو ہوگا لہذا آپ اداروں میں ہی سوالوں کا جواب دے دیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے اداروں کو بہت مضبوط کیا جس پر جسٹس عظمت نے ریمارکس میں کہا کہ ہم جانتے ہیں آپ ہمارے سوالوں کا جواب دیں، ہم سیدھی طرح پوچھ رہے ہیں ان الزامات کو لیکر کہاں جائیں، سب کے دلائل سنے لیکن صرف اس سوال کا جواب مانگ رہے ہیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: نوازشریف نے اداروں کواپنی باندی بنا رکھا ہے، تحریک انصاف
جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ ہم فیصلہ کریں یا اس سے کیسے نمٹیں جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت آئین کو مد نظر رکھے آرٹیکل 62 میں عوامی عہدے کا نہیں لکھا، ہر منتخب نمائندہ اثاثوں کی تفصیلات جمع کروانے کا پابند ہے تاہم اگر اثاثے چھپائے ہوں یا غلط بیانی کی ہو تو سیشن کورٹ میں مقدمہ ہوتا ہے جس میں 3 سال قید اور 5 ہزار جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں، اٹارنی جنرل کے جواب پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ درخواست گزار اور وزیر اعظم کے خلاف فوجداری مقدمہ کریں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم کو آئین کے تحت فوجداری مقدمہ میں استثنیٰ حاصل نہیں ہوتا لیکن کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کرنے والے کے خلاف فوجداری مقدمہ ہو سکتا ہے۔
جسٹس عظمت نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ درخواست گزار فوجداری شکایت داخل کرے جب کہ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ آپ آئین کا آرٹیکل 248 بھی پڑھ لیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 248 کے تحت صدر اور گورنرز کے خلاف فوجداری مقدمہ نہیں ہو سکتا لیکن آرٹیکل 248 کے استثنیٰ میں وزیراعظم شامل نہیں، سیشن کورٹ میں ٹرائل کرنا پڑے گا اور شہادتیں ریکارڈ کرنا ہوں گی، اٹارنی جنرل کے جواب پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ نیب کے جواب کے بعد وزیراعظم سے تفتیش کا پہلو زمین کے 6 فٹ نیچے دفن ہوگیا جب کہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ اگر ڈیکلریشن دے دیا گیا تو پھر تفتیش کے لیے کیا رہ جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کسی نے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اپیل دائر کی تو متاثرہ فریق نہ ہونے کا نقطہ نہیں اٹھاؤں گا اور اپیل کے حوالے سے بات بطور اٹارنی جنرل کر رہا ہوں جس پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ نا اہلی تو پانامہ کیس کا ایک پہلو ہے، نیب نے گزشتہ روز تحقیقات کا کہا تھا جب کہ وزیر اعظم کے لیے نیب انشورنس پالیسی تھی اور وزیر اعظم کا وہ دفاع کل دفن ہو گیا، جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ اصغر خان کیس میں عدالت نے ڈیکلیریشن دیا تھا اور کیس کا فوجداری حصہ تحقیقات کے لیے متعلقہ فورم کو بھجوایا گیا، جعلی ڈگری مقدمات بھی ڈیکلیریشن کے بعد ٹرائل کے لیے بھجوائے گئے اور اصغرخان کیس میں عدالت نے قرار دیا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی، فوجداری معاملے پر عدالت بغیر تحقیقات کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ کل چیئرمین نیب نے کہا میں نے کچھ نہیں کرنا جو کرنا ہے کرلو، مخدوم علی خان کے موکل کے پاس چیئرمین نیب کی مصدقہ انشورنس پالیسی ہے جب کہ اصغر خان کیس میں مقدمہ درج ہوا نہ کوئی تفتیش ہوئی۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کل چیئرمین نیب اور ایف بی آر نے جو کہا وہ ہمارے سامنے ہے، وہ کچھ کرنے کو تیار نہیں جب کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ سے نہ کوئی تعاون کررہا ہے اور نہ معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا سیشن جج ٹرائل میں یہ معاملہ حل کر لے گا، کون استغاثہ کرے گا اور کون شہادتیں لائے گا، چیئرمین نیب کے بیان کے بعد کیا یہ شخص کسی کا ٹریفک چالان بھی پکڑ سکتا ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے افتخار چیمہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ متعلقہ کیس میں ملزم کو جائیداد ظاہر نہ کرنے پر نا اہل قرار دیا گیا تھا، جائیداد بیشک حلال ذرائع سے بنائی ہوں ظاہر کرنا ضروری ہے۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے جوابی دلائل کا آغاز کیا جس میں انہوں نے کہا کہ 70 کی دہائی میں ہونے والے معاہدوں کے دستاویزات وزیراعظم نے نہیں ان کے بچوں نے پیش کیں، دبئی اسٹیل مل معاہدے کے وقت حسین نواز صرف 8 سال کے تھے جبکہ دبئی اسٹیل مل کی افتتاحی تقریب کی تصاویر میں نوازشریف موجود تھے، جسٹس کھوسہ نے سوال کیا کہ کیا وزیراعظم نے اپنے کسی جواب میں قطر کا ذکر کیا جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنی تقاریر میں نہ قطر کا ذکر کیا اورنہ ہی کسی معاہدے کا کہا۔
