پہاڑی زبان کی تاریخی اہمیت اور مستقبل
پہاڑی زبان کی قدامت کا اندازہ لگائیے کہ شمالی ہند میں تحریر ہونے والی پہلی کتاب ’’بھرت کتھ‘‘ پہاڑی میں لکھی گئی تھی۔
GALLE:
میری مادری زبان پہاڑی ہے، آج خود کو یہ یقین دلانا دُشوار ہے کہ اِس زبان کا ماضی اِس قدر تابناک بھی رہا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ اِس زبان نے کئی دانشور، بہادر، قلم کار اور شاعر پیدا کئے۔ اِس کے بولنے والے کئی حکمرانوں نے برصغیر کے مختلف خطوں پر اپنی حکمرانی کے جوہر دکھائے۔ مثلاً اشوک اور راجہ پورس کے درباروں کی زبان پہاڑی تھی۔ اِس کے علاوہ کشمیر پر جن بادشاہوں نے حکمرانی کی اُن میں سے سلطان مظفر خان، ہیبت خان، محمود خان، حسین خان، زبردست خان اور شیر احمد خان کے عہد کی سرکاری اور درباری زبان بھی پہاڑی رہی ہے۔ کشمیر کے ڈوگرا حکمرانوں کی مادری زبان بھی پہاڑی ہی تھی۔
سرحدی لکیروں سے ماورا ہو کر دیکھا جائے تو پیر پنچال کے نچلے علاقوں (جن میں آزاد کشمیر، جہلم، ہزارہ اور مری تک کے علاقے شامل ہیں) سے لے کر ہماچل پردیش کے بالائی علاقوں، اتراکھنڈ کے علاقے گڑہوال اور نیپال تک کے وسیع خطے میں پہاڑی زبان بولی جاتی ہے۔ لسانیات کے ماہرین نے پہاڑی زبان کو تین بڑی شاخوں میں تقسیم کیا ہے۔
پہاڑی زبان کی یہ شاخ نیپال میں بولی جاتی ہے۔ اِس کو مقامی لوگ ''خشورہ'' کے نام سے پکارتے ہیں۔
پہاڑی زبان کی یہ شاخ اتراکھنڈ میں بولی جاتی ہے، وہاں اِس کو گُڑ والی اور کومونی کہا جاتا ہے۔
یہ پہاڑی زبان کی تیسری شاخ ہے، جو بھارتی ریاست ہماچل پردیش، جموں ڈویژن، آزاد کشمیر، سطح مرتفع پوٹھوہار، مری، ہزارہ اور پشاور میں لہجوں کے فرق سے بولی جاتی ہے۔
پہاڑی زبان کی قدامت کا اندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ہے کہ شمالی ہند میں تحریر ہونے والی پہلی کتاب ''بھرت کتھا'' پہاڑی میں لکھی گئی تھی۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق پہاڑی زبان برصغیر کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے جس کی جائے پیدائش قدیم گندھارا کی سرزمین ہے، جس کو خطہ دردستان کہا جاتا تھا۔ یہ خطہ دریائے سندھ سے جہلم کے درمیان پھیلا ہوا ہے، اِس خطہ زمین میں لہجوں کے فرق کے ساتھ ہمیشہ پہاڑی ہی بولی جاتی رہی ہے، جس کو آج کئی دیگر ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے، جیسے پارمی، ہندکو، ڈوگری، پوٹھوہاری وغیرہ۔
علم لسانیات کی رو سے پہاڑی زبان کو ہند آریائی زبانوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ صدیوں سے انسان کے رابطے کا وسیلہ بننے والی اِس زبان میں آج سنسکرت، ہندی، اُردو، فارسی، عربی، ترکی، راجستھانی، ہریانوی، گجراتی اور کشمیری زبانوں کے الفاظ شامل ہوچکے ہیں۔ جہاں تک رسم الخط کا تعلق ہے تو مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں اِس کے رسم الخط بھی مختلف رہے ہیں۔ جیسے ٹاکری، دیوناگری اور شاردالپی کے علاوہ شاہ مکھی اور گرومکھی رسم الخط میں لکھی جاتی رہی ہے۔
