دہشت گردی خطے کا بڑا چیلنج
پاکستان نے افغانستان کی طرف سے فراہم کی گئی فہرست کو بھی مسترد کیا ہے
دہشتگردی کے عفریت نے اہل وطن کو سانحہ لاہور اور سیہون شریف کے دردناک واقعہ سے سنبھلنے کا موقع نہیں دیا کہ دہشتگردوں نے چارسدہ کی تحصیل تنگی کی کچہری کو ٹارگٹ کیا جہاں پولیس کے جوان3خودکش حملہ آوروں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے، دو ان کی گولیوں سے جہنم واصل ہوئے جب کہ تیسرے نے کچہری میں گھسنے میں ناکام ہو کر خود کو اڑا لیا جس سے ایک وکیل سمیت سات افراد شہید اور 6پولیس اہلکاروں سمیت 19 زخمی ہوگئے، شدید زخمی پشاور کے اسپتال منتقل کردیے گئے، مگر چارسدہ واقعہ میں پولیس کے جوانوں نے جس پامردی، دلیری اور فرض شناسی کے احساس سے سرشار ہوکر موت کے سوداگروں کے خلاف مزاحمت کی۔
ان کے عزائم خاک میں ملادیے اور سیکڑوں شہریوں کی زندگی کو بچانے میں سر دھڑ کی بازی لگائی اس سے دہشتگردی کے خلاف مستعدی، الرٹنس اور جوابی کارروائی کا ایک ناقابل فراموش باب رقم کیا، ان تینوں دہشتگردوں کو کچہری کے اندر تک رسائی ہوجاتی تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کتنی تباہی ہوتی، یہ چابکدستی اور ہر قسم کی صورتحال کے لیے جوابی طور پر تیاری میں اس مراسلہ کا بھی عمل دخل ہے جس میں دہشت گردی کے ممکنہ خطرہ کے حوالہ سے پیشگی طور پر خبردار کیا گیا تھا۔
صدر ممنون حسین، وزیراعظم محمد نواز شریف ، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، عمران خان، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان، سراج الحق سمیت دیگر سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے واقعہ کی سخت مذمت کی ۔ وزیراعظم نواز شریف نے دہشتگردی کے واقعہ کی مذمت، قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا، انھوں نے کہا کہ ایسے حملے ہمارے عزم کو کمزور نہیں کر سکتے، حکومت دہشتگرد عناصر کے خلاف جنگ جاری رکھے گی، انھوں نے حملہ ناکام بنانے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کو سراہا، جب کہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پولیس اور فورسز نے چارسدہ میں جس طرح عوام کی جانیں بچائیں وہ قابل تعریف ہے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ دہشتگردی پاناما سے بڑا مسئلہ ہے، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔ ادھر اطلاع ہے کہ سانحہ مال روڈ کی تحقیقات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، دھماکے کی ریشہ دوانیوں کے سلسلے بھارت سے بھی ملنے لگے، سیکیورٹی اداروں نے دھماکے کی ذمے داری قبول کرنے والی کالعدم تنظیم حزب الاحرار کی ویب سائٹ کا پتہ چلا لیا جسے بھارت سے آپریٹ کیا جا رہا تھا، چنانچہ وزارت داخلہ نے بھارتی ہائی کمیشن کو ثبوت فراہم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تاہم اس معاملہ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے تاکہ عالمی برادری کو معلوم ہو کہ دہشتگردی کی نئی لہر کا مقصد پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف قربانیوں کو سبوتاژ کرنا اور خطے کو نئے سرے سے بدامنی، دہشتگردی اور جنگجویانہ کارروائیوں کا مرکز بنانا ہے۔
