جنگ آزادی کا گمنام سپاہی میرداد
جب وہ نیند سے بیدار ہوا تو اسے پارک میں ایک سکھ خاندان نظر آیا
یہ ایک رسمی سا سوال تھا جو اس گیسو تراش گوری چٹی رنگت والی خاتون نے اپنی دکان میں آئے 18 برس کے نوجوان سے کیا تھا کہ تمہارا تعلق کس ملک سے ہے آئرلینڈ سے یا اٹلی سے؟ انجام سے بے خبر اس پشتون نوجوان نے معصومیت سے جواب دیا ہندوستان سے۔
یہ جملہ اس نوجوان کے منہ سے ادا ہوا ہی تھا کہ اس مہذب دنیا کی اس گیسو تراش خاتون نے اس نوجوان پر گھونسوں و ٹھڈوں کی برسات شروع کردی۔ اپنے ساتھ ہونے والے اس پرتشدد سلوک پرحیران وپریشان وہ نوجوان اس گیسو تراش خاتون کی دکان سے نکلا اور قریبی پارک میں جاکر ایک بینچ پر اپنے بازوکا تکیہ بناکر دراز ہوگیا پھر نجانے نیند کی دیوی نے کب اس پر غلبہ پالیا البتہ پارک کی بینچ پر دراز ہوتے وقت وہ شدت سے اس سوال کا جواب تلاش کر رہا تھا کہ آخر اس حجامت بنانے والی خاتون نے اسے تشدد کا نشانہ کیوں بنایا؟
یہ ضرور ہوا کہ جب وہ نیند سے بیدار ہوا تو اسے پارک میں ایک سکھ خاندان نظر آیا، چنانچہ اس سکھ کے پاس وہ بھی جا بیٹھا گوکہ وہ سکھ خاندان اس کا ہم زبان نہ تھا مگر تھا تو اس کے دیس ہندوستان کا۔تھوڑی دیر میں تمام تکلفات ایک جانب رکھ کر وہ نوجوان اس سکھ خاندان کو اپنی روئیداد ان الفاظ میں سنا رہا تھا کہ اس کا تعلق ضلع کیمبل پورکی تحصیل حضروکے گاؤں ملہو سے ہے جس کا دوسرا نام چھچھ بھی ہے کوئی چھ برس قبل جب وہ ایک 12 برس کا بچہ تھا تو اپنے گاؤں میں اپنے والدین کے ساتھ مقیم تھا ایک چھوٹا بھائی شہینی خان تھا والد کے پاس فقط 10 کنال زرعی زمین تھی۔
والد کھیتی باڑی کرتے اور جیسے تیسے دو وقت کی روٹی مل ہی جاتی، البتہ دیگرضروریات کے لیے والد بٹیرے پکڑتے اور قریبی شہر حضرو میں فروخت کردیتے اسی طرح بٹیرے پکڑنے کا اپنا شوق و گھریلو ضروریات پوری کرتے چنانچہ ایک روز والد نے شکار کیے بٹیرے تھیلے میں ڈال کر میرے حوالے کیے اور کہا کہ میر داد یہ بٹیرے حضرو شہر جاکر فروخت کرکے جو رقم ملے مجھے لاکر دے دینا وہ بٹیرے لے کر میں حضرو شہر جا رہا تھا کہ مجھے خیال گزرا کہ دیکھوں کہ تھیلے میں نر بٹیرے کتنے ہیں اور مادہ بٹیرے کتنے ہیں؟ مگر یہ کیا جیسے ہی تھیلے میں ہاتھ ڈالا چار پانچ بٹیرے پھر سے اُڑ گئے میری تو گویا جان ہی نکل گئی میرے سامنے ایک ہی سوال تھا کہ بٹیروں کی رقم کی بابت والد کو کیا جواب دوں گا؟ کیونکہ سخت گیر والد کو گویا تشدد کرنے کا ایک اور موقعہ مل جائے گا چنانچہ باقی ماندہ بٹیرے حضرو شہر جاکر فروخت کیے اور رقم لے کر نامعلوم منزل کی جانب روانہ ہوگیا۔