آج مغربی پہاڑی کا رسم الخط مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوچکا ہے۔ ہماچل پردیش اور جموں کے ہندو اِسے دیونا گری رسم الخط میں لکھتے ہیں۔ ہماچل پردیش کے زیریں علاقوں کے سکھ اِس کو گرومکھی رسم الخط جبکہ جموں، پیر پنجال اور پاکستان میں رہنے والے مسلمان اسے عربی رسم الخط میں لکھتے ہیں۔
پہاڑی زبان کی مشرقی اور وسطیٰ شاخیں تو وقت کے ساتھ ساتھ خوب ترقی کررہی ہیں۔ نیپال اور ہندوستان میں اِس زبان میں ادب تخلیق ہورہا ہے۔ ان کا اپنا معیاری رسم الخط تیار ہوچکا ہے، اِس زبان کی اپنی ایک الگ فلم انڈسٹری موجود ہے۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر یونیورسٹیوں میں اِس زبان کی تدریس ہورہی ہے۔
ہماچل پردیش میں بولی جانے والی مغربی پہاڑی (جسے مہاشو پہاڑی کہا جاتا ہے) اور جموں کے ہندو اکثریت کے علاقوں میں بولی جانے والی پہاڑی (جو ڈوگری کہلاتی ہے) نے بھی گزشتہ نصف صدی کے دوران تدریس، ادب اور فلم و ٹی ول ڈراموں کے حوالے سے خاصی ترقی کی ہے، لیکن صد افسوس کہ آج آزاد کشمیر کے 96 فیصد حصے اور مقبوضہ کشمیر کے 26 لاکھ انسانوں کے علاوہ پوٹھوہار اور کوہ مری میں بسنے والے لاکھوں انسانوں کی مادری بولی صرف بول چال تک محدود ہوکر رہ گئی ہے، بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اِس کے وجود کو سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ اگرچہ انفرادی طور پر کچھ کوششیں کی جارہی ہیں، لیکن سرکاری سطح پر اِسے بہت بُری طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں پہاڑی زبان بولنے والوں کی نئی نسل اپنی مادری بولی بولنے اور سمجھنے سے بھی قاصر ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
میری مادری زبان پہاڑی ہے، آج خود کو یہ یقین دلانا دُشوار ہے کہ اِس زبان کا ماضی اِس قدر تابناک بھی رہا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ اِس زبان نے کئی دانشور، بہادر، قلم کار اور شاعر پیدا کئے۔ اِس کے بولنے والے کئی حکمرانوں نے برصغیر کے مختلف خطوں پر اپنی حکمرانی کے جوہر دکھائے۔ مثلاً اشوک اور راجہ پورس کے درباروں کی زبان پہاڑی تھی۔ اِس کے علاوہ کشمیر پر جن بادشاہوں نے حکمرانی کی اُن میں سے سلطان مظفر خان، ہیبت خان، محمود خان، حسین خان، زبردست خان اور شیر احمد خان کے عہد کی سرکاری اور درباری زبان بھی پہاڑی رہی ہے۔ کشمیر کے ڈوگرا حکمرانوں کی مادری زبان بھی پہاڑی ہی تھی۔
سرحدی لکیروں سے ماورا ہو کر دیکھا جائے تو پیر پنچال کے نچلے علاقوں (جن میں آزاد کشمیر، جہلم، ہزارہ اور مری تک کے علاقے شامل ہیں) سے لے کر ہماچل پردیش کے بالائی علاقوں، اتراکھنڈ کے علاقے گڑہوال اور نیپال تک کے وسیع خطے میں پہاڑی زبان بولی جاتی ہے۔ لسانیات کے ماہرین نے پہاڑی زبان کو تین بڑی شاخوں میں تقسیم کیا ہے۔
مشرقی پہاڑی
پہاڑی زبان کی یہ شاخ نیپال میں بولی جاتی ہے۔ اِس کو مقامی لوگ ''خشورہ'' کے نام سے پکارتے ہیں۔
وسطی پہاڑی
پہاڑی زبان کی یہ شاخ اتراکھنڈ میں بولی جاتی ہے، وہاں اِس کو گُڑ والی اور کومونی کہا جاتا ہے۔
مغربی پہاڑی
یہ پہاڑی زبان کی تیسری شاخ ہے، جو بھارتی ریاست ہماچل پردیش، جموں ڈویژن، آزاد کشمیر، سطح مرتفع پوٹھوہار، مری، ہزارہ اور پشاور میں لہجوں کے فرق سے بولی جاتی ہے۔
