امریکی ہتھکنڈوں کے شکار ممالک …پانچواں حصہ
دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان نے انڈونیشیا پر قبضہ کرلیا، تاکہ انڈونیشیا کے پٹرول کے ذخائر کو استعمال کرسکے
MANSEHRA:
دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان نے انڈونیشیا پر قبضہ کرلیا، تاکہ انڈونیشیا کے پٹرول کے ذخائر کو استعمال کرسکے۔ جنگ کے خاتمے کے بعد انڈونیشیا نے سوئیکارنو کی قیادت میں آزادی کا اعلان کیا۔ ستمبر 1965ء میں امریکی مداخلت کے نتیجے میں 15 لاکھ افراد کو سوشلزم کے سسٹم لانے کے الزام کی بنا پر قتل کردیا گیا۔ اور اپنے ایجنٹ جنرل سوہارتو کو ملک پر مسلط کردیا۔
1966ء میں گھانا کے صدر نکروما کا تختہ الٹ کر جنرل جوزف انکراہ کو عوام پر مسلط کردیا۔ 1960ء میں عراق کے حکمران نے امریکا، برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ تیل کی آمدنی کا نفع عراقی عوام میں تقسیم کیا جائے۔ ورنہ تیل کو قومی ملکیت میں لے لیا جائے گا۔ امریکا نے عبدالکریم قاسم پر دہشتگردوں سے حملہ کرا دیا جس سے یہ زخمی ہوا۔ اس کے بعد 1963ء میں امریکی CIA اور برطانوی ایم آئی سکسMI6 نے مل کر اسے قتل کردیا۔ اس کے ساتھ ہی 5 ہزار عراقی شہریوں کو سوشلسٹ ہونے کا الزام لگا کر قتل کیا گیا۔
عالمی تاریخ میں سب سے زیادہ امریکا نے دوسرے ملکوں کو بے رحمی سے درندگی کا نشانہ بنایا۔ تائیوان، مصر، برلن، لبنان، کانگو، لاؤس، اسی طرح 50 ہزار اتحادی فوجوں نے کمبوڈیا کی آبادی60 لاکھ پر 21 میزائل داغے اور 1973ء تک ہر ماہ ایک لاکھ ٹن کے حساب سے خطرناک بم چپے چپے پر گرائے۔ 8 لاکھ سے زیادہ عوام کو ہلاک کیا گیا۔ کیوبا پر 24 اکتوبر 1962ء میں میزائلوں سے حملے شروع کیے۔
صومالیہ، ایتھوپیا، پیرو، گوئٹے مالا، گرینڈا، لیبیا، ایل سلواڈور، سوڈان، نکاراگوا، پھر چلی میں امریکی سرپرستی میں جنرل پنوشے نے 11 ستمبر 1973ء کو مارکسٹ صدر ''الاندے'' کو فوجی قوت سے ہٹا کر امریکی ایجنٹ جنرل آگستو پنوشے کو مسلط کردیا اور چلی ہی کی فوجوں کے ہاتھوں ہزاروں عوام کا قتل عام کروایا گیا۔ عوام کو ٹینکوں تلے روند ڈالا اور امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اس قتل عام کی نگرانی کی تھی۔ ہنری کسنجر نے اس وقت جو کہا عالمی میڈیا کے ذریعے پوری دنیا نے پڑھا۔
"I don't see why we need to stand by and watch a country go communist due to irresponsibility of its people."