بس ریلوے کی پٹری نظر آگئی اور اسی پر رواں دواں ہوگیا۔ 16 میل کا طویل سفر پیدل ہی طے کرگیا اور کیمبل پور شہر کے ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا اور نامعلوم منزل کی جانب جانے والی ٹرین میں سوار ہوگیا مجھے دو باتوں کا خوف تھا کہ سخت گیر والد کہیں سے آکر تشدد کا نشانہ نہ بنانا شروع کردے یا ٹکٹ چیکر آکر مجھے پولیس کے حوالے نہ کردے۔ اسی کیفیت میں، میں نے تین شب و تین یوم بنا خوراک کے گزار دیے۔
مجھے یہ بھی خبر نہ ہوئی کہ کب ٹرین بمبئی پہنچ گئی مگر میں سیٹ کے نیچے سوتا رہا البتہ ٹرین کی صفائی کرنیوالے نے مجھے بیدار کیا اور پولیس کے حوالے کردیا پولیس والے نے مجھے باقی ماندہ بٹیروں کی فروخت سے حاصل شدہ رقم سے محروم کردیا۔ یوں میں ایک اجنبی شہر میں سڑک چھاپ بن گیا اور اسی کیفیت میں قریب قریب چھ برس بیت گئے اب میں ایک 18 برس کا نوجوان تھا۔ چند ساتھ کام کرنیوالوں کے مشورے سے بحری جہاز میں کوئلہ ڈالنے کی نوکری مل گئی اور میں اس جہاز کے ساتھ یہاں امریکا چلا آیا، یہاں آکر بے خیالی میں سر کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے پر احساس ہوا کہ بال تراش خراش کے طالب ہیں سو میں حجام کی دکان میں چلا آیا اور اس حجامت بنانے والی خاتون نے میری گت ہی بنا ڈالی۔
میرداد اپنی روئیداد سنا کر خاموش ہوگیا اور سوالیہ انداز میں اس سکھ خاندان کے سربراہ کی جانب دیکھنے لگا؟ اس سکھ سردار جی نے میرداد کو جواب دیا کہ تمہارا دوش یہ ہے کہ تم ایک ہندوستانی ہو اور ہندوستان ایک غلام دیس ہے البتہ وہ سکھ خاندان میرداد کو اپنے ساتھ کیلی فورنیا لے آیا جہاں وہ خاندان کھیتی باڑی کرتا تھا،کھیتی باڑی کرنیوالا یہ خاندان تنہا تھا بلکہ مزید کئی خاندان بھی کھیتی باڑی کرتے تھے یہ ضرور تھا کہ ان سکھ خاندانوں کا تعلق نظریاتی طور پر مارکسی غدر پارٹی سے تھا۔
غدر پارٹی 1913ء میں قائم ہوئی اور ماجھے و دوآب کے سکھ خاندان جوکہ امریکا و دوسرے ممالک میں مقیم تھے غدر پارٹی کو چلانے میں خوب مالی مدد فراہم کرتے تھے میرداد جب اس خاندان کے پاس سکونت پذیر ہوا تو یہ 1926ء کا زمانہ تھا۔ میرداد کھیتی باڑی میں اس خاندان کا ہاتھ بٹاتا اور فارغ وقت میں انگریزی و مارکسی تعلیم حاصل کرتا کوئی پانچ برس میردادکا قیام امریکا میں رہا پھر اس نے امریکا چھوڑ دیا اور دیس دیس کی خاک چھاننے کا فیصلہ کیا وہ برطانیہ گیا، فرانس بھی گیا اور فرانس کے محنت کشوں کی جدوجہد میں شریک رہا۔
میرداد سوویت یونین بھی گیا اور وہاں کی اعلیٰ قیادت سے بھی ملا البتہ چین بھی گیا اور عظیم انقلابی رہنما ماؤزے تنگ سے بھی ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ 1933ء میں میرداد اپنی شناخت بدل کر ہندوستان میں داخل ہوا اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے رابطہ کرکے اس کے لیے کام کرنے لگ گیا۔ میرداد مختلف روپ دھارنے کا ماہر تھا چنانچہ میرداد کوکانپور بھیج دیا گیا کہ وہاں مزدور تحریک منظم کرے۔