جسٹس اعجاالحسن نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم پر لازم تھا کہ تقریر میں سب کچھ بتا دیتے جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے ہیں ان کے بیان کی اہمیت ہونی چاہیئے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر بچوں کا جواب سنا سنایا ہے تو آپ کو کیسے سچ مان لیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وزیراعظم اور بچوں کی کہانی ایک نہیں، ایک صحیح تو دوسرا غلط ہوگا جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ میرا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے فلیٹ خریدنے کے موقف کو تسلیم کیا جائے۔
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ نعیم بخاری کے دلائل کے بعد شیخ رشید صاحب کو سنیں گے جس کے بعد عدالت نے وزیراعظم کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا جواب الجواب کے بعد آپ نے کوئی دلائل دینے ہیں جس پر وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالتی سوالات ہوئے تو جواب دوں گا۔ عدالت نے نعیم بخاری کو آج 11 بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت آج پھر ہوگی۔
سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی، سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت نے گزشتہ روز اپیل دائر کرنے کے حوالے سے سوال پوچھا تھا، حدیبیہ پیپر ملز اور پاناما کیس کی نوعیت میں فرق ہے، حدیبیہ پیپرز ملز کیس کو پاناما لیکس کے معاملے سے منسلک نہ کیا جائے، انہوں نے کیس کے ریکارڈ کا جائزہ لیا ہے، اس میں فارن کرنسی اکاوٴنٹس پر قرض لیا گیا تھا۔ جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ آپ بطور اٹارنی جنرل دلائل دیں فریق نہ بنیں، اٹارنی جنرل اور تمام وکلا ء عدالت پر رحم کریں، ہر وکیل الگ بات کر کے پریشان کر دیتا ہے، اگر کوئی اسٹوری بنائی بھی ہے تو اس پر قائم رہیں، پہلے بتایا گیا کہ قطری کے پاس انوسٹمنٹ کی گئی تھی، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کیس میں فریق نہیں بلکہ عدالت کی معاونت کر رہا ہوں۔
جسٹس عظمت سعید شیخ ریمارکس دیئے کہ نیب گزشتہ روز ہمارے سامنے وفات پا گیا کیونکہ اگر حدیبیہ پیپرز کیس میں الزامات غلط تھے تو اس کیس سے کیوں کترا رہے ہیں اور اگر کیس میں الزامات درست ہیں تو اس کیس کو دفن کیوں کیا گیا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ایک خاندان نے کرپشن بچانے کے لیے ادارے تباہ کر دیے، عمران خان
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ حدیبیہ کیس میں ریاست مدعی تھی اور آپ ریاست کی نمائندگی کر رہے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا کام عدالت کے سامنے حقائق لانا ہے، میں وفاق کی وکالت نہیں، عدالت کی معاونت کر رہا ہوں، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جانتے ہیں کہ آپ مشکلات کا شکار ہیں، آپ اعلیٰ پائے کے وکیل ہیں، آپ سے ویسی ہی معاونت کی توقع ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے سامنے ریکارڈ کے مطابق حقائق پیش کر رہاہوں،عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کوئی بھی کر سکتا تھا جس پر جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ اپیل کا حق متاثرہ فریق کو ہی ہوتا ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آئین میں ایسی کوئی بات نہیں تاہم درخواست گزار کو بتانا ہوتا ہے کہ کس بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی۔
جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس میں کہا کہ یہ جاننا ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ ان کا وزیر اعظم اہل ہے یا نہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ نوازشریف کی بطور وزیراعظم نہیں رکن اسمبلی اہلیت کا ہے۔ جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ عدالت نے 3 نومبر 2016 کو درخواستیں قابل سماعت قرار دی تھیں لہذا عدالت عوامی مفاد کا معاملہ ہونے کا فیصلہ پہلے ہی کرچکی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ حکم نہ دے اپیل دائر کرنے کے بہت سے راستے ہیں، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ معاونت کریں کہ عدالت کس حد تک جا سکتی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت نا اہلی کےلیے ریفرنس اسپیکر کو بھیجا جا سکتا ہے اوراسپیکر سے فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں ہی کسی اور فورم پر جا سکتا ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کو ہمیشہ پاکستان کو مضبوط کرنے کی سزا دی گئی، سعد رفیق