یاد رہے کہ امریکا نے 1946ء میں پانامہ کے شہر ''فورٹ گلی کن''، ''اسکول آف امریکاز'' میں تخریب کار دہشتگرد تیار کرکے جنوبی امریکا کے ممالک میں عوام کا قتل عام کرا کر ملکوں کے تختے الٹ کر اپنے ایجنٹ حکمران بنانے کا سلسلہ شروع کیا اور جنوبی امریکا میں 140 فوجی اڈے قائم کیے۔ ارجنٹائن، بولیویا، پیراگوئے، گوئٹے مالا میں 1954ء میں جیکب اربینز کا تختہ الٹ کر کرنل کارلوس کو عوام پر مسلط کردیا۔ اس سے قبل 1953ء میں ایران کے وزیراعظم محمد مصدق کا تختہ الٹ کر رضا شاہ پہلوی کو بادشاہ بنا کر مسلط کردیا گیا۔
1961ء میں بیلجیم کے ساتھ مل کر کانگو کے وزیراعظم پیٹرس لوممبا کو قتل کروا کر کرنل مبوتو کو مسلط کر دیا۔ 1964ء میں بولیویا کے صدر ''وکٹریاز سورو کا تختہ الٹ کر جنرل بارین توس'' کو عوام پر مسلط کردیا۔ اور کئی افریقی ممالک امریکی جارحیت کا نشانہ بنائے گئے۔ امریکی صدر رونالڈ ریگن جب 20 جنوری 1981ء کو صدر بنا اور دسمبر 1979ء میں سابقہ سوویت یونین نے افغان حکومت کی مدد کے لیے افغانستان میں فوجیں داخل کردیں۔ اس کے بعد 8 مارچ 1983ء کو فلوریڈا میں تقریر کرتے ہوئے ریگن نے کہا تھا۔
''سوویت یونین ایک شیطانی ریاست ہے۔'' پاکستان میں جنرل ضیا الحق صدر تھا۔ امریکی اشارے پر جنرل ضیا الحق، مرحوم جنرل حمید گل، سعودی بادشاہ، خلیجی ممالک اور نیٹو کی افواج نے سوویت یونین کو افغانستان سے نکالنے کے لیے فوجی کارروائیاں شروع کردیں۔ پاکستان کے ہوائی اڈے استعمال کیے گئے۔ پوری دنیا سے جہادی جتھے در جتھے امریکی ڈالروں سے اکٹھے کیے گئے۔ امریکی، نیٹو اتحادی ممالک کے عیسائیوں کے جھنڈے تلے جنرل ضیا الحق نے امریکی جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر سوویت یونین کے خلاف جہاد شروع کردیا۔ یاد رہے کہ امریکی، نیٹو اور جہادی تمام مل کر روس کو شکست نہ دے سکے۔
1985ء میں ریگن نے مالیاتی نوسر بازی کا شیطانی ہتھکنڈا استعمال کرتے ہوئے سعودی بادشاہ شاہ فہد کو استعمال کرتے ہوئے تیل کی پیداوار 2 ملین بیرل سے 9 ملین بیرل بڑھانے پر آمادہ کر لیا۔ عالمی مارکیٹ میں تیل 30 ڈالر کا فی بیرل تھا۔ تیل زیادہ مارکیٹ میں آنے کے بعد تیل کی قیمتیں 10 ڈالر فی بیرل پر آگئیں۔ روسی معیشت کا دارومدار گیس اور تیل پر تھا۔ روسی معیشت خسارے میں جانے کے بعد روس نے 15 فروری 1989ء سے افغانستان سے نکلنا شروع کردیا تھا۔
یاد رہے کہ امریکی اسٹیٹ سیکریٹری جان فوسٹر ڈیولس نے جنوبی ایشیائی ملکوں کا دورہ جون 1953ء کو کیا تھا۔ اس کے دورے کے بعد امریکی نائب صدر رچرڈ نکسن نے ایشیائی ملکوں کا دورہ کرکے کہا تھا۔ ''سوشلسٹ روس، چین کے خلاف ترکی، ایران، پاکستان، ویتنام ہند چینی فارموسا اور جاپان کا اجتماعی دفاعی احصار قائم کیا جائے۔'' امریکا نے جو جنگ ویتنام، لاؤس، کمبوڈیا اور انڈونیشیا میں چھیڑی اس کا بھیانک انجام سامنے آیا۔ صرف جون 1971ء تک امریکا نے کئی ٹن بم کمبوڈیا پر گرا دیے تھے۔
