منیشا میری دوست ہے اور بس میڈیا ہمارے بارے میں بے بنیاد خبریں نہ پھیلائے امن ورما
فن کار خاصے بے بس لوگ ہیں جب کہ میڈیا ایک زبردست طاقت کا نام ہے۔
ٹیلی ورلڈ سے فلم نگری کا راستہ اختیار کرنے والے امن ورما کو ورسٹائل مانا جاتا ہے۔
انھوں نے چھوٹی اسکرین پر خود کو منوانے کے بعد مختلف کرداروں کے ذریعے فلم بینوں کی توجہ بھی حاصل کی۔ زی ٹی وی چینل پر 'چھوٹی بہو' میں منفی کردار نہایت عمدگی سے نبھا کر انھوں نے اپنے پرستاروں اور ناظرین کے دل جیت لیے۔ وہ ہندوستان میں تھیٹر کے ان چند فن کاروں میں شامل ہیں، جنھوں اس میڈیم میں خاصا کام کیا ہے اور تھیٹر کے فروغ میں ان کا کردار اہمیت رکھتا ہے۔ امن ورما سے ایک گپ شپ کا احوال آپ کی نذر ہے۔
٭ فلم، ٹیلی ویژن اور تھیٹر میں سے کسے زیادہ اہمیت دیتے ہیں؟
میری نظر میں ان تینوں میڈیمز کی یک ساں اہمیت ہے۔ تاہم میری توجہ اور دل چسپی تھیٹر میں زیادہ ہے۔ میرا شروع ہی سے تھیٹر کے ساتھ جذباتی تعلق قائم ہو گیا تھا، جو وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہو گیا۔ میں خود کو اس سے جدا نہیں کر سکتا۔ میں نے اپنے کیریر کا آغاز تھیٹر کے ڈراموں سے کیا تھا اور پھر ٹیلی ویژن اسکرین پر ہنر دکھانے کا موقع ملا۔ اس کا اپنا مزہ ہے، یہ پُراثر اور کروڑوں ناظرین تک فوری رسائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، جب کہ فلم ایک انتہائی مختلف میڈیم ہے۔ میری نظر میں فلموں میں کام کرنا تھیٹر اور ٹیلی ویژن کے مقابلے میں آسان ہے، جب کہ اس کے ذریعے شہرت کا سفر بھی تیزی سے طے کیا جاسکتا ہے۔
٭ ٹیلی ویژن پر اپنے فنی سفر کے آغاز کی بابت کچھ بتائیے۔
پہلی مرتبہ مجھے ''پچپن کھمبے'' نامی ڈرامے کے ذریعے چھوٹی اسکرین پر اپنی پرفارمینس کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ وہ دور مجھے آج بھی یاد ہے۔ اس وقت ٹیلی ویژن پر مسابقت کی دوڑ اس قدر نہ تھی۔ معیاری کھیل پیش کیے جاتے تھے، جب کہ فن کار محنتی اور سیکھنے کا جذبہ رکھتے تھے، ہم نے دیکھا ہے کہ اس وقت آرٹسٹ تربیت لے کر انڈسٹری میں قدم رکھتے تھے۔ آج صورت حال اس کے برعکس ہے۔
بے شک نئے چہرے باصلاحیت ہیں اور عمدہ پرفارمینس دے رہے ہیں، لیکن اداکاری کے اسرار و رموز سے اکثریت ناواقف ہے اور افسوس کی بات ہے کہ وہ سیکھنا بھی نہیں چاہتے۔ ہم نے ہمیشہ اپنے سینئرز سے سیکھنے کی کوشش کی ہے، ان کی عزت کی ہے اور ان کا کام دیکھ کر اداکاری کو سمجھا ہے۔ خیر، میں کسی اور طرف جا رہا ہوں۔ یہ باتیں پھر کسی وقت کریں گے۔ تو میرا سفر اس طرح آگے بڑھا اور پہلے کے بعد دوسرا اور پھر مزید ڈرامے کرنے کا موقع ملا۔
اس دوران کام یابیاں میرے قدم چومتی رہیں۔ میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے جلد ہی فلموں سے بھی کردار آفر ہونے لگے اور یوں بڑے پردے پر کام کرنے کا موقع ملا، جس نے میری صلاحیتوں کو مزید نکھارا اور وہاں بھی میری شناخت قائم ہو چکی ہے۔
٭ ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں منفی کرداروں کو متعارف کروانے کا رجحان کم ہو گیا ہے۔ اس بارے میں کچھ کہیے۔