ان اندیشوں کو اس خبر سے بھی تقویت ملتی ہے کہ پاکستانی فورسز کی کارروائیوں کے بعد افغانستان نے پاکستان سے منسلک سرحد پر ننگرہار میں اپنی فوج میں اضافہ کردیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان نے افغانستان کی طرف سے فراہم کی گئی فہرست کو بھی مسترد کیا ہے، جو بچکانہ ردعمل اور بلیم گیم سے ملتے جلتے احتجاج کی ایک مفروضہ جاتی شکل ہے ، پاکستان نے دوٹوک جواب دیا ہے کہ اس کی سرزمین پر دہشتگردی کا کوئی کیمپ نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاک افغان سرحد پر قائم دہشتگردی کے کیمپوں کے خاتمہ کے لیے پاکستان کی کارروائی اس لیے بھی اپنا جواز رکھتی ہے کہ افغان حکام خود بھی اعتراف کرچکے ہیں کہ طالبان رہنما افغانستان میں روپوش ہیں، اگر وہ روپوش ہوتے ہوئے پاکستان میں دہشتگردی کروا رہے ہیں تو افغانستان کا اولین فرض ہے کہ وہ انھیں فوراً حراست میں لے کر پاکستان کے حوالے کرے، جب کہ پاکستان کے اس مطالبہ کی استدلالی بنیاد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے جاری ہونے والے مراسلہ کی بنتی ہے جس کے مطابق کالعدم دہشت گرد تنظیم جماعت الاحرار اور لشکر اسلام کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائی کے لیے 3 خودکش حملہ آورں سمیت 27دہشتگردوں کو افغانستان سے پاکستان بھجوادیا گیا ہے۔
افغان حکام دوطرفہ تعلقات اور امن کے لیے مشترکہ کارروائیوں کی بات تو کرتے ہیں مگر اپنی زمین کے استعمال سے دہشتگردوں کو روکنے کے لیے کسی قسم کے ٹھوس اقدامات نہیں کرتے الٹا روز ایک دھمکی پاکستان کے نام جاری ہوتی ہے، اور جوابی کارروائی کا الٹی میٹم دیا جاتا ہے، اسے چوری اور سینہ زوری ہی کہا جاسکتا ہے، آخر ملا فضل اللہ اور دیگر ماسٹر مائنڈز کو افغانستان چھوڑنے کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا۔
ادھر سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی پیش رفت بامعنی ہے، اس نے جما عت الاحرار کے دہشتگردوں کو پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دینے پر افغانستان کے مجرمانہ تعاون پر مذمتی قراردادیں منظور کر لیں۔ قائمہ کمیٹی نے ان قراردادوں میں زور دیا کہ حکومت معاملہ کواقوام متحدہ کے ساتھ اٹھائے اور مطالبہ کرے کہ افغانستان سے پاکستان کے خلاف دہشتگردوں کے کیمپوں کا صفایا کیا جائے ، پاک فوج کی جانب سے جماعت الاحرار کے خلاف سرجیکل اسٹرائیکس کی مکمل حمایت کی گئی، پاکستان اور افغانستان دہشتگردی کے خلاف ملکر اقدامات کریں، افغانستان دونوں ممالک کے درمیان دستخط شدہ بارڈر کنٹرول مینجمنٹ معاہدہ کی پاسداری کرے۔
دریں اثنا وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سندھ اور بلوچستان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں آپریشن کو تیز کرنے کا حکم دیا ہے جب کہ صوبے میں زیر تعمیر نئے مدارس سے متعلق رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے ڈی جی رینجرز کی سربراہی میں تحقیقاتی افسران پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیک دی ہے جوسیہون بم دھماکے کی تحقیقات کا تبادلہ کرے گی اور امن و امان، سیکیورٹی اور الرٹ کے حوالے سے کام کرے گی۔ یہ احکام انھوں نے منگل کی شب اسلام آباد سے واپسی کے بعد وزیر اعلیٰ ہاؤس میں امن و امان کی صورتحال پر طلب کیے گئے اجلاس میں جاری کیے۔
وزیر مملکت برائے اطلاعات ونشریات و قومی ورثہ مریم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں، ہمیں متحد ہو کر ان کا مقابلہ کرنا ہوگا، دہشتگردی کے بزدلانہ واقعات سے ہمارا عزم زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوا ہے۔ بلاشبہ پاکستان بارڈر مینجمنٹ پر افغانستان کا تعاون چاہتا ہے، دونوں پڑوسی اور برادر ملک آگے بڑھیں، چپقلش ختم ہونی چاہیے، خیرسگالی شرط ہے، پاکستان مستحکم افغانستان کا حامی تھا اور ہے، دہشتگرد بیچ سے نکال دیے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عالمی طاقتوں کے لیے افغان مذاکرات کی امید پھر سے روشن ہوجائے۔لیکن افغانستان بھارت اورامریکا کو باور کرائے کہ پاکستان سے بدنیتی کے ساتھ کھیلا جانے والا کھیل کبھی سود مند ثابت نہیں ہوگا، پاک فوج سرحدوں کے تحفظ کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