جامعات میں سیمسٹر سسٹم کی حقیقت
ہمارے ملک کی بہت کم یونیورسٹیاں ایسی ہیں جو عالمی معیار پر پوری اترتی ہوں۔
جامعات تعلیمی نظام کا سب سے اعلا درجہ کہلاتی ہیں۔
جامعہ کی سطح پر نصاب اسکول اور کالجوں کی طرح نصابی کتب کے بجائے مکمل طور پر مختلف موضوعات پر مشتمل ہوتا ہے جس کے لیے طالب علم کو زیادہ سے زیادہ مطالعہ اور تحقیق کرنا پڑتی ہے۔ اس ہی لیے جامعات کی صورت حال سے ہی اعلا تعلیم کا معیار پرکھا جاتا ہے اور اس سے فارغ التحصیل ہونے والوں کو ماسٹرز کی ڈگری عطا کی جاتی ہے۔
پاکستان میں اعلا تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ نصف عشرے کے دوران جامعہ کی سطح کی تعلیم میں خاصی پیشرفت دیکھنے میں آئی۔ اعلا تعلیمی کمیشن کا قیام جامعات کے لیے نیک شگون ثابت ہوا اور حکومتی سرپرستی میں ایچ ای سی نے ان جامعات کو معقول مالی معاونت فراہم کی اور یوں بیشتر یونیورسٹیاں اپنے پائوں پر کھڑی ہونے میں کام یاب ہوئیں۔
اس وقت ملک میںسرکاری و نجی یونیورسٹیوں کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں جامعات کی تعداد جس انداز سے بڑھی ہے کیا اعلا تعلیم کے معیار میں بھی کوئی قابل ذکر بہتری آئی؟ اور جامعات میں رائج تعلیمی نصاب اور نظام اس قابل ہے کہ عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ ہماری اکثر جامعات میں سمسٹر سسٹم رائج ہے۔ عملی طور پر دیکھے تو یہ نظام ہماری اعلا سطح کی تعلیم کو معیارسے دور لے جا رہا ہے۔ یہ سمسٹر کا نظام در حقیقت ایک سراب کے سوا کچھ نہیں، کیوں کہ چھے مہینے پر مشتمل سمسٹر میں ایک سے ڈیڑھ ماہ سمسٹر بریک کے نام پر تعطیل رہتی ہے، جب کہ ایک مہینا امتحانات میں صرف ہوتا ہے۔ باقی صرف ساڑھے تین ماہ بچتے ہیں... عجیب بات یہ ہے کہ ان ساڑھے 3 ماہ یعنی تقریباً سو دنوں میں سے ہر ایک مضمون کا مجموعی دورانیہ صرف 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
یعنی ایک مضمون کو یونیورسٹی کے اندر صرف اٹھائیس پیریڈ میں مکمل کیا جاتا ہے، جب کہ ان ایام میں تقاریب، ہڑتالوں اور نا گہانی تعطیلات کے سبب مزید کمی بھی واقع ہو سکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ محض چار، چار ہفتے کا کورس سکھا کر کسی اسٹوڈنٹ کو ایک مضمون میں ماہر یعنی ایم اے، ایم ایس سی، بی ایس کی سند تفویض کیا جانادرست ہے؟ ہماری ان جامعات میں تکمیل کورس کے نام پر کسی مضمون کے چند جزیات ہی پڑھائے جاتے ہیں اور ''سند یافتہ'' طلبہ و طالبات کو اس مضمون میں ماہر یعنی ماسٹر تصور کیا جاتا ہے، پھر عملی زندگی میں پھر جب وہ حصول ملازمت کے لیے کہیں جاتا ہے تو اس سے عملی تربیت کا سوال کیا جاتا ہے اور اسے تعلیم کے بعد ''انٹرن شپ'' کے نام پر ایک سے ڈیڑھ سال تک دھکے کھانے پڑتے ہیں
جب کوئی نوجوان چار سال تک یونیورسٹی کی تعلیم کے باوجود اگر اپنے شعبے میں مہارت سے خالی ہے تو وہ خود کو تعلیم یافتہ کہلانے کا استحقاق کیسے رکھ سکتا ہے۔
آج حال یہ ہے کہ ہمارے ملک کی بہت کم یونیورسٹیاں ایسی ہیں جو عالمی معیار پر پوری اترتی ہوں۔ نوجوانوں کی کثیر تعداد یونیورسٹی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی حصول معاش کی راہ میں بھٹکتے نظر آتے ہیں، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ سمیسٹر سسٹم پر نظر ثانی کی جائے تاکہ نصاب میں شامل ہر موضوع سے مکمل طور پر انصاف ہوسکے، جب ایک سیمسٹر چھ ماہ پر مشتمل ہے تو اس کا دورانیہ پھرمزید کم نہیں ہونا چاہیے، ورنہ تعلیم کی صورت حال جوں کی توں رہے گی اور جامعات سے ایم اے کرکے نکلنے والے طلبہ اپنے شعبوں میں کسی قابلیت سے بھی فارغ رہیں گے۔