غالباً آپ نے یہ سوال اس لیے کیا ہے کہ مجھے ٹی وی ڈراموں میں زیادہ تر منفی کیریکٹرز سونپے گئے اور میں انھیں نبھاتا رہا ہوں۔ آپ کا سوال یہ ہے کہ تبدیلیِ حالات کا مجھ سمیت ان فن کاروں پر کیا اثر پڑے گا، جو ولین کے روپ میں زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اب اسکرپٹ رائٹرز اور ہدایت کاروں کی سوچ تبدیل ہو چکی ہے اور وہ اپنی کہانیوں میں منفی کرداروں سے گریز کر رہے ہیں، لیکن یہ مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکتا۔ جہاں تک میری بات ہے تو میں اپنی صلاحیتوں پر بھروسا کرتا ہوں اور اس کے لیے بالکل بھی فکر مند نہیں ہوں (مسکراتے ہوئے)۔
٭ ایکتا کپور اور آپ کے درمیان گہری دوستی ہے۔ ان کے بارے میں کچھ کہیے۔
یہ محض ایک خیال ہے، جو انڈسٹری کے بعض حلقوں میں خاصا مضبوط ہو گیا ہے۔ میں کہوں گا کہ یہ ایسی بات ہے جس کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ لوگ ایسا کیوں کہتے اور سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میری ایکتا کپور سے چند منٹوں کی تین ملاقاتیں ہوئی ہیں اور فون پر ایک مرتبہ بھی ان سے رابطہ نہیں ہوا ہے۔ پہلی مرتبہ ڈراما گھر اک مندر کے تعلق سے ملنا ہوا تھا اور دوسری بار کیوں کہ ساس بھی ۔۔۔کے لیے ان کا سامنا کیا اور پھر دو سال کے بعد حال ہی میں ان سے پانچ منٹ کی گفت گو کرنے کا موقع ملا۔ خود ہی بتائیے کہ دوستی یا مضبوط تعلق کے بنیاد رکھنے میں یہ کافی ہیں؟ میں ان کے بارے میں اتنا ہی جانتا ہوں جتنا کہ ان کے پروجیکٹ کے لیے کام کرنے والے کوئی عام فن کار جان سکتا ہے۔ میڈیا کے پاس معلوم نہیں کہاں سے اس قسم کی خبر آجاتی ہے۔ مجھے آپ کے سوال پر شدید حیرت ہوئی ہے۔
٭ ایکتا کپور کی طرف سے کوئی کردار آفر کیا جائے تو آپ فوراً ہامی بھر لیں گے؟
جی ہاں۔ ایکتا ایک زبردست اور ذہین آرٹسٹ ہیں، ان کے ڈراموں کی مقبولیت کا عالم ہم نے دیکھا ہے۔ لوگ ان کے نام سے جذباتی طور پر جڑے ہوئے ہیں اور ان کی ہر کاوش کو سراہتے ہیں۔ ان کے کام کے معیار میں کسی کو شبہہ نہیں بلکہ ہم جیسے فن کاروں کے لیے تو بالاجی کا بینر ملنا ایک اعزاز ہے۔ میں ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار نہیں کروں گا۔ ایک میں ہی کیا کوئی بھی فن کار ایکتا اور بالاجی پروڈکشن ہاؤس کے ساتھ کام کرنے سے انکار نہیں کر سکتا۔
٭ آپ کے خیال میں ٹیلی ویژن انڈسٹری میں مخصوص چہروں کو نوازنے کی روایت جڑ پکڑ رہی ہے؟
میں اس پر تبصرہ کرنا نہیں چاہتا، بس اتنا کہوں گا کہ 'کاسٹنگ کاؤچ' استحصال کا ایک بھیانک روپ ہے، جس کا نقصان انڈسٹری کو ہو رہا ہے اور آگے جا کر مزید ہو گا۔ تاہم یہاں اس کی جڑیں ابھی گہری نہیںہیں۔ ہمیں اس کے راستے میں رکاوٹ بننا ہو گا ورنہ یہ ناسور بن جائے گا۔
٭ شہرت آپ کی نظر میں کیا ہے؟
ابتداء میں یہ شناخت، نام وری اور دولت سے جڑی ہوئی تھی، لیکن میں اس کا مفہوم تبدیل ہوتا دیکھ رہا ہوں۔ فن کار اسے پرستاروں کی محبت اور پیار سے نتھی کرنے لگے ہیں۔ میرے لیے بھی شہرت کا مطلب محبت کرنے والوں کا حلقہ بڑھانا اور ان کا پیار سمیٹنا ہے۔ شہرت کے نام پر باقی تمام چیزیں میرے لیے اب ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہر فن کار اسے سمجھتا ہے اور وہ دلوں میں زندہ رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔
٭ منیشا کھٹوانی کے ساتھ آپ کے افیئر کی خبر تھوڑا عرصہ پہلے خوب گرم رہی۔ اس بارے میں کچھ کہیے۔
میرے پاس طاقت نہیں کہ اپنے بارے میں الٹی سیدھی خبروں کی نشر واشاعت کے سلسلے کو روک سکوں۔ میں ایک فن کار ہوں اور ہم خاصے بے بس لوگ ہیں جب کہ میڈیا ایک زبردست طاقت کا نام ہے۔ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اسے زیرو کو ہیرو اور بد کو نیک بنانے کا ہنر آتا ہے اور وہ اسے برتنے میں تامل نہیں کرتا۔ منیشا میری بیسٹ فرینڈ ہے اور اس کے ساتھ میں اکثر ہوٹلنگ کرتا ہوں، گھومنے پھرنے جاتا ہوں اور یہ سب ہماری خوشی کا باعث بنتا ہے۔ اس میں کسی کا کیا جاتا ہے؟ انھیں کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ہمارے بارے میں کوئی خبر بنائیں۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ تصدیق کیے بغیر فن کاروں کی نجی زندگی اور ان کے مابین تعلقات کی خبر لگا دی جاتی ہے۔ میں درخواست کروں گا کہ میڈیا ہمارے بارے میں بے بنیاد خبریں نہ پھیلائے اور کوئی بات سامنے آئے تو سب سے پہلے ہم سے رابطہ کر کے اس کی تصدیق کرے۔
٭ مستقبل میں ڈائریکشن کی طرف آنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
میں تبدیلی چاہتا ہوں، آگے بڑھنے کی خواہش رکھتا ہوں اور ہو سکتا ہے کہ اس سلسلے میں رواں سال کوئی قدم اٹھاؤں۔ میرے ذہن میں چند آئیڈیاز ہیں، ان پر غور کر رہا ہوں اور جلد ہی فیصلہ کر لوں گا۔
٭ بولی وڈ کا کوئی پروجیکٹ آپ کے ہاتھ میں ہے؟
فی الحال نہیں، لیکن دو فلموں کے لیے ڈائریکٹروں نے مجھ سے رابطہ کیا ہے۔ ابھی ہماری بات چیت ابتدائی مرحلے میں ہے۔
انھوں نے چھوٹی اسکرین پر خود کو منوانے کے بعد مختلف کرداروں کے ذریعے فلم بینوں کی توجہ بھی حاصل کی۔ زی ٹی وی چینل پر 'چھوٹی بہو' میں منفی کردار نہایت عمدگی سے نبھا کر انھوں نے اپنے پرستاروں اور ناظرین کے دل جیت لیے۔ وہ ہندوستان میں تھیٹر کے ان چند فن کاروں میں شامل ہیں، جنھوں اس میڈیم میں خاصا کام کیا ہے اور تھیٹر کے فروغ میں ان کا کردار اہمیت رکھتا ہے۔ امن ورما سے ایک گپ شپ کا احوال آپ کی نذر ہے۔
٭ فلم، ٹیلی ویژن اور تھیٹر میں سے کسے زیادہ اہمیت دیتے ہیں؟
میری نظر میں ان تینوں میڈیمز کی یک ساں اہمیت ہے۔ تاہم میری توجہ اور دل چسپی تھیٹر میں زیادہ ہے۔ میرا شروع ہی سے تھیٹر کے ساتھ جذباتی تعلق قائم ہو گیا تھا، جو وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہو گیا۔ میں خود کو اس سے جدا نہیں کر سکتا۔ میں نے اپنے کیریر کا آغاز تھیٹر کے ڈراموں سے کیا تھا اور پھر ٹیلی ویژن اسکرین پر ہنر دکھانے کا موقع ملا۔ اس کا اپنا مزہ ہے، یہ پُراثر اور کروڑوں ناظرین تک فوری رسائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، جب کہ فلم ایک انتہائی مختلف میڈیم ہے۔ میری نظر میں فلموں میں کام کرنا تھیٹر اور ٹیلی ویژن کے مقابلے میں آسان ہے، جب کہ اس کے ذریعے شہرت کا سفر بھی تیزی سے طے کیا جاسکتا ہے۔
٭ ٹیلی ویژن پر اپنے فنی سفر کے آغاز کی بابت کچھ بتائیے۔
پہلی مرتبہ مجھے ''پچپن کھمبے'' نامی ڈرامے کے ذریعے چھوٹی اسکرین پر اپنی پرفارمینس کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ وہ دور مجھے آج بھی یاد ہے۔ اس وقت ٹیلی ویژن پر مسابقت کی دوڑ اس قدر نہ تھی۔ معیاری کھیل پیش کیے جاتے تھے، جب کہ فن کار محنتی اور سیکھنے کا جذبہ رکھتے تھے، ہم نے دیکھا ہے کہ اس وقت آرٹسٹ تربیت لے کر انڈسٹری میں قدم رکھتے تھے۔ آج صورت حال اس کے برعکس ہے۔
بے شک نئے چہرے باصلاحیت ہیں اور عمدہ پرفارمینس دے رہے ہیں، لیکن اداکاری کے اسرار و رموز سے اکثریت ناواقف ہے اور افسوس کی بات ہے کہ وہ سیکھنا بھی نہیں چاہتے۔ ہم نے ہمیشہ اپنے سینئرز سے سیکھنے کی کوشش کی ہے، ان کی عزت کی ہے اور ان کا کام دیکھ کر اداکاری کو سمجھا ہے۔ خیر، میں کسی اور طرف جا رہا ہوں۔ یہ باتیں پھر کسی وقت کریں گے۔ تو میرا سفر اس طرح آگے بڑھا اور پہلے کے بعد دوسرا اور پھر مزید ڈرامے کرنے کا موقع ملا۔
اس دوران کام یابیاں میرے قدم چومتی رہیں۔ میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے جلد ہی فلموں سے بھی کردار آفر ہونے لگے اور یوں بڑے پردے پر کام کرنے کا موقع ملا، جس نے میری صلاحیتوں کو مزید نکھارا اور وہاں بھی میری شناخت قائم ہو چکی ہے۔
٭ ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں منفی کرداروں کو متعارف کروانے کا رجحان کم ہو گیا ہے۔ اس بارے میں کچھ کہیے۔
غالباً آپ نے یہ سوال اس لیے کیا ہے کہ مجھے ٹی وی ڈراموں میں زیادہ تر منفی کیریکٹرز سونپے گئے اور میں انھیں نبھاتا رہا ہوں۔ آپ کا سوال یہ ہے کہ تبدیلیِ حالات کا مجھ سمیت ان فن کاروں پر کیا اثر پڑے گا، جو ولین کے روپ میں زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اب اسکرپٹ رائٹرز اور ہدایت کاروں کی سوچ تبدیل ہو چکی ہے اور وہ اپنی کہانیوں میں منفی کرداروں سے گریز کر رہے ہیں، لیکن یہ مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکتا۔ جہاں تک میری بات ہے تو میں اپنی صلاحیتوں پر بھروسا کرتا ہوں اور اس کے لیے بالکل بھی فکر مند نہیں ہوں (مسکراتے ہوئے)۔
٭ ایکتا کپور اور آپ کے درمیان گہری دوستی ہے۔ ان کے بارے میں کچھ کہیے۔
یہ محض ایک خیال ہے، جو انڈسٹری کے بعض حلقوں میں خاصا مضبوط ہو گیا ہے۔ میں کہوں گا کہ یہ ایسی بات ہے جس کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ لوگ ایسا کیوں کہتے اور سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میری ایکتا کپور سے چند منٹوں کی تین ملاقاتیں ہوئی ہیں اور فون پر ایک مرتبہ بھی ان سے رابطہ نہیں ہوا ہے۔ پہلی مرتبہ ڈراما گھر اک مندر کے تعلق سے ملنا ہوا تھا اور دوسری بار کیوں کہ ساس بھی ۔۔۔کے لیے ان کا سامنا کیا اور پھر دو سال کے بعد حال ہی میں ان سے پانچ منٹ کی گفت گو کرنے کا موقع ملا۔ خود ہی بتائیے کہ دوستی یا مضبوط تعلق کے بنیاد رکھنے میں یہ کافی ہیں؟ میں ان کے بارے میں اتنا ہی جانتا ہوں جتنا کہ ان کے پروجیکٹ کے لیے کام کرنے والے کوئی عام فن کار جان سکتا ہے۔ میڈیا کے پاس معلوم نہیں کہاں سے اس قسم کی خبر آجاتی ہے۔ مجھے آپ کے سوال پر شدید حیرت ہوئی ہے۔
٭ ایکتا کپور کی طرف سے کوئی کردار آفر کیا جائے تو آپ فوراً ہامی بھر لیں گے؟
جی ہاں۔ ایکتا ایک زبردست اور ذہین آرٹسٹ ہیں، ان کے ڈراموں کی مقبولیت کا عالم ہم نے دیکھا ہے۔ لوگ ان کے نام سے جذباتی طور پر جڑے ہوئے ہیں اور ان کی ہر کاوش کو سراہتے ہیں۔ ان کے کام کے معیار میں کسی کو شبہہ نہیں بلکہ ہم جیسے فن کاروں کے لیے تو بالاجی کا بینر ملنا ایک اعزاز ہے۔ میں ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار نہیں کروں گا۔ ایک میں ہی کیا کوئی بھی فن کار ایکتا اور بالاجی پروڈکشن ہاؤس کے ساتھ کام کرنے سے انکار نہیں کر سکتا۔
٭ آپ کے خیال میں ٹیلی ویژن انڈسٹری میں مخصوص چہروں کو نوازنے کی روایت جڑ پکڑ رہی ہے؟
میں اس پر تبصرہ کرنا نہیں چاہتا، بس اتنا کہوں گا کہ 'کاسٹنگ کاؤچ' استحصال کا ایک بھیانک روپ ہے، جس کا نقصان انڈسٹری کو ہو رہا ہے اور آگے جا کر مزید ہو گا۔ تاہم یہاں اس کی جڑیں ابھی گہری نہیںہیں۔ ہمیں اس کے راستے میں رکاوٹ بننا ہو گا ورنہ یہ ناسور بن جائے گا۔
٭ شہرت آپ کی نظر میں کیا ہے؟
ابتداء میں یہ شناخت، نام وری اور دولت سے جڑی ہوئی تھی، لیکن میں اس کا مفہوم تبدیل ہوتا دیکھ رہا ہوں۔ فن کار اسے پرستاروں کی محبت اور پیار سے نتھی کرنے لگے ہیں۔ میرے لیے بھی شہرت کا مطلب محبت کرنے والوں کا حلقہ بڑھانا اور ان کا پیار سمیٹنا ہے۔ شہرت کے نام پر باقی تمام چیزیں میرے لیے اب ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہر فن کار اسے سمجھتا ہے اور وہ دلوں میں زندہ رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔
٭ منیشا کھٹوانی کے ساتھ آپ کے افیئر کی خبر تھوڑا عرصہ پہلے خوب گرم رہی۔ اس بارے میں کچھ کہیے۔
میرے پاس طاقت نہیں کہ اپنے بارے میں الٹی سیدھی خبروں کی نشر واشاعت کے سلسلے کو روک سکوں۔ میں ایک فن کار ہوں اور ہم خاصے بے بس لوگ ہیں جب کہ میڈیا ایک زبردست طاقت کا نام ہے۔ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اسے زیرو کو ہیرو اور بد کو نیک بنانے کا ہنر آتا ہے اور وہ اسے برتنے میں تامل نہیں کرتا۔ منیشا میری بیسٹ فرینڈ ہے اور اس کے ساتھ میں اکثر ہوٹلنگ کرتا ہوں، گھومنے پھرنے جاتا ہوں اور یہ سب ہماری خوشی کا باعث بنتا ہے۔ اس میں کسی کا کیا جاتا ہے؟ انھیں کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ہمارے بارے میں کوئی خبر بنائیں۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ تصدیق کیے بغیر فن کاروں کی نجی زندگی اور ان کے مابین تعلقات کی خبر لگا دی جاتی ہے۔ میں درخواست کروں گا کہ میڈیا ہمارے بارے میں بے بنیاد خبریں نہ پھیلائے اور کوئی بات سامنے آئے تو سب سے پہلے ہم سے رابطہ کر کے اس کی تصدیق کرے۔
٭ مستقبل میں ڈائریکشن کی طرف آنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
میں تبدیلی چاہتا ہوں، آگے بڑھنے کی خواہش رکھتا ہوں اور ہو سکتا ہے کہ اس سلسلے میں رواں سال کوئی قدم اٹھاؤں۔ میرے ذہن میں چند آئیڈیاز ہیں، ان پر غور کر رہا ہوں اور جلد ہی فیصلہ کر لوں گا۔
٭ بولی وڈ کا کوئی پروجیکٹ آپ کے ہاتھ میں ہے؟
فی الحال نہیں، لیکن دو فلموں کے لیے ڈائریکٹروں نے مجھ سے رابطہ کیا ہے۔ ابھی ہماری بات چیت ابتدائی مرحلے میں ہے۔