جسٹس عظمت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دیگر ادارے اپنا کام نہ کر رہے ہوں تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے، نعیم بخاری نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ یوسف رضاگیلانی کیس میں عدالت نے نا صرف ایکشن لیا بلکہ ان کو گھر بھی بھیجا، اگرچہ 65 ملین ڈالرز واپس نہیں آئے لیکن وزیراعظم گھر چلے گئے جس پر اٹارنی جنرل بولے کہ آئین کا آرٹیکل 63 ڈیکلیریشن دینے کی اجازت نہیں دیتا۔
جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ مطلب اپیل دائر کرنے کا کہا تو سپریم کورٹ کی غیر جانبداری متاثر ہوگی جب کہ جسٹس عظمت کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا بنیادی حق یہ ہے کہ عوام پر ان کے منتخب نمائندے حکومت کریں جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ صرف وزیراعظم کا نہیں ہر پارلیمانی رکن کا معاملہ ہے، جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بنیادی حقوق معاملہ سے آگے بڑھیں کیونکہ قابل سماعت کا فیصلہ ہو چکا، درخواست گزار وزیراعظم کی نا اہلی کے لیے آیا ہے، وزیراعظم رکن اسمبلی بھی ہوں تو مسئلہ کیا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اب سوال یہ ہے کہ ہم کہاں تک جا سکتے ہیں اور کہاں نہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے اسپیکر کے پاس جائیں پھر الیکشن کمیشن موجود ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : سپریم کورٹ نے سماعت جمعرات تک مکمل کرنے کا عندیہ دے دیا
جسٹس عظمت نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک وزیراعظم کو گھر بھیجا جس کا فیصلہ موجود ہے جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ 65 ملین ڈالرز نہیں آئے لیکن وزیراعظم گھر چلے گئے، نعیم بخاری کے جواب پر جسٹس عظمت نے ریمارکس دیے کہ وہ تو آپ نے لے کر آنے تھے آپ گئے ہی نہیں۔
سپریم کورٹ میں وقفہ کے بعد پاناما کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس عظمت نے استفسار کیا کہ لگائے گئے الزام کو لیکر عدالت کہاں جائے،آپ بطور اٹارنی جنرل جواب دیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کچھ الزامات کو تسلیم کیا گیا اور دستاویزات بھی دی گئیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمارے اداروں کا وقار بیرون ملک مجروح کیا گیا۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ ادارے کام نہیں کریں گے تو ایسا تو ہوگا لہذا آپ اداروں میں ہی سوالوں کا جواب دے دیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے اداروں کو بہت مضبوط کیا جس پر جسٹس عظمت نے ریمارکس میں کہا کہ ہم جانتے ہیں آپ ہمارے سوالوں کا جواب دیں، ہم سیدھی طرح پوچھ رہے ہیں ان الزامات کو لیکر کہاں جائیں، سب کے دلائل سنے لیکن صرف اس سوال کا جواب مانگ رہے ہیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: نوازشریف نے اداروں کواپنی باندی بنا رکھا ہے، تحریک انصاف
جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ ہم فیصلہ کریں یا اس سے کیسے نمٹیں جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت آئین کو مد نظر رکھے آرٹیکل 62 میں عوامی عہدے کا نہیں لکھا، ہر منتخب نمائندہ اثاثوں کی تفصیلات جمع کروانے کا پابند ہے تاہم اگر اثاثے چھپائے ہوں یا غلط بیانی کی ہو تو سیشن کورٹ میں مقدمہ ہوتا ہے جس میں 3 سال قید اور 5 ہزار جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں، اٹارنی جنرل کے جواب پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ درخواست گزار اور وزیر اعظم کے خلاف فوجداری مقدمہ کریں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم کو آئین کے تحت فوجداری مقدمہ میں استثنیٰ حاصل نہیں ہوتا لیکن کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کرنے والے کے خلاف فوجداری مقدمہ ہو سکتا ہے۔