جامعہ کی سطح پر نصاب اسکول اور کالجوں کی طرح نصابی کتب کے بجائے مکمل طور پر مختلف موضوعات پر مشتمل ہوتا ہے جس کے لیے طالب علم کو زیادہ سے زیادہ مطالعہ اور تحقیق کرنا پڑتی ہے۔ اس ہی لیے جامعات کی صورت حال سے ہی اعلا تعلیم کا معیار پرکھا جاتا ہے اور اس سے فارغ التحصیل ہونے والوں کو ماسٹرز کی ڈگری عطا کی جاتی ہے۔
پاکستان میں اعلا تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ نصف عشرے کے دوران جامعہ کی سطح کی تعلیم میں خاصی پیشرفت دیکھنے میں آئی۔ اعلا تعلیمی کمیشن کا قیام جامعات کے لیے نیک شگون ثابت ہوا اور حکومتی سرپرستی میں ایچ ای سی نے ان جامعات کو معقول مالی معاونت فراہم کی اور یوں بیشتر یونیورسٹیاں اپنے پائوں پر کھڑی ہونے میں کام یاب ہوئیں۔
اس وقت ملک میںسرکاری و نجی یونیورسٹیوں کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں جامعات کی تعداد جس انداز سے بڑھی ہے کیا اعلا تعلیم کے معیار میں بھی کوئی قابل ذکر بہتری آئی؟ اور جامعات میں رائج تعلیمی نصاب اور نظام اس قابل ہے کہ عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ ہماری اکثر جامعات میں سمسٹر سسٹم رائج ہے۔ عملی طور پر دیکھے تو یہ نظام ہماری اعلا سطح کی تعلیم کو معیارسے دور لے جا رہا ہے۔ یہ سمسٹر کا نظام در حقیقت ایک سراب کے سوا کچھ نہیں، کیوں کہ چھے مہینے پر مشتمل سمسٹر میں ایک سے ڈیڑھ ماہ سمسٹر بریک کے نام پر تعطیل رہتی ہے، جب کہ ایک مہینا امتحانات میں صرف ہوتا ہے۔ باقی صرف ساڑھے تین ماہ بچتے ہیں... عجیب بات یہ ہے کہ ان ساڑھے 3 ماہ یعنی تقریباً سو دنوں میں سے ہر ایک مضمون کا مجموعی دورانیہ صرف 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
یعنی ایک مضمون کو یونیورسٹی کے اندر صرف اٹھائیس پیریڈ میں مکمل کیا جاتا ہے، جب کہ ان ایام میں تقاریب، ہڑتالوں اور نا گہانی تعطیلات کے سبب مزید کمی بھی واقع ہو سکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ محض چار، چار ہفتے کا کورس سکھا کر کسی اسٹوڈنٹ کو ایک مضمون میں ماہر یعنی ایم اے، ایم ایس سی، بی ایس کی سند تفویض کیا جانادرست ہے؟ ہماری ان جامعات میں تکمیل کورس کے نام پر کسی مضمون کے چند جزیات ہی پڑھائے جاتے ہیں اور ''سند یافتہ'' طلبہ و طالبات کو اس مضمون میں ماہر یعنی ماسٹر تصور کیا جاتا ہے، پھر عملی زندگی میں پھر جب وہ حصول ملازمت کے لیے کہیں جاتا ہے تو اس سے عملی تربیت کا سوال کیا جاتا ہے اور اسے تعلیم کے بعد ''انٹرن شپ'' کے نام پر ایک سے ڈیڑھ سال تک دھکے کھانے پڑتے ہیں
جب کوئی نوجوان چار سال تک یونیورسٹی کی تعلیم کے باوجود اگر اپنے شعبے میں مہارت سے خالی ہے تو وہ خود کو تعلیم یافتہ کہلانے کا استحقاق کیسے رکھ سکتا ہے۔
آج حال یہ ہے کہ ہمارے ملک کی بہت کم یونیورسٹیاں ایسی ہیں جو عالمی معیار پر پوری اترتی ہوں۔ نوجوانوں کی کثیر تعداد یونیورسٹی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی حصول معاش کی راہ میں بھٹکتے نظر آتے ہیں، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ سمیسٹر سسٹم پر نظر ثانی کی جائے تاکہ نصاب میں شامل ہر موضوع سے مکمل طور پر انصاف ہوسکے، جب ایک سیمسٹر چھ ماہ پر مشتمل ہے تو اس کا دورانیہ پھرمزید کم نہیں ہونا چاہیے، ورنہ تعلیم کی صورت حال جوں کی توں رہے گی اور جامعات سے ایم اے کرکے نکلنے والے طلبہ اپنے شعبوں میں کسی قابلیت سے بھی فارغ رہیں گے۔