پہاڑی زبان کی قدامت کا اندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ہے کہ شمالی ہند میں تحریر ہونے والی پہلی کتاب ''بھرت کتھا'' پہاڑی میں لکھی گئی تھی۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق پہاڑی زبان برصغیر کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے جس کی جائے پیدائش قدیم گندھارا کی سرزمین ہے، جس کو خطہ دردستان کہا جاتا تھا۔ یہ خطہ دریائے سندھ سے جہلم کے درمیان پھیلا ہوا ہے، اِس خطہ زمین میں لہجوں کے فرق کے ساتھ ہمیشہ پہاڑی ہی بولی جاتی رہی ہے، جس کو آج کئی دیگر ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے، جیسے پارمی، ہندکو، ڈوگری، پوٹھوہاری وغیرہ۔
علم لسانیات کی رو سے پہاڑی زبان کو ہند آریائی زبانوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ صدیوں سے انسان کے رابطے کا وسیلہ بننے والی اِس زبان میں آج سنسکرت، ہندی، اُردو، فارسی، عربی، ترکی، راجستھانی، ہریانوی، گجراتی اور کشمیری زبانوں کے الفاظ شامل ہوچکے ہیں۔ جہاں تک رسم الخط کا تعلق ہے تو مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں اِس کے رسم الخط بھی مختلف رہے ہیں۔ جیسے ٹاکری، دیوناگری اور شاردالپی کے علاوہ شاہ مکھی اور گرومکھی رسم الخط میں لکھی جاتی رہی ہے۔
آج مغربی پہاڑی کا رسم الخط مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوچکا ہے۔ ہماچل پردیش اور جموں کے ہندو اِسے دیونا گری رسم الخط میں لکھتے ہیں۔ ہماچل پردیش کے زیریں علاقوں کے سکھ اِس کو گرومکھی رسم الخط جبکہ جموں، پیر پنجال اور پاکستان میں رہنے والے مسلمان اسے عربی رسم الخط میں لکھتے ہیں۔
پہاڑی زبان کی مشرقی اور وسطیٰ شاخیں تو وقت کے ساتھ ساتھ خوب ترقی کررہی ہیں۔ نیپال اور ہندوستان میں اِس زبان میں ادب تخلیق ہورہا ہے۔ ان کا اپنا معیاری رسم الخط تیار ہوچکا ہے، اِس زبان کی اپنی ایک الگ فلم انڈسٹری موجود ہے۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر یونیورسٹیوں میں اِس زبان کی تدریس ہورہی ہے۔
ہماچل پردیش میں بولی جانے والی مغربی پہاڑی (جسے مہاشو پہاڑی کہا جاتا ہے) اور جموں کے ہندو اکثریت کے علاقوں میں بولی جانے والی پہاڑی (جو ڈوگری کہلاتی ہے) نے بھی گزشتہ نصف صدی کے دوران تدریس، ادب اور فلم و ٹی ول ڈراموں کے حوالے سے خاصی ترقی کی ہے، لیکن صد افسوس کہ آج آزاد کشمیر کے 96 فیصد حصے اور مقبوضہ کشمیر کے 26 لاکھ انسانوں کے علاوہ پوٹھوہار اور کوہ مری میں بسنے والے لاکھوں انسانوں کی مادری بولی صرف بول چال تک محدود ہوکر رہ گئی ہے، بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اِس کے وجود کو سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ اگرچہ انفرادی طور پر کچھ کوششیں کی جارہی ہیں، لیکن سرکاری سطح پر اِسے بہت بُری طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں پہاڑی زبان بولنے والوں کی نئی نسل اپنی مادری بولی بولنے اور سمجھنے سے بھی قاصر ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