جسٹس عظمت نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ درخواست گزار فوجداری شکایت داخل کرے جب کہ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ آپ آئین کا آرٹیکل 248 بھی پڑھ لیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 248 کے تحت صدر اور گورنرز کے خلاف فوجداری مقدمہ نہیں ہو سکتا لیکن آرٹیکل 248 کے استثنیٰ میں وزیراعظم شامل نہیں، سیشن کورٹ میں ٹرائل کرنا پڑے گا اور شہادتیں ریکارڈ کرنا ہوں گی، اٹارنی جنرل کے جواب پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ نیب کے جواب کے بعد وزیراعظم سے تفتیش کا پہلو زمین کے 6 فٹ نیچے دفن ہوگیا جب کہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ اگر ڈیکلریشن دے دیا گیا تو پھر تفتیش کے لیے کیا رہ جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کسی نے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اپیل دائر کی تو متاثرہ فریق نہ ہونے کا نقطہ نہیں اٹھاؤں گا اور اپیل کے حوالے سے بات بطور اٹارنی جنرل کر رہا ہوں جس پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ نا اہلی تو پانامہ کیس کا ایک پہلو ہے، نیب نے گزشتہ روز تحقیقات کا کہا تھا جب کہ وزیر اعظم کے لیے نیب انشورنس پالیسی تھی اور وزیر اعظم کا وہ دفاع کل دفن ہو گیا، جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ اصغر خان کیس میں عدالت نے ڈیکلیریشن دیا تھا اور کیس کا فوجداری حصہ تحقیقات کے لیے متعلقہ فورم کو بھجوایا گیا، جعلی ڈگری مقدمات بھی ڈیکلیریشن کے بعد ٹرائل کے لیے بھجوائے گئے اور اصغرخان کیس میں عدالت نے قرار دیا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی، فوجداری معاملے پر عدالت بغیر تحقیقات کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ کل چیئرمین نیب نے کہا میں نے کچھ نہیں کرنا جو کرنا ہے کرلو، مخدوم علی خان کے موکل کے پاس چیئرمین نیب کی مصدقہ انشورنس پالیسی ہے جب کہ اصغر خان کیس میں مقدمہ درج ہوا نہ کوئی تفتیش ہوئی۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کل چیئرمین نیب اور ایف بی آر نے جو کہا وہ ہمارے سامنے ہے، وہ کچھ کرنے کو تیار نہیں جب کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ سے نہ کوئی تعاون کررہا ہے اور نہ معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا سیشن جج ٹرائل میں یہ معاملہ حل کر لے گا، کون استغاثہ کرے گا اور کون شہادتیں لائے گا، چیئرمین نیب کے بیان کے بعد کیا یہ شخص کسی کا ٹریفک چالان بھی پکڑ سکتا ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے افتخار چیمہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ متعلقہ کیس میں ملزم کو جائیداد ظاہر نہ کرنے پر نا اہل قرار دیا گیا تھا، جائیداد بیشک حلال ذرائع سے بنائی ہوں ظاہر کرنا ضروری ہے۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے جوابی دلائل کا آغاز کیا جس میں انہوں نے کہا کہ 70 کی دہائی میں ہونے والے معاہدوں کے دستاویزات وزیراعظم نے نہیں ان کے بچوں نے پیش کیں، دبئی اسٹیل مل معاہدے کے وقت حسین نواز صرف 8 سال کے تھے جبکہ دبئی اسٹیل مل کی افتتاحی تقریب کی تصاویر میں نوازشریف موجود تھے، جسٹس کھوسہ نے سوال کیا کہ کیا وزیراعظم نے اپنے کسی جواب میں قطر کا ذکر کیا جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنی تقاریر میں نہ قطر کا ذکر کیا اورنہ ہی کسی معاہدے کا کہا۔
جسٹس اعجاالحسن نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم پر لازم تھا کہ تقریر میں سب کچھ بتا دیتے جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے ہیں ان کے بیان کی اہمیت ہونی چاہیئے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر بچوں کا جواب سنا سنایا ہے تو آپ کو کیسے سچ مان لیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وزیراعظم اور بچوں کی کہانی ایک نہیں، ایک صحیح تو دوسرا غلط ہوگا جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ میرا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے فلیٹ خریدنے کے موقف کو تسلیم کیا جائے۔
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ نعیم بخاری کے دلائل کے بعد شیخ رشید صاحب کو سنیں گے جس کے بعد عدالت نے وزیراعظم کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا جواب الجواب کے بعد آپ نے کوئی دلائل دینے ہیں جس پر وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالتی سوالات ہوئے تو جواب دوں گا۔ عدالت نے نعیم بخاری کو آج 11 بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت آج پھر ہوگی۔