امریکا ایک طرف معاشی غلام ملکوں اور یورپی ملکوں میں کاغذی غیر ضمانتی ڈالر پھیلاتا جا رہا تھا دوسری طرف ٹنوں بم پسماندہ ملکوں کے وسائل کو لوٹنے کے لیے ان پر گرا رہا تھا۔ مارچ 1971ء میں فرانس کی حکومت نے امریکا سے مطالبہ کیا کہ 28 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے بدلے سونے کی ادائیگی کرے۔ اس کے ساتھ ہی سوئٹزرلینڈ، بیلجیم اور آسٹریا کی حکومتوں نے ڈالروں کے عوض سونے کی ادائیگی کا مطالبہ کردیا۔ 3 مئی 1971ء سے 5 مئی 1971ء کے دوران جرمنی کے حکومتی بینکوں نے 2 ارب ڈالروں کے عوض مقامی کرنسی اور سونا ادا کرنے کے بعد اسٹاک ایکسچینج بند کردی۔ دیگر متاثر ملکوں نے بھی اسٹاک ایکسچینج بند کردیں۔
(جاری ہے)
دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان نے انڈونیشیا پر قبضہ کرلیا، تاکہ انڈونیشیا کے پٹرول کے ذخائر کو استعمال کرسکے۔ جنگ کے خاتمے کے بعد انڈونیشیا نے سوئیکارنو کی قیادت میں آزادی کا اعلان کیا۔ ستمبر 1965ء میں امریکی مداخلت کے نتیجے میں 15 لاکھ افراد کو سوشلزم کے سسٹم لانے کے الزام کی بنا پر قتل کردیا گیا۔ اور اپنے ایجنٹ جنرل سوہارتو کو ملک پر مسلط کردیا۔
1966ء میں گھانا کے صدر نکروما کا تختہ الٹ کر جنرل جوزف انکراہ کو عوام پر مسلط کردیا۔ 1960ء میں عراق کے حکمران نے امریکا، برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ تیل کی آمدنی کا نفع عراقی عوام میں تقسیم کیا جائے۔ ورنہ تیل کو قومی ملکیت میں لے لیا جائے گا۔ امریکا نے عبدالکریم قاسم پر دہشتگردوں سے حملہ کرا دیا جس سے یہ زخمی ہوا۔ اس کے بعد 1963ء میں امریکی CIA اور برطانوی ایم آئی سکسMI6 نے مل کر اسے قتل کردیا۔ اس کے ساتھ ہی 5 ہزار عراقی شہریوں کو سوشلسٹ ہونے کا الزام لگا کر قتل کیا گیا۔
عالمی تاریخ میں سب سے زیادہ امریکا نے دوسرے ملکوں کو بے رحمی سے درندگی کا نشانہ بنایا۔ تائیوان، مصر، برلن، لبنان، کانگو، لاؤس، اسی طرح 50 ہزار اتحادی فوجوں نے کمبوڈیا کی آبادی60 لاکھ پر 21 میزائل داغے اور 1973ء تک ہر ماہ ایک لاکھ ٹن کے حساب سے خطرناک بم چپے چپے پر گرائے۔ 8 لاکھ سے زیادہ عوام کو ہلاک کیا گیا۔ کیوبا پر 24 اکتوبر 1962ء میں میزائلوں سے حملے شروع کیے۔
صومالیہ، ایتھوپیا، پیرو، گوئٹے مالا، گرینڈا، لیبیا، ایل سلواڈور، سوڈان، نکاراگوا، پھر چلی میں امریکی سرپرستی میں جنرل پنوشے نے 11 ستمبر 1973ء کو مارکسٹ صدر ''الاندے'' کو فوجی قوت سے ہٹا کر امریکی ایجنٹ جنرل آگستو پنوشے کو مسلط کردیا اور چلی ہی کی فوجوں کے ہاتھوں ہزاروں عوام کا قتل عام کروایا گیا۔ عوام کو ٹینکوں تلے روند ڈالا اور امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اس قتل عام کی نگرانی کی تھی۔ ہنری کسنجر نے اس وقت جو کہا عالمی میڈیا کے ذریعے پوری دنیا نے پڑھا۔
"I don't see why we need to stand by and watch a country go communist due to irresponsibility of its people."
