ہائیر سیکنڈری اسکول میں نادرا کا مرکز قائم
اوبارو کے ڈیڑھ سو کے قریب بچے اس کچے چھپر کے سائے میں سرد موسم کی سختی برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔
علم انسان کا شعور بے دار کرتا ہے۔ہماری مذہبی تعلیمات بھی جابجاحصول علم کی تلقین کرتی ہیں، اسلام ہمیں یہی درس دیتا ہے کہ علم حاصل کرو گود سے گور تک۔
تمام ترغیبات اور ہدایت کے باوجود حکومتی سطح پر تعلیم سے دل چسپی میں اضافہ نہیں ہوتا اور سالانہ میزانیے میں اس کے لیے بہ قدر اشک بلبل رقم مختص کی جاتی ہے اور اس میں بھی اتنی غیر سنجیدگی دکھائی جاتی ہے کہ جس کی نظیر آئے روز سامنے آنے والے تعلیمی معاملات سے واضح ہوجاتی ہے۔ دور جدید میں علم کے حصول کے لیے اسکول اور ہائی اسکول سے کالجوں تک کے تعلیمی ادارے ہر تحصیل میں موجود ہیں لیکن ان کی فعالیت اور دیگر مسائل کے باعث صورت حال بہتر نہیں۔
تحصیل اوباڑو میں گزشتہ دو عشروں سے قائم گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول میں نہایت غیر مناسب طرز عمل اختیار کرتے ہوئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حوالے سے نادرا کا مرکز قائم کر دیا گیا ہے، جہاں سے مستحقین کے لیے اسمارٹ کارڈ جاری کیے جارہے ہیں۔
اس سے جہاں اسکول کے 35 سو طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگا ہے وہیں فرسٹ ایئر اور انٹرمیڈیٹ کے طالب علم براہ راست متاثر ہو رہے ہیںکیوں کہ ان کے کمرے نادرا کے قبضے میں ہیں، جس کے باعث تدریس نہ ہونے سے اساتذہ بھی نہیں آ رہے اور ان کے تعلیمی مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
اسکول کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا مرکز بنانے سے یہاں علی الصبح ہی ہزارں مرد و خواتین جمع ہوجاتے ہیں، جس سے اسکول کے بچوں کو آمدورفت میں شدید مشکلات ہیں۔ رہی سہی کسر مختلف ٹھیلوں نے پوری کردی جو لوگوں کی موجودگی کا فایدہ اٹھاتے ہوئے آن موجود ہوتے ہیں، اور پھل، سبزیاں اور کھانے پینے کی مختلف چیزوں کی خرید و فروخت کے باعث اسکول گویا مچھلی بازار بن کر رہ گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے اسکول کے حوالے سے نہایت غیر سنجیدہ عمل پر اسکول پرنسپل حسین بخش بوزدار، گسٹا کے صدر عبدالرشید اور دیگر نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسکول کی عمارت میں نادرا کا مرکز قائم کر کے تعلیمی ادارے کے تقدس کو پامال کیا گیا ہے۔
اس سنگین معاملے پر ڈپٹی کمشنر گھوٹکی، کمشنر سکھر اور محکمہ تعلیم کے اعلا افسران کو درخواستیں دی ہیں کہ خدا کے لیے علاقے کے ساڑھے3 ہزار طلبہ کے مستقبل پر رحم کریں لیکن تاحال کسی نے بھی نوٹس نہیں لیا۔ شہر کی مختلف سیاسی اور سماجی تنظیموں نے ہائیر سیکنڈری اسکول کے نادرا مرکز میں تبدیل ہونے کی سخت مذمت کی ہے۔
سندھ ترقی پسند پارٹی کے رہنما زاہد دایو، ن لیگ کے رہنما عبدالستار بھٹو، پی پی شہید بھٹو کے کامریڈ الیاس ملک، تحریک انصاف کے امداد علی گرگیج اور دیگر نے کہا کہ شہر کی اہم تعلیمی درس گاہ کو نادرا سینٹر قائم کر کے تباہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اگر نادرا سینٹر کا قیام اس قدر ضروری ہے تو اسے کسی بہتر جگہ بنایا جائے، بہ صورت دیگر اسکول کو کسی مناسب جگہ منتقل کرکے ملک وقوم کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ختم کیا جائے ۔
اوباڑو میں ہائیر سیکنڈری کے ساتھ ساتھ پرائمری تعلیم کا بھی بیڑا غرق ہو چکا ہے، کہیں اسکول کی عمارت ہے تو تعلیم نہیں اور کہیں تعلیم ہے تو عمارت نہیں، گاؤں صدورو موچی میں بچے اپنی مدد آپ کے تحت بنائے گئے لکڑیوں اور بھوسے کے ایک چھپر میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
علاقے کے ڈیڑھ سو کے قریب بچے اس کچے چھپر کے سائے میں سرد موسم کی سختی برداشت کرنے پر مجبور ہیںجب کہ طلبہ و طالبات کے مشترکہ پرائمری اسکول کی عمارت گزشتہ 5 سال سے زیر تعمیر ہے اور آج تک اس کا تعمیراتی کام مکمل نہیں ہو سکا۔ شہریوں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اسکول کی عمارت محکمہ ایجوکیشن ورکس کی عدم دل چسپی اور سستی کی وجہ سے مکمل نہیں ہو پا رہی لہٰذا ہم نے بچوں کو پڑھانے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت ایک سائبان بنا لیا ہے جس میں ہمارے بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ اس عارضی اسکول میں 2 پرائمری ٹیچرز بھی تعینات ہیں جو باقاعدگی سے بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔
تحصیل اوباڑو سمیت سندھ کی ہر تحصیل میں محکمہ تعلیم کی کارکردگی صفر نظر آتی ہے۔ وزرا اور مشیروں نے اپنے کوٹہ سے اسکولوں کی عمارتیں اپنے منظور نظر علاقوں میں بطور اوطاق بنوالیں جب کہ بچے چھپرے تلے یا کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ نادرا کا مرکز بننے والا ہائیر سیکنڈری اسکول ہو یا اساتذہ سے محروم اسکول ہوں یا اسکول سے محروم اساتذہ، ہر معاملہ تعلیم کے حوالے سے نہایت زبوں حالی کی داستان سنا رہا ہے۔
تمام ترغیبات اور ہدایت کے باوجود حکومتی سطح پر تعلیم سے دل چسپی میں اضافہ نہیں ہوتا اور سالانہ میزانیے میں اس کے لیے بہ قدر اشک بلبل رقم مختص کی جاتی ہے اور اس میں بھی اتنی غیر سنجیدگی دکھائی جاتی ہے کہ جس کی نظیر آئے روز سامنے آنے والے تعلیمی معاملات سے واضح ہوجاتی ہے۔ دور جدید میں علم کے حصول کے لیے اسکول اور ہائی اسکول سے کالجوں تک کے تعلیمی ادارے ہر تحصیل میں موجود ہیں لیکن ان کی فعالیت اور دیگر مسائل کے باعث صورت حال بہتر نہیں۔
تحصیل اوباڑو میں گزشتہ دو عشروں سے قائم گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول میں نہایت غیر مناسب طرز عمل اختیار کرتے ہوئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حوالے سے نادرا کا مرکز قائم کر دیا گیا ہے، جہاں سے مستحقین کے لیے اسمارٹ کارڈ جاری کیے جارہے ہیں۔
اس سے جہاں اسکول کے 35 سو طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگا ہے وہیں فرسٹ ایئر اور انٹرمیڈیٹ کے طالب علم براہ راست متاثر ہو رہے ہیںکیوں کہ ان کے کمرے نادرا کے قبضے میں ہیں، جس کے باعث تدریس نہ ہونے سے اساتذہ بھی نہیں آ رہے اور ان کے تعلیمی مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
اسکول کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا مرکز بنانے سے یہاں علی الصبح ہی ہزارں مرد و خواتین جمع ہوجاتے ہیں، جس سے اسکول کے بچوں کو آمدورفت میں شدید مشکلات ہیں۔ رہی سہی کسر مختلف ٹھیلوں نے پوری کردی جو لوگوں کی موجودگی کا فایدہ اٹھاتے ہوئے آن موجود ہوتے ہیں، اور پھل، سبزیاں اور کھانے پینے کی مختلف چیزوں کی خرید و فروخت کے باعث اسکول گویا مچھلی بازار بن کر رہ گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے اسکول کے حوالے سے نہایت غیر سنجیدہ عمل پر اسکول پرنسپل حسین بخش بوزدار، گسٹا کے صدر عبدالرشید اور دیگر نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسکول کی عمارت میں نادرا کا مرکز قائم کر کے تعلیمی ادارے کے تقدس کو پامال کیا گیا ہے۔
اس سنگین معاملے پر ڈپٹی کمشنر گھوٹکی، کمشنر سکھر اور محکمہ تعلیم کے اعلا افسران کو درخواستیں دی ہیں کہ خدا کے لیے علاقے کے ساڑھے3 ہزار طلبہ کے مستقبل پر رحم کریں لیکن تاحال کسی نے بھی نوٹس نہیں لیا۔ شہر کی مختلف سیاسی اور سماجی تنظیموں نے ہائیر سیکنڈری اسکول کے نادرا مرکز میں تبدیل ہونے کی سخت مذمت کی ہے۔
سندھ ترقی پسند پارٹی کے رہنما زاہد دایو، ن لیگ کے رہنما عبدالستار بھٹو، پی پی شہید بھٹو کے کامریڈ الیاس ملک، تحریک انصاف کے امداد علی گرگیج اور دیگر نے کہا کہ شہر کی اہم تعلیمی درس گاہ کو نادرا سینٹر قائم کر کے تباہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اگر نادرا سینٹر کا قیام اس قدر ضروری ہے تو اسے کسی بہتر جگہ بنایا جائے، بہ صورت دیگر اسکول کو کسی مناسب جگہ منتقل کرکے ملک وقوم کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ختم کیا جائے ۔
اوباڑو میں ہائیر سیکنڈری کے ساتھ ساتھ پرائمری تعلیم کا بھی بیڑا غرق ہو چکا ہے، کہیں اسکول کی عمارت ہے تو تعلیم نہیں اور کہیں تعلیم ہے تو عمارت نہیں، گاؤں صدورو موچی میں بچے اپنی مدد آپ کے تحت بنائے گئے لکڑیوں اور بھوسے کے ایک چھپر میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
علاقے کے ڈیڑھ سو کے قریب بچے اس کچے چھپر کے سائے میں سرد موسم کی سختی برداشت کرنے پر مجبور ہیںجب کہ طلبہ و طالبات کے مشترکہ پرائمری اسکول کی عمارت گزشتہ 5 سال سے زیر تعمیر ہے اور آج تک اس کا تعمیراتی کام مکمل نہیں ہو سکا۔ شہریوں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اسکول کی عمارت محکمہ ایجوکیشن ورکس کی عدم دل چسپی اور سستی کی وجہ سے مکمل نہیں ہو پا رہی لہٰذا ہم نے بچوں کو پڑھانے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت ایک سائبان بنا لیا ہے جس میں ہمارے بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ اس عارضی اسکول میں 2 پرائمری ٹیچرز بھی تعینات ہیں جو باقاعدگی سے بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔
تحصیل اوباڑو سمیت سندھ کی ہر تحصیل میں محکمہ تعلیم کی کارکردگی صفر نظر آتی ہے۔ وزرا اور مشیروں نے اپنے کوٹہ سے اسکولوں کی عمارتیں اپنے منظور نظر علاقوں میں بطور اوطاق بنوالیں جب کہ بچے چھپرے تلے یا کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ نادرا کا مرکز بننے والا ہائیر سیکنڈری اسکول ہو یا اساتذہ سے محروم اسکول ہوں یا اسکول سے محروم اساتذہ، ہر معاملہ تعلیم کے حوالے سے نہایت زبوں حالی کی داستان سنا رہا ہے۔