میرداد نے اپنا کام بحسن خوبی ادا کیا کہ 1939ء کا زمانہ آتا ہے کمیونسٹ پارٹی میرداد کو پنجاب روانہ کرتی ہے کہ وہاں جاکر یہ پرچار کرے کہ دوسری عالمگیر جنگ جو سامراج قوتوں نے شروع کی ہے اس میں ہندوستانی نوجوان شریک نہ ہوں، البتہ اس جنگ کو انقلابی لڑائی میں تبدیل کردیا جائے۔ یہاں بھی کامیاب رہا البتہ امرتسر کے قریبی گاؤں میں ایک کسان کانفرنس ہو رہی تھی جس کی صدارت نامور کمیونسٹ رہنما ڈاکٹر اشرف کوکرنا تھی مگر وہ تشریف نہ لاسکے تو میرداد جوکہ اس وقت ایک سکھ کے روپ میں تھا کہ اس کو کرتار سکھ کا نام دے کر کرسی صدارت پر بٹھا دیا۔
پولیس کو شبہ ہوچکا تھا کہ کوئی اہم رہنما ہے جوکہ روپوش ہے چنانچہ پولیس کی بھاری نفری نے میرداد کو گرفتارکرلیا مگر تین ماہ پولیس میرداد سے فقط اس کا نام و آبائی گاؤں کا پتہ ہی معلوم کرسکی۔ چنانچہ میرداد کو اس کے گاؤں میں لاکر پابند کردیا کہ وہ گاؤں سے باہر نہ جائے گا۔ گاؤں کا کوئی بھی باسی میرداد کو پہچان نہ سکا، ماں بھی۔ البتہ ایک ماموں تھا جس نے اسے شناخت کرلیا۔
اب عام کسان بھی علاقے کے بااثر زمینداروں شمس آبادی خانوں وکھڑ سرداروں کو آنکھیں دکھانے لگے چنانچہ میرداد کو نقص امن کے تحت گرفتار کرلیا گیا قریب تھا کہ میرداد کی گرفتاری کے وقت پولیس وگاؤں کے لوگوں میں خونریز تصادم ہوجاتا کیونکہ کثیر تعداد مرد و زن جمع ہوگئے تھے گرفتاری کے بعد میرداد کو کیمبل پور کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اسے 18 ماہ کی قید سنا دی گئی۔ قریب تھا کہ علاقے کے لوگ میرداد کو کیمبل پور جیل سے چھڑوا کر لے جاتے کہ میرداد کوکالا پانی جیل بھیج دیا گیا۔
جی منٹمگری جیل کو اس وقت کالا پانی ہی کا نام دیا جاتا تھا۔ پھر ایک دن میرداد کو منٹمگری جیل سے کسی دوسری جیل منتقل کیا جا رہا تھا بذریعہ ٹرین مگر میرداد نے پولیس کو چکمہ دیا اور فرنٹیئر میل جیسی تیز رفتار ٹرین سے چھلانگ لگادی اور زخمی ہونے کے باوجود فرار ہوگیا۔
یہ 1940ء کا زمانہ تھا آنیوالے چھ برس اس نے جدوجہد میں گزار دیے وہ مزدوروں و کسانوں کو شعور دینے کی کوشش کرتا، طبقاتی شعور و انقلابی شعور۔ 1946ء کا زمانہ آگیا جب نیوی کی مشہور ہڑتال ہوئی یہ ہڑتال ایسی تھی کہ قریب تھا کہ انقلاب برپا ہوجاتا یہ ہڑتال کئی روز جاری رہی اور 22 فروری 1946ء کو بمبئی کی سڑکوں پر S.A ڈانگے جوکہ نامور کمیونسٹ رہنما تھے کی قیادت میں 12 لاکھ انقلابی پھیل چکے تھے مگر پھر سیاست نے نیا رخ اختیار کرلیا ایسے میرداد ہڑتالیوں کو منظم کرتا اور 23 فروری 1946ء کو بمبئی کی کسی سڑک پر کسی انگریز پولیس والے کی گولی کا نشانہ بن گیا۔ آخری بار اس کے منہ سے انقلاب زندہ باد کا نعرہ گونجا۔
آج 23 فروری2017ء کو میرداد کی 71 ویں برسی ہے ملک میں جغرافیہ تبدیل ہوگیا مگر سماجی تبدیلی نہ آسکی معلوم نہیں یہ تبدیلی کب آئے گی؟