یاد رہے کہ امریکا نے 1946ء میں پانامہ کے شہر ''فورٹ گلی کن''، ''اسکول آف امریکاز'' میں تخریب کار دہشتگرد تیار کرکے جنوبی امریکا کے ممالک میں عوام کا قتل عام کرا کر ملکوں کے تختے الٹ کر اپنے ایجنٹ حکمران بنانے کا سلسلہ شروع کیا اور جنوبی امریکا میں 140 فوجی اڈے قائم کیے۔ ارجنٹائن، بولیویا، پیراگوئے، گوئٹے مالا میں 1954ء میں جیکب اربینز کا تختہ الٹ کر کرنل کارلوس کو عوام پر مسلط کردیا۔ اس سے قبل 1953ء میں ایران کے وزیراعظم محمد مصدق کا تختہ الٹ کر رضا شاہ پہلوی کو بادشاہ بنا کر مسلط کردیا گیا۔
1961ء میں بیلجیم کے ساتھ مل کر کانگو کے وزیراعظم پیٹرس لوممبا کو قتل کروا کر کرنل مبوتو کو مسلط کر دیا۔ 1964ء میں بولیویا کے صدر ''وکٹریاز سورو کا تختہ الٹ کر جنرل بارین توس'' کو عوام پر مسلط کردیا۔ اور کئی افریقی ممالک امریکی جارحیت کا نشانہ بنائے گئے۔ امریکی صدر رونالڈ ریگن جب 20 جنوری 1981ء کو صدر بنا اور دسمبر 1979ء میں سابقہ سوویت یونین نے افغان حکومت کی مدد کے لیے افغانستان میں فوجیں داخل کردیں۔ اس کے بعد 8 مارچ 1983ء کو فلوریڈا میں تقریر کرتے ہوئے ریگن نے کہا تھا۔
''سوویت یونین ایک شیطانی ریاست ہے۔'' پاکستان میں جنرل ضیا الحق صدر تھا۔ امریکی اشارے پر جنرل ضیا الحق، مرحوم جنرل حمید گل، سعودی بادشاہ، خلیجی ممالک اور نیٹو کی افواج نے سوویت یونین کو افغانستان سے نکالنے کے لیے فوجی کارروائیاں شروع کردیں۔ پاکستان کے ہوائی اڈے استعمال کیے گئے۔ پوری دنیا سے جہادی جتھے در جتھے امریکی ڈالروں سے اکٹھے کیے گئے۔ امریکی، نیٹو اتحادی ممالک کے عیسائیوں کے جھنڈے تلے جنرل ضیا الحق نے امریکی جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر سوویت یونین کے خلاف جہاد شروع کردیا۔ یاد رہے کہ امریکی، نیٹو اور جہادی تمام مل کر روس کو شکست نہ دے سکے۔
1985ء میں ریگن نے مالیاتی نوسر بازی کا شیطانی ہتھکنڈا استعمال کرتے ہوئے سعودی بادشاہ شاہ فہد کو استعمال کرتے ہوئے تیل کی پیداوار 2 ملین بیرل سے 9 ملین بیرل بڑھانے پر آمادہ کر لیا۔ عالمی مارکیٹ میں تیل 30 ڈالر کا فی بیرل تھا۔ تیل زیادہ مارکیٹ میں آنے کے بعد تیل کی قیمتیں 10 ڈالر فی بیرل پر آگئیں۔ روسی معیشت کا دارومدار گیس اور تیل پر تھا۔ روسی معیشت خسارے میں جانے کے بعد روس نے 15 فروری 1989ء سے افغانستان سے نکلنا شروع کردیا تھا۔
یاد رہے کہ امریکی اسٹیٹ سیکریٹری جان فوسٹر ڈیولس نے جنوبی ایشیائی ملکوں کا دورہ جون 1953ء کو کیا تھا۔ اس کے دورے کے بعد امریکی نائب صدر رچرڈ نکسن نے ایشیائی ملکوں کا دورہ کرکے کہا تھا۔ ''سوشلسٹ روس، چین کے خلاف ترکی، ایران، پاکستان، ویتنام ہند چینی فارموسا اور جاپان کا اجتماعی دفاعی احصار قائم کیا جائے۔'' امریکا نے جو جنگ ویتنام، لاؤس، کمبوڈیا اور انڈونیشیا میں چھیڑی اس کا بھیانک انجام سامنے آیا۔ صرف جون 1971ء تک امریکا نے کئی ٹن بم کمبوڈیا پر گرا دیے تھے۔
امریکا ایک طرف معاشی غلام ملکوں اور یورپی ملکوں میں کاغذی غیر ضمانتی ڈالر پھیلاتا جا رہا تھا دوسری طرف ٹنوں بم پسماندہ ملکوں کے وسائل کو لوٹنے کے لیے ان پر گرا رہا تھا۔ مارچ 1971ء میں فرانس کی حکومت نے امریکا سے مطالبہ کیا کہ 28 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے بدلے سونے کی ادائیگی کرے۔ اس کے ساتھ ہی سوئٹزرلینڈ، بیلجیم اور آسٹریا کی حکومتوں نے ڈالروں کے عوض سونے کی ادائیگی کا مطالبہ کردیا۔ 3 مئی 1971ء سے 5 مئی 1971ء کے دوران جرمنی کے حکومتی بینکوں نے 2 ارب ڈالروں کے عوض مقامی کرنسی اور سونا ادا کرنے کے بعد اسٹاک ایکسچینج بند کردی۔ دیگر متاثر ملکوں نے بھی اسٹاک ایکسچینج بند کردیں۔
(جاری